Skip to main content

ولادت جناب زینب سلام اللہ علیہا اور ا ہل بیت کی قید خانہ شام سے رہائی اور دفن شہدا اور چہلم کے حالات


پینتسویں مجلس ذکر ولادت جناب زینب سلام اللہ علیہا اور  ا ہل بیت کی قید خانہ شام سے رہائی اور دفن شہدا اور چہلم کے حالات
 ذکر چہلم ہو جیے مغموم
دفن ہوتے ہیں سید مظلومؑ
عزا داران جناب سیدؑ ا  لشہدا آگاہ ہوں کہ جس قدر مصائب وآلام حسینؑ مظلوم پر گزرے نہ کسی نبیؑ پر گزرے نہ کسی وصی پر۔اور بضعتہ الرسولؑ جناب سیدہؑ کے بعد جناب ثانی زہراؑ نے جو مصائب برداشت کیے۔دنیا میں کسی بی بی کا جگر نہیں جو سہہ سکے ، رباعی
 ناناؑ کو روئی ماں کا جنازہ دیکھا
بابا کا بڑے بھائی کا لاشہ دیکھا
 زینبؑ کی غرض حیات روتے ہی کٹی ہے
عاشور کو کیا کہوں کہ کیا کیا دیکھا
 اور جس طرح اس مخدومہ کائنات کے بھائی امام مظلومؑ کی ولادت کے وقت تہنیت کےساتھ تعزیت کا بھی شور تھا۔اسی طرح جناب زینبؑ کی ولادت کے  وقت خوشی کے ساتھ رنج و ملال کا بھی ہجوم تھا۔چنانچہ شاہزادی کی ولادت کے وقت کا حال کتب تواریخ وسیر میں مرقوم ہے کہ جب حضرت زینبؑ پیدا ہوئیں،تو کنیز جناب فاطمہ زہراؑ نہایت خوش ومسرور ہو کر جناب رسولؑ مقبولؑ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اور عرض کی    شعر۔
 ہووئے یہ نواسی تمہیں یا شاہؑ مبارک
زینبؑ کی ولادت کرے اللہ مبارک

 جناب رسولؑ الثقلین مسند نشین قاب وقوسین یہ خوشخبری سن کر فاطمہؑ زہرا کے پاس تشریف لائے۔مگر کس زبان سے عرض کروں کہ وقت ولادت سے ہی رنج وملال ظاہر تھے۔یعنی جس وقت نظم
تشریف نبیؑ گھر میں ید اللہ کے لائے
 دیکھا رخ زینبؑ تو آنسو نکل آئے
پھر گود میں لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے
اور پیار میں یہ درد کے کلمات بھی سنائے
آاے جگر سید لولاک میں صدقے
آ نوحہ گر پنجتن پاک میں صدقے
آاے میری خاتون قیامت کی عزادار
آاے وطن آوارہ ومظلوم دل فگار
آاے اسد اللہ کے ماتم کی سزا وار
آاے حسنؑ سید مسموم کی غمخوار
حضرت خاتم الانبیا ؑنے یہ اندوہ ناک کلمات ارشاد فرما کر آغوش میں لے لیا۔اور فرمایا، بیت
 صدقے ترے اے بے کس وبے وارث و والی
آاے لاشہ شبیرؑ پہ منہ ڈھانپنے والی
نظم
 یہ کہہ کے لگے چومنے زینبؑ کے جو بازو
رقت کا یہ عالم تھا کہ تھمتے نہ تھے آنسو
گھبرا کے کہا فاطمہؑ نے اے شاہ خوش خو
فرمایئے تو فاطمہ بھی کھول دے  گیسو
باتیں بخدا آپؑ کی سب وحی خدا ہیں
لیکن سخن اس وقت کے نشتر سے سوا ہیں
کیا جان سے دور آپؑ کی مر جائوں گی میں آج
زینبؑ مری اب دودھ کو محتاج
کیا قتل کہیں ہوگا علیؑ سا مرا سرتاج
میری ہی اجل خوب ھے اے صاحب معراج
مرجائوں بلائیں لے کے میں فرزندوں کے سر کی
 شوہر بھی سلامت رہے ہو خیر پدر کی
تب رو کے محمدؑ نے کہا اے میری پیاری
اس وقت تو رحلت ہے ہماری نہ تمہاری
انجام پہ زینبؑ کے ہے رقت مجھے طاری
ہے اس کے مقدر میں فقط نالہ وزاری
زینبؑ سی گرفتار بلا کوئی نہیں ہے
ہم پنجتن پاک کی یہ سوگ نشیں ہے
پہلے تو یہ ہووئے گی عزادار پیمبرؑ
پھر چند مہینوں میں سہے گی غم مادر
روئے گی تیرے واسطے یہ بے کس ومضطر
پھر آنکھوں سے یہ دیکھے گی زخم سر حیدرؑ
یہ تفرقہ فلک ڈالے گا بہن بھائی میں
ٹکڑے دل شبرؑ کے یہ دیکھے گی لگن میں
پر سب سے زیادہ ہے اسے ماتم شبیرؑ
جب کرب وبلا میں اسے لے جائے گی تقدیر
کیا کیا نہ ستم دیکھے گی واں زینبؑ دل گیر
تڑپے گا حسینؑ آنکھوں کے آگے تہہ شمشیر
جن بازوئوں پہ دیتا ہوں بوسہ میں دہن سے
بند جائیں گے بازو یہی اک روز رسن سے
 جس وقت جناب سرور کائنات نے یہ ارشاد فرمائے،خانہ خدا جناب سیدہ میں خوشی کے عوض ایک حشر برپا تھا۔الغرض جس وقت سرور کائنات نے جو واقعات زبان مبارکؑ سے ارشاد فرمائے تھے۔ وہ سب جناب زینبؑ کو پیش آئے۔اشعار
شروع حادثہ تابوتؑ مصطفےٰ ؑ دیکھا
کفن میں لاشہ خاتون دوسرا دیکھا
علیؑ کے سر کو بھی آنکھوں سے خون سے بھرا دیکھا
حسنؑ کو زہر ہلاہل سے لوٹتا دیکھا
رسولؑ حق کے ولی کو رسولؑ کو روئی
حسنؑ کو روئی جناب بتولؑ کو  روئی
 جس وقت جناب زینبؑ پہ یہ چاروں حادثات گزرے۔آپؑ کو شب وروز گریہ وبکا سے کام تھا۔کبھی کسی خوشی کی طرف رغبت نہ فرمائی تھی۔چونکہ جناب امام حسینؑ کے دولت سرا کے قریب ہی آپ کا دولت کدہ تھا۔اس لیے ہر وقت بھائی کی خدمت میں ؐوجود رہتیں تھیں۔اگر کبھی امام مظلومؑ باہر تشریف لے جاتے،تو بھائی کے انتظار میں بے تابانہ صحن خانہ میں پریشان وبےقرار پھرتی تھیں۔لیکن کیا حال ہوا ہوگا،جبکہ نظم
غضب ہے شمر کو سینہ پہ جب چڑھا دیکھا
حسینؑ کو تہہ خنجر بھی لوٹتا دیکھا
سر امام کو نیزے پہ خون بھرا دیکھا
گلوئے علیؑ اصغرؑ کو بھی چھدا دیکھا
شہید جس کا ہر اک پیر اور جواں ہوئوے
بتائو اس کی مصیبت کا کیا بیاں ہوئوے
وہ بعد بھائی کے لوٹی گئی اسیر ہوئی
تباہ لخت دل حضرت امیرؑ ہوئی
وہ شہر شہر پھری در بدر حقیر ہوئی
سپاہ شام میں نگگے سر دست گیر ہوئی
ہزار حیف کہ نکلا نہ مہر جس کے لیے
ردا بھی آئی میسر وہاں نہ اس کے لیے
 ان مصائب کے بعد کوفہ وشام کے بازاروں میں سر ننگے پھرنا،دربار ابن زیاد لعین اور دربار یزید لعین میں کھلے سر جانا۔ شاہزادی کے وہ مصائب ہیں جن کے رنج وغم کا اندازہ کون کر سکتا ہے۔الغرض دربار یزید میں بے حرمتی کے بعد اس تنگ وتاریک قید خانہ میں اسیر ہوئیں۔جو نہ دن کی دھوپ سے اور نہ رات کی اوس سے محفوظ تھا۔ جب اس زندان میں دل بہت گھبراتا تھا۔تو سب اہل حرم رو رو کے کہتے تھے۔ بیت
 ناشاد ہیں ایسے کہ کبھی شاد نہ ہوں گے
 زندان سے یقین ہے کہ ہم آزاد نہ ہوں گے
نظم
طول اتنا کھینچا قید کو پرساں نہیں کوئی
بےدیں ہیں لعیں صاحب ایمان نہیں کوئی
رانڈوں کے رہا ہونے کا ساماں نہیں کوئی
اس ظلم وستم پہ بھی پشیماں نہیں کوئی
راتوں کو تھا فریا کا غل نوحہ گروں میں
آرام سے پر سوتے تھے سب اپنے گھروں میں
جبرئیل امیں نے جسے جھولے میں جھلایا
اس شاہ نے گور وکفن ابھی تک نہیں پایا
رن میں تن بے سر رہا سر شام میں آیا
نیزے پہ اسے شہر کی گلیوں میں پھرایا
کس طرح  زیارت کریںزنداں سے نکل کے
لٹکایا ہے دروازے پہ ظالم نے محل کے
یہ کہتے تھے اور روتے تھے ناموس پیمبرؑ
تھا فرش فقط خاک کا تکیہ تھا نہ بستر
بچوں کو نہ کھانا تھا نہ پانی تھا میسر
سایہ بھی نہ تھا دھوپ میں سب جلتے تھے دن بھر
ہر شام مصیبت تھی غریب الوطنی میں
 ہو جاتی تھی رانڈوں کو سحر سینہ زنی میں
 یہ تکلیف واذیت سہتے سہتے اہل بیت اطہار کے جسم ایسے لاغر ہو گئے تھے کہ اٹھنا بیٹھنا دشوار ہو گیا تھا۔ نظم
 تھی بھوک سے اور پیاس سے ازبسکہ نقاہت
پہچانی نہ جاتی تھی کسی بی بی کی صورت
چپکے درودیوار کو تکتے تھے بحسرت
زائل ہوئی ان رانڈوں سے رونے کی بھی طاقت
کچھ فرش نہ تھا خاک میں جسم ان کے اٹے تھے
سینے تھے کبود اور گریبان پھٹے تھے
 جناب سید الساجدینؑ کو تو بخار کی شدت  کے سبب ایسا ضعف طاری تھا کہ کروٹ لینا بھی مشکل تھا۔
آٹھ بیٹھے تو افسوس سے رو رو کے ملے ہاتھ
لیٹے تو رکھا تکیہ کی جا سر کے تلے ہاتھ
رہنے نہ دیا طوق نے گر سر کو جھکایا
پہروں سر زانو سے نہ گردن کو اٹھایا
ہوش آیا تو بہنوں کو قریب اپنے بلایا
منہ چوم کے چھاتی سے سکینہؑ کو لگایا
نزدیک ہلاکت تھی جو دوری پدر سے
کبرےٰ کی طرف دیکھ کے کی آہ جگر سے
 اور جب زندان کے نگہبان ان کے لیے آب وغذا  لاتے تو زندان میں اک حشر برپا ہو جاتا تھا۔ ہر بی بی شہدائے کربلا کو یاد کرکے اس طرح روتی تھی،جس طرح میت کی حاضری کا کھانا روز وفات آتا ہے۔ بیت
 اس کھانے سے منہ آنسوئوں سے دھوتے تھے قیدی
سر پیٹتے تھے ہاتھوں سے اور روتے تھے قیدی
نظم
کہتی تھی کوئی ہائے بہن صدقے برادر
کس بھوک میں اور پیاس میں تن پر سے کٹا سر
چلا کے کوئی کہتی تھی ہائے ہائے علیؑ اکبرؑ
دو دن نہ تمہیں آب وطعام آیا میسر
کس رنج میں دنیا سے سفر کر گئے بیٹا
کھانا میں کھلائوں کسے تم مر گئے بیٹا
کہتی تھی کوئی پیٹ کے ابن حسنؑ آئو
سمجھاتے ہیں کھانا نہیں کھاتی دلہن آئو
زنداں میں تڑپتی ہے وہ تشنہ دہن آئو
ماں صدقے ہو اے قاسم گل پیراہن آئو
تم بھوکے تھے اس غم سے یہ مر جائے گی واری
تم کھائو گے پہلے تو یہ ماں کھائے گی واری
 یہ سن کر وہ آب وغذا لانے والے ملازمین کہتے تھے کہ یا الہیٰ یہ کیسے قیدی ہیں کہ نہ کھانے کی پرواہ اور نہ پانی کی چاہ۔کئی روز کے بعد کھانا ملتا ہے۔تب بھی رغبت نہیں کرتے۔پھر بیمار امامؑ اور جناب فضہ سے کہتے تھے کہ یہ آب وغذا لے لو،ورنہ یہ بھی نہ ملے گا۔آخر جناب زینبؑ خود ناچار ہو کر فرماتی تھیں: نظم
اس رسم کو تو جانتا ہے سارا زمانہ
میت کو اٹھا لیتے ہیں تب کھاتے ہیں کھانا
نے دفن کو ہو سکتے ہیں ہم یاں سے روانہ
نے فاتحہ کو کچھ ہے شہیدوں کے ٹھکانہ
ظاہر ہے خدا پر ہمیں جس طرح کے غم ہیں
چہلم کے دن آپہچے اور قید میں ہم ہیں
گو پیاسے ہیں پر ہم ابھی پانی پئیں کیوںکر
 سب تشنہ دہن تیغ ستم سے ہوئے بے سر
افسوس کہ اتنا نہ ہوا ہم کو میسر
منہ ڈھانپتے شربت پہ بھی جو فاتحہ دے کر
کیا کھانے کو کھائیں کسے فرصت ہے بکا سے
آنکھوں تلے پھرتے ہیں وہ بھوکے پیاسے
الغرض وہ ملازمین اصرار کرکے کھانا رکھ جاتے تھے۔ اور ان کے درد وغم کے تمام حالات یزید سے بیان کرتے تھے۔اسی اثنا میں ہند نے ایک روز خواب میں دیکھا کہ محل کے تمام دروازے کھلے ہوئے ہیںاور فرشتے جوق در جوق روتے پیٹتے آسمان سے اتر کے اس حجرے میں جمع ہوتے ہیں،جہاں سب سے الگ طشت طلا میں ایک سر رکھا ہے۔اور گریہ و  بکا کرتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ اے رسول خدا کے دل کے چین ملعونوں نے آپ کی قدر نہیں کی۔اور آپ کو بھوکا پیاسا قتل کیا۔اور آپ کے اہل حرم کو زندان میں قید کر دیا۔۔۔ نظم
 یہ کہتے ہیں اور کرتے ہیں زاری وہ فرشتے
جو ابر سفید اتنے میں اک اترا فلک سے
اس ابر میں کچھ مرد ہیں اور بیچ میں ان کے
اک شخص ہے بے تاب جگر ہاتھوں سے پکڑے
عمامہ نہ سر پر ہے نہ کندھے پہ عبا ہے
منہ آنسوئوں سے تر ہے گریبان پھٹا ہے
چہرہ ہے کہ شرمندہ ہو خورشید درخشاں
 سنبل کی طرح دوش پہ گیسو ہیں پریشان
پہنچا جو قریب سر شبیرؑ وہ نالاں
یوں کہنے لگا چوم کے اس کے لب ودندان
کس طرح نہ ٹکڑے دل محبوب خدا ہو
نانا تری مظلومی پہ شبیر فدا ہو
جس دن سے پھرایا ہے ترے حلق پہ خنجر
مرقد سے اسی روز سے نکلا ہوں میں باہر
مادر بھی تیری پیٹتی ہے کھولے ہوئے سر
بے تاب ہے بابا بھی تیرا اے میرے دلبر
روتا ہے حسنؑ نالہ وفریاد وفغاں سے
سب پیٹتے آئے ہیں ترے غم میں جناں سے
یہ حال نظر آیا پیمبرؑ کا جو اک بار
تھرا گیا دل ہند ہوئی خواب سے بےدار
سر پیٹتے آئے تھے جہاں احمدؑ مختار
اس حجرے میں دوڑی گئی بادیدہ خونبار
دیکھا کہ لگن میں سر شبیرؑ دھرا ہے
اور تا بہ فلک روشنی نور خدا ہے
پہچان لیا خون بھری شبیرؑ کی صورت
بے ساختہ اک دل میں اٹھا جوش محبت
اس سر پہ گری رو کے وہ باصد غم وحسرت
کہتی تھی کہ اے دلبر خاتون قیامت
جیتا ہمیں قسمت نے نہ اک بار دکھایا
جب مر گئے تب آخری دیدار دکھایا
تقدیر نے حضرت کے تھا جو گھر سے نکالا
 مشتاق میں اس دن سے تھی یا سید والا
کس نے سر وتن میں ترے یہ تفرقہ ڈالا
اس ظلم کا کیا کوئی نہ تھا پوچھنے والا
کیوں آتے نبیؑ چاک گریبان مرے گھر میں
 اب مجھ پہ کھلا آپؑ ہیں مہماں میرے گھر میں
اس وقت سر حسینؑ نے اعجاز سے فرمایا کہ اے ہند یزید لعین نے مجھےناحق قتل کرایا۔زینبؑ وکلثوم کو زندان میں قید میں رکھا۔ہند نے یہ سنا تو یزید کی تلاش میں چلی،اور محل کے حجروں میں ڈھونڈتی ہوئی ایک تاریک حجرہ میں پہنچی،وہاں وہ ملعون غم ناک پڑا ہوا۔ بیت
کہتا تھا کہاں منہ کو چھپائوں میں نبیؑ سے
محجوب ہوں قتل حسینؑ ابن علیؑ سے
نظم
سن کر یہ سخن ہند گئی حجرے کے اندر
رو کر کہا کیا قہر کیا تونے ستم گر
یہ خواب ابھی دیکھ کے میں اٹھی ہوں مضطر
گھر میں مرے سر پیٹتے آئے ہیں پیمبرؑ
مخدومہ عالم کا سر پاک کھلا تھا
اور احمد مرسل کا گریبان پھٹا تھا
محبوبؑ الہیٰ تری کرتے تھے شکایت
 شاکی ترے کردار سے تھے شاہ ولایت
زہراؑ تھیں ستم سے ترے بےزار نہایت
اب حشر کے دن کس سے تو چاہے گا شفاعت
احمدؑ کا کیا ترک ادب کیا کیا تونے
کاٹا سر شبیرؑ غضب کیا کیا تونے
قیدی ہیں کہاں اہل حرم اوستم ایجاد
شہزادیاں کرتی ہیں کہاں نالہ وفریاد
ہیں طوق وسلاسل میں کہاں حضرت سجاد
کر بہر خدا قید سے جلد انہیں آزاد
گر جانتی رونے کا ہے شور اہل حرم میں
 ساتھ ان کے میں سر پیٹتی زندان ستم میں
آگاہ نہ تھا فاطمہ کی بیٹیوں سے کیا
 کچھ زینبؑ وکلثومؑ کے رتبے کو نہ سمجھا
 تونے جو انہیں قید کیا بھوکا پیاسا
 واللہ ہوئی فاطمہؑ کی روح کو ایذا
 صدمہ ہے نواسے کا رسولؑ عربی کو
 زینبؑ کی اسیری سے  نہیں چین کسی کو
 اس نے کہا نادم ہوں ہوئی اب تو یہ تقصیر
 پر کیا کروں اب کٹ تو چکا ہے سر شبیرؑ
 سر شرم سے زانو پہ جھکا کی جو یہ تقریر
 تاصبح رہا سوچتا وہ ظالم وبے پیر
اک بار دیا حکم یہ دربار میں جا کر
زندان سے آئو گرفتاروں کو جا کر
 اس ملعون کا یہ حکم سنتے ہی ملازمین در زندان پر پہنچے اور نگہبانوں کو اطلاع دی،اہل حرم کو جب یہ معلوم ہوا کہ یزید نے طلب کیا ہے،ایک حشر برپا ہو گیا اور فرمانے لگے۔
 اب کام دوبارہ ہمیں بلوانے سے کیا ہے
سر ننگے ہمیں سارا جہاں دیکھ چکا ہے
 ہاں قتل ہی منظور ہے کرنا تو بجا ہے
 کس طرح چلیں سر پہ نہ برقع نہ ردا ہے
آگے نہ قدم ہم سے دھرا جائے گا یاں سے
اب مر کے ہی نکلیں گے زندان ستم سے
اب فاقوں سے واں جانے کی طاقت نہیں ہم میں
اب ضعف سے ہر قیدی کے لغزش ہے قدم میں
جنت کے مسافر ہیں یہ قیدی کوئی دم میں
 سجادؑ لب گور ہیں بابا کے الم میں
 جلاد کو بلوائو کہ چھٹیں رنج ومحن سے
 رانڈوں کی بھی ہو جائے جدائی سر وتن میں
 الغرض امام زین العابدینؑ  علیہ السلام کے ارشاد فرمانے سے اہل حرم دربار یزید میں آئے
نظم
جس دم سر دربار حرم پہنچے کھلے سر
 اور سامنے حاکم کے گئے عابدؑ مضطر
بولا وہ لعیں مکر سے تعظیم کو اٹھ کر
 مسند پہ قدم رکھیے میری نائب حیدر
 عابدؑ نے کہا تخت سے کیا کام ہے مجھ کو
 اب خاک نشینی ہی میں آرام ہے مجھ کو
 یہ جواب سن کر وہ ملعون پشیمان ہوا اور جناب زینبؑ سے کہنے لگا نظم
 زینبؑ سے یہ کہنے لگا مکار وہ اظلم
 اے بنت علیؑ دختر مخدومہ عالم
فی الواقعہ بھائی کا نہایت ہے تمہیں غم
 مقبول میرا عذر ہو نادم ہوں میں اس دم
بے جرم کٹا حلق حسینؑ ابن علیؑ کا
 جو مانگو وہ دوں خون بہا سبط نبیؑ کا
یہ سنتے ہی تھرانے لگی زینبؑ مضطر
 سینے میں کلیجے پہ لگا ظلم کا خنجر
 رو رو کے یہ فرمایا کہ خاموش ستم گر
میں کون ہوں جو لوں دیت خون برادر
قیدی ہوں گنہگار ہوں نالاں وحزیں ہوں
 واللہ میں اس خون کی مختار نہیں ہوں
اس خون کے حقدار ہیں خود احمد مختارؑ
اس خون کے طالب ہوں تو ہوں حیدر کرارؑ
یا حشر کے دن ہوئوئے گی ماں اس کی طلب گار
یا خالق اکبر سے ہے اس خون کا سروکار
کیوں ذبح کیا سبط رسولؑ عربی کو
اس خون کی دیت دیجیو زہراؑ وعلیؑ کو
تقریر سے زینبؑ کے جو محجوب ہوا وہ
 بولا کہ رہا میں نے کیا قید سے تم کو
اسباب ضروری جو تمہیں چاہیو لے لو
 اس وقت کہا زینبؑ دل گیر نے رو رو
 نے مال نے اسباب نہ زر چاہیے مجھ کو
بچھڑی ہوئی ہوں بھائی کا سر چاہیئے مجھ کو
 جناب زینبؑ سے یہ سن کر اس ملعون نے سر امامؑ منگایا۔وارث کا سر دیکھ کر اہل حرم میں ایک قیامت برپا ہو گئی۔ نظم
سر دوڑ کے اس طشت سے زینبؑ نے اٹھایا
رو رو کے بلائیں لیں آنکھوں سے لگایا
بوسہ دیا حلقوم پہ اور رو رو کے سنایا
دیکھوں تجھے کن آنکھوں سے اس آن حسیناؑ
 زینبؑ تری مظلومی پہ قربان حسیناؑ
سجاد سے فضہ نے کہا اے مرے مولا
 اب زاری زینبؑ سے تو پھٹتا ہے کلیجہ
بھائی کے الم میں نہیں ہوش ان کو ہے اصلا
لے لیجیے اب ان سے سر اب سبط نبیؑ کا
 حکم آپ کا ٹالیں گی نہ اصرار کریں گی
سر بھائی کا دے دیں گی نہ انکار کریں گی
 الغرض امام زین العابدینؑ نے اپنی پھو پھی کو تسلی ودلاسا دیا۔ اور اپنے پدر بزرگوار کا سر لے لیا۔اس کے بعدیزید ملعون نے سب تبرکات اور شہدا کے سر منگائے۔جن کو دیکھ کر اہل بیت رسولؑ نے گریہ وزاری شروع کی۔نظم
دربار میں اک شور قیامت ہوا ظاہر
بس رونے لگے دیکھ کے سب شام کے کافر
حاکم نے یہ کی سید سجادؑ کی خاطر
 کہنے لگا اسباب سفر کرتا ہوں حاضر
 لے کے حرم شاہ کو اب جائو وطن کو
اور دفن کرو سید مظلومؑ کے تن کو
 الغرض جب امام زین العابدینؑ کو رخصت کیا تو وہ ہادی کونین اہل بیت اطہار کو لے کر کربلا اور وہاں سے مدینہ منورہ کی طرف چلے۔یزید نے بشیر ابن جزلم کو اہل بیت اطہار کے ہمراہ کر دیا تھا۔ نظم
 لکھا ہے حرم قید سے جب چھوٹ کے آئے
ہاتھوں پہ ہائے لیے شہیدوں کے سر آئے
روتے ہوئے چلاتے ہوئے چشم تر آئے
میداں میں جو وہ اس شکل سے نوحہ گر آئے
اک حشر ہوا نوحہ ناموس نبیؑ کا
مقتل بھی لرزتا تھا حسین ؑ ابن علیؑ کا
تا عرش ہوا پھر سے بپا ماتم شبیرؑ
پھر بیوائوں کی آہوں کے چلے سوئے فلک تیر
خون رو رو کے برسانے لگا پھر فلک پیر
پھر جن وملک سکتے میں ہیں صورت تصویر
 کعبہ میں پڑا غلغلہ شور وبکا کا
پھر روضہ لگا کانپنے محبوبؑ خدا کا
 راوی کہتا ہے کہ کربلا میں پہنچ کر اہل بیت اطہار نے یوں فریاد وفغاں کی،گویا معرکہ کربلا ان کی نظروں میں از سر نو پھر رہا ہو۔حضرت زینبؑ یہ بین فرماتی تھیں،نظم
آئے تھے دوسری کو محرم کی کس کے ساتھ
خیمے بپا ہوئے تھے برابر لب فرات
اترے تھے جب تو روکی تھی عباسؑ نے قنات
تاکید تھی پکار کے کوئی کرے نہ بات
ہے ہے وہ پردہ دار ہمارے کدھر گئے
بے پردہ ہو کے آل نبیؑ در بدر گئے
مقتل کے آس پاس تھا اک حشر بے گمان
زینبؑ جبیں لحد پہ دھرے کرتی تھی بیان
اے مرے کربلا کے مسافر شاہ زمان
ہمشیر تین دن سے تمہاری ہے مہمان
 اللہ میری بات بھی پو چھی نہ آپؑ نے
کیا گزری واردات بھی پوچھی نہ آپ نے
 الغرض جناب زین العابدین ؑ نے امام مظلوم ؑ کا جسم اطہر دفن فرمایا،اور تمام شہدا ٰ کی تجہیز وتکفین کی۔
پھر اہل بیت اطہار نے دوبارہ ماتم برپا کیا۔ اور جناب علیا زینبؑ نے نظم
مثل چراغ گور غریبان پہ دل جلائے
پھولوں کے بدلے قبروں پہ لخت جگر چڑھائے
پیاروں کی بود وباش کے ساماں جو یاد آئے
بے ساختہ پکاری کلیجہ پکڑ کے ہائے
اب کس کے ساتھ داخلہ کربلا ہوا
لایا تھا جو مدینہ سے ہم کو وہ کیا ہوا
چہلم تو کر چکی میں دلفگار یا حسینؑ
اب روضہ کس طرح سے ہو تیار یا حسینؑ
 بیٹا بھی اور بہن بھی ہے نادار یا حسینؑ
آخر کبھی تو آئیں گے زوار یا حسینؑ
تکیہ ہے کار سازی پروردگار پر
اس دم تو سائبان بھی نہیں ہے مزار پر
حضرتؑ کی قبر ہل گئی زینبؑ کے بین سے
آکر کہا بشیر نے ابن حسینؑ سے
شہزادے جاں بلب ہے پھوپھی شور وشین سے
 چلیئے وطن کو قبر شاہ مشرقینؑ سے
عابد نے پو چھا کیوں پھوپھی اماں قبول ہے
وہ بولیں ا ختیار ہے کیا ہاں قبول ہے
 الغرض جناب زینبؑ بھائی کی قبر سے رخصت ہوئیں اور فرمایا ،نظم
اے کربلائے سید دلگیر الوداع
اے قتل گاہ حضرت شبیرؑ الوداع
اے قبر ابن صاحب تطہیر الوداع
اے بھائی جان جاتی ہے ہمشیر الوداع
کیا بد نصیب ہے یہ نواسی ؑ رسولؑ کی
تم نے مجاوری بھی نہ جس کی قبول کی
بھیا اٹھو کجاوے میں مجھ کو تمہیں بٹھائو
بھیا میں بے نقاب ہوں راہ گیروں کو ہٹائو
روکیں قنات اکبرؑ وعباسؑ کو بلائو
خالی ہے گود بھابھی کی اصغرؑ کو لیتے آئو
سردار سارے قافلے کے آگے ہوتے ہیں
تیار کارواں ہوا اور آپ سوتے ہیں
کب سے تمہیں پکار رہی ہوں میں خستہ تن
 ہے ہے جواب بھی نہیں دیتے شاہ زمن
بھیا گلے لگائو تو جائوں سوئے وطن
آئی ندا سدھارو خدا حافظ اے بہن
صغریٰ کو میری سمت سے بھی پیار کیجیو
ہو گا ثواب خاطر بیمار کیجیو
لے کر بلائیں قبر کی بولیں وہ سوگوار
اس پیار کے نثار اس آواز کے نثار
تسلیم کی لحد کو پھری گرد سات بار
جی تو نہ چاہتا تھا پہ جبرا" ہوئی سوار
 جب تربت حسینؑ کی غربت نظر پڑی
ناقہ پہ کتنی بار چڑھی اور اتر پڑی
 شیعوں میں بے سبب نہیں یہ شور وشین ہے
 زہراؑ شریک بزم عزائے حسینؑ ہے
مصروف آہ روح شاہ مشرقین ہے
 سبط نبیؑ کے غم میں بکا فرض عین ہے
چہلم ہوا تمام شاہؑ مشرقین کا
دو فاطمہؑ کو آخری پرسا حسینؑ کا
 الغرض اہل بیت اطہار کا قافلہ شہدائے کربلا سے رخصت ہو کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا۔
مطلب دلی وزیر کا یا شاہ روا ہو
اور صحن مقدس میں مرے دفن کی جا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا

﷽ انتیسویں مجلس امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا  اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو واللہ ناامید کے دل کو امید ہو  اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت  دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی نظم پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے  اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں ہمس...

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...