چالیسویں مجلس
دنیا کی ناپائیداری اور مال واولاد کی بے وفائی،اور اعمال نیک کے فضائل خاص کر امام مظلوم کے غم میں رونے کی فضیلت۔امام حسینؑ کی شہادت،اور خیمہ کے در پر ذوالجناح کا آنا۔مجالس سیوم وچہلم میں اور مونین کی اموات میں پڑھنے کے قابل مضامین
فانی ہے جہاں کون یہاں زیست کرے گا
جو خلق ہوا خلق میں اک روز مرے گا
جناب امیر المومنین علی علیہ سلام ارشاد فرماتے ہیں۔کہ اے گروہ مومنین دنیا فانی ہے۔اور تمہارا ہمیشہ کا گھر آخرت ہے۔ یہ دنیا ایک سرائے ہے۔ اس میں کام یاب وہ ہے،جو اس سے پرہیز کرتا ہے۔انسان کو چاہیئے کہ بہتر زاد راہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔پھر فرماتے ہیں کہ انسان اگر کسی موہوم شے پر شک وشبہ کرے تو بجا ہے۔ لیکن ایسے یقینی امر سے غافل ہو جائے،جس کو کسی طرح باطل کرنا ممکن ہی نہیں۔ تعجب ہے۔ جب یہ حال ہے تو نظم
ہوشیار ہو دنیا نہیں راحت کی جگہ ہے
اندوہ ورنج وغم مشقت کی جگہ ہے
آئینہ ہے سب پر کہ کدورت کی جگہ ہے
ہر چند دلوں کو یہ سکونت کی جگہ ہے
کیا غم ہے کہ غم یہاں نہیں سہنا ہے ہمیشہ
اندیشہ ہے واں کہ جہاں رہنا ہے ہمیشہ
فکر زرو اولاد میں کیوں رہتا ہے شاغل
جز رنج کے کچھ ان سے نہ ہو گا تجھے حاصل
لیکن عمل خیر سے یک دم نہ ہو غافل
دنیا سے تیرے ساتھ یہی جائے گا عاقل
اولاد کا ماتم نہ زر ومال کا غم کر
زاد راہ عقبےٰ عمل خیر بہم کر
چنانچہ روایت ہے کہ ایک روز حارث ہمدانی نے جناب امیر سے سوال کیا کہ یا علیؑ جان کنی کے وقت انسان پر کیا گزرتی ہے۔اور موت کے وقت اس پر کیا حالت طاری ہوتی ہے۔آپ نے فرمایا اے حارث نظم
مومن پہ جب کہ ہوتا ہے ہنگام نزع کا
بالیں پہ اس کی آتے ہیں پیغمبرؑ خدا
اور سوئے راست آپؑ میں ہوتا ہوں بس کھڑا
تلقین کرتا ہوں کلمہ ازراہ عطا
مرنے کے بعد قبر میں میں آپؑ جاتا ہوں
جو بھولتا ہے وہ اسے میں خود بتاتا ہوں
اور اس کو نعمات جنت کی بشارت دیتا ہوں۔اور اے حارث اس وقت اس مومن کی قبر نورانی ہو جاتی ہے۔اور اس کو مژدہ سناتا ہوں۔ کہ اے مومن تونے دنیا میں میرے مظلوم کی تعزیہ داری اور عزاداری کو
اپنا شعار بنا رکھا تھا۔اب ہم تیرے معین ہیں،تو غمگین نہ ہو اور جس طرح ماں کی گود میں سویا تھا۔چین سے سوجا۔میں تجھ کو اپنے پاس بہشت عنبر سرشت میں جگہ دوں گا۔لہذاٰ انسان کو لازم ہے کہ ہر امر پر مصائب حسین علیہ سلام کو مقدم رکھے۔اور موت کو ہر وقت یاد کرتا رہے۔ نظم
دامن قبائے زیست کا اک روز چاک ہے
آخر تمام جسم ہے یہ اور خاک ہے
خوش ہے وہ بعد مرگ جو عصیاں سے پاک ہے
اک دن اسی طرح سے زمانہ ہلاک ہے
روتے ہیں جو عزائے شاہ نیک نام میں
مرتے ہی وہ پہنچتے ہیں دارالسلام میں
مردوں سے پوچھو قبر کی وحشت کا سامنا
تنہائی کا وہ رنج وہ ظلمت کا سامنا
وہ منکر ونکیر کی صورت کا سامنا
وہ گرز کی وہ چمک وہ مصیبت کا سامنا
وہ خوف اور ہراس سوال وجواب کا
اور آہ ذرہ ذرہ وہ دینا حساب کا
اب خیال کرنے کا مقام ہے کہ ایک روز یہ دہن ضرور بند ہو گا۔اور بصد رنج و محن اس دار ناپائیدار سے جانا ہو گا۔ گلے میں کفن ہو گا زیر خاک بدن ہوگا۔ لہذا اس چار دن کی زندگانی کے عوض ہمیشہ کی پشیمانی خریدنا عقل سے بعید ہے۔ یہ دنیا ایک فسانہ ہے۔ جب یہ یقین ہو چکا ہے کہ یہاں سے جانا لازمی ہے۔ تو نظم
زاد سفر کے لینے میں کوشش ضرور ہے
توشہ نہیں ہے اور سفر سخت و ودور ہے
یہ وہ سفر ہے جس میں نہیں مال چاہیے
جاہ وجلال نہ گہر ومال چاہیے
تخت رواں نہ حشمت اقبال چاہیے
بس اس سفر میں توشہ اعمال چاہیے
زاد سفر جو نیک عمل ہو تو چین ہے
وہ کیا عمل ہے اشک عزائے حسینؑ ہے
دنیا کے مال وجاہ میں شیعو مزہ نہیں
ہے ابتدا نصیب تو پھر انتہا نہیں
حاصل بھی ہو تو اس پہ تکبر روا نہیں
آخر فنا ہے دولت وزر کو بقا نہیں
فرزند مال وزر نہ ذرا کام آئیں گے
اعمال نیک بعد فنا کام آئیں گے
چنانچہ حدیث میں بروایت معتبر وارد ہے کہ جب انسان کا رشتہ حیات منقطع ہوتا ہے اور آثار موت ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس دم بصد درد والم مال وفرزند وغیرہ سے اس طرح کہتا ہے کہ نظم
اے مال جان ودل سے میں تجھ پہ فدا رہا
تیری طلب میں شام وسحر مبتلا رہا
دنیا میں تیرے واسطے کیا کیا تعب اٹھائے
اک جستجو تیری کے لیے لاکھ رنج کھائے
قائل ہوئے ذلیل ہوئے اور نہ لب ہلائے
اس واسطے کہ تو کسی صورت سے ہاتھ آئے
اب کچھ سلوک وقت اجل ہم سے چاہیے
اے مال مخلصی قلق وغم سے چاہیے
کہتا ہے مال صرف کفن دوں گا بر ملا
ناچار ہو کے دیتا ہے اولاد کو صدا
میں نے تمہارے واسطے کیا کیا قلق سہا
نازوں سے پال پوس کے اتنا بڑا کیا
اللہ جانتا ہے جو تم سب سے پیار تھا
رونا تمہارا مجھ کو بہت ناگوار تھا
عریاں رہا میں خود تمہیں کپڑے نئے پہنائے
فاقہ سے آپ رہ گیا کھانے تمہیں کھلائے
جو تم نے چیز مانگی اسے جا کے جلد لائے
وقت اخیر اس کا عوض اب یہ ہاتھ آئے
بس آج کے سوا کوئی خدمت نہ لیویں گے
ان سب کا اب صلا ہمیںکیا آپ دیویں گے
کہتے ہیں بیٹے غسل تمہیں ہم دلائیں گے
اور بعد غسل خلعت آخر پہنائیں گے
پھر دوش پہ جنازہ تمہارا آتھائیں گے
اور آپ قبر میں تمہیں جا کر سلائیں گے
مرنے کے بعد ہم سے یہی کام ہوئے گا
جز دفن اور کچھ نہ سر انجام ہوئے گا
مقام غور ہے کہ کس قدر محنت ومشقت سے مال حاصل ہوتا ہے اور کس ریاضت ومصیبت سے اولاد کی پرورش کی جاتی ہے۔اور کوئی ان میں سے کام نہیں آتا۔افسوس جن کے واسطے ایسی محنت کی جائے وہ وقت پر کام نہ آئیں گے۔اور ساتھ نہ دیں گے۔لہذا معصوم نے فرمایا کہ انسان کو چاہیے کہ اپنا دوست صادق ومحب وواثق سب سے زیادہ اعمال نیک کو رکھے۔کیونکہ اعمال نیک کے سوا کوئی دوست رفاقت کے لائق نہیں۔جو برے وقت میں کام آئے۔ بے شک عمل نیک ہی وہ رفیق صادق ہے جو ساتھ رہتا ہے۔ چنانچہ جب اولاد ومال انسان کو صاف جواب دے دیتے ہیں تو نظم
اس دم عمل سے کہتا ہے رو کر بصد ہراس
مصروف تم میں بھی رہا اکثر میں بے حواس
وہ کہتے ہیں شریک حیات وممات ہیں
اب تو ہمارے ساتھ ہے ہم تیرے ساتھ ہیں
ہم ظلمت مزار میں روشن ہیں شمع ساں
ہم ہیں تیرے گواہ دم حشر بے گمان
حامی دم فشار ہے اے زار وناتواں
ہر دکھ میں ہم تجھے دیں گے آسائش واماں
ہم روز حشر حق سے تجھے بخشوائیں گے
ہم گلشن جناں میں تجھے لے کے جائیں گے
ہاں شیعو جز عمل کے کسی کو نہیں ثبات
اولاد ومال سے ہے فقط زینت حیات
اعمال بس رہیں گے ہمیشہ تمہارے ساتھ
کیا ہے وہ عمل نیک غم شاہؑ نیک ذات
بےشک عمل یہ دین خدا کی اساس ہے
وہ رستگار ہے یہ عمل جس کے پاس ہے
کوئی عمل نہیں ہے ان اعمال سے زیاد
یہ وہ عمل ہے جس سے خدا ونبیؑ ہیں شاد
اللہ رے قدر اشک غم شاہ خوش نہاد
حسن قبول پر ہو رسولؑ خدا کا صاد
حوریں ملیں بہشت ملے اور چین بھی
ہمسائیگی نبیؑ کی اور قرب حسینؑ بھی
توقیر اشک ماتم شاہ پر کرو خیال
دنیا میں سہل نزع کی سختی کا ہے ملال
آساں میان قبر نکرین کا سوال
بخشے کبیرہ اور صغیرہ کو ذوالجلال
محسن کہیں جناب رسولؑ خدا اسے
داخل کریں بہشت میں خیر النساؑ اسے
مرتا ہے جب کہ بندہ فاسق خدا گواہ
تعجیل اس کے دفن میں کرتے ہیں خیر خواہ
اس دم صدا وہ دیتا ہے با حالت تباہ
عجلت نہ کرو دفن میں میری پے الہٰ
بہر عذاب ہیں وہ فرشتے تلے ہوئے
آنکھوں کے آگے باب سقر ہیں کھلے ہوئے
فاسق کے واسطے تو یہ صورت ہے آشکار
لے جاتے ہیں جو میت مومن کو دوست دار
تب یوں پکارتا ہے وہ مقبول کردگار
عرصہ نہ کرو دفن میں اب میری زینہار
غرفوں سے سر نکالے ہوئے مسکراتی ہیں
کس اشتیاق سے مجھے حوریں بلاتی ہیں
رضوان صدا سناتا ہے اے عاشق خدا
میں باب خلد کھولتا ہوں آ شتاب آ
قصر بلند حق نے کیا ہے تجھے عطا
اب جلد مجھ کو دفن کرو بہر کبریا
صدمے سہے ہیں جاگا ہوں میں دنیائے زشت میں
جاتے ہی سو رہوں گا میں باغ بہشت میں
یہ کون بندگان خدا ہیں،جن کو جلد دنیا سے رخصت ہونے کا اشتیاق ہوتا ہے۔ یہ حسینؑ ابن علیؑ کے رونے والے۔تعزیہ دار، ذاکر اور ماتم دار ہیں۔جو مجلس حسینؑ برپا کرتے ہیں۔ اور اپنے امام مظلوم کے مصائب سنتے اور سناتے ہیں۔چنانچہ مجالس امام حسینؑ کے بے انتہا فضائل مروی ہیں۔یہاں صرف ایک حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص غم حسینؑ میں روئے یا رولائے یا رونے والے کی سی صورت بنائے،تو اس پر بہشت واجب ہے۔اللہ اللہ کیا مرتبہ ہے عزاداران امام مظلوم کا،جس کی خواہش پیغمبران خدا صلواۃ اللہ و سلامہ علیھم کو ہوئی۔نظم
اک روز درمیان مناجات کبریا
موسےٰ نے التماس یہ اللہ سے کیا
صدقے محمدؑ عربی کے سب انبیا
تونے جو کچھ شرف دیا ان کو بجا دیا
امت پہ بھی انہی کی بہت مہربان ہو
امیدوار ہوں سبب اس کا بیان ہو
فورا" ہوا یہ عالم لاہوت سے خطاب
ہاں اے میرے کلیم سن اس بات کا جواب
دس خصلتوں سے امت احمد ہے کامیاب
ان وجہوں سے ہم نے کیا ان کو انتخاب
بولے کلیم تیرے مراتب بلند ہیں
وہ خصلتیں کیا ہیں جو تجھ کو پسند ہیں
فرمایا حق نے خمس وزکواۃ وحج وصیام
جمعہ جہاد اور جماعت پے امام
قراں کا ذکر علم کی تحصیل صبح وشام
دسواں عمل ہے خیر کا عاشور والسلام
جو یہ عمل کریں گے وہ سب رستگار ہیں
جنت میں زیر سایہ پروردگار ہیں
تب عرض یہ کلیم نے بے اختیار کی
نو خصلتوں کی شرح تو خوب آشکار کی
عاشورہ سے مراد ہے کیا کردگار کی
مولا نے اس کی مدح وثنا بے شمار کی
فرمایا اے کلیم یہ صورت ہے چین کی
مجلس بپا جو کرتے ہیں میرے حسینؑ کی
لہذا اگر اس رونے کی فضیلت کا مفصل حال بیان کروں تو عجب نہیں کہ لوگ فرض ترک کردیں۔کیونکہ نظم
داغ غم حسینؑ میں وہ آب وتاب ہے
جس داغ کے چراغ کا گل آفتاب ہے
یہ گل وہ گل ہے جس کا کہ بلبل ثواب ہے
یہ داغ لالہ چمن بوترابؑ ہے
پروانہ ہیں جناں کے لحد کے چراغ ہیں
نام خدا نجات کی مہریں یہ داغ ہیں
بہر حال انسان کی زندگی کا بھروسہ نہیں،کہ کس وقت اجل کا پیام آجائے۔لہذا چاہیے جس قدر ممکن ہو،اعمال نیک حاصل کرے۔اور سب سے زیادہ فضیلت جس عمل کی ہو،اس میں زندگی بسر کرے۔اور آپ جانتے ہیں کہ وہ بہترین عمل غم حسینؑ میں گریہ وبکا ہے۔نظم
عالم روا روی کا ہے ہشیار دوستو
عبرت پکارتی ہے خبر دار دوستو
سب قافلہ ہے چلنے پہ تیار دوستو
لے لو جو زاد راہ ہے درکار دوستو
زاد سفر عبادت رب مجید ہے
وہ کیا ہے اشک ماتم شاہ شہید ہے
یہ اشک توشہ رہ پروردگار ہے
دربار ذوالجلال میں مجرے کی بار ہے
پانی پہ جو اساس ہے وہ نا پائیدار ہے
اس اشک پر بنائے جہاں برقرار ہے
حقا چراغ گور کا روغن یہ اشک ہے
جس نور سے کہ قبر ہو روشن یہ اشک ہے
مجالس عزا کی فضیلت میں بحار الانوار کی ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں۔حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ جو شخص وہ ظلم وستم سن کر جو ہم پر اور ہمارے آبا واجداد پر ہوئے،روئے یا رلائے یا رونے والوں کی سی صورت بنائے وہ ہمارے ساتھ روز قیامت محشور ہو گا۔اور بلند درجات پائے گا۔اور صاحب ریاض الشہادت نے تحریر کیا ہے کہ جناب امام ؑ مظلوم کی مجلس میں ایک مومن کے گھر امام زین العابدین علیہ السلام تشریف لے گئے۔ذاکر نےشہادت امام کاذکر کیا۔جس سےمسجد میں حد سے زیادہ گریہ ہوا۔تو امامؑ روتے روتےبے ہوش ہو گئے۔ماتم سے فراغت کے بعدصاحب خانہ نے امام علیہ السلام کو مجلس میں نہ پایا اور تلاش کرنا شروع کیا۔ آخر دیکھا کہ امام علیہ السلام پائین فرش اہل مجلس کی نعلین سیدھی کر رہے ہیں۔صاحب خانہ قدموں میں گر پڑا اور عرض کی کہ اے آقا یہ کام غلام کا ہے۔سبحان اللہ آپ نے فرمایا اے بھائی یہ مجلس تو میرے باپ کی ہے۔لہذا باپ کے مہمانوں کی خاطر داری پسر پر لازم ہے۔نہ تجھ پر ،اللہ اکبر،کیا مرتبہ ہے عزاداران حسینؑ کا،اگر چہ آپ لوگ اس وقت ایک مومن کے ایصال ثواب کی مجلس میں تشریف لائے ہیں۔مگر وارثان میت ہوں یا حاضرین مجلس ہر ایک کے نزدیک امام مظلومؑ سے زیادہ مستحق گریہ کوئی نہ ہونا چاہیے۔کیونکہ ہم سب پر برسوں کے بعد ایک عزیز کی مفارقت کا صدمہ ہوتا ہے۔اور ساتھ ہی تمام عزیز واقارب اور دوست واحباب تسلی وتشفی کو موجود ہوتے ہیں۔لیکن دوپہر میں ہمارے مظلوم آقا پر اور آپؑ کے اہل بیت پر کیسے کیسے مصائب گزرے۔اور کوئی تسلی وتشفی دینے والا موجود نہ تھا۔ نظم
ماتم میں عزیزوں کے عبث جان ہے کھونا
ہاں حال پہ خود اپنے سزاوار ہے رونا
اک روز تو پیوند زمین سب کو ہے ہونا
بے جاں یہ تن زار ہے اور قبر کا کونا
عقبےٰ کی کرو فکر وہی رہنے کی جا ہے
عالم میں تو کوئی نہ رہا ہے نہ رہے گا
بتلائو محمدؑ سے ہے جد کس کا سوا،آہ
جب عازم جنت ہوئے دنیا سے وہ ذی جا
حسنینؑ کے دل پہ تھا عجب صدمہ جانکاہ
سر پیٹ کے کہتے تھے کہ جو مرضی اللہ
اب کس کی کریں آس کہ سہارا نہیں کوئی
پر خواہش تقدیر سے چارہ نہیں کوئی
اولاد کو ہے سخت بہت رحلت مادر
کر دیتا ہے یہ صدمہ وغم بے پر ومضطر
پر یاد کرو رحلت زھرائے مطہر
اس دار فنا سے جو اٹھیں بنت پیمبرؑ
لکھا ہے چلن بیٹیوں نے ماں کا لیا تھا
اور شبرؑ وشبیرؑ نے بھی صبر کیا تھا
بیٹوں کے لیے قہر ہے بابا کا گزرنا
اس رنج میں مشکل ہے مگر صبر کا کرنا
پر یاد ہے کچھ حیدر ؑ صفدر کا بھی مرنا
سبطین کا وہ صبر کی سل چھاتی پہ دھرنا
کہتے تھے کہ اب موت سے کوئی نہ بچے گا
جب خلق میں حیدرؑ نہ رہے کون رہے گا
ہو موت سے بھائی کی اگر کوئی مکدر
تو یاد کرے حالت شبیرؑ وہ مضطر
کوثر پہ گئے پیش نظر حضرت شبرؑ
مقتل میں کٹے بازوئے عباسؑ دلاور
جز شکر کے منہ سے شکایت نہ ذرا کی
ہر حال میں بخشش امت کی دعا کی
فرزند کے غم میں ہو اگر دل تہہ وبالا
بے نور ہوں آنکھیں کہ گیا گھر کا اجالا
لازم ہے کہ وہ یاد کرے صبر شاہ والا
پھل برچھی کا بیٹے کی جو چھاتی سے نکالا
ہر اک پہ یہ لازم ہے جو پابند فغاں ہو
اکبرؑ کا رہے دھیان وہ باپ ہو کہ ماں ہو
بچے کے بچھڑنے سے ہو جو داغ جگر پر
چھدتا ہو رگ جان میں اس اندوہ کا نشتر
پھر کیجیے انصاف ذرا بہر پیمبرؑ
تھا اصغرؑ بے شیر کے رتبے سے وہ بہتر
جب جام شہادت عوض شیر پیا تھا
ماں باپ نے اس بچے کے بس صبر کیا تھا
داماد کے غم میں جو کوئی ہووئے گرفتار
اس درد میں ہو راحت وآرام سے بےزار
ہے اس کو مناسب کہ کرے صبر وہ غم خوار
اور یاد کرے حالت شہنشاہ ابرارؑ
قاسم کو جو پامال کیا فوج شقی نے
جز شکر نہ کچھ منہ سے کہا سبط نبیؑ نے
بیوہ کو الم ہائے رنڈاپے کا ستم ہے
بےشک ہے بجا ہے کیونکہ یہ ایسا ہی الم ہے
دن بھر یہی ماتم ہے تو شب بھر یہی غم ہے
سب کچھ ہو مگر حضرت کبریٰ سے تو کم ہے
لازم ہے نہ مصروف ہو اندوہ وبکا میں
اک شب کی بنی رانڈ بنی دشت بلا میں
ہوتا ہے جو بھائی ہمشیر سے ناگاہ
دل غم سے الجھتا ہے جگر پھٹتا ہے واللہ
پر غور کرو درد دل زینبؑ ذی جا
پردیس میں بھائی سے چھٹی قتل ہوئے شاہ
لوٹی گئی برباد ہوئی دشت بلا میں
لیکن نہ ذرا فرق ہوا صبر ورضا میں
بیٹی کی عجب چاہ ہے انسان کے دل پر
حالت میں نزع کے بھی نہیں بھولتی دم بھر
ہے بہر تشفی یہی مضمون مکرر
ہو گی نہ سکینہؑ سی کوئی لاڈلی دختر
جب سینہ شبیرؑ پہ بے رحم چڑھا تھا
لکھا ہے پے صبر سکینہؑ سے کہا تھا
کہتے ہیں جو ہوتی ہے جدا باپ سے دختر
کھاتے ہیں ترس اس کی یتیمی پہ سب اکثر
رہتا ہے تشفی کے لیے سامنے سب گھر
پر غور کرو ہائے سکینہؑ کا مقدر
پائی نہ اماں ظلم سے بنت شاہ دیں نے
کیا کیا نہ ستم اس پہ کیا شمر لعیں نے
گر داغ عزا تمہیں دکھلائے مقدر
ہے تم کو مناسب کہ نہ ہو ششدر ومضطر
وہ کام کرو جو کہ ہو ہر حال سے بہتر
کہتا ہے وزیر الم آلودہ وششدر
بچے کو جواں کو نہ کسی پیر کو روئو
رونا ہو تو بس حضرت شبیرؑ کو روئو
ذرا سوچیے تو کوئی غم بھی ایسا ہے جو روز عاشورجناب امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت اطہار پر نہ گزرا ہو۔تو جب کونین کے آقا پر صبح سے سہہ پہر تک یہ تمام صدمے گزرے،تو اب انصاف کیجیے کہ اپنے عزیز کے مردے پہ رونا واجب ہے یا جناب سید الشہداؑ اوراہل بیت اطہار کے مصائب پر گریہ وزاری کرکے اس کا ثواب میت کی روح کو بخشیں۔تو یہ ثواب اس میت کو پہنچے گا۔اور اس کے درجات بلند ہوں گے۔اور شاید غلامان حسینؑ ابن علیؑ نے اسی سبب سے مجلس سوم وغیرہ کا طریقہ مومنین میں رائج کیا ہے۔تاکہ میت کو اس کا ثواب پہنچے۔اور گناہ اس کے بخشے جائیں۔نظم
لو اب کرو وہ کام بنیں جس سے سارے کام
کوشش غم حسینؑ میں لازم ہے صبح وشام
اے اہل بزم اب یہ تصور کا ہے مقام
نرغے میں ظالموں کے گھرے ہیں شاہ انام
مولا تمہارے کہتے ہیں سبط رسولؑ ہوں
یارو میں بوستان نبوت کا پھول ہوں
ناگاہ ہر طرف سے گھر آئی سپاہ آہ
ابر ستم میں گھر گیا زہراؑ کا ماہ آہ
حسرت ہے کیوں نہ گر پڑا عرش الہٰ آہ
بوچھار کر دی تیروں کی حضرتؑ پہ آہ آہ
یوں تو بہت سے زخم ہر اک عضو تن میں تھے
نوے خدنگ ظلم کے روزن بدن میں تھے
دوسو تھے زخم تیروں کے سینہ سے تا کمر
اکاون آہ زخم تھے تیغوں کے سر بسر
اب شرح زخم سنگ جفا سخت ہے مگر
یہ حال من وعن نہیں آتا زبان پر
زخموں سے چور چور شاہ نامدار تھے
لکھا ہے زخم جسم پہ سب دو ہزار تھے
یہ نکتہ بس ہے مومنو کے شور وشین کو
تیغوں سے چور کرکے شاہ مشرقین کو
پتھر لگائے سنگ دلوں نے حسینؑ کو
آخر غش آیا فاطمہؑ کے نور عین کو
لرزہ ہوا زمین کو فلک کانپنے لگا
گھوڑے پہ شاہ جن وملک کانپنے لگا
ہائے واویلا کس زبان سے عرض کروں کہ اس وقت سنان ابن انس ملعون نے آکر ایک نیزہ سینہ اقدس پر اس زور سے مارا۔ کہ وہ بادشاہ کونین گھوڑے سے زمین پر گر پڑا۔ جس وقت آپؑ گھوڑے سے گرے۔ شعر مو لف
آئی ندا کہ رحل سے قرآن گر پڑا
رکن رکین کعبہ ایمان گر پڑا
امام مظلوم زخموں سے چور چور ہو کر زمین گرم پر تڑپ رہے تھے۔ نظم
افتادہ ریگ گرم پہ تھے شاہ حق شناس
قبلہ کو رخ تھا ضعف ونقاہت سے بے حواس
مونس نہ کوئی پاس تھا جزو بے کسی ویاس
غش سے کھلی جو آنکھ کہا پیاس پیاس پیاس
صدمہ عطش سے تھا یہ دل دردناک پر
جو کروٹیں بدل کے تڑ پتے تھے خاک پر
وہ گھائو گہرے گہرے وہ جلتی ہوئی زمین
وہ دھوپ گرم اور وہ اندام نازنین
زخمی وہ سینہ اور وہ شق پہلو وجبین
اور سر پہ آہ کھینچے ہوئے شمر تیغ کیں
ہونٹوں پہ وہ زبان کا نکل آنا پیاس سے
اور بار بار دیکھنا خیمہ کو یاس سے
خنجر بکف کھڑی تھی کمیں گاہ میں سپاہ
پر ہائے سنگ دل تھا غضب شمر روسیاہ
کیونکر کروں بیاں کروں کہ زبان کانپتی ہے آہ
وہ پائے شمر اور وہ سینہ سلطان دیں پناہ
مرقد میں مصطفےٰؑ کا کلیجہ ہلا دیا
سینہ پہ چڑھ کے حلق پہ خنجر پھرا دیا
جنبش میں آیا مرقد پیغمبرؑ
قدسی لرز لرز گئے تھرا ئے آسمان
آندھی اٹھی سیاہ ہوا نیل گوں جہاں
کانپے طبق زمین کے ہوا زلزلہ عیاں
زائل تجلی ہو گئی مہر منیر کی
کانپی نجف میں قبر جناب امیرؑ کی
جب امام مظلوم درجہ شہادت پر فائز ہو گئے،تو اب کون تھا جو بے کس کی لاش اہل حرم کے خیمہ میں لاتا،یا سیدانیوں کو قتل حسینؑ کی خبر دیتا۔ نظم
اس وقت بے سوار شاہ دین کا راہوار
آیا در خیام حسینیؑ پہ بے قرار
نعرہ کیا کہ اے حرم شاہ نامدار
قسمت الٹ گئی میرا مارا گیا سوار
تھرا رہا ہے عرش خدا وہ جفا ہوئی
اب حشر تک حسینؑ سے زینبؑ جدا ہوئی
آئی جو ذوالجناح کی آواز ناگہاں
سمجھے حرم کہ رن سے پھرے شاہ انس وجان
گھبرا کے آئیں خیمے کی ڈیوڑھی پہ بیبیاں
دیکھا کہ خالی آیا ہے اسپ شاہ زمانؑ
ڈھلکا ہے زین لٹکا ہے تسمہ لگام کا
اور سر پٹک کے روتا ہے گھوڑا امام کا
اس وقت در پہ خیمہ کے محشر تھا آشکار
مجمع تھا اہل بیت کا یوں گرد راہوار
جس طرح سے جنازے پہ جمع ہوں سوگوار
راہوار سر کو خم کیے روتا تھا زار زار
یہ حال دختران علیؑ ولی کا تھا
گردن پہ سر کسی کا تو زیں پر کسی کا تھا
کوئی لپٹ کے پائوں سے دیتی تھی یہ صدا
اے اسپ با وفا مرے بابا کو کیا کیا
کہتی تھی ایک معظمہ با نالہ وبکا
کس کے لہو میں غرق ہے تو واہ محمداؑ
اے ذوالجناح عترت اطہار لٹ گئی
زینبؑ غریب اپنے برادر سے چھٹ گئی
کہتی تھی کوئی پیٹ کے سر یہ بشور وشین
بے آسرا ہوئے حرم شاہ مشرقینؑ
مٹی میں آج مل گئی یثرب کی زیب وزین
سیدانیاں تباہ ہوئیں مر گئے حسینؑ
بابا سے اپنے بالی سکینہؑ بچھڑ گئی
بابا کا راج لٹ گیا زینبؑ اجڑ گئی
اللہ اللہ امام مظلومؑ کی شہادت کے بعد بھی اس گروہ ناہنجار کے دلوں سے کینہ نہ گیا۔ہائے افسوس اب تو حسینؑ درجہ شہادت پر فائز ہو گئے ہیں۔صرف جسم بے جان ریگ تپاں پر پڑا ہے۔ ایسے وقت میں تو مشہور ہے کہ نظم
میت پہ رحم کھاتے ہیں کافر خدا گواہ
لاشے پہ شاہ کے ظلم وستم وامصیبتا
تن سے زرہ اتار لی کندی نے آہ آہ
اسود تھا ایک دشمن سلطان دیں پناہ
یارو میں کیا جفا کہوں اس بد شعار کی
نعلین اس نے لی شاہ عالی وقار کی
تھا قیس دل سے دشمن اولاد مصطفےٰ ؑ
لی اس نے آکے چادر مظلومؑ کربلا
پوچھو نہ شیعو اخنس ناپاک کی جفا
اس نے عمامہ شاہ کے سر پاک سے لیا
اسحاق نے نہ خوف کیا رب پاک کا
رخت کہن لیا بدن چاک چاک کا
الغرض اس طرح ہر اشقیا تمام پوشاک اور اسلحہ لوٹ کر لے گیے۔ نظم
سب لٹ گیا لباس شہنشاہؑ ارجمند
لکھا ہے پائجامہ میں تھا اک اوزار بند
قدر وبہا میں حلہ فردوس سے دو چند
جمال بد شعار نے اس کو کیا پسند
فکر اوزار بند میں دل کو تعب رہا
وہ روسیاہ منتظر وقت شب رہا
رخ مہر کا جو پردہ شب میں ہوا نہاں
آیا پے تلاش وہ لاشوں کے درمیان
دیکھا پڑا ہے اک تن بے سر لہو لہان
ہے صاف خاک ونور میں نور خدا عیاں
حربوں سے تیغ وتیر کے تن پاش پاش ہے
سمجھا یہی امام دو عالم کی لاش ہے
آیا قریب لاش امام فلک وقار
چاہا اوزار بند نکالے وہ نابکار
پائی مگر گرہ پہ گرہ اس نے بے شمار
منظور شاہ تھا اس کو نہ لے جائیں نابکار
تھا ساربان کا قصد کہ گرہوں کو واہ کرے
ہل جائے جس سے عرش خدا وہ جفا کرے
جنبش میں آگیا تن سلطانؑ نیک ذات
رکھا اوزار بند پہ حضرت نے داہنا ہاتھ
اس نے بھی خوب زور کیا حوصلہ کے ساتھ
بر آسکا مگر نہ کسی طرح بد صفات
پھر بھی نہ باز ظلم سے وہ بے حیا رہا
ہر گز نبیؑ کا پاس نہ خوف خدا رہا
لایا کہیں سے تیغ شکستہ وہ روسیاہ
اور بے خطر جدا کیا لاشے کا ہاتھ آہ
آیا اوزار بند پہ دست یسار شاہ
وہ بھی شقی نے قطع کیا واہ مصیبتا
واحسرتا یہ ظلم وستم دست پاک پر
کیوں گر پڑا نہ پنجہ خورشید خاک پر
لکھا ہے جب ہوئی شاہ بے کس پہ یہ جفا
تارے گرے زمین پہ ہلا عرش کبریا
تھرائے لاشہ ہائے شہیدانؑ کربلا
غل شش جہت میں نالہ وفریاد کا ہوا
تا عرش تھی بلند صدا شور وشین کی
اور کانپتی تھی لاش شاہؑ مشرقین کی
سہما یہ شور سن کے عدوئے شاہ زمان
اور چھپ رہا وہ خوف سے لاشوں کے درمیان
دیکھا کہ تین شخص ہیں سر ننگے نوحہ خوان
نالے وہ دل خراش ہیں لب پہ کہ الامان
پہنے لباس سبز ہر اک خوش صفات ہے
اک بی بی بال کھولے ہوئے ان کے ساتھ ہے
گاہے تو گریہ کرتے ہیں گہ نالہ گہ بین
ٹھہرے غرض سب آن کے لاشے کے جانبین
اک شخص سر کو پیٹ کے بشور وشین
چلایا السلام علیک ایہا الحسینؑ
راحت تجھے نہ ہو ہمیں جنت میں کل پڑے
تیرے بزرگ سب تیرے غم میں نکل پڑے
بالیں پہ تیرے فاطمہؑ روتی ہے زار زار
حیدرؑ بھی بےقرار حسنؑ بھی ہیں اشکبار
کرتا ہے یوں بیان شتر بان بد شعار
اس لاش کو حرکت ہوئی پھر تو ایک بار
سر تن سے آکے مل گیا شاہ انام کا
اور اٹھ کے بیٹھا خاک پہ لاشہ امامؑ کا
بہر سلام خم ہوئے ناناؑ کے سامنے
بوسے لیے نواسے کے خیر ا لا نامؑ نے
پھر عرض کی نبیؑ سے اس تشنہ کام نے
ناناؑ یہ ہم پہ ظلم کیے اہل شام نے
پیاسوں میں شور واعطشا کا بلند تھا
آتے تھے غش پہ غش ہمیں اور پانی بند تھا
ناناؑ جفائیں ہم پہ وہ گزریں خدا گواہ
پڑتیں اگر دنوں پہ تو ہو جاتے سب سیاہ
در آئی ناناؑ خیمے میں کفار کی سپاہ
بچوں کو بھی اسیر کیا میرے بے گناہ
پھرتے تھے چار سو کہیں چھپنے کی جا نہ تھی
بلوئے میں اہل بیت کے سر پر ردا نہ تھی
دیکھیں ہیں دو پہر میں ان آنکھوں نے جو ستم
بے شیر تک سر ہوا شمشیر سے قلم
آغوش میں مری علیؑ اکبرؑ کا نکلا دم
چھینیں گئیں ردائیں لٹا زیور حرمؑ
بالی سکینہؑ نے میری وہ دکھ اٹھائے ہیں
زخمی ہیں کان منہ پہ طمانچے بھی کھائے ہیں
سن سن کے حال رونے لگے سید البشرؑ
احمدؑ کی ریش پاک ہوئی آنسوئوں سے تر
تھے اک طرف کو حیدر صفدرؑ بھی نوحہ گر
کی فاطمہؑ نے عرض نبیؑ سے کہ اے پدر
بس آج ہو گیا مرے اس گھر کا خاتمہ
کہیے تو اس لہو کو ملے منہ پہ فاطمہؑ
اب حشر تلک لہو کو نہ منہ سے چھڑائوں گی
عادل کے سامنے اسی صورت سے جائوں گی
خون حسینؑ جا کے خدا کو دکھائوں گی
سکان عرش حق کو تزلزل میں لائونگی
حق سے کہوں گی فاطمہؑ فریادی آئی ہے
امت نے مرے لال کو مارا دہائی ہے
یہ کہہ کے فاطمہؑ نے بصد نالہ وبکا
خون پسر سے سرخ رخ پاک کو کیا
پھر تو نہ رہی مصطفےٰؑ کا تاب مطلقا
لے کر لہو نواسے کا داڑھی پہ مل لیا
طاری الم ہوا جو شاہ مشرقین پر
یہ نوحہ پھر شروع کیا لاش حسینؑ پر
بس اپنے رسولؑ کا نوحہ اور سن لیجیے۔ نوحہ
ے فاطمہؑ کی جان مرے پارہ جگر
ناناؑ کے دل پہ شاق ہے یہ بات سر بسر
ہے ہے مرا جو زینت آغوش ہو وہ سر
دیکھوں میں اس کو تن سے جدا اور لہو میں تر
سویا ہو جو سدا مرے دامان پاک پر
دیکھوں میں آج اس کو طپاں گرم خاک پر
اے فاطمہؑ کے نور نظر واہ حسین ؑ واہ
شیر خدا کے لخت جگر وا حسینؑ وا
محبوب کبریاؑ کے پسر وا حسین وا
تن سے جدا ہو ترا سر وا حسینؑ وا
سوتے تھے تم سدا مرے دامان پاک پر
اب لوٹتے ہو آہ طپاں گرم خاک پر
آخر میں امیدوار ہوں کہ میت کے حق میں دعا فرما کر کمترین مولف کی دعا پر آمین فرمائیں
مولا قسم ہے تم کو جناب امیرؑ کی
لینا خبر مزار میں آکر وزیر کی
تمت
الحمد للہ والمنتہ کہ بعنایت الہیٰ و مدد پنجتن پاک علیھم السلام یہ کتاب اختتام کو پہنچی۔اس چہل مجلس کے ناظرین اور ذاکرین کی خدمت میں گزارش ہے کہ نخیف کو دعائے خیر سے یاد کریں،اور التجائے نیاز مند پر آمین فرمائیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کی ناپائیداری اور مال واولاد کی بے وفائی،اور اعمال نیک کے فضائل خاص کر امام مظلوم کے غم میں رونے کی فضیلت۔امام حسینؑ کی شہادت،اور خیمہ کے در پر ذوالجناح کا آنا۔مجالس سیوم وچہلم میں اور مونین کی اموات میں پڑھنے کے قابل مضامین
فانی ہے جہاں کون یہاں زیست کرے گا
جو خلق ہوا خلق میں اک روز مرے گا
جناب امیر المومنین علی علیہ سلام ارشاد فرماتے ہیں۔کہ اے گروہ مومنین دنیا فانی ہے۔اور تمہارا ہمیشہ کا گھر آخرت ہے۔ یہ دنیا ایک سرائے ہے۔ اس میں کام یاب وہ ہے،جو اس سے پرہیز کرتا ہے۔انسان کو چاہیئے کہ بہتر زاد راہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔پھر فرماتے ہیں کہ انسان اگر کسی موہوم شے پر شک وشبہ کرے تو بجا ہے۔ لیکن ایسے یقینی امر سے غافل ہو جائے،جس کو کسی طرح باطل کرنا ممکن ہی نہیں۔ تعجب ہے۔ جب یہ حال ہے تو نظم
ہوشیار ہو دنیا نہیں راحت کی جگہ ہے
اندوہ ورنج وغم مشقت کی جگہ ہے
آئینہ ہے سب پر کہ کدورت کی جگہ ہے
ہر چند دلوں کو یہ سکونت کی جگہ ہے
کیا غم ہے کہ غم یہاں نہیں سہنا ہے ہمیشہ
اندیشہ ہے واں کہ جہاں رہنا ہے ہمیشہ
فکر زرو اولاد میں کیوں رہتا ہے شاغل
جز رنج کے کچھ ان سے نہ ہو گا تجھے حاصل
لیکن عمل خیر سے یک دم نہ ہو غافل
دنیا سے تیرے ساتھ یہی جائے گا عاقل
اولاد کا ماتم نہ زر ومال کا غم کر
زاد راہ عقبےٰ عمل خیر بہم کر
چنانچہ روایت ہے کہ ایک روز حارث ہمدانی نے جناب امیر سے سوال کیا کہ یا علیؑ جان کنی کے وقت انسان پر کیا گزرتی ہے۔اور موت کے وقت اس پر کیا حالت طاری ہوتی ہے۔آپ نے فرمایا اے حارث نظم
مومن پہ جب کہ ہوتا ہے ہنگام نزع کا
بالیں پہ اس کی آتے ہیں پیغمبرؑ خدا
اور سوئے راست آپؑ میں ہوتا ہوں بس کھڑا
تلقین کرتا ہوں کلمہ ازراہ عطا
مرنے کے بعد قبر میں میں آپؑ جاتا ہوں
جو بھولتا ہے وہ اسے میں خود بتاتا ہوں
اور اس کو نعمات جنت کی بشارت دیتا ہوں۔اور اے حارث اس وقت اس مومن کی قبر نورانی ہو جاتی ہے۔اور اس کو مژدہ سناتا ہوں۔ کہ اے مومن تونے دنیا میں میرے مظلوم کی تعزیہ داری اور عزاداری کو
اپنا شعار بنا رکھا تھا۔اب ہم تیرے معین ہیں،تو غمگین نہ ہو اور جس طرح ماں کی گود میں سویا تھا۔چین سے سوجا۔میں تجھ کو اپنے پاس بہشت عنبر سرشت میں جگہ دوں گا۔لہذاٰ انسان کو لازم ہے کہ ہر امر پر مصائب حسین علیہ سلام کو مقدم رکھے۔اور موت کو ہر وقت یاد کرتا رہے۔ نظم
دامن قبائے زیست کا اک روز چاک ہے
آخر تمام جسم ہے یہ اور خاک ہے
خوش ہے وہ بعد مرگ جو عصیاں سے پاک ہے
اک دن اسی طرح سے زمانہ ہلاک ہے
روتے ہیں جو عزائے شاہ نیک نام میں
مرتے ہی وہ پہنچتے ہیں دارالسلام میں
مردوں سے پوچھو قبر کی وحشت کا سامنا
تنہائی کا وہ رنج وہ ظلمت کا سامنا
وہ منکر ونکیر کی صورت کا سامنا
وہ گرز کی وہ چمک وہ مصیبت کا سامنا
وہ خوف اور ہراس سوال وجواب کا
اور آہ ذرہ ذرہ وہ دینا حساب کا
اب خیال کرنے کا مقام ہے کہ ایک روز یہ دہن ضرور بند ہو گا۔اور بصد رنج و محن اس دار ناپائیدار سے جانا ہو گا۔ گلے میں کفن ہو گا زیر خاک بدن ہوگا۔ لہذا اس چار دن کی زندگانی کے عوض ہمیشہ کی پشیمانی خریدنا عقل سے بعید ہے۔ یہ دنیا ایک فسانہ ہے۔ جب یہ یقین ہو چکا ہے کہ یہاں سے جانا لازمی ہے۔ تو نظم
زاد سفر کے لینے میں کوشش ضرور ہے
توشہ نہیں ہے اور سفر سخت و ودور ہے
یہ وہ سفر ہے جس میں نہیں مال چاہیے
جاہ وجلال نہ گہر ومال چاہیے
تخت رواں نہ حشمت اقبال چاہیے
بس اس سفر میں توشہ اعمال چاہیے
زاد سفر جو نیک عمل ہو تو چین ہے
وہ کیا عمل ہے اشک عزائے حسینؑ ہے
دنیا کے مال وجاہ میں شیعو مزہ نہیں
ہے ابتدا نصیب تو پھر انتہا نہیں
حاصل بھی ہو تو اس پہ تکبر روا نہیں
آخر فنا ہے دولت وزر کو بقا نہیں
فرزند مال وزر نہ ذرا کام آئیں گے
اعمال نیک بعد فنا کام آئیں گے
چنانچہ حدیث میں بروایت معتبر وارد ہے کہ جب انسان کا رشتہ حیات منقطع ہوتا ہے اور آثار موت ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس دم بصد درد والم مال وفرزند وغیرہ سے اس طرح کہتا ہے کہ نظم
اے مال جان ودل سے میں تجھ پہ فدا رہا
تیری طلب میں شام وسحر مبتلا رہا
دنیا میں تیرے واسطے کیا کیا تعب اٹھائے
اک جستجو تیری کے لیے لاکھ رنج کھائے
قائل ہوئے ذلیل ہوئے اور نہ لب ہلائے
اس واسطے کہ تو کسی صورت سے ہاتھ آئے
اب کچھ سلوک وقت اجل ہم سے چاہیے
اے مال مخلصی قلق وغم سے چاہیے
کہتا ہے مال صرف کفن دوں گا بر ملا
ناچار ہو کے دیتا ہے اولاد کو صدا
میں نے تمہارے واسطے کیا کیا قلق سہا
نازوں سے پال پوس کے اتنا بڑا کیا
اللہ جانتا ہے جو تم سب سے پیار تھا
رونا تمہارا مجھ کو بہت ناگوار تھا
عریاں رہا میں خود تمہیں کپڑے نئے پہنائے
فاقہ سے آپ رہ گیا کھانے تمہیں کھلائے
جو تم نے چیز مانگی اسے جا کے جلد لائے
وقت اخیر اس کا عوض اب یہ ہاتھ آئے
بس آج کے سوا کوئی خدمت نہ لیویں گے
ان سب کا اب صلا ہمیںکیا آپ دیویں گے
کہتے ہیں بیٹے غسل تمہیں ہم دلائیں گے
اور بعد غسل خلعت آخر پہنائیں گے
پھر دوش پہ جنازہ تمہارا آتھائیں گے
اور آپ قبر میں تمہیں جا کر سلائیں گے
مرنے کے بعد ہم سے یہی کام ہوئے گا
جز دفن اور کچھ نہ سر انجام ہوئے گا
مقام غور ہے کہ کس قدر محنت ومشقت سے مال حاصل ہوتا ہے اور کس ریاضت ومصیبت سے اولاد کی پرورش کی جاتی ہے۔اور کوئی ان میں سے کام نہیں آتا۔افسوس جن کے واسطے ایسی محنت کی جائے وہ وقت پر کام نہ آئیں گے۔اور ساتھ نہ دیں گے۔لہذا معصوم نے فرمایا کہ انسان کو چاہیے کہ اپنا دوست صادق ومحب وواثق سب سے زیادہ اعمال نیک کو رکھے۔کیونکہ اعمال نیک کے سوا کوئی دوست رفاقت کے لائق نہیں۔جو برے وقت میں کام آئے۔ بے شک عمل نیک ہی وہ رفیق صادق ہے جو ساتھ رہتا ہے۔ چنانچہ جب اولاد ومال انسان کو صاف جواب دے دیتے ہیں تو نظم
اس دم عمل سے کہتا ہے رو کر بصد ہراس
مصروف تم میں بھی رہا اکثر میں بے حواس
وہ کہتے ہیں شریک حیات وممات ہیں
اب تو ہمارے ساتھ ہے ہم تیرے ساتھ ہیں
ہم ظلمت مزار میں روشن ہیں شمع ساں
ہم ہیں تیرے گواہ دم حشر بے گمان
حامی دم فشار ہے اے زار وناتواں
ہر دکھ میں ہم تجھے دیں گے آسائش واماں
ہم روز حشر حق سے تجھے بخشوائیں گے
ہم گلشن جناں میں تجھے لے کے جائیں گے
ہاں شیعو جز عمل کے کسی کو نہیں ثبات
اولاد ومال سے ہے فقط زینت حیات
اعمال بس رہیں گے ہمیشہ تمہارے ساتھ
کیا ہے وہ عمل نیک غم شاہؑ نیک ذات
بےشک عمل یہ دین خدا کی اساس ہے
وہ رستگار ہے یہ عمل جس کے پاس ہے
کوئی عمل نہیں ہے ان اعمال سے زیاد
یہ وہ عمل ہے جس سے خدا ونبیؑ ہیں شاد
اللہ رے قدر اشک غم شاہ خوش نہاد
حسن قبول پر ہو رسولؑ خدا کا صاد
حوریں ملیں بہشت ملے اور چین بھی
ہمسائیگی نبیؑ کی اور قرب حسینؑ بھی
توقیر اشک ماتم شاہ پر کرو خیال
دنیا میں سہل نزع کی سختی کا ہے ملال
آساں میان قبر نکرین کا سوال
بخشے کبیرہ اور صغیرہ کو ذوالجلال
محسن کہیں جناب رسولؑ خدا اسے
داخل کریں بہشت میں خیر النساؑ اسے
مرتا ہے جب کہ بندہ فاسق خدا گواہ
تعجیل اس کے دفن میں کرتے ہیں خیر خواہ
اس دم صدا وہ دیتا ہے با حالت تباہ
عجلت نہ کرو دفن میں میری پے الہٰ
بہر عذاب ہیں وہ فرشتے تلے ہوئے
آنکھوں کے آگے باب سقر ہیں کھلے ہوئے
فاسق کے واسطے تو یہ صورت ہے آشکار
لے جاتے ہیں جو میت مومن کو دوست دار
تب یوں پکارتا ہے وہ مقبول کردگار
عرصہ نہ کرو دفن میں اب میری زینہار
غرفوں سے سر نکالے ہوئے مسکراتی ہیں
کس اشتیاق سے مجھے حوریں بلاتی ہیں
رضوان صدا سناتا ہے اے عاشق خدا
میں باب خلد کھولتا ہوں آ شتاب آ
قصر بلند حق نے کیا ہے تجھے عطا
اب جلد مجھ کو دفن کرو بہر کبریا
صدمے سہے ہیں جاگا ہوں میں دنیائے زشت میں
جاتے ہی سو رہوں گا میں باغ بہشت میں
یہ کون بندگان خدا ہیں،جن کو جلد دنیا سے رخصت ہونے کا اشتیاق ہوتا ہے۔ یہ حسینؑ ابن علیؑ کے رونے والے۔تعزیہ دار، ذاکر اور ماتم دار ہیں۔جو مجلس حسینؑ برپا کرتے ہیں۔ اور اپنے امام مظلوم کے مصائب سنتے اور سناتے ہیں۔چنانچہ مجالس امام حسینؑ کے بے انتہا فضائل مروی ہیں۔یہاں صرف ایک حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص غم حسینؑ میں روئے یا رولائے یا رونے والے کی سی صورت بنائے،تو اس پر بہشت واجب ہے۔اللہ اللہ کیا مرتبہ ہے عزاداران امام مظلوم کا،جس کی خواہش پیغمبران خدا صلواۃ اللہ و سلامہ علیھم کو ہوئی۔نظم
اک روز درمیان مناجات کبریا
موسےٰ نے التماس یہ اللہ سے کیا
صدقے محمدؑ عربی کے سب انبیا
تونے جو کچھ شرف دیا ان کو بجا دیا
امت پہ بھی انہی کی بہت مہربان ہو
امیدوار ہوں سبب اس کا بیان ہو
فورا" ہوا یہ عالم لاہوت سے خطاب
ہاں اے میرے کلیم سن اس بات کا جواب
دس خصلتوں سے امت احمد ہے کامیاب
ان وجہوں سے ہم نے کیا ان کو انتخاب
بولے کلیم تیرے مراتب بلند ہیں
وہ خصلتیں کیا ہیں جو تجھ کو پسند ہیں
فرمایا حق نے خمس وزکواۃ وحج وصیام
جمعہ جہاد اور جماعت پے امام
قراں کا ذکر علم کی تحصیل صبح وشام
دسواں عمل ہے خیر کا عاشور والسلام
جو یہ عمل کریں گے وہ سب رستگار ہیں
جنت میں زیر سایہ پروردگار ہیں
تب عرض یہ کلیم نے بے اختیار کی
نو خصلتوں کی شرح تو خوب آشکار کی
عاشورہ سے مراد ہے کیا کردگار کی
مولا نے اس کی مدح وثنا بے شمار کی
فرمایا اے کلیم یہ صورت ہے چین کی
مجلس بپا جو کرتے ہیں میرے حسینؑ کی
لہذا اگر اس رونے کی فضیلت کا مفصل حال بیان کروں تو عجب نہیں کہ لوگ فرض ترک کردیں۔کیونکہ نظم
داغ غم حسینؑ میں وہ آب وتاب ہے
جس داغ کے چراغ کا گل آفتاب ہے
یہ گل وہ گل ہے جس کا کہ بلبل ثواب ہے
یہ داغ لالہ چمن بوترابؑ ہے
پروانہ ہیں جناں کے لحد کے چراغ ہیں
نام خدا نجات کی مہریں یہ داغ ہیں
بہر حال انسان کی زندگی کا بھروسہ نہیں،کہ کس وقت اجل کا پیام آجائے۔لہذا چاہیے جس قدر ممکن ہو،اعمال نیک حاصل کرے۔اور سب سے زیادہ فضیلت جس عمل کی ہو،اس میں زندگی بسر کرے۔اور آپ جانتے ہیں کہ وہ بہترین عمل غم حسینؑ میں گریہ وبکا ہے۔نظم
عالم روا روی کا ہے ہشیار دوستو
عبرت پکارتی ہے خبر دار دوستو
سب قافلہ ہے چلنے پہ تیار دوستو
لے لو جو زاد راہ ہے درکار دوستو
زاد سفر عبادت رب مجید ہے
وہ کیا ہے اشک ماتم شاہ شہید ہے
یہ اشک توشہ رہ پروردگار ہے
دربار ذوالجلال میں مجرے کی بار ہے
پانی پہ جو اساس ہے وہ نا پائیدار ہے
اس اشک پر بنائے جہاں برقرار ہے
حقا چراغ گور کا روغن یہ اشک ہے
جس نور سے کہ قبر ہو روشن یہ اشک ہے
مجالس عزا کی فضیلت میں بحار الانوار کی ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں۔حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ جو شخص وہ ظلم وستم سن کر جو ہم پر اور ہمارے آبا واجداد پر ہوئے،روئے یا رلائے یا رونے والوں کی سی صورت بنائے وہ ہمارے ساتھ روز قیامت محشور ہو گا۔اور بلند درجات پائے گا۔اور صاحب ریاض الشہادت نے تحریر کیا ہے کہ جناب امام ؑ مظلوم کی مجلس میں ایک مومن کے گھر امام زین العابدین علیہ السلام تشریف لے گئے۔ذاکر نےشہادت امام کاذکر کیا۔جس سےمسجد میں حد سے زیادہ گریہ ہوا۔تو امامؑ روتے روتےبے ہوش ہو گئے۔ماتم سے فراغت کے بعدصاحب خانہ نے امام علیہ السلام کو مجلس میں نہ پایا اور تلاش کرنا شروع کیا۔ آخر دیکھا کہ امام علیہ السلام پائین فرش اہل مجلس کی نعلین سیدھی کر رہے ہیں۔صاحب خانہ قدموں میں گر پڑا اور عرض کی کہ اے آقا یہ کام غلام کا ہے۔سبحان اللہ آپ نے فرمایا اے بھائی یہ مجلس تو میرے باپ کی ہے۔لہذا باپ کے مہمانوں کی خاطر داری پسر پر لازم ہے۔نہ تجھ پر ،اللہ اکبر،کیا مرتبہ ہے عزاداران حسینؑ کا،اگر چہ آپ لوگ اس وقت ایک مومن کے ایصال ثواب کی مجلس میں تشریف لائے ہیں۔مگر وارثان میت ہوں یا حاضرین مجلس ہر ایک کے نزدیک امام مظلومؑ سے زیادہ مستحق گریہ کوئی نہ ہونا چاہیے۔کیونکہ ہم سب پر برسوں کے بعد ایک عزیز کی مفارقت کا صدمہ ہوتا ہے۔اور ساتھ ہی تمام عزیز واقارب اور دوست واحباب تسلی وتشفی کو موجود ہوتے ہیں۔لیکن دوپہر میں ہمارے مظلوم آقا پر اور آپؑ کے اہل بیت پر کیسے کیسے مصائب گزرے۔اور کوئی تسلی وتشفی دینے والا موجود نہ تھا۔ نظم
ماتم میں عزیزوں کے عبث جان ہے کھونا
ہاں حال پہ خود اپنے سزاوار ہے رونا
اک روز تو پیوند زمین سب کو ہے ہونا
بے جاں یہ تن زار ہے اور قبر کا کونا
عقبےٰ کی کرو فکر وہی رہنے کی جا ہے
عالم میں تو کوئی نہ رہا ہے نہ رہے گا
بتلائو محمدؑ سے ہے جد کس کا سوا،آہ
جب عازم جنت ہوئے دنیا سے وہ ذی جا
حسنینؑ کے دل پہ تھا عجب صدمہ جانکاہ
سر پیٹ کے کہتے تھے کہ جو مرضی اللہ
اب کس کی کریں آس کہ سہارا نہیں کوئی
پر خواہش تقدیر سے چارہ نہیں کوئی
اولاد کو ہے سخت بہت رحلت مادر
کر دیتا ہے یہ صدمہ وغم بے پر ومضطر
پر یاد کرو رحلت زھرائے مطہر
اس دار فنا سے جو اٹھیں بنت پیمبرؑ
لکھا ہے چلن بیٹیوں نے ماں کا لیا تھا
اور شبرؑ وشبیرؑ نے بھی صبر کیا تھا
بیٹوں کے لیے قہر ہے بابا کا گزرنا
اس رنج میں مشکل ہے مگر صبر کا کرنا
پر یاد ہے کچھ حیدر ؑ صفدر کا بھی مرنا
سبطین کا وہ صبر کی سل چھاتی پہ دھرنا
کہتے تھے کہ اب موت سے کوئی نہ بچے گا
جب خلق میں حیدرؑ نہ رہے کون رہے گا
ہو موت سے بھائی کی اگر کوئی مکدر
تو یاد کرے حالت شبیرؑ وہ مضطر
کوثر پہ گئے پیش نظر حضرت شبرؑ
مقتل میں کٹے بازوئے عباسؑ دلاور
جز شکر کے منہ سے شکایت نہ ذرا کی
ہر حال میں بخشش امت کی دعا کی
فرزند کے غم میں ہو اگر دل تہہ وبالا
بے نور ہوں آنکھیں کہ گیا گھر کا اجالا
لازم ہے کہ وہ یاد کرے صبر شاہ والا
پھل برچھی کا بیٹے کی جو چھاتی سے نکالا
ہر اک پہ یہ لازم ہے جو پابند فغاں ہو
اکبرؑ کا رہے دھیان وہ باپ ہو کہ ماں ہو
بچے کے بچھڑنے سے ہو جو داغ جگر پر
چھدتا ہو رگ جان میں اس اندوہ کا نشتر
پھر کیجیے انصاف ذرا بہر پیمبرؑ
تھا اصغرؑ بے شیر کے رتبے سے وہ بہتر
جب جام شہادت عوض شیر پیا تھا
ماں باپ نے اس بچے کے بس صبر کیا تھا
داماد کے غم میں جو کوئی ہووئے گرفتار
اس درد میں ہو راحت وآرام سے بےزار
ہے اس کو مناسب کہ کرے صبر وہ غم خوار
اور یاد کرے حالت شہنشاہ ابرارؑ
قاسم کو جو پامال کیا فوج شقی نے
جز شکر نہ کچھ منہ سے کہا سبط نبیؑ نے
بیوہ کو الم ہائے رنڈاپے کا ستم ہے
بےشک ہے بجا ہے کیونکہ یہ ایسا ہی الم ہے
دن بھر یہی ماتم ہے تو شب بھر یہی غم ہے
سب کچھ ہو مگر حضرت کبریٰ سے تو کم ہے
لازم ہے نہ مصروف ہو اندوہ وبکا میں
اک شب کی بنی رانڈ بنی دشت بلا میں
ہوتا ہے جو بھائی ہمشیر سے ناگاہ
دل غم سے الجھتا ہے جگر پھٹتا ہے واللہ
پر غور کرو درد دل زینبؑ ذی جا
پردیس میں بھائی سے چھٹی قتل ہوئے شاہ
لوٹی گئی برباد ہوئی دشت بلا میں
لیکن نہ ذرا فرق ہوا صبر ورضا میں
بیٹی کی عجب چاہ ہے انسان کے دل پر
حالت میں نزع کے بھی نہیں بھولتی دم بھر
ہے بہر تشفی یہی مضمون مکرر
ہو گی نہ سکینہؑ سی کوئی لاڈلی دختر
جب سینہ شبیرؑ پہ بے رحم چڑھا تھا
لکھا ہے پے صبر سکینہؑ سے کہا تھا
کہتے ہیں جو ہوتی ہے جدا باپ سے دختر
کھاتے ہیں ترس اس کی یتیمی پہ سب اکثر
رہتا ہے تشفی کے لیے سامنے سب گھر
پر غور کرو ہائے سکینہؑ کا مقدر
پائی نہ اماں ظلم سے بنت شاہ دیں نے
کیا کیا نہ ستم اس پہ کیا شمر لعیں نے
گر داغ عزا تمہیں دکھلائے مقدر
ہے تم کو مناسب کہ نہ ہو ششدر ومضطر
وہ کام کرو جو کہ ہو ہر حال سے بہتر
کہتا ہے وزیر الم آلودہ وششدر
بچے کو جواں کو نہ کسی پیر کو روئو
رونا ہو تو بس حضرت شبیرؑ کو روئو
ذرا سوچیے تو کوئی غم بھی ایسا ہے جو روز عاشورجناب امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت اطہار پر نہ گزرا ہو۔تو جب کونین کے آقا پر صبح سے سہہ پہر تک یہ تمام صدمے گزرے،تو اب انصاف کیجیے کہ اپنے عزیز کے مردے پہ رونا واجب ہے یا جناب سید الشہداؑ اوراہل بیت اطہار کے مصائب پر گریہ وزاری کرکے اس کا ثواب میت کی روح کو بخشیں۔تو یہ ثواب اس میت کو پہنچے گا۔اور اس کے درجات بلند ہوں گے۔اور شاید غلامان حسینؑ ابن علیؑ نے اسی سبب سے مجلس سوم وغیرہ کا طریقہ مومنین میں رائج کیا ہے۔تاکہ میت کو اس کا ثواب پہنچے۔اور گناہ اس کے بخشے جائیں۔نظم
لو اب کرو وہ کام بنیں جس سے سارے کام
کوشش غم حسینؑ میں لازم ہے صبح وشام
اے اہل بزم اب یہ تصور کا ہے مقام
نرغے میں ظالموں کے گھرے ہیں شاہ انام
مولا تمہارے کہتے ہیں سبط رسولؑ ہوں
یارو میں بوستان نبوت کا پھول ہوں
ناگاہ ہر طرف سے گھر آئی سپاہ آہ
ابر ستم میں گھر گیا زہراؑ کا ماہ آہ
حسرت ہے کیوں نہ گر پڑا عرش الہٰ آہ
بوچھار کر دی تیروں کی حضرتؑ پہ آہ آہ
یوں تو بہت سے زخم ہر اک عضو تن میں تھے
نوے خدنگ ظلم کے روزن بدن میں تھے
دوسو تھے زخم تیروں کے سینہ سے تا کمر
اکاون آہ زخم تھے تیغوں کے سر بسر
اب شرح زخم سنگ جفا سخت ہے مگر
یہ حال من وعن نہیں آتا زبان پر
زخموں سے چور چور شاہ نامدار تھے
لکھا ہے زخم جسم پہ سب دو ہزار تھے
یہ نکتہ بس ہے مومنو کے شور وشین کو
تیغوں سے چور کرکے شاہ مشرقین کو
پتھر لگائے سنگ دلوں نے حسینؑ کو
آخر غش آیا فاطمہؑ کے نور عین کو
لرزہ ہوا زمین کو فلک کانپنے لگا
گھوڑے پہ شاہ جن وملک کانپنے لگا
ہائے واویلا کس زبان سے عرض کروں کہ اس وقت سنان ابن انس ملعون نے آکر ایک نیزہ سینہ اقدس پر اس زور سے مارا۔ کہ وہ بادشاہ کونین گھوڑے سے زمین پر گر پڑا۔ جس وقت آپؑ گھوڑے سے گرے۔ شعر مو لف
آئی ندا کہ رحل سے قرآن گر پڑا
رکن رکین کعبہ ایمان گر پڑا
امام مظلوم زخموں سے چور چور ہو کر زمین گرم پر تڑپ رہے تھے۔ نظم
افتادہ ریگ گرم پہ تھے شاہ حق شناس
قبلہ کو رخ تھا ضعف ونقاہت سے بے حواس
مونس نہ کوئی پاس تھا جزو بے کسی ویاس
غش سے کھلی جو آنکھ کہا پیاس پیاس پیاس
صدمہ عطش سے تھا یہ دل دردناک پر
جو کروٹیں بدل کے تڑ پتے تھے خاک پر
وہ گھائو گہرے گہرے وہ جلتی ہوئی زمین
وہ دھوپ گرم اور وہ اندام نازنین
زخمی وہ سینہ اور وہ شق پہلو وجبین
اور سر پہ آہ کھینچے ہوئے شمر تیغ کیں
ہونٹوں پہ وہ زبان کا نکل آنا پیاس سے
اور بار بار دیکھنا خیمہ کو یاس سے
خنجر بکف کھڑی تھی کمیں گاہ میں سپاہ
پر ہائے سنگ دل تھا غضب شمر روسیاہ
کیونکر کروں بیاں کروں کہ زبان کانپتی ہے آہ
وہ پائے شمر اور وہ سینہ سلطان دیں پناہ
مرقد میں مصطفےٰؑ کا کلیجہ ہلا دیا
سینہ پہ چڑھ کے حلق پہ خنجر پھرا دیا
جنبش میں آیا مرقد پیغمبرؑ
قدسی لرز لرز گئے تھرا ئے آسمان
آندھی اٹھی سیاہ ہوا نیل گوں جہاں
کانپے طبق زمین کے ہوا زلزلہ عیاں
زائل تجلی ہو گئی مہر منیر کی
کانپی نجف میں قبر جناب امیرؑ کی
جب امام مظلوم درجہ شہادت پر فائز ہو گئے،تو اب کون تھا جو بے کس کی لاش اہل حرم کے خیمہ میں لاتا،یا سیدانیوں کو قتل حسینؑ کی خبر دیتا۔ نظم
اس وقت بے سوار شاہ دین کا راہوار
آیا در خیام حسینیؑ پہ بے قرار
نعرہ کیا کہ اے حرم شاہ نامدار
قسمت الٹ گئی میرا مارا گیا سوار
تھرا رہا ہے عرش خدا وہ جفا ہوئی
اب حشر تک حسینؑ سے زینبؑ جدا ہوئی
آئی جو ذوالجناح کی آواز ناگہاں
سمجھے حرم کہ رن سے پھرے شاہ انس وجان
گھبرا کے آئیں خیمے کی ڈیوڑھی پہ بیبیاں
دیکھا کہ خالی آیا ہے اسپ شاہ زمانؑ
ڈھلکا ہے زین لٹکا ہے تسمہ لگام کا
اور سر پٹک کے روتا ہے گھوڑا امام کا
اس وقت در پہ خیمہ کے محشر تھا آشکار
مجمع تھا اہل بیت کا یوں گرد راہوار
جس طرح سے جنازے پہ جمع ہوں سوگوار
راہوار سر کو خم کیے روتا تھا زار زار
یہ حال دختران علیؑ ولی کا تھا
گردن پہ سر کسی کا تو زیں پر کسی کا تھا
کوئی لپٹ کے پائوں سے دیتی تھی یہ صدا
اے اسپ با وفا مرے بابا کو کیا کیا
کہتی تھی ایک معظمہ با نالہ وبکا
کس کے لہو میں غرق ہے تو واہ محمداؑ
اے ذوالجناح عترت اطہار لٹ گئی
زینبؑ غریب اپنے برادر سے چھٹ گئی
کہتی تھی کوئی پیٹ کے سر یہ بشور وشین
بے آسرا ہوئے حرم شاہ مشرقینؑ
مٹی میں آج مل گئی یثرب کی زیب وزین
سیدانیاں تباہ ہوئیں مر گئے حسینؑ
بابا سے اپنے بالی سکینہؑ بچھڑ گئی
بابا کا راج لٹ گیا زینبؑ اجڑ گئی
اللہ اللہ امام مظلومؑ کی شہادت کے بعد بھی اس گروہ ناہنجار کے دلوں سے کینہ نہ گیا۔ہائے افسوس اب تو حسینؑ درجہ شہادت پر فائز ہو گئے ہیں۔صرف جسم بے جان ریگ تپاں پر پڑا ہے۔ ایسے وقت میں تو مشہور ہے کہ نظم
میت پہ رحم کھاتے ہیں کافر خدا گواہ
لاشے پہ شاہ کے ظلم وستم وامصیبتا
تن سے زرہ اتار لی کندی نے آہ آہ
اسود تھا ایک دشمن سلطان دیں پناہ
یارو میں کیا جفا کہوں اس بد شعار کی
نعلین اس نے لی شاہ عالی وقار کی
تھا قیس دل سے دشمن اولاد مصطفےٰ ؑ
لی اس نے آکے چادر مظلومؑ کربلا
پوچھو نہ شیعو اخنس ناپاک کی جفا
اس نے عمامہ شاہ کے سر پاک سے لیا
اسحاق نے نہ خوف کیا رب پاک کا
رخت کہن لیا بدن چاک چاک کا
الغرض اس طرح ہر اشقیا تمام پوشاک اور اسلحہ لوٹ کر لے گیے۔ نظم
سب لٹ گیا لباس شہنشاہؑ ارجمند
لکھا ہے پائجامہ میں تھا اک اوزار بند
قدر وبہا میں حلہ فردوس سے دو چند
جمال بد شعار نے اس کو کیا پسند
فکر اوزار بند میں دل کو تعب رہا
وہ روسیاہ منتظر وقت شب رہا
رخ مہر کا جو پردہ شب میں ہوا نہاں
آیا پے تلاش وہ لاشوں کے درمیان
دیکھا پڑا ہے اک تن بے سر لہو لہان
ہے صاف خاک ونور میں نور خدا عیاں
حربوں سے تیغ وتیر کے تن پاش پاش ہے
سمجھا یہی امام دو عالم کی لاش ہے
آیا قریب لاش امام فلک وقار
چاہا اوزار بند نکالے وہ نابکار
پائی مگر گرہ پہ گرہ اس نے بے شمار
منظور شاہ تھا اس کو نہ لے جائیں نابکار
تھا ساربان کا قصد کہ گرہوں کو واہ کرے
ہل جائے جس سے عرش خدا وہ جفا کرے
جنبش میں آگیا تن سلطانؑ نیک ذات
رکھا اوزار بند پہ حضرت نے داہنا ہاتھ
اس نے بھی خوب زور کیا حوصلہ کے ساتھ
بر آسکا مگر نہ کسی طرح بد صفات
پھر بھی نہ باز ظلم سے وہ بے حیا رہا
ہر گز نبیؑ کا پاس نہ خوف خدا رہا
لایا کہیں سے تیغ شکستہ وہ روسیاہ
اور بے خطر جدا کیا لاشے کا ہاتھ آہ
آیا اوزار بند پہ دست یسار شاہ
وہ بھی شقی نے قطع کیا واہ مصیبتا
واحسرتا یہ ظلم وستم دست پاک پر
کیوں گر پڑا نہ پنجہ خورشید خاک پر
لکھا ہے جب ہوئی شاہ بے کس پہ یہ جفا
تارے گرے زمین پہ ہلا عرش کبریا
تھرائے لاشہ ہائے شہیدانؑ کربلا
غل شش جہت میں نالہ وفریاد کا ہوا
تا عرش تھی بلند صدا شور وشین کی
اور کانپتی تھی لاش شاہؑ مشرقین کی
سہما یہ شور سن کے عدوئے شاہ زمان
اور چھپ رہا وہ خوف سے لاشوں کے درمیان
دیکھا کہ تین شخص ہیں سر ننگے نوحہ خوان
نالے وہ دل خراش ہیں لب پہ کہ الامان
پہنے لباس سبز ہر اک خوش صفات ہے
اک بی بی بال کھولے ہوئے ان کے ساتھ ہے
گاہے تو گریہ کرتے ہیں گہ نالہ گہ بین
ٹھہرے غرض سب آن کے لاشے کے جانبین
اک شخص سر کو پیٹ کے بشور وشین
چلایا السلام علیک ایہا الحسینؑ
راحت تجھے نہ ہو ہمیں جنت میں کل پڑے
تیرے بزرگ سب تیرے غم میں نکل پڑے
بالیں پہ تیرے فاطمہؑ روتی ہے زار زار
حیدرؑ بھی بےقرار حسنؑ بھی ہیں اشکبار
کرتا ہے یوں بیان شتر بان بد شعار
اس لاش کو حرکت ہوئی پھر تو ایک بار
سر تن سے آکے مل گیا شاہ انام کا
اور اٹھ کے بیٹھا خاک پہ لاشہ امامؑ کا
بہر سلام خم ہوئے ناناؑ کے سامنے
بوسے لیے نواسے کے خیر ا لا نامؑ نے
پھر عرض کی نبیؑ سے اس تشنہ کام نے
ناناؑ یہ ہم پہ ظلم کیے اہل شام نے
پیاسوں میں شور واعطشا کا بلند تھا
آتے تھے غش پہ غش ہمیں اور پانی بند تھا
ناناؑ جفائیں ہم پہ وہ گزریں خدا گواہ
پڑتیں اگر دنوں پہ تو ہو جاتے سب سیاہ
در آئی ناناؑ خیمے میں کفار کی سپاہ
بچوں کو بھی اسیر کیا میرے بے گناہ
پھرتے تھے چار سو کہیں چھپنے کی جا نہ تھی
بلوئے میں اہل بیت کے سر پر ردا نہ تھی
دیکھیں ہیں دو پہر میں ان آنکھوں نے جو ستم
بے شیر تک سر ہوا شمشیر سے قلم
آغوش میں مری علیؑ اکبرؑ کا نکلا دم
چھینیں گئیں ردائیں لٹا زیور حرمؑ
بالی سکینہؑ نے میری وہ دکھ اٹھائے ہیں
زخمی ہیں کان منہ پہ طمانچے بھی کھائے ہیں
سن سن کے حال رونے لگے سید البشرؑ
احمدؑ کی ریش پاک ہوئی آنسوئوں سے تر
تھے اک طرف کو حیدر صفدرؑ بھی نوحہ گر
کی فاطمہؑ نے عرض نبیؑ سے کہ اے پدر
بس آج ہو گیا مرے اس گھر کا خاتمہ
کہیے تو اس لہو کو ملے منہ پہ فاطمہؑ
اب حشر تلک لہو کو نہ منہ سے چھڑائوں گی
عادل کے سامنے اسی صورت سے جائوں گی
خون حسینؑ جا کے خدا کو دکھائوں گی
سکان عرش حق کو تزلزل میں لائونگی
حق سے کہوں گی فاطمہؑ فریادی آئی ہے
امت نے مرے لال کو مارا دہائی ہے
یہ کہہ کے فاطمہؑ نے بصد نالہ وبکا
خون پسر سے سرخ رخ پاک کو کیا
پھر تو نہ رہی مصطفےٰؑ کا تاب مطلقا
لے کر لہو نواسے کا داڑھی پہ مل لیا
طاری الم ہوا جو شاہ مشرقین پر
یہ نوحہ پھر شروع کیا لاش حسینؑ پر
بس اپنے رسولؑ کا نوحہ اور سن لیجیے۔ نوحہ
ے فاطمہؑ کی جان مرے پارہ جگر
ناناؑ کے دل پہ شاق ہے یہ بات سر بسر
ہے ہے مرا جو زینت آغوش ہو وہ سر
دیکھوں میں اس کو تن سے جدا اور لہو میں تر
سویا ہو جو سدا مرے دامان پاک پر
دیکھوں میں آج اس کو طپاں گرم خاک پر
اے فاطمہؑ کے نور نظر واہ حسین ؑ واہ
شیر خدا کے لخت جگر وا حسینؑ وا
محبوب کبریاؑ کے پسر وا حسین وا
تن سے جدا ہو ترا سر وا حسینؑ وا
سوتے تھے تم سدا مرے دامان پاک پر
اب لوٹتے ہو آہ طپاں گرم خاک پر
آخر میں امیدوار ہوں کہ میت کے حق میں دعا فرما کر کمترین مولف کی دعا پر آمین فرمائیں
مولا قسم ہے تم کو جناب امیرؑ کی
لینا خبر مزار میں آکر وزیر کی
تمت
الحمد للہ والمنتہ کہ بعنایت الہیٰ و مدد پنجتن پاک علیھم السلام یہ کتاب اختتام کو پہنچی۔اس چہل مجلس کے ناظرین اور ذاکرین کی خدمت میں گزارش ہے کہ نخیف کو دعائے خیر سے یاد کریں،اور التجائے نیاز مند پر آمین فرمائیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment