﷽
انتیسویں مجلس
امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا
اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو
واللہ ناامید کے دل کو امید ہو
اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت
دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی
یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی
نظم
پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے
سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے
اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے
ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے
اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو
گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو
خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار
کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار
جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار
جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار
بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں
ہمسایہ میرا ہو گا وہ فردوس بریں میں
اے مومنو اس بزم کے رتبہ کی نہیں حد
مشکور محمدؑ سے لگا تا بہ محمدؑ
مجلس میں کرو سعی تو رونے میں کرو کد
سوچو تو عمل ہوتے ہیں کیا کیا نہیں سرزد
گر ہے سبب عفو جرائم تو یہی ہے
کیا وسعت دامان حسینؑ ابن علیؑ ہے
اللہ اللہ کیا مرتبہ ہے مجلس عزائے امامؑ مظلوم کا، درحقیقت حسینؑ مظلوم کی مصیبت ایسی ہی مصیبت ہے،جس کی انتہا نہیں۔آدم سے اس وقت تک کسی پر ایسی مصیبت نہیں گزری،کسی انسان کے لیے ممکن نہیںکہ اس قلزم ناپیدا کنارے سے با آسانی عبور کر سکے۔سبحان اللہ کیا مرتبہ ہے پیش خدا ہمارے امام مظلوم ؑ کا کہ بیت
دیئے سات اس کو بیٹے جس کی قسمت میں نہ تھا ایک بھی
دعائے شاہ دیں سے قسمت پھرتی ہے
چنانچہ راویا ن صدق گفتار اس طرح تحریر فرماتے ہیں کہ راہ شام میں ایک قریہ ہے، بعلبک،وہاں جناب رسالت مآبؑ کے زمانے میںایک راہب رہتا تھا۔کہ جس کے کوئی فرزند نہ تھا۔ وہ ہمیشہ اسی غم والم میں سرگشتہ وپریشان رہتا تھا۔ایک روز اس کے دل میں آیا کہ مدینہ چل کر محبوبؑ خدا سے عرض مدعا کروں۔شاید آپ کی دعا سے میرا نخل تمنا جو مرجھایا ہوا ہے۔سر سبز وشاداب ہو کر بار ور ہو جائے۔القصہ یہ سوچ کر وہ سعید ازلی اپنے گھر سے چل کر سرکار دو عالم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نظم
آیا غرض مدینہ میں پیش نبیؑ پاک
دست الم سے جیب قبا تا بہ سینہ چاک
کی عرض یوں رسولؑ سے تم نور ہو میں خاک
ظاہر میں تو میں شاد ہوں پر دل میں دردناک
کلمہ پڑھا کے دل کو میرے شاد کیجیے
بعد اس کے پھر عطا مجھے اولاد کیجیے
یہ سن کر جناب پیغمبر خدا نے شاداں وخنداں ہو کر اس راہب کو شرف اسلام سے مشرف فرمایا،اور دعا کا ارادہ کیا۔ کہ دفعتہ" جناب جبرائیل نازل ہوئے،اور بعد درود و سلام کے عرض کی کہ یا محمدؑ خدائے کریم ارشاد فرماتا ہے کہ اس راہب کے لیے اولاد کی دعا نہ کیجیے،کیونکہ ہماری مشیت میں اس راہب کے لیے فرزند نہیں ہے۔یہ خبر سن کر پیغمبرؑ خدا نہایت مخزون و غمگین ہو ئے فکر وتردد میں غوطہ زن تھے کہ بیت
شبیرؑ آگئے در مسجد سے ناگہاں
آداب عرض کر کے لگے کرنے یہ بیان
اے نانا جان اس وقت آپؑ کا چہرہ اقدس کیوں مضمحل ہے۔؟ شاید کچھ ملال ہے۔ بیت
کچھ بات کیجیے مرا دل شاد کیجیے
رنجیدہ کیوں ہیں آپؑ یہ ارشاد کیجیے
نظم
بولے نبیؑ کہ کچھ نہیں اے میرے مہہ لقا
لیکن ہوا بضد جو وہ شہنشاہ کربلا
راہب کی سمت دکھ کے بولے شاہ ہدیٰ
اس کے لیے میں کرتا تھا اولاد کی دعا
تاثیر اس کے نالہ شب گیر میں نہیں
ثابت ہوا کہ امر یہ تقدیر میں نہیں
جب سرور کائنات نے امام مظلوم سے یہ فرمایا،تو چہرہ مبارک جناب سید الشہداؑ کا مثل آفتاب عالم تاب سرخ ہو گیا۔اور بصد خشوع وخزوؑ ع دست مناجات درگاہ قاضی الحاجات میں بلند فرما کر عر ض کرنے لگے،کہ اے پروردگار عالمیان اس راہب کو خاندان نبوت سے محروم واپس نہ کرنا۔پھر اپنے نانا کی خدمت میں عرض کی،نظم
ناناؑ یہی ہے آپ کی تشویش کا سبب
لو ہم نے اک پسر دیا اس کو بصد طرب
بولے نبیؑ خموش نہیں ہے رضائے رب
شاہ نے کہا دو لال دیئے ہم نے اس کو اب
بولے رسولؑ کہتے ہو کیا بے دعا کیے
شاہ بولے سہ پسر اسے ہم نے عطا کیے
مانع ہوئے رسولؑ خدا پھر جو ایک بار
بولے حسینؑ خامس آل عبا کہ چار
اس دم ہوا نبیؑ کو شش وپنج بے شمار
شاہ نے کہا کہ پانچ دیئے اس کو گلعذار
بخشش چھٹے پسر پہ ہوئی جب کہ شاہؑ کی
اک شش جہت میں دھوم ہوئی واہ واہ کی
القصہ پیغمبرؑ خدا جس قدر منع کرتے تھے،اسی قدر جناب سید الشہداؑ ہر بار ایک اضافہ فرماتے تھے۔حتیٰ کہ نوبت سات فرزندوں کی پہنچی۔اس وقت پھر جبرائیل بصد تعجیل بحکم خدائے کون ومکان جناب رسولؑ مقبول کی خدمت با برکت میں آئے۔اور عرض کی کہ یا نبیؑ اللہ پروردگار عالم بعد تحفہ درود وسلام ارشاد فرماتا ہےکہ ہمارے فدیہ حسینؑ سے تکرار نہ کیجیے،کیونکہ یہ تمام کائنات سے میرے نزدیک برگزیدہ ہے۔آپ بھی واقف ہیں کہ یہ حسینؑ تین روز کا بھوکا پیاسا میری راہ میں مع اصحاب واقربا میدان کربلا میں قتل کیا جائے گا۔لہذاٰ اس کی خاطر مجھ کو ہر طرح منظور ہے۔اگر حسینؑ ستر فرزند عطا کرے تو ہم عطا کریں گے۔ نظم
کھا کر قسم جلال کی کہتا ہے ذوالجلال
پیارا ہے اس قدر ہمیں خیر النساؑ کا لال
شبیرؑ بخشے جائے تو یونہی ہزار سال
اس نیر علیؑ کو نہ ہو گا کبھی زوال
راہب کو جو حسینؑ دلائے وہ بخش دوں
بخشے اگر حسینؑ خدائی تو بخش دوں
قربان ہوں ہماری جانیں ایسے آقا پر کہ جس کا پاس خاطر خدا وند کریم کو اس قدر ہو کہ اپنے محبوب کو تو دعا سے باز رہنے کا حکم دے۔اور حسینؑ کی عرضداشت مقبول ومنظور فرمائے۔ نظم
پیٹو محبو اب کہ یہ ہے پیٹنے کی جا
تھی خاطر حسینؑ یہ کچھ پیش کبریا
محتاج یک پسر کو دیئے سات مہہ لقا
اور آہ کربلا میں عجائب ستم ہوا
مقتول ظلم شاہ خوش اقبال ہو گئے
بیٹے بھتیجے گھوڑوں سے پامال ہو گئے
الغرض جس وقت جبرائیل امین یہ خبر فرحت اثر لائے،تو جناب رسالتمآب نے نہایت مسرور وبشاش ہو کر فرمایا کہ خوشا نصیب تیرا اے راہب کہ تو بطفیل حسینؑ ابن علیؑ سات بیٹوں کا باپ ہوا۔یہ خبر سنتے ہی راہب سرور کائنات کے گرد سات بار پھرا۔پھر امام دوجہان مظلوم کربلا کی خدمت میں عرض کی کہ اے آقا دوجہان،اے غریبوں کے مددگار،اے نا امیدوں کی امید گاہ غریب خانہ راہ شام میں ایک قریہ بعلبک میں واقع ہے۔اگر حضورؑ کو کبھی اس نواح کی طرف سفر کا اتفاق ہو،تو امید وار ہوں کہ قدوم میمنت لزوم سے کفش خانہ کی رونق افزائی فرمایئے گا۔جو اس گنہگار کے لیے باعث افتخار ہوگا۔ نظم
یہ عرض کرکے اٹھا وہ خورسند وشادمان
رخصت ہوا رسولؑ خدا سے بعز وشان
اور عرض کی حسینؑ سے یا شاہ دوجہان
اے شاہ دیں حریر وکتاں خوب ہے وہاں
امید ہے کہ دل کو میرے شاد کیجیے
مرغوب طبع ہووئے تو ارشاد کیجیے
یہ سن کر امام مظلومؑ نے فرمایا،کہ اے راہب ہم وعدہ کرتے ہیں،کہ ایک روز مع عزیز واقربا تیرے گھر ضرور بالضرور آئیں گے۔اور شب کی شب مہمان ہو نگے۔لیکن وقت ایسا ہوگا کہ تجھ کو خورد ونوش کی کسی طرح تکلیف کی ضرورت نہ ہو گی۔ یہ سن کر راہب امام کے قدموں پر گر پڑا،اور عرض کی کہ اے آقا اس میں تو ہم چشموں اور ہم وطنوں میں غلام کی انتہائی ہتک ہو گی۔تو حضرت نے فرمایا کہ جب تو ہمارا دوست ہے۔تو خیال کر کہ کوئی شخص اپنے دوست کی ذلت چاہے گا۔مگر جب موقع ہی ایسا ہوگا تو خود بھی تو میرے اس قول کو تسلیم کرے گا۔ نظم
راہی ہوا یہ سن کے غرض وہ سوئے عراق
اور بعد چند سال ہوا یاں یہ اتفاق
میدان کربلا کا ہوا شاہ کو اشتیاق
تنگ آگئے امام ہدیٰ اپنے جینے سے
گرمی میں نکلے سبط پیمبرؑ مدینے سے
وہ راستہ وہ دھوپ وہ اطفال خوردسال
ہر کوچ میں ہوا پسر فاطمہؑ نڈھال
ہر ایک قدم پر زینبؑ مضطر کا تھا خیال
گردوں کی سمت دیکھ کے کرتے تھے یہ مقال
سہل است گر رود سرمن بر سر سنین
زینبؑ اگر اسیر شود وائے بر حسینؑ
زینبؑ یہ رو کے کہتی تھی اے شاہ نیک خو
بھیا یہ بار بار زباں سے نہ تم کہو
بھینا نثار ناد علیا" ولی پڑھو
اکبرؑ پہ دم کرو علیؑ اصغر پہ دم کرو
امید ہے یہی مجھے خالق کی ذات سے
زینبؑ سپرد خاک ہو بھائی کے ہاتھ سے
یہ سن کر جناب سیدؑ الشہدا فرماتے تھے، کہ اے بنت مرتضےٰؑ لخت دل فاطمہؑزہرا جو کچھ کہ نوشتہ تقدیر ہے۔ وہ ہو کے رہے گا۔یعنی یہ مظلوم بہ ظلم وستم فرقہ کفار کے ہاتھ سے شہید ہوگا۔اور تم بے ردا ہو گی۔اے بہن اس سال محرم کا مہینہ ہم پر پورا نہ گزرے گا۔یہی گفتگو بہن بھائی میں ہوتی جاتی تھی۔کہ امام حسینؑ دوسری محرم کو اپنے وعدہ گاہ پر پہنچے،اور ساتویں تاریخ سے فوج اشقیا نے پانی بند کر دیا۔اور دسویں محرم کو بعد شہادت یاور انصار امام حسینؑ عازم میدان کار زار ہوئے۔اس وقت جناب سکینہؑ کی بے تابی اور بےقراری کیا عرض کروں۔کہ اپنے پدر بزرگوار کی گردن میں چھوٹی چھوٹی باہیں ڈال کر عرض کرنے لگیں کہ اے بابا اب تو میری ساری حسرتیں خاک میں ملتی ہیں۔امیدیں منقطع ہوئی جاتی ہیں۔خیر مرضی الہیٰ میں کوئی چارہ نہیں ہے۔ مگر آپ نے اس بیٹی کو ابتدا سے چھاتی پر سلانے کا عادی کر لیا ہے۔ وقت رخصت اخیر اگر تھوڑا سا توقف فرمائیں،اور ذرا دیر کے وا سطے لیٹ جائیں،تو سینے سے لپٹ کر یہ ناشاد اپنے دل کی آرزو پوری کرلے۔ہائے واویلا حسینؑ مظلوم کو اسقدر فرصت نہ تھی،کہ بستر پر استراحت فرمائیں،اسی مقام پر بروئے خاک لیٹ گئے۔اور حضرت سکینہ ؑ کو سر اقدس پر لٹایا۔جس وقت یہ حال حضرت زینبؑ وکلثومؑ نے دیکھا کہ وہ گوشوارہ عرش الہیٰ خاک پر لیٹا ہے۔اپنا سر وسینہ پیٹنے لگیں۔جناب امام حسین علیہ السلام نے ہر ای بی بی سے فرمایا کہ آج سے ہم کو یہی بستر پسند آیا ہے۔الغرض حضرت سکینہ ؑ کو سینہ اقدس پر لٹا کر فرمایا نظم
نور دیدہ اے سکینہؑ ہم کہاں اور تم کہاں
لاڈلی بس کر لو باتیںپھر سخن باہم کہاں
دم کا مہماں ہے تمہارا باپ پھر یہ دم کہاں
پھر خدا جانے تمہیں لے جائیں نا محرم کہاں
وعدہ کرتے ہیں کہ ہم بی بی کو لینے آئیں گے
آن کر زندان سے تم کو جلد ہی لے جائیں گے
القصہ سینہ ء اقدس سے سکینہؑ کو اتار کر حضرت زینب ؑ کی گود میں دیا،اور سب کو تسلی ودلاسا دے کر رخصت ہوئے،اور میدان کارزار میں تشریف لائے،اور ظالموں نے اس مسافر یکہ وتنہا کو اس قدر مجروح کیا،کہ تاب وتواں نے جواب دے دیا۔ اور حضرت ؑرو بقبلہ زمین پر تشریف لائے۔اب کس زبان سے عرض کروں۔افسوس صد افسوس امامؑ نے سر سجدہ معبود میں رکھا تھا کہ شمر ملعون نے سر اقدس تن سے جدا کر دیا۔اور اہل بیت اطہار کو لشکر جفا کار نے شتران بے کجاوہ پر بٹھا کر عابدؑ بیمار کو طوق وزنجیر پہنا کر جانب شام لے چلے کہ راہ میں سوگواران حسینؑ کا یہ قافلہ قصبہ بعلبک میں پہنچا،کہ جہاں وہ راہب دیندار مسکن گزین تھا۔جس کو امامؑ کی دعا کے سبب خدا وند کریم نے سات پسر عطا فرمائے تھے۔غرض اہل حرم جب آبادی کے قریب پہنچے تو نظم
سب اہل شام نکلے تماشے کو جا بجا
وہ راہب جحستہ سیر بھی تھا واں کھڑا
مولا نے سات بیٹے کیے تھے جسے عطا
دیکھا جو اس نے نیزہ پہ سر شاہؑ کا تو کہا
مقبول بارگا ہ خدائے انام ہے
کیا جانے یہ رسولؑ ہے یا امامؑ ہے
راہب یہ سوچتا ہوا نیزہ خولی کے پاس آیا۔کیا دیکھا کہ لب مبارک جنبش میں ہیں۔یہ دیکھ کر راہب متعجب ہوا،اور کان لگا کر سنا تو معلوم ہوا کہ وہ سر اقدس سور ۃکہف کی تلاوت فرما رہا ہے۔ اس وقت راہب، نظم
پڑھتا ہوا درود چلا پھر وہ نیک خو
آکر قریب اہل حرم کی یہ گفتگو
کچھ اپنی سر گزشت کہو مجھ سے مو بمو
کیوں بال کھولے پیٹتے ہو کون ہے عدو
بتلائو صاف صاف کہ رنج وتعب ہے کیا
باشندے کس جگہ کے ہو نام ونسب ہے کیا
بیووں نے سر جھکا لیے طاری ہوئی حیا
تب ساربان آل پیمبرؑ نے دی صدا
یہ اپنی سر گزشت کہیں آہ تجھ سے کیا
وہ دیکھ تازیانہ لیے شمر ہے کھڑا
گردش ہے ہم غریبوں کی خاطر زمانے کی
زخمی ہے پشت تاب نہیں درے کھانے کی
وہ بولا اب یہ کہیئے لٹے آپ کس طرف
سجادؑ بولا قرب مزار شاہ نجفؑ
وہ بولا آہ مفت میں تم ہو گئے تلف
کیوں دی نہ صدا شیر خدا کو بصد شرف
بے شبہ جب پکارو وہ تشریف لاتے ہیں
مشکل میں آہ سب کے وہی کام آتے ہیں
ان کی بزرگیوں کی کروں شرح کیا بھلا
بیٹا حسینؑ نام ہے اک اس کا ذکر کیا
میں بھی عجب طرح کی آفت میں تھا پھنسا
میرا تو عقدہ دل بر حیدر نے وا کیا
کیا کیا نہ شرف کون ومکاں نے دیئے مجھے
اس در نے سات لال عنایت کیے مجھے
یہ سن کے تھر تھرا گئے بیمار کربلا
اہل حرم میں شور قیامت ہوا بپا
حیران ہو کے راہب دل خستہ نے کہا
ہے یہ تو ماجرائے عجیب اے مرے خدا
رونے پہ ان سبھوں کے ترس کا مقام ہے
شاید حسینؑ ان کے بھی وارث کا نام ہے
ابھی راہب اسی فکر وتردد میں تھا،کہ عمر سعد نے تجویز کی کہ سر امام حسینؑ کو آج کی شب امیر قریہ کے یہاں رکھوادو،کیونکہ میرے لشکر کے لوگ سفر کی صعبتوں سے بہت تھک گئے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ رات کو سو جائیں،اور شیعیان اہل بیت اطہار سر کو لے جائیں۔تو میری سب محنت بر باد ہو جائے گی۔اور یزید کو کیا جواب دوںگا۔راہب عمر سعد کی یہ گفتگو سن کر اس کے پاس آیا،اور تیس ہزار درہم دے کر سر حسینؑ لے لیا۔اور اپنے گھر لایا۔اور مشک وگلاب سے دھو کر ایک سجادہ ء نفیس پر رکھا۔اور نظم
پھر ہاتھ باندھ کر سر اقدس سے یہ کہا
اے سر تجھے ہے واسطہ شیر الہٰ کا
تو کس تن خجستہ سیر کا ہے سر بتا
کس جرم کس قصور پہ کاٹا گیا گلا
اتنا میں جانتا ہوں کہ اہل حشم ہے تو
اے سر مجھے بتا کہ عرب یا عجم ہے تویہ کلمہ سن کے
یہ کلمہ سن کے شاہ کا سر کانپنے لگا
سوکھے لبوں سے شکر کیا اور یہ کہا
میں وہ شہید ہوں جسے پانی نہیں ملا
دو دن کے بعد آب دم تیغ ہے پیا
ہوں وہ غریب خستہ کہ غربت برستی ہے
دو گز کفن کے واسطے میت ترستی ہے
میں ہوں وہ سر کہ نیزہ ظالم پہ بھی چڑھا
میں اس بدن کا سر ہوں کہ مدفوں نہیں ہوا
وہ خاکسار ہوں کہ ہے تن خاک پر پڑا
فرزند مرتضےٰ میں ہوں اور سبط مصطفےٰ
اک یہ بھی مرتبہ ہے کہ کل کا امام ہوں
میں ہی حسینؑ سبط رسولؑ انام ہوں
اے راہب تو بھول گیا،میں وہی حسینؑ ہوں۔کہ جس نے تجھ سے آنے کا وعدہ کیا تھا۔اور میں وہی حسینؑ ہوں کہ جس کی دعا سے تیرا باغ تمنا سر سبز وشاداب ہوا۔اور تونے سات بیٹے پائے۔میں اپنے وعدہ پر آیا ہوں۔اور تجھ سے وعدہ وفائی کی۔اب تو بھی اپنا وعدہ وفا کر۔یعنی دیبا وسنجاب کے بدلے ایک ایک چادر ہی میرے اہل بیت کو اوڑھا دے،نظم
﷽
انتیسویں مجلس
امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا
اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو
واللہ ناامید کے دل کو امید ہو
اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت
دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی
یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی
نظم
پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے
سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے
اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے
ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے
اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو
گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو
خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار
کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار
جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار
جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار
بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں
ہمسایہ میرا ہو گا وہ فردوس بریں میں
اے مومنو اس بزم کے رتبہ کی نہیں حد
مشکور محمدؑ سے لگا تا بہ محمدؑ
مجلس میں کرو سعی تو رونے میں کرو کد
سوچو تو عمل ہوتے ہیں کیا کیا نہیں سرزد
گر ہے سبب عفو جرائم تو یہی ہے
کیا وسعت دامان حسینؑ ابن علیؑ ہے
اللہ اللہ کیا مرتبہ ہے مجلس عزائے امامؑ مظلوم کا، درحقیقت حسینؑ مظلوم کی مصیبت ایسی ہی مصیبت ہے،جس کی انتہا نہیں۔آدم سے اس وقت تک کسی پر ایسی مصیبت نہیں گزری،کسی انسان کے لیے ممکن نہیںکہ اس قلزم ناپیدا کنارے سے با آسانی عبور کر سکے۔سبحان اللہ کیا مرتبہ ہے پیش خدا ہمارے امام مظلوم ؑ کا کہ بیت
دیئے سات اس کو بیٹے جس کی قسمت میں نہ تھا ایک بھی
دعائے شاہ دیں سے قسمت پھرتی ہے
چنانچہ راویا ن صدق گفتار اس طرح تحریر فرماتے ہیں کہ راہ شام میں ایک قریہ ہے، بعلبک،وہاں جناب رسالت مآبؑ کے زمانے میںایک راہب رہتا تھا۔کہ جس کے کوئی فرزند نہ تھا۔ وہ ہمیشہ اسی غم والم میں سرگشتہ وپریشان رہتا تھا۔ایک روز اس کے دل میں آیا کہ مدینہ چل کر محبوبؑ خدا سے عرض مدعا کروں۔شاید آپ کی دعا سے میرا نخل تمنا جو مرجھایا ہوا ہے۔سر سبز وشاداب ہو کر بار ور ہو جائے۔القصہ یہ سوچ کر وہ سعید ازلی اپنے گھر سے چل کر سرکار دو عالم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نظم
آیا غرض مدینہ میں پیش نبیؑ پاک
دست الم سے جیب قبا تا بہ سینہ چاک
کی عرض یوں رسولؑ سے تم نور ہو میں خاک
ظاہر میں تو میں شاد ہوں پر دل میں دردناک
کلمہ پڑھا کے دل کو میرے شاد کیجیے
بعد اس کے پھر عطا مجھے اولاد کیجیے
یہ سن کر جناب پیغمبر خدا نے شاداں وخنداں ہو کر اس راہب کو شرف اسلام سے مشرف فرمایا،اور دعا کا ارادہ کیا۔ کہ دفعتہ" جناب جبرائیل نازل ہوئے،اور بعد درود و سلام کے عرض کی کہ یا محمدؑ خدائے کریم ارشاد فرماتا ہے کہ اس راہب کے لیے اولاد کی دعا نہ کیجیے،کیونکہ ہماری مشیت میں اس راہب کے لیے فرزند نہیں ہے۔یہ خبر سن کر پیغمبرؑ خدا نہایت مخزون و غمگین ہو ئے فکر وتردد میں غوطہ زن تھے کہ بیت
شبیرؑ آگئے در مسجد سے ناگہاں
آداب عرض کر کے لگے کرنے یہ بیان
اے نانا جان اس وقت آپؑ کا چہرہ اقدس کیوں مضمحل ہے۔؟ شاید کچھ ملال ہے۔ بیت
کچھ بات کیجیے مرا دل شاد کیجیے
رنجیدہ کیوں ہیں آپؑ یہ ارشاد کیجیے
نظم
بولے نبیؑ کہ کچھ نہیں اے میرے مہہ لقا
لیکن ہوا بضد جو وہ شہنشاہ کربلا
راہب کی سمت دکھ کے بولے شاہ ہدیٰ
اس کے لیے میں کرتا تھا اولاد کی دعا
تاثیر اس کے نالہ شب گیر میں نہیں
ثابت ہوا کہ امر یہ تقدیر میں نہیں
جب سرور کائنات نے امام مظلوم سے یہ فرمایا،تو چہرہ مبارک جناب سید الشہداؑ کا مثل آفتاب عالم تاب سرخ ہو گیا۔اور بصد خشوع وخزوؑ ع دست مناجات درگاہ قاضی الحاجات میں بلند فرما کر عر ض کرنے لگے،کہ اے پروردگار عالمیان اس راہب کو خاندان نبوت سے محروم واپس نہ کرنا۔پھر اپنے نانا کی خدمت میں عرض کی،نظم
ناناؑ یہی ہے آپ کی تشویش کا سبب
لو ہم نے اک پسر دیا اس کو بصد طرب
بولے نبیؑ خموش نہیں ہے رضائے رب
شاہ نے کہا دو لال دیئے ہم نے اس کو اب
بولے رسولؑ کہتے ہو کیا بے دعا کیے
شاہ بولے سہ پسر اسے ہم نے عطا کیے
مانع ہوئے رسولؑ خدا پھر جو ایک بار
بولے حسینؑ خامس آل عبا کہ چار
اس دم ہوا نبیؑ کو شش وپنج بے شمار
شاہ نے کہا کہ پانچ دیئے اس کو گلعذار
بخشش چھٹے پسر پہ ہوئی جب کہ شاہؑ کی
اک شش جہت میں دھوم ہوئی واہ واہ کی
القصہ پیغمبرؑ خدا جس قدر منع کرتے تھے،اسی قدر جناب سید الشہداؑ ہر بار ایک اضافہ فرماتے تھے۔حتیٰ کہ نوبت سات فرزندوں کی پہنچی۔اس وقت پھر جبرائیل بصد تعجیل بحکم خدائے کون ومکان جناب رسولؑ مقبول کی خدمت با برکت میں آئے۔اور عرض کی کہ یا نبیؑ اللہ پروردگار عالم بعد تحفہ درود وسلام ارشاد فرماتا ہےکہ ہمارے فدیہ حسینؑ سے تکرار نہ کیجیے،کیونکہ یہ تمام کائنات سے میرے نزدیک برگزیدہ ہے۔آپ بھی واقف ہیں کہ یہ حسینؑ تین روز کا بھوکا پیاسا میری راہ میں مع اصحاب واقربا میدان کربلا میں قتل کیا جائے گا۔لہذاٰ اس کی خاطر مجھ کو ہر طرح منظور ہے۔اگر حسینؑ ستر فرزند عطا کرے تو ہم عطا کریں گے۔ نظم
کھا کر قسم جلال کی کہتا ہے ذوالجلال
پیارا ہے اس قدر ہمیں خیر النساؑ کا لال
شبیرؑ بخشے جائے تو یونہی ہزار سال
اس نیر علیؑ کو نہ ہو گا کبھی زوال
راہب کو جو حسینؑ دلائے وہ بخش دوں
بخشے اگر حسینؑ خدائی تو بخش دوں
قربان ہوں ہماری جانیں ایسے آقا پر کہ جس کا پاس خاطر خدا وند کریم کو اس قدر ہو کہ اپنے محبوب کو تو دعا سے باز رہنے کا حکم دے۔اور حسینؑ کی عرضداشت مقبول ومنظور فرمائے۔ نظم
پیٹو محبو اب کہ یہ ہے پیٹنے کی جا
تھی خاطر حسینؑ یہ کچھ پیش کبریا
محتاج یک پسر کو دیئے سات مہہ لقا
اور آہ کربلا میں عجائب ستم ہوا
مقتول ظلم شاہ خوش اقبال ہو گئے
بیٹے بھتیجے گھوڑوں سے پامال ہو گئے
الغرض جس وقت جبرائیل امین یہ خبر فرحت اثر لائے،تو جناب رسالتمآب نے نہایت مسرور وبشاش ہو کر فرمایا کہ خوشا نصیب تیرا اے راہب کہ تو بطفیل حسینؑ ابن علیؑ سات بیٹوں کا باپ ہوا۔یہ خبر سنتے ہی راہب سرور کائنات کے گرد سات بار پھرا۔پھر امام دوجہان مظلوم کربلا کی خدمت میں عرض کی کہ اے آقا دوجہان،اے غریبوں کے مددگار،اے نا امیدوں کی امید گاہ غریب خانہ راہ شام میں ایک قریہ بعلبک میں واقع ہے۔اگر حضورؑ کو کبھی اس نواح کی طرف سفر کا اتفاق ہو،تو امید وار ہوں کہ قدوم میمنت لزوم سے کفش خانہ کی رونق افزائی فرمایئے گا۔جو اس گنہگار کے لیے باعث افتخار ہوگا۔ نظم
یہ عرض کرکے اٹھا وہ خورسند وشادمان
رخصت ہوا رسولؑ خدا سے بعز وشان
اور عرض کی حسینؑ سے یا شاہ دوجہان
اے شاہ دیں حریر وکتاں خوب ہے وہاں
امید ہے کہ دل کو میرے شاد کیجیے
مرغوب طبع ہووئے تو ارشاد کیجیے
یہ سن کر امام مظلومؑ نے فرمایا،کہ اے راہب ہم وعدہ کرتے ہیں،کہ ایک روز مع عزیز واقربا تیرے گھر ضرور بالضرور آئیں گے۔اور شب کی شب مہمان ہو نگے۔لیکن وقت ایسا ہوگا کہ تجھ کو خورد ونوش کی کسی طرح تکلیف کی ضرورت نہ ہو گی۔ یہ سن کر راہب امام کے قدموں پر گر پڑا،اور عرض کی کہ اے آقا اس میں تو ہم چشموں اور ہم وطنوں میں غلام کی انتہائی ہتک ہو گی۔تو حضرت نے فرمایا کہ جب تو ہمارا دوست ہے۔تو خیال کر کہ کوئی شخص اپنے دوست کی ذلت چاہے گا۔مگر جب موقع ہی ایسا ہوگا تو خود بھی تو میرے اس قول کو تسلیم کرے گا۔ نظم
راہی ہوا یہ سن کے غرض وہ سوئے عراق
اور بعد چند سال ہوا یاں یہ اتفاق
میدان کربلا کا ہوا شاہ کو اشتیاق
تنگ آگئے امام ہدیٰ اپنے جینے سے
گرمی میں نکلے سبط پیمبرؑ مدینے سے
وہ راستہ وہ دھوپ وہ اطفال خوردسال
ہر کوچ میں ہوا پسر فاطمہؑ نڈھال
ہر ایک قدم پر زینبؑ مضطر کا تھا خیال
گردوں کی سمت دیکھ کے کرتے تھے یہ مقال
سہل است گر رود سرمن بر سر سنین
زینبؑ اگر اسیر شود وائے بر حسینؑ
زینبؑ یہ رو کے کہتی تھی اے شاہ نیک خو
بھیا یہ بار بار زباں سے نہ تم کہو
بھینا نثار ناد علیا" ولی پڑھو
اکبرؑ پہ دم کرو علیؑ اصغر پہ دم کرو
امید ہے یہی مجھے خالق کی ذات سے
زینبؑ سپرد خاک ہو بھائی کے ہاتھ سے
یہ سن کر جناب سیدؑ الشہدا فرماتے تھے، کہ اے بنت مرتضےٰؑ لخت دل فاطمہؑزہرا جو کچھ کہ نوشتہ تقدیر ہے۔ وہ ہو کے رہے گا۔یعنی یہ مظلوم بہ ظلم وستم فرقہ کفار کے ہاتھ سے شہید ہوگا۔اور تم بے ردا ہو گی۔اے بہن اس سال محرم کا مہینہ ہم پر پورا نہ گزرے گا۔یہی گفتگو بہن بھائی میں ہوتی جاتی تھی۔کہ امام حسینؑ دوسری محرم کو اپنے وعدہ گاہ پر پہنچے،اور ساتویں تاریخ سے فوج اشقیا نے پانی بند کر دیا۔اور دسویں محرم کو بعد شہادت یاور انصار امام حسینؑ عازم میدان کار زار ہوئے۔اس وقت جناب سکینہؑ کی بے تابی اور بےقراری کیا عرض کروں۔کہ اپنے پدر بزرگوار کی گردن میں چھوٹی چھوٹی باہیں ڈال کر عرض کرنے لگیں کہ اے بابا اب تو میری ساری حسرتیں خاک میں ملتی ہیں۔امیدیں منقطع ہوئی جاتی ہیں۔خیر مرضی الہیٰ میں کوئی چارہ نہیں ہے۔ مگر آپ نے اس بیٹی کو ابتدا سے چھاتی پر سلانے کا عادی کر لیا ہے۔ وقت رخصت اخیر اگر تھوڑا سا توقف فرمائیں،اور ذرا دیر کے وا سطے لیٹ جائیں،تو سینے سے لپٹ کر یہ ناشاد اپنے دل کی آرزو پوری کرلے۔ہائے واویلا حسینؑ مظلوم کو اسقدر فرصت نہ تھی،کہ بستر پر استراحت فرمائیں،اسی مقام پر بروئے خاک لیٹ گئے۔اور حضرت سکینہ ؑ کو سر اقدس پر لٹایا۔جس وقت یہ حال حضرت زینبؑ وکلثومؑ نے دیکھا کہ وہ گوشوارہ عرش الہیٰ خاک پر لیٹا ہے۔اپنا سر وسینہ پیٹنے لگیں۔جناب امام حسین علیہ السلام نے ہر ای بی بی سے فرمایا کہ آج سے ہم کو یہی بستر پسند آیا ہے۔الغرض حضرت سکینہ ؑ کو سینہ اقدس پر لٹا کر فرمایا نظم
نور دیدہ اے سکینہؑ ہم کہاں اور تم کہاں
لاڈلی بس کر لو باتیںپھر سخن باہم کہاں
دم کا مہماں ہے تمہارا باپ پھر یہ دم کہاں
پھر خدا جانے تمہیں لے جائیں نا محرم کہاں
وعدہ کرتے ہیں کہ ہم بی بی کو لینے آئیں گے
آن کر زندان سے تم کو جلد ہی لے جائیں گے
القصہ سینہ ء اقدس سے سکینہؑ کو اتار کر حضرت زینب ؑ کی گود میں دیا،اور سب کو تسلی ودلاسا دے کر رخصت ہوئے،اور میدان کارزار میں تشریف لائے،اور ظالموں نے اس مسافر یکہ وتنہا کو اس قدر مجروح کیا،کہ تاب وتواں نے جواب دے دیا۔ اور حضرت ؑرو بقبلہ زمین پر تشریف لائے۔اب کس زبان سے عرض کروں۔افسوس صد افسوس امامؑ نے سر سجدہ معبود میں رکھا تھا کہ شمر ملعون نے سر اقدس تن سے جدا کر دیا۔اور اہل بیت اطہار کو لشکر جفا کار نے شتران بے کجاوہ پر بٹھا کر عابدؑ بیمار کو طوق وزنجیر پہنا کر جانب شام لے چلے کہ راہ میں سوگواران حسینؑ کا یہ قافلہ قصبہ بعلبک میں پہنچا،کہ جہاں وہ راہب دیندار مسکن گزین تھا۔جس کو امامؑ کی دعا کے سبب خدا وند کریم نے سات پسر عطا فرمائے تھے۔غرض اہل حرم جب آبادی کے قریب پہنچے تو نظم
سب اہل شام نکلے تماشے کو جا بجا
وہ راہب جحستہ سیر بھی تھا واں کھڑا
مولا نے سات بیٹے کیے تھے جسے عطا
دیکھا جو اس نے نیزہ پہ سر شاہؑ کا تو کہا
مقبول بارگا ہ خدائے انام ہے
کیا جانے یہ رسولؑ ہے یا امامؑ ہے
راہب یہ سوچتا ہوا نیزہ خولی کے پاس آیا۔کیا دیکھا کہ لب مبارک جنبش میں ہیں۔یہ دیکھ کر راہب متعجب ہوا،اور کان لگا کر سنا تو معلوم ہوا کہ وہ سر اقدس سور ۃکہف کی تلاوت فرما رہا ہے۔ اس وقت راہب، نظم
پڑھتا ہوا درود چلا پھر وہ نیک خو
آکر قریب اہل حرم کی یہ گفتگو
کچھ اپنی سر گزشت کہو مجھ سے مو بمو
کیوں بال کھولے پیٹتے ہو کون ہے عدو
بتلائو صاف صاف کہ رنج وتعب ہے کیا
باشندے کس جگہ کے ہو نام ونسب ہے کیا
بیووں نے سر جھکا لیے طاری ہوئی حیا
تب ساربان آل پیمبرؑ نے دی صدا
یہ اپنی سر گزشت کہیں آہ تجھ سے کیا
وہ دیکھ تازیانہ لیے شمر ہے کھڑا
گردش ہے ہم غریبوں کی خاطر زمانے کی
زخمی ہے پشت تاب نہیں درے کھانے کی
وہ بولا اب یہ کہیئے لٹے آپ کس طرف
سجادؑ بولا قرب مزار شاہ نجفؑ
وہ بولا آہ مفت میں تم ہو گئے تلف
کیوں دی نہ صدا شیر خدا کو بصد شرف
بے شبہ جب پکارو وہ تشریف لاتے ہیں
مشکل میں آہ سب کے وہی کام آتے ہیں
ان کی بزرگیوں کی کروں شرح کیا بھلا
بیٹا حسینؑ نام ہے اک اس کا ذکر کیا
میں بھی عجب طرح کی آفت میں تھا پھنسا
میرا تو عقدہ دل بر حیدر نے وا کیا
کیا کیا نہ شرف کون ومکاں نے دیئے مجھے
اس در نے سات لال عنایت کیے مجھے
یہ سن کے تھر تھرا گئے بیمار کربلا
اہل حرم میں شور قیامت ہوا بپا
حیران ہو کے راہب دل خستہ نے کہا
ہے یہ تو ماجرائے عجیب اے مرے خدا
رونے پہ ان سبھوں کے ترس کا مقام ہے
شاید حسینؑ ان کے بھی وارث کا نام ہے
ابھی راہب اسی فکر وتردد میں تھا،کہ عمر سعد نے تجویز کی کہ سر امام حسینؑ کو آج کی شب امیر قریہ کے یہاں رکھوادو،کیونکہ میرے لشکر کے لوگ سفر کی صعبتوں سے بہت تھک گئے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ رات کو سو جائیں،اور شیعیان اہل بیت اطہار سر کو لے جائیں۔تو میری سب محنت بر باد ہو جائے گی۔اور یزید کو کیا جواب دوںگا۔راہب عمر سعد کی یہ گفتگو سن کر اس کے پاس آیا،اور تیس ہزار درہم دے کر سر حسینؑ لے لیا۔اور اپنے گھر لایا۔اور مشک وگلاب سے دھو کر ایک سجادہ ء نفیس پر رکھا۔اور نظم
پھر ہاتھ باندھ کر سر اقدس سے یہ کہا
اے سر تجھے ہے واسطہ شیر الہٰ کا
تو کس تن خجستہ سیر کا ہے سر بتا
کس جرم کس قصور پہ کاٹا گیا گلا
اتنا میں جانتا ہوں کہ اہل حشم ہے تو
اے سر مجھے بتا کہ عرب یا عجم ہے تویہ کلمہ سن کے
یہ کلمہ سن کے شاہ کا سر کانپنے لگا
سوکھے لبوں سے شکر کیا اور یہ کہا
میں وہ شہید ہوں جسے پانی نہیں ملا
دو دن کے بعد آب دم تیغ ہے پیا
ہوں وہ غریب خستہ کہ غربت برستی ہے
دو گز کفن کے واسطے میت ترستی ہے
میں ہوں وہ سر کہ نیزہ ظالم پہ بھی چڑھا
میں اس بدن کا سر ہوں کہ مدفوں نہیں ہوا
وہ خاکسار ہوں کہ ہے تن خاک پر پڑا
فرزند مرتضےٰ میں ہوں اور سبط مصطفےٰ
اک یہ بھی مرتبہ ہے کہ کل کا امام ہوں
میں ہی حسینؑ سبط رسولؑ انام ہوں
اے راہب تو بھول گیا،میں وہی حسینؑ ہوں۔کہ جس نے تجھ سے آنے کا وعدہ کیا تھا۔اور میں وہی حسینؑ ہوں کہ جس کی دعا سے تیرا باغ تمنا سر سبز وشاداب ہوا۔اور تونے سات بیٹے پائے۔میں اپنے وعدہ پر آیا ہوں۔اور تجھ سے وعدہ وفائی کی۔اب تو بھی اپنا وعدہ وفا کر۔یعنی دیبا وسنجاب کے بدلے ایک ایک چادر ہی میرے اہل بیت کو اوڑھا دے،نظم
یہ سن کے اس نے پیٹ لیا منہ با اشک وآہ
بولا کہ ہائے خانہ زہرا ہوا تباہ
ہے ہے امام زادے پہ یہ ظلم بے گناہ
لوٹی گئی امامؑ دو عالم کی بارگاہ
زینبؑ کا سر برہنہ کیا اژدہام میں
بنت علیؑ کو لائے ہیں بلوئے عام میں
غرض تمام شب وہ راہب اپنے آقا کے سر مبارک پر گریہ وزاری کرتا رہا۔جب صبح ہوئی تو اپنے ساتوں بیٹوں کو بلا کر کہا کہ اے میری آنکھوں کے نور بڑا غضب ہو گیا، کہ اس آقا حسینؑ کو جس کی دعا کی برکت سے تم عالم وجود میں آئے ہو۔ظالموں نے شہید کر دیا۔اور اس کی عترت کو تشہیر کرتے ہوئے یہاں تک لائے ہیں۔قربان ہو جان میری اس امام مظلومؑ کی وعدہ وفائی پر،کہ حسب وعدہ اعجاز سے میرے گھر کو روشن کیا۔لیکن عمر سعد اس سر مبارک کو محفل یزید پلید میں لیے جاتا ہے۔اور تقاضائے محبت وعقیدت یہ ہے کہ سر حسینؑ ان ملاعین کو نہ دیا جائے۔اور کربلا میں جا کر تن اطہر سے ملحق کرکے دفن کردیں۔یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ امام مظلومؑ کے سر بریدہ سے آواز آئی۔کہ اے راہب تیری محبت وعقیدت پر آفرین۔لیکن لشکر شام یہ سر ضرور لے جائے گا۔ اے دوست اپنے کو ہلاکت میں گرفتار نہ کربس ہماری مصیبت پر گریہ کرتے رہنا۔اور پیاس میں پانی پی کر میری پیاس یاد کر لینا۔ الغرض صبح کو راہب نے لشکر یزید کو سر امام واپس کیا۔ اور چند چادریں بہ منت وزاری نذر آل عبا کیں۔مگر ان ملاعین بے دین نے نیزے کی نوکوں سے اتار لیں۔
مجلس میں وزیر اب تو بہت آہ وفغاں ہے
مقبول ہے محنت تری یہ اس سے عیاں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سن کے اس نے پیٹ لیا منہ با اشک وآہ
بولا کہ ہائے خانہ زہرا ہوا تباہ
ہے ہے امام زادے پہ یہ ظلم بے گناہ
لوٹی گئی امامؑ دو عالم کی بارگاہ
زینبؑ کا سر برہنہ کیا اژدہام میں
بنت علیؑ کو لائے ہیں بلوئے عام میں
غرض تمام شب وہ راہب اپنے آقا کے سر مبارک پر گریہ وزاری کرتا رہا۔جب صبح ہوئی تو اپنے ساتوں بیٹوں کو بلا کر کہا کہ اے میری آنکھوں کے نور بڑا غضب ہو گیا، کہ اس آقا حسینؑ کو جس کی دعا کی برکت سے تم عالم وجود میں آئے ہو۔ظالموں نے شہید کر دیا۔اور اس کی عترت کو تشہیر کرتے ہوئے یہاں تک لائے ہیں۔قربان ہو جان میری اس امام مظلومؑ کی وعدہ وفائی پر،کہ حسب وعدہ اعجاز سے میرے گھر کو روشن کیا۔لیکن عمر سعد اس سر مبارک کو محفل یزید پلید میں لیے جاتا ہے۔اور تقاضائے محبت وعقیدت یہ ہے کہ سر حسینؑ ان ملاعین کو نہ دیا جائے۔اور کربلا میں جا کر تن اطہر سے ملحق کرکے دفن کردیں۔یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ امام مظلومؑ کے سر بریدہ سے آواز آئی۔کہ اے راہب تیری محبت وعقیدت پر آفرین۔لیکن لشکر شام یہ سر ضرور لے جائے گا۔ اے دوست اپنے کو ہلاکت میں گرفتار نہ کربس ہماری مصیبت پر گریہ کرتے رہنا۔اور پیاس میں پانی پی کر میری پیاس یاد کر لینا۔ الغرض صبح کو راہب نے لشکر یزید کو سر امام واپس کیا۔ اور چند چادریں بہ منت وزاری نذر آل عبا کیں۔مگر ان ملاعین بے دین نے نیزے کی نوکوں سے اتار لیں۔
مجلس میں وزیر اب تو بہت آہ وفغاں ہے
مقبول ہے محنت تری یہ اس سے عیاں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللھم صل علی سیدنا محمد و علی آلہ سیدنا محمد وبارک وسلم سلام یا مولٰی امام حُسين علیہ السلام 🙏❤️🙏
ReplyDelete