Skip to main content

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا



انتیسویں مجلس
امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا
 اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو
واللہ ناامید کے دل کو امید ہو
 اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت
 دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی
یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی
نظم
پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے
سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے
 اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے
ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے
اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو
گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو
خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار
کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار
جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار
جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار
بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں
ہمسایہ میرا ہو گا وہ فردوس بریں میں
اے مومنو اس بزم کے رتبہ کی نہیں حد
مشکور محمدؑ سے لگا تا بہ محمدؑ
مجلس میں کرو سعی تو رونے میں کرو کد
 سوچو تو عمل ہوتے ہیں کیا کیا نہیں سرزد
گر ہے سبب عفو جرائم تو یہی ہے
کیا وسعت دامان حسینؑ ابن علیؑ ہے
 اللہ اللہ کیا مرتبہ ہے مجلس عزائے امامؑ مظلوم کا، درحقیقت حسینؑ مظلوم کی مصیبت ایسی ہی مصیبت ہے،جس کی انتہا نہیں۔آدم سے اس وقت تک کسی پر ایسی مصیبت نہیں گزری،کسی انسان کے لیے ممکن نہیںکہ اس قلزم ناپیدا کنارے سے با آسانی عبور کر سکے۔سبحان اللہ کیا مرتبہ ہے پیش خدا ہمارے امام مظلوم ؑ کا کہ بیت
دیئے سات اس کو بیٹے جس کی قسمت میں نہ تھا ایک بھی
دعائے شاہ دیں سے قسمت پھرتی ہے
چنانچہ راویا ن  صدق گفتار اس طرح تحریر فرماتے ہیں کہ راہ شام میں ایک قریہ ہے، بعلبک،وہاں جناب رسالت مآبؑ کے زمانے میںایک راہب رہتا تھا۔کہ جس کے کوئی فرزند نہ تھا۔ وہ ہمیشہ اسی غم والم میں سرگشتہ وپریشان رہتا تھا۔ایک روز اس کے دل میں آیا کہ مدینہ چل کر محبوبؑ خدا سے عرض مدعا کروں۔شاید آپ کی دعا سے میرا  نخل تمنا جو مرجھایا ہوا ہے۔سر سبز وشاداب ہو کر بار ور ہو جائے۔القصہ یہ سوچ کر وہ سعید ازلی اپنے گھر سے چل کر سرکار دو عالم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نظم
آیا غرض مدینہ میں پیش نبیؑ پاک
دست الم سے جیب قبا تا بہ سینہ چاک
کی عرض یوں رسولؑ سے تم نور ہو میں خاک
ظاہر میں تو میں  شاد ہوں پر دل میں دردناک
کلمہ پڑھا کے دل کو میرے شاد کیجیے
 بعد اس کے پھر عطا مجھے اولاد کیجیے
 یہ سن کر جناب پیغمبر خدا نے شاداں وخنداں ہو کر اس راہب کو شرف اسلام سے مشرف فرمایا،اور دعا کا ارادہ کیا۔ کہ دفعتہ" جناب جبرائیل نازل ہوئے،اور بعد درود  و سلام کے عرض کی کہ یا محمدؑ خدائے کریم  ارشاد  فرماتا ہے کہ اس راہب کے لیے اولاد کی دعا نہ کیجیے،کیونکہ ہماری مشیت میں اس راہب کے لیے فرزند نہیں ہے۔یہ خبر سن کر پیغمبرؑ خدا نہایت مخزون و غمگین ہو ئے فکر وتردد میں غوطہ زن تھے کہ بیت
شبیرؑ آگئے در مسجد سے ناگہاں
آداب عرض کر کے لگے کرنے یہ بیان
 اے نانا جان اس وقت آپؑ  کا چہرہ اقدس کیوں مضمحل ہے۔؟ شاید کچھ ملال ہے۔ بیت
کچھ بات کیجیے مرا دل شاد کیجیے
رنجیدہ کیوں ہیں آپؑ یہ ارشاد کیجیے
نظم
بولے نبیؑ کہ کچھ نہیں اے میرے مہہ لقا
لیکن ہوا بضد جو وہ شہنشاہ کربلا
راہب کی سمت دکھ کے بولے شاہ ہدیٰ
اس کے لیے میں کرتا تھا اولاد کی دعا
تاثیر اس کے نالہ شب گیر میں نہیں
ثابت ہوا کہ امر یہ تقدیر میں نہیں
 جب سرور کائنات نے امام مظلوم سے یہ فرمایا،تو چہرہ مبارک جناب سید الشہداؑ کا مثل آفتاب عالم تاب سرخ ہو گیا۔اور بصد خشوع وخزوؑ ع دست مناجات درگاہ قاضی الحاجات میں بلند فرما کر عر ض کرنے لگے،کہ اے پروردگار عالمیان اس راہب کو خاندان نبوت سے محروم واپس نہ کرنا۔پھر اپنے نانا کی خدمت میں عرض کی،نظم
ناناؑ یہی ہے آپ کی تشویش کا سبب
لو ہم نے اک پسر دیا اس کو بصد طرب
بولے نبیؑ خموش نہیں ہے رضائے رب
شاہ نے کہا دو لال دیئے ہم نے اس کو اب
بولے رسولؑ کہتے ہو کیا بے دعا کیے
 شاہ بولے سہ پسر اسے ہم نے عطا کیے
مانع ہوئے رسولؑ خدا پھر جو ایک بار
بولے حسینؑ خامس آل عبا کہ چار
اس دم ہوا نبیؑ کو شش وپنج بے شمار
شاہ نے کہا کہ پانچ دیئے اس کو گلعذار
بخشش چھٹے پسر پہ ہوئی جب کہ شاہؑ کی
اک شش جہت میں دھوم ہوئی واہ واہ کی
 القصہ پیغمبرؑ خدا جس قدر منع کرتے تھے،اسی قدر جناب سید الشہداؑ ہر بار ایک اضافہ فرماتے تھے۔حتیٰ کہ نوبت سات فرزندوں کی پہنچی۔اس وقت پھر جبرائیل بصد تعجیل بحکم خدائے کون ومکان جناب رسولؑ مقبول کی خدمت  با برکت میں آئے۔اور عرض کی کہ یا نبیؑ اللہ پروردگار عالم بعد تحفہ درود وسلام ارشاد فرماتا ہےکہ   ہمارے فدیہ حسینؑ سے تکرار نہ کیجیے،کیونکہ یہ تمام کائنات  سے میرے نزدیک برگزیدہ ہے۔آپ بھی واقف ہیں کہ یہ حسینؑ تین روز کا بھوکا پیاسا میری راہ میں مع اصحاب واقربا میدان کربلا میں قتل کیا جائے گا۔لہذاٰ اس کی خاطر مجھ کو ہر طرح منظور ہے۔اگر حسینؑ ستر فرزند عطا کرے تو ہم عطا کریں گے۔ نظم
کھا کر قسم جلال کی کہتا ہے ذوالجلال
پیارا ہے اس قدر ہمیں خیر النساؑ کا لال
شبیرؑ بخشے جائے تو یونہی ہزار سال
اس نیر علیؑ کو نہ ہو گا کبھی زوال
راہب کو جو حسینؑ دلائے وہ بخش دوں
بخشے اگر حسینؑ خدائی تو بخش دوں
 قربان ہوں ہماری جانیں ایسے آقا پر کہ جس کا پاس خاطر خدا وند کریم کو اس قدر ہو کہ اپنے محبوب کو تو دعا سے باز رہنے کا حکم دے۔اور حسینؑ کی عرضداشت مقبول ومنظور فرمائے۔ نظم
پیٹو محبو اب کہ یہ ہے پیٹنے کی جا
تھی خاطر حسینؑ یہ کچھ پیش کبریا
محتاج یک پسر کو دیئے سات مہہ لقا
اور آہ کربلا میں عجائب ستم ہوا
مقتول ظلم شاہ خوش اقبال ہو گئے
بیٹے بھتیجے گھوڑوں سے پامال ہو گئے

 الغرض جس وقت جبرائیل امین یہ خبر فرحت اثر لائے،تو جناب رسالتمآب نے نہایت مسرور وبشاش ہو کر فرمایا کہ خوشا نصیب تیرا اے راہب کہ تو بطفیل حسینؑ ابن علیؑ سات بیٹوں کا باپ ہوا۔یہ خبر سنتے ہی راہب سرور کائنات کے گرد سات بار پھرا۔پھر امام دوجہان مظلوم کربلا کی خدمت میں عرض کی کہ اے آقا دوجہان،اے غریبوں کے مددگار،اے نا امیدوں کی امید گاہ غریب خانہ راہ شام میں ایک قریہ بعلبک میں واقع ہے۔اگر حضورؑ کو کبھی اس نواح کی طرف سفر کا اتفاق ہو،تو امید وار ہوں کہ قدوم میمنت لزوم سے کفش خانہ کی رونق افزائی فرمایئے گا۔جو اس گنہگار کے لیے باعث افتخار ہوگا۔ نظم
 یہ عرض کرکے اٹھا وہ خورسند وشادمان
رخصت ہوا رسولؑ خدا سے  بعز وشان
اور عرض کی حسینؑ سے یا شاہ دوجہان
اے شاہ دیں حریر وکتاں خوب ہے وہاں
امید ہے کہ دل کو میرے شاد کیجیے
مرغوب طبع ہووئے تو ارشاد کیجیے
 یہ سن کر امام مظلومؑ نے فرمایا،کہ اے راہب ہم وعدہ کرتے ہیں،کہ ایک روز مع عزیز واقربا تیرے گھر ضرور بالضرور آئیں گے۔اور شب کی شب مہمان ہو نگے۔لیکن وقت ایسا ہوگا کہ تجھ کو خورد ونوش کی کسی طرح تکلیف کی ضرورت نہ ہو گی۔ یہ سن کر راہب امام کے قدموں پر گر پڑا،اور عرض کی کہ اے آقا اس میں تو ہم چشموں اور ہم وطنوں میں غلام کی انتہائی ہتک ہو گی۔تو حضرت نے فرمایا کہ جب تو ہمارا دوست ہے۔تو خیال کر کہ کوئی شخص اپنے دوست کی ذلت چاہے گا۔مگر جب موقع ہی ایسا ہوگا تو خود بھی تو میرے اس قول کو تسلیم کرے گا۔ نظم
 راہی ہوا یہ سن کے غرض وہ سوئے عراق
اور بعد چند سال ہوا یاں یہ اتفاق
میدان کربلا کا ہوا شاہ کو  اشتیاق
تنگ آگئے امام ہدیٰ اپنے جینے سے
 گرمی میں نکلے سبط پیمبرؑ مدینے سے
وہ راستہ وہ دھوپ وہ اطفال خوردسال
ہر کوچ میں ہوا پسر فاطمہؑ نڈھال
ہر ایک قدم پر زینبؑ مضطر کا تھا خیال
گردوں کی سمت دیکھ کے کرتے تھے یہ مقال
سہل است گر رود سرمن بر سر سنین
زینبؑ اگر اسیر شود وائے بر حسینؑ
زینبؑ یہ رو کے کہتی تھی اے شاہ نیک خو
بھیا یہ بار بار زباں سے نہ تم کہو
بھینا نثار ناد علیا" ولی پڑھو
اکبرؑ پہ دم کرو علیؑ اصغر پہ دم کرو
امید ہے یہی مجھے خالق کی ذات سے
زینبؑ سپرد خاک ہو بھائی کے ہاتھ سے
یہ سن کر جناب سیدؑ الشہدا  فرماتے تھے، کہ اے بنت مرتضےٰؑ لخت دل فاطمہؑزہرا جو کچھ کہ نوشتہ تقدیر ہے۔ وہ ہو کے رہے گا۔یعنی یہ مظلوم بہ ظلم وستم فرقہ کفار کے ہاتھ سے شہید ہوگا۔اور تم بے ردا ہو گی۔اے بہن اس سال محرم کا مہینہ ہم پر پورا نہ گزرے گا۔یہی گفتگو بہن بھائی میں ہوتی جاتی تھی۔کہ امام حسینؑ دوسری محرم کو اپنے وعدہ گاہ پر پہنچے،اور ساتویں تاریخ سے فوج اشقیا نے پانی بند کر دیا۔اور دسویں محرم کو بعد شہادت یاور انصار امام حسینؑ عازم میدان کار زار ہوئے۔اس وقت جناب سکینہؑ کی بے تابی اور بےقراری کیا عرض کروں۔کہ اپنے پدر بزرگوار کی گردن میں چھوٹی چھوٹی باہیں ڈال کر عرض کرنے لگیں کہ اے بابا اب تو میری ساری حسرتیں خاک میں ملتی ہیں۔امیدیں منقطع ہوئی جاتی ہیں۔خیر مرضی الہیٰ میں کوئی چارہ نہیں ہے۔ مگر آپ نے اس بیٹی کو ابتدا سے چھاتی پر سلانے کا عادی کر لیا ہے۔ وقت رخصت اخیر اگر تھوڑا سا توقف فرمائیں،اور ذرا دیر کے وا سطے لیٹ جائیں،تو سینے سے لپٹ کر یہ ناشاد اپنے دل کی آرزو پوری  کرلے۔ہائے واویلا حسینؑ مظلوم کو اسقدر فرصت نہ تھی،کہ بستر پر استراحت فرمائیں،اسی مقام پر بروئے خاک لیٹ گئے۔اور حضرت سکینہ  ؑ کو سر اقدس پر لٹایا۔جس وقت یہ حال حضرت زینبؑ وکلثومؑ نے دیکھا کہ وہ گوشوارہ عرش الہیٰ خاک پر لیٹا ہے۔اپنا سر وسینہ پیٹنے لگیں۔جناب امام حسین علیہ السلام نے ہر ای بی بی سے فرمایا کہ آج سے ہم کو یہی بستر پسند آیا ہے۔الغرض حضرت سکینہ  ؑ کو سینہ اقدس پر لٹا کر فرمایا نظم
 نور دیدہ اے سکینہؑ ہم کہاں اور تم کہاں
لاڈلی بس کر لو باتیںپھر سخن باہم کہاں
دم کا مہماں ہے تمہارا باپ پھر یہ دم کہاں
پھر خدا جانے تمہیں لے جائیں  نا  محرم کہاں
وعدہ کرتے ہیں کہ ہم بی بی کو لینے آئیں گے
آن کر زندان سے تم کو جلد ہی لے جائیں گے
القصہ سینہ ء اقدس سے سکینہؑ کو اتار کر حضرت زینب ؑ کی گود میں دیا،اور سب کو تسلی ودلاسا دے کر رخصت ہوئے،اور میدان کارزار میں تشریف لائے،اور ظالموں نے اس مسافر یکہ وتنہا کو اس قدر مجروح کیا،کہ تاب وتواں نے جواب دے دیا۔ اور حضرت ؑرو بقبلہ زمین پر تشریف لائے۔اب کس زبان سے عرض کروں۔افسوس صد افسوس امامؑ نے سر سجدہ معبود میں رکھا تھا کہ شمر ملعون نے سر اقدس تن سے جدا کر دیا۔اور اہل بیت اطہار  کو لشکر جفا کار نے شتران بے کجاوہ پر بٹھا کر عابدؑ بیمار کو طوق وزنجیر پہنا کر جانب شام لے چلے کہ راہ میں سوگواران حسینؑ کا یہ قافلہ قصبہ بعلبک میں پہنچا،کہ جہاں وہ راہب دیندار مسکن گزین تھا۔جس کو امامؑ کی دعا کے سبب خدا وند کریم نے سات پسر عطا فرمائے تھے۔غرض اہل حرم جب آبادی کے قریب پہنچے تو نظم
سب اہل شام نکلے تماشے کو جا بجا
وہ راہب جحستہ سیر بھی تھا واں کھڑا
مولا نے سات بیٹے کیے تھے جسے عطا
دیکھا جو اس نے نیزہ پہ سر شاہؑ کا تو کہا
مقبول بارگا ہ خدائے انام ہے
کیا جانے یہ رسولؑ ہے یا امامؑ  ہے
 راہب یہ سوچتا ہوا نیزہ خولی کے پاس آیا۔کیا دیکھا کہ لب مبارک جنبش میں ہیں۔یہ دیکھ کر راہب متعجب ہوا،اور کان لگا کر سنا تو معلوم ہوا کہ وہ سر اقدس سور ۃکہف کی تلاوت فرما رہا ہے۔ اس وقت راہب، نظم
پڑھتا ہوا درود چلا پھر وہ نیک خو
آکر قریب اہل حرم کی یہ گفتگو
کچھ اپنی سر گزشت کہو مجھ سے مو بمو
کیوں بال کھولے پیٹتے ہو کون ہے عدو
بتلائو صاف صاف کہ رنج وتعب ہے کیا
باشندے کس جگہ کے ہو نام ونسب ہے کیا
بیووں نے سر جھکا لیے طاری ہوئی حیا
تب ساربان آل پیمبرؑ نے دی صدا
یہ اپنی سر گزشت کہیں آہ تجھ سے کیا
وہ دیکھ تازیانہ لیے شمر ہے کھڑا
گردش ہے ہم غریبوں کی خاطر زمانے کی
زخمی ہے پشت تاب نہیں درے کھانے کی
وہ بولا اب یہ کہیئے لٹے آپ کس طرف
 سجادؑ بولا قرب مزار شاہ نجفؑ
وہ بولا آہ مفت میں تم ہو گئے تلف
کیوں دی نہ صدا شیر خدا کو بصد شرف
بے شبہ جب پکارو وہ تشریف لاتے ہیں
مشکل میں آہ سب کے وہی کام آتے ہیں
ان کی بزرگیوں کی کروں شرح کیا بھلا
بیٹا حسینؑ نام ہے اک اس کا ذکر کیا
میں بھی عجب طرح کی آفت میں تھا پھنسا
میرا تو عقدہ دل بر حیدر نے وا کیا
کیا کیا نہ شرف کون ومکاں نے دیئے مجھے
اس در نے سات لال عنایت کیے مجھے
یہ سن کے تھر تھرا گئے بیمار کربلا
اہل حرم میں شور قیامت ہوا بپا
حیران ہو کے راہب دل خستہ نے کہا
 ہے یہ تو ماجرائے عجیب اے مرے خدا
رونے پہ ان سبھوں کے ترس کا مقام ہے
 شاید حسینؑ ان کے بھی وارث کا نام ہے
ابھی راہب اسی فکر وتردد میں تھا،کہ عمر سعد نے تجویز کی کہ سر امام حسینؑ کو آج کی شب امیر قریہ کے یہاں رکھوادو،کیونکہ میرے لشکر کے لوگ سفر کی صعبتوں سے بہت تھک گئے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ رات کو سو جائیں،اور شیعیان اہل بیت اطہار سر کو لے جائیں۔تو میری سب محنت بر باد ہو جائے گی۔اور یزید کو کیا جواب دوںگا۔راہب عمر سعد کی یہ گفتگو سن کر اس کے پاس آیا،اور تیس ہزار درہم دے کر سر حسینؑ لے لیا۔اور اپنے گھر لایا۔اور مشک وگلاب سے دھو کر ایک سجادہ ء نفیس پر رکھا۔اور نظم
پھر ہاتھ باندھ کر سر اقدس سے یہ کہا
اے سر تجھے ہے واسطہ شیر الہٰ کا
تو کس تن خجستہ سیر کا ہے سر بتا
کس جرم کس قصور پہ کاٹا گیا گلا
اتنا میں جانتا ہوں کہ اہل حشم ہے تو
اے سر مجھے بتا کہ عرب یا عجم ہے تویہ کلمہ سن کے
یہ کلمہ سن کے شاہ کا سر کانپنے لگا
سوکھے لبوں سے شکر کیا اور یہ کہا
میں وہ شہید ہوں جسے پانی نہیں ملا
دو دن کے بعد آب دم تیغ ہے پیا
ہوں وہ غریب خستہ کہ غربت برستی ہے
دو گز کفن کے واسطے میت ترستی ہے
میں ہوں وہ سر کہ نیزہ ظالم پہ بھی چڑھا
میں اس بدن کا سر ہوں کہ مدفوں نہیں ہوا
وہ خاکسار ہوں کہ ہے تن خاک پر پڑا
فرزند مرتضےٰ میں ہوں اور سبط مصطفےٰ
اک یہ بھی مرتبہ ہے کہ کل کا امام ہوں
میں ہی حسینؑ سبط رسولؑ انام ہوں
اے راہب تو بھول گیا،میں وہی حسینؑ ہوں۔کہ جس نے تجھ سے آنے کا وعدہ کیا تھا۔اور میں وہی حسینؑ ہوں کہ جس کی دعا سے تیرا باغ تمنا سر سبز وشاداب ہوا۔اور تونے سات بیٹے پائے۔میں اپنے وعدہ پر آیا ہوں۔اور تجھ سے وعدہ وفائی کی۔اب تو بھی اپنا وعدہ وفا کر۔یعنی دیبا وسنجاب کے بدلے ایک ایک چادر ہی میرے اہل بیت کو اوڑھا دے،نظم


انتیسویں مجلس
امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا
 اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو
واللہ ناامید کے دل کو امید ہو
 اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت
 دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی
یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی
نظم
پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے
سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے
 اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے
ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے
اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو
گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو
خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار
کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار
جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار
جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار
بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں
ہمسایہ میرا ہو گا وہ فردوس بریں میں
اے مومنو اس بزم کے رتبہ کی نہیں حد
مشکور محمدؑ سے لگا تا بہ محمدؑ
مجلس میں کرو سعی تو رونے میں کرو کد
 سوچو تو عمل ہوتے ہیں کیا کیا نہیں سرزد
گر ہے سبب عفو جرائم تو یہی ہے
کیا وسعت دامان حسینؑ ابن علیؑ ہے
 اللہ اللہ کیا مرتبہ ہے مجلس عزائے امامؑ مظلوم کا، درحقیقت حسینؑ مظلوم کی مصیبت ایسی ہی مصیبت ہے،جس کی انتہا نہیں۔آدم سے اس وقت تک کسی پر ایسی مصیبت نہیں گزری،کسی انسان کے لیے ممکن نہیںکہ اس قلزم ناپیدا کنارے سے با آسانی عبور کر سکے۔سبحان اللہ کیا مرتبہ ہے پیش خدا ہمارے امام مظلوم ؑ کا کہ بیت
دیئے سات اس کو بیٹے جس کی قسمت میں نہ تھا ایک بھی
دعائے شاہ دیں سے قسمت پھرتی ہے
چنانچہ راویا ن  صدق گفتار اس طرح تحریر فرماتے ہیں کہ راہ شام میں ایک قریہ ہے، بعلبک،وہاں جناب رسالت مآبؑ کے زمانے میںایک راہب رہتا تھا۔کہ جس کے کوئی فرزند نہ تھا۔ وہ ہمیشہ اسی غم والم میں سرگشتہ وپریشان رہتا تھا۔ایک روز اس کے دل میں آیا کہ مدینہ چل کر محبوبؑ خدا سے عرض مدعا کروں۔شاید آپ کی دعا سے میرا  نخل تمنا جو مرجھایا ہوا ہے۔سر سبز وشاداب ہو کر بار ور ہو جائے۔القصہ یہ سوچ کر وہ سعید ازلی اپنے گھر سے چل کر سرکار دو عالم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نظم
آیا غرض مدینہ میں پیش نبیؑ پاک
دست الم سے جیب قبا تا بہ سینہ چاک
کی عرض یوں رسولؑ سے تم نور ہو میں خاک
ظاہر میں تو میں  شاد ہوں پر دل میں دردناک
کلمہ پڑھا کے دل کو میرے شاد کیجیے
 بعد اس کے پھر عطا مجھے اولاد کیجیے
 یہ سن کر جناب پیغمبر خدا نے شاداں وخنداں ہو کر اس راہب کو شرف اسلام سے مشرف فرمایا،اور دعا کا ارادہ کیا۔ کہ دفعتہ" جناب جبرائیل نازل ہوئے،اور بعد درود  و سلام کے عرض کی کہ یا محمدؑ خدائے کریم  ارشاد  فرماتا ہے کہ اس راہب کے لیے اولاد کی دعا نہ کیجیے،کیونکہ ہماری مشیت میں اس راہب کے لیے فرزند نہیں ہے۔یہ خبر سن کر پیغمبرؑ خدا نہایت مخزون و غمگین ہو ئے فکر وتردد میں غوطہ زن تھے کہ بیت
شبیرؑ آگئے در مسجد سے ناگہاں
آداب عرض کر کے لگے کرنے یہ بیان
 اے نانا جان اس وقت آپؑ  کا چہرہ اقدس کیوں مضمحل ہے۔؟ شاید کچھ ملال ہے۔ بیت
کچھ بات کیجیے مرا دل شاد کیجیے
رنجیدہ کیوں ہیں آپؑ یہ ارشاد کیجیے
نظم
بولے نبیؑ کہ کچھ نہیں اے میرے مہہ لقا
لیکن ہوا بضد جو وہ شہنشاہ کربلا
راہب کی سمت دکھ کے بولے شاہ ہدیٰ
اس کے لیے میں کرتا تھا اولاد کی دعا
تاثیر اس کے نالہ شب گیر میں نہیں
ثابت ہوا کہ امر یہ تقدیر میں نہیں
 جب سرور کائنات نے امام مظلوم سے یہ فرمایا،تو چہرہ مبارک جناب سید الشہداؑ کا مثل آفتاب عالم تاب سرخ ہو گیا۔اور بصد خشوع وخزوؑ ع دست مناجات درگاہ قاضی الحاجات میں بلند فرما کر عر ض کرنے لگے،کہ اے پروردگار عالمیان اس راہب کو خاندان نبوت سے محروم واپس نہ کرنا۔پھر اپنے نانا کی خدمت میں عرض کی،نظم
ناناؑ یہی ہے آپ کی تشویش کا سبب
لو ہم نے اک پسر دیا اس کو بصد طرب
بولے نبیؑ خموش نہیں ہے رضائے رب
شاہ نے کہا دو لال دیئے ہم نے اس کو اب
بولے رسولؑ کہتے ہو کیا بے دعا کیے
 شاہ بولے سہ پسر اسے ہم نے عطا کیے
مانع ہوئے رسولؑ خدا پھر جو ایک بار
بولے حسینؑ خامس آل عبا کہ چار
اس دم ہوا نبیؑ کو شش وپنج بے شمار
شاہ نے کہا کہ پانچ دیئے اس کو گلعذار
بخشش چھٹے پسر پہ ہوئی جب کہ شاہؑ کی
اک شش جہت میں دھوم ہوئی واہ واہ کی
 القصہ پیغمبرؑ خدا جس قدر منع کرتے تھے،اسی قدر جناب سید الشہداؑ ہر بار ایک اضافہ فرماتے تھے۔حتیٰ کہ نوبت سات فرزندوں کی پہنچی۔اس وقت پھر جبرائیل بصد تعجیل بحکم خدائے کون ومکان جناب رسولؑ مقبول کی خدمت  با برکت میں آئے۔اور عرض کی کہ یا نبیؑ اللہ پروردگار عالم بعد تحفہ درود وسلام ارشاد فرماتا ہےکہ   ہمارے فدیہ حسینؑ سے تکرار نہ کیجیے،کیونکہ یہ تمام کائنات  سے میرے نزدیک برگزیدہ ہے۔آپ بھی واقف ہیں کہ یہ حسینؑ تین روز کا بھوکا پیاسا میری راہ میں مع اصحاب واقربا میدان کربلا میں قتل کیا جائے گا۔لہذاٰ اس کی خاطر مجھ کو ہر طرح منظور ہے۔اگر حسینؑ ستر فرزند عطا کرے تو ہم عطا کریں گے۔ نظم
کھا کر قسم جلال کی کہتا ہے ذوالجلال
پیارا ہے اس قدر ہمیں خیر النساؑ کا لال
شبیرؑ بخشے جائے تو یونہی ہزار سال
اس نیر علیؑ کو نہ ہو گا کبھی زوال
راہب کو جو حسینؑ دلائے وہ بخش دوں
بخشے اگر حسینؑ خدائی تو بخش دوں
 قربان ہوں ہماری جانیں ایسے آقا پر کہ جس کا پاس خاطر خدا وند کریم کو اس قدر ہو کہ اپنے محبوب کو تو دعا سے باز رہنے کا حکم دے۔اور حسینؑ کی عرضداشت مقبول ومنظور فرمائے۔ نظم
پیٹو محبو اب کہ یہ ہے پیٹنے کی جا
تھی خاطر حسینؑ یہ کچھ پیش کبریا
محتاج یک پسر کو دیئے سات مہہ لقا
اور آہ کربلا میں عجائب ستم ہوا
مقتول ظلم شاہ خوش اقبال ہو گئے
بیٹے بھتیجے گھوڑوں سے پامال ہو گئے

 الغرض جس وقت جبرائیل امین یہ خبر فرحت اثر لائے،تو جناب رسالتمآب نے نہایت مسرور وبشاش ہو کر فرمایا کہ خوشا نصیب تیرا اے راہب کہ تو بطفیل حسینؑ ابن علیؑ سات بیٹوں کا باپ ہوا۔یہ خبر سنتے ہی راہب سرور کائنات کے گرد سات بار پھرا۔پھر امام دوجہان مظلوم کربلا کی خدمت میں عرض کی کہ اے آقا دوجہان،اے غریبوں کے مددگار،اے نا امیدوں کی امید گاہ غریب خانہ راہ شام میں ایک قریہ بعلبک میں واقع ہے۔اگر حضورؑ کو کبھی اس نواح کی طرف سفر کا اتفاق ہو،تو امید وار ہوں کہ قدوم میمنت لزوم سے کفش خانہ کی رونق افزائی فرمایئے گا۔جو اس گنہگار کے لیے باعث افتخار ہوگا۔ نظم
 یہ عرض کرکے اٹھا وہ خورسند وشادمان
رخصت ہوا رسولؑ خدا سے  بعز وشان
اور عرض کی حسینؑ سے یا شاہ دوجہان
اے شاہ دیں حریر وکتاں خوب ہے وہاں
امید ہے کہ دل کو میرے شاد کیجیے
مرغوب طبع ہووئے تو ارشاد کیجیے
 یہ سن کر امام مظلومؑ نے فرمایا،کہ اے راہب ہم وعدہ کرتے ہیں،کہ ایک روز مع عزیز واقربا تیرے گھر ضرور بالضرور آئیں گے۔اور شب کی شب مہمان ہو نگے۔لیکن وقت ایسا ہوگا کہ تجھ کو خورد ونوش کی کسی طرح تکلیف کی ضرورت نہ ہو گی۔ یہ سن کر راہب امام کے قدموں پر گر پڑا،اور عرض کی کہ اے آقا اس میں تو ہم چشموں اور ہم وطنوں میں غلام کی انتہائی ہتک ہو گی۔تو حضرت نے فرمایا کہ جب تو ہمارا دوست ہے۔تو خیال کر کہ کوئی شخص اپنے دوست کی ذلت چاہے گا۔مگر جب موقع ہی ایسا ہوگا تو خود بھی تو میرے اس قول کو تسلیم کرے گا۔ نظم
 راہی ہوا یہ سن کے غرض وہ سوئے عراق
اور بعد چند سال ہوا یاں یہ اتفاق
میدان کربلا کا ہوا شاہ کو  اشتیاق
تنگ آگئے امام ہدیٰ اپنے جینے سے
 گرمی میں نکلے سبط پیمبرؑ مدینے سے
وہ راستہ وہ دھوپ وہ اطفال خوردسال
ہر کوچ میں ہوا پسر فاطمہؑ نڈھال
ہر ایک قدم پر زینبؑ مضطر کا تھا خیال
گردوں کی سمت دیکھ کے کرتے تھے یہ مقال
سہل است گر رود سرمن بر سر سنین
زینبؑ اگر اسیر شود وائے بر حسینؑ
زینبؑ یہ رو کے کہتی تھی اے شاہ نیک خو
بھیا یہ بار بار زباں سے نہ تم کہو
بھینا نثار ناد علیا" ولی پڑھو
اکبرؑ پہ دم کرو علیؑ اصغر پہ دم کرو
امید ہے یہی مجھے خالق کی ذات سے
زینبؑ سپرد خاک ہو بھائی کے ہاتھ سے
یہ سن کر جناب سیدؑ الشہدا  فرماتے تھے، کہ اے بنت مرتضےٰؑ لخت دل فاطمہؑزہرا جو کچھ کہ نوشتہ تقدیر ہے۔ وہ ہو کے رہے گا۔یعنی یہ مظلوم بہ ظلم وستم فرقہ کفار کے ہاتھ سے شہید ہوگا۔اور تم بے ردا ہو گی۔اے بہن اس سال محرم کا مہینہ ہم پر پورا نہ گزرے گا۔یہی گفتگو بہن بھائی میں ہوتی جاتی تھی۔کہ امام حسینؑ دوسری محرم کو اپنے وعدہ گاہ پر پہنچے،اور ساتویں تاریخ سے فوج اشقیا نے پانی بند کر دیا۔اور دسویں محرم کو بعد شہادت یاور انصار امام حسینؑ عازم میدان کار زار ہوئے۔اس وقت جناب سکینہؑ کی بے تابی اور بےقراری کیا عرض کروں۔کہ اپنے پدر بزرگوار کی گردن میں چھوٹی چھوٹی باہیں ڈال کر عرض کرنے لگیں کہ اے بابا اب تو میری ساری حسرتیں خاک میں ملتی ہیں۔امیدیں منقطع ہوئی جاتی ہیں۔خیر مرضی الہیٰ میں کوئی چارہ نہیں ہے۔ مگر آپ نے اس بیٹی کو ابتدا سے چھاتی پر سلانے کا عادی کر لیا ہے۔ وقت رخصت اخیر اگر تھوڑا سا توقف فرمائیں،اور ذرا دیر کے وا سطے لیٹ جائیں،تو سینے سے لپٹ کر یہ ناشاد اپنے دل کی آرزو پوری  کرلے۔ہائے واویلا حسینؑ مظلوم کو اسقدر فرصت نہ تھی،کہ بستر پر استراحت فرمائیں،اسی مقام پر بروئے خاک لیٹ گئے۔اور حضرت سکینہ  ؑ کو سر اقدس پر لٹایا۔جس وقت یہ حال حضرت زینبؑ وکلثومؑ نے دیکھا کہ وہ گوشوارہ عرش الہیٰ خاک پر لیٹا ہے۔اپنا سر وسینہ پیٹنے لگیں۔جناب امام حسین علیہ السلام نے ہر ای بی بی سے فرمایا کہ آج سے ہم کو یہی بستر پسند آیا ہے۔الغرض حضرت سکینہ  ؑ کو سینہ اقدس پر لٹا کر فرمایا نظم
 نور دیدہ اے سکینہؑ ہم کہاں اور تم کہاں
لاڈلی بس کر لو باتیںپھر سخن باہم کہاں
دم کا مہماں ہے تمہارا باپ پھر یہ دم کہاں
پھر خدا جانے تمہیں لے جائیں  نا  محرم کہاں
وعدہ کرتے ہیں کہ ہم بی بی کو لینے آئیں گے
آن کر زندان سے تم کو جلد ہی لے جائیں گے
القصہ سینہ ء اقدس سے سکینہؑ کو اتار کر حضرت زینب ؑ کی گود میں دیا،اور سب کو تسلی ودلاسا دے کر رخصت ہوئے،اور میدان کارزار میں تشریف لائے،اور ظالموں نے اس مسافر یکہ وتنہا کو اس قدر مجروح کیا،کہ تاب وتواں نے جواب دے دیا۔ اور حضرت ؑرو بقبلہ زمین پر تشریف لائے۔اب کس زبان سے عرض کروں۔افسوس صد افسوس امامؑ نے سر سجدہ معبود میں رکھا تھا کہ شمر ملعون نے سر اقدس تن سے جدا کر دیا۔اور اہل بیت اطہار  کو لشکر جفا کار نے شتران بے کجاوہ پر بٹھا کر عابدؑ بیمار کو طوق وزنجیر پہنا کر جانب شام لے چلے کہ راہ میں سوگواران حسینؑ کا یہ قافلہ قصبہ بعلبک میں پہنچا،کہ جہاں وہ راہب دیندار مسکن گزین تھا۔جس کو امامؑ کی دعا کے سبب خدا وند کریم نے سات پسر عطا فرمائے تھے۔غرض اہل حرم جب آبادی کے قریب پہنچے تو نظم
سب اہل شام نکلے تماشے کو جا بجا
وہ راہب جحستہ سیر بھی تھا واں کھڑا
مولا نے سات بیٹے کیے تھے جسے عطا
دیکھا جو اس نے نیزہ پہ سر شاہؑ کا تو کہا
مقبول بارگا ہ خدائے انام ہے
کیا جانے یہ رسولؑ ہے یا امامؑ  ہے
 راہب یہ سوچتا ہوا نیزہ خولی کے پاس آیا۔کیا دیکھا کہ لب مبارک جنبش میں ہیں۔یہ دیکھ کر راہب متعجب ہوا،اور کان لگا کر سنا تو معلوم ہوا کہ وہ سر اقدس سور ۃکہف کی تلاوت فرما رہا ہے۔ اس وقت راہب، نظم
پڑھتا ہوا درود چلا پھر وہ نیک خو
آکر قریب اہل حرم کی یہ گفتگو
کچھ اپنی سر گزشت کہو مجھ سے مو بمو
کیوں بال کھولے پیٹتے ہو کون ہے عدو
بتلائو صاف صاف کہ رنج وتعب ہے کیا
باشندے کس جگہ کے ہو نام ونسب ہے کیا
بیووں نے سر جھکا لیے طاری ہوئی حیا
تب ساربان آل پیمبرؑ نے دی صدا
یہ اپنی سر گزشت کہیں آہ تجھ سے کیا
وہ دیکھ تازیانہ لیے شمر ہے کھڑا
گردش ہے ہم غریبوں کی خاطر زمانے کی
زخمی ہے پشت تاب نہیں درے کھانے کی
وہ بولا اب یہ کہیئے لٹے آپ کس طرف
 سجادؑ بولا قرب مزار شاہ نجفؑ
وہ بولا آہ مفت میں تم ہو گئے تلف
کیوں دی نہ صدا شیر خدا کو بصد شرف
بے شبہ جب پکارو وہ تشریف لاتے ہیں
مشکل میں آہ سب کے وہی کام آتے ہیں
ان کی بزرگیوں کی کروں شرح کیا بھلا
بیٹا حسینؑ نام ہے اک اس کا ذکر کیا
میں بھی عجب طرح کی آفت میں تھا پھنسا
میرا تو عقدہ دل بر حیدر نے وا کیا
کیا کیا نہ شرف کون ومکاں نے دیئے مجھے
اس در نے سات لال عنایت کیے مجھے
یہ سن کے تھر تھرا گئے بیمار کربلا
اہل حرم میں شور قیامت ہوا بپا
حیران ہو کے راہب دل خستہ نے کہا
 ہے یہ تو ماجرائے عجیب اے مرے خدا
رونے پہ ان سبھوں کے ترس کا مقام ہے
 شاید حسینؑ ان کے بھی وارث کا نام ہے
ابھی راہب اسی فکر وتردد میں تھا،کہ عمر سعد نے تجویز کی کہ سر امام حسینؑ کو آج کی شب امیر قریہ کے یہاں رکھوادو،کیونکہ میرے لشکر کے لوگ سفر کی صعبتوں سے بہت تھک گئے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ رات کو سو جائیں،اور شیعیان اہل بیت اطہار سر کو لے جائیں۔تو میری سب محنت بر باد ہو جائے گی۔اور یزید کو کیا جواب دوںگا۔راہب عمر سعد کی یہ گفتگو سن کر اس کے پاس آیا،اور تیس ہزار درہم دے کر سر حسینؑ لے لیا۔اور اپنے گھر لایا۔اور مشک وگلاب سے دھو کر ایک سجادہ ء نفیس پر رکھا۔اور نظم
پھر ہاتھ باندھ کر سر اقدس سے یہ کہا
اے سر تجھے ہے واسطہ شیر الہٰ کا
تو کس تن خجستہ سیر کا ہے سر بتا
کس جرم کس قصور پہ کاٹا گیا گلا
اتنا میں جانتا ہوں کہ اہل حشم ہے تو
اے سر مجھے بتا کہ عرب یا عجم ہے تویہ کلمہ سن کے
یہ کلمہ سن کے شاہ کا سر کانپنے لگا
سوکھے لبوں سے شکر کیا اور یہ کہا
میں وہ شہید ہوں جسے پانی نہیں ملا
دو دن کے بعد آب دم تیغ ہے پیا
ہوں وہ غریب خستہ کہ غربت برستی ہے
دو گز کفن کے واسطے میت ترستی ہے
میں ہوں وہ سر کہ نیزہ ظالم پہ بھی چڑھا
میں اس بدن کا سر ہوں کہ مدفوں نہیں ہوا
وہ خاکسار ہوں کہ ہے تن خاک پر پڑا
فرزند مرتضےٰ میں ہوں اور سبط مصطفےٰ
اک یہ بھی مرتبہ ہے کہ کل کا امام ہوں
میں ہی حسینؑ سبط رسولؑ انام ہوں
اے راہب تو بھول گیا،میں وہی حسینؑ ہوں۔کہ جس نے تجھ سے آنے کا وعدہ کیا تھا۔اور میں وہی حسینؑ ہوں کہ جس کی دعا سے تیرا باغ تمنا سر سبز وشاداب ہوا۔اور تونے سات بیٹے پائے۔میں اپنے وعدہ پر آیا ہوں۔اور تجھ سے وعدہ وفائی کی۔اب تو بھی اپنا وعدہ وفا کر۔یعنی دیبا وسنجاب کے بدلے ایک ایک چادر ہی میرے اہل بیت کو اوڑھا دے،نظم
 یہ سن کے اس نے پیٹ لیا منہ با اشک وآہ
بولا کہ ہائے خانہ زہرا ہوا تباہ
 ہے ہے امام زادے پہ یہ ظلم بے گناہ
لوٹی گئی امامؑ دو عالم کی بارگاہ
زینبؑ کا سر برہنہ کیا اژدہام میں
بنت علیؑ کو لائے ہیں بلوئے عام میں
غرض تمام شب وہ راہب اپنے آقا کے سر مبارک پر گریہ وزاری کرتا رہا۔جب صبح ہوئی تو اپنے ساتوں بیٹوں کو بلا کر کہا کہ اے میری آنکھوں کے نور بڑا غضب ہو گیا، کہ اس آقا حسینؑ کو جس کی دعا کی برکت سے تم عالم وجود میں آئے ہو۔ظالموں نے شہید کر دیا۔اور اس کی عترت کو تشہیر کرتے ہوئے یہاں تک لائے ہیں۔قربان ہو جان میری اس امام مظلومؑ کی وعدہ وفائی پر،کہ حسب وعدہ اعجاز سے میرے گھر کو روشن کیا۔لیکن عمر سعد اس سر مبارک کو محفل یزید پلید میں لیے جاتا ہے۔اور تقاضائے محبت وعقیدت یہ ہے کہ سر حسینؑ ان ملاعین کو نہ دیا جائے۔اور کربلا میں جا کر تن اطہر سے ملحق کرکے دفن کردیں۔یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ امام مظلومؑ کے سر بریدہ سے آواز آئی۔کہ اے راہب تیری محبت وعقیدت پر آفرین۔لیکن لشکر شام یہ سر ضرور لے جائے گا۔ اے دوست اپنے کو ہلاکت میں گرفتار نہ کربس ہماری مصیبت پر گریہ کرتے رہنا۔اور پیاس میں پانی پی کر میری پیاس یاد کر لینا۔ الغرض صبح کو راہب نے لشکر یزید کو سر امام واپس کیا۔ اور چند چادریں بہ منت وزاری نذر آل عبا کیں۔مگر ان ملاعین بے دین نے نیزے کی نوکوں سے اتار لیں۔
مجلس میں وزیر اب تو بہت آہ وفغاں ہے
مقبول ہے محنت تری یہ اس سے عیاں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سن کے اس نے پیٹ لیا منہ با اشک وآہ
بولا کہ ہائے خانہ زہرا ہوا تباہ
 ہے ہے امام زادے پہ یہ ظلم بے گناہ
لوٹی گئی امامؑ دو عالم کی بارگاہ
زینبؑ کا سر برہنہ کیا اژدہام میں
بنت علیؑ کو لائے ہیں بلوئے عام میں
غرض تمام شب وہ راہب اپنے آقا کے سر مبارک پر گریہ وزاری کرتا رہا۔جب صبح ہوئی تو اپنے ساتوں بیٹوں کو بلا کر کہا کہ اے میری آنکھوں کے نور بڑا غضب ہو گیا، کہ اس آقا حسینؑ کو جس کی دعا کی برکت سے تم عالم وجود میں آئے ہو۔ظالموں نے شہید کر دیا۔اور اس کی عترت کو تشہیر کرتے ہوئے یہاں تک لائے ہیں۔قربان ہو جان میری اس امام مظلومؑ کی وعدہ وفائی پر،کہ حسب وعدہ اعجاز سے میرے گھر کو روشن کیا۔لیکن عمر سعد اس سر مبارک کو محفل یزید پلید میں لیے جاتا ہے۔اور تقاضائے محبت وعقیدت یہ ہے کہ سر حسینؑ ان ملاعین کو نہ دیا جائے۔اور کربلا میں جا کر تن اطہر سے ملحق کرکے دفن کردیں۔یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ امام مظلومؑ کے سر بریدہ سے آواز آئی۔کہ اے راہب تیری محبت وعقیدت پر آفرین۔لیکن لشکر شام یہ سر ضرور لے جائے گا۔ اے دوست اپنے کو ہلاکت میں گرفتار نہ کربس ہماری مصیبت پر گریہ کرتے رہنا۔اور پیاس میں پانی پی کر میری پیاس یاد کر لینا۔ الغرض صبح کو راہب نے لشکر یزید کو سر امام واپس کیا۔ اور چند چادریں بہ منت وزاری نذر آل عبا کیں۔مگر ان ملاعین بے دین نے نیزے کی نوکوں سے اتار لیں۔
مجلس میں وزیر اب تو بہت آہ وفغاں ہے
مقبول ہے محنت تری یہ اس سے عیاں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

  1. اللھم صل علی سیدنا محمد و علی آلہ سیدنا محمد وبارک وسلم سلام یا مولٰی امام حُسين علیہ السلام 🙏❤️🙏

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...