آٹھائیسویں مجلس
اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا
اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ
دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ
راویان روایت رنج و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔
روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت
سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو
ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو
نظم
شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری
ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری
شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری
لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری
مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے
بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے
حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام حسین علیہ السلام نے فرمایا،کہ اے بانو اس وقت جو میں نے شیریں کی آنکھوں کی تعریف کی،اس سے تمہارے دل میں جو خیال آیا،وہ میرا منشا نہیں تھا۔ہمارے گھرانے کا اخلاق دنیا میں مشہور ہے۔ہر ایک پر ہماری نظر ہے۔گو خالق کونین نے دو آنکھیں دی ہیں۔لیکن سب پر ایک نگاہ ہے۔ اس کے بعد بتکرار دریافت فرمایاکہ تم نے شیریں کو مجھے بخش دیا۔ شہر بانو نے عرض کی،بے شک یہ کنیز حضور کی نذر ہے۔ تب امام حسین علیہ السلام نے زاد راہ اور عمدہ پوشاک دے کر شیریں سے فرمایا، کہ میں نے تجھ کو راہ خدا میں آزاد کیا۔ نظم
شہؑ بولے کہ تم دل خیال اور رکھو دور
کی مدح جو آنکھوں کی فقط مدح تھی منظور
ہے خلق محمدؑ کے نواسے کا تو مشہور
اور چشم کرم اپنے بزرگوں کا ہے دستور
واللہ بدوں پر بھی مری نظر نیک ہے
دو آنکھیں ہیں پر سب پہ مری نظر ایک ہے
تب دوڑ کے نے بانو نے گلے اس کو لگایا
شبیرؑ کی بہنوں نے لباس اس کو پہنایا
پھر اپنے برابر اسے زینبؑ نے بٹھایا
تعظیم کی تکریم کی اور ہنس کے سنایا
فطرس کا شرف حق نے تجھے آج دیا ہے
شیریں تجھے شبیرؑ نے آزاد کیا ہے
شیریں نے تب اندوہ جدائی سے بھری آہ
اور شاہؑ کے قدم چوم کے بولی وہ ہوا خواہ
ہے عرض جو مجھ کو کسی قابل کرے اللہ
تو ہدیہ شیریں ہو قبول اے شاہ ذی جاہ
بھجوائوں جو سوغات نہ رد کیجیو میری
مشکل میں پکاروں تو مدد کیجیو میری
زینبؑ نے یہ فرمایا کہ اے عاشق مولا
مشکل جو پڑے لیجیو نام ابن علیؑ کا
اور تحفہ کے بھجوانے کی حاجت بھلا ہے کیا
سب کچھ ہے ابھی بھائی کے صدقے میں مہیا
سوغات یہاں کچھ نہیں درکار کسی کو
تم بھیجیو ہر آن دردو آل نبیؑ کو
تب حضرت سجادؑ پر شیریں ہوئی قربان
اور بولی خوزادے ترا اللہ نگہبان
بابا سے سفارش مری تم کیجیو ہر آن
میں نے تمہیں پالا ہے ذرا اس کا رہے دھیان
عابدؑ سے عجب طرح جدا ہوتی تھی شیریں
یاں روتے تھے سجادؑ ادھر روتی تھی شیریں
گہوارے سے شیریں نے پھر اکبرؑ کو اٹھایا
آنکھوں سے بہت ننھے سے تلوں کو لگایا
پھر جھولے کے اندر یہ دعا دے کے لٹایا
اللہ ونبیؑ کا مرے شاہزادے پہ سایہ
دنیا کا میسر حشم وجاہ ہو اکبرؑ
اور پھولوں کے سہرے سے ترا بیاہ ہو اکبرؑ
اب عرض ہے شیریں کی تم اقرار تو فرمائو
ایسا نہ ہو بیاہ میں تم شیریں کو نہ بلوائو
یہ خادمہ بھی دیکھے دلہن بیاہ کے جب لائو
آباد رہو چین کرو زیست کا پھل پائو
الغرض شیریں نے جب سب سے اجازت لی،تو اس وقت جناب امام حسین علیہ السلام کی آخری تسلیم کو حاضر ہوئی،اور ہچکیاں لے لے کر وہ غمگین رونے لگی۔ تب بادشاہ دین نے فرمایا کہ اے شیریں کیوں روتی ہو۔ عرض کی شیریں نے کہ اے آقا اس وقت کچھ خود بخود دل بھر آتا ہے۔کنیز کی جان فدا ہو،ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ اس کے بعد مجھ کو قدم بوسی حاصل نہ ہوگی۔شاید میری زندگی کے دن پورے ہو چکے۔اللہ اللہ جناب کی کنیزوں کے دل بھی کتنے مصفا تھے۔اگر چہ شیریں نے لب شیریں سے اپنی نسبت کہا تھا۔مگر نتیجہ اس کا امامؑ خوب سمجھتے تھے۔ جس دم یہ بیان شیریں نے کیا،تو آپ نے آنکھوں میں اشک بھر کر فرمایا،کہ اے شیریں تو اس قدر غمگین اور ملول مت ہو۔ہم ایک روز تیرے گھر خود آئیں گے،بلکہ اہل بیت کو بھی ساتھ لائیں گے۔اس وقت یہ مژدہ سن کر شیریں باغ باغ ہو گئی۔اور کہنے لگی کہ خوشا نصیب میرے کہ جس کے گھر فرزند رسولؑ الثقلین اور بیٹی اور بہو فاتح بدر وحنین کی قدم رنجہ فرمائیں۔قربان ہو جان اس کنیز کی اسی وعدہ کے ساتھ ضیافت قبول فرمانے کا اقرار بھی ہو جائے، کیونکہ بیت۔
فضہ کی ضیافت تو نہ روکی تھی نبیؑ نے
میراث نبیؑ پائی ہے فرزند علیؑ نے
نظم
شیریں سے مخاطب ہوئے یوں سید ابرار
اچھا ترے گھر آئوں گا میں کرتا ہوں اقرار
اس دن کا تجمل نہ تجھے بھولےگا زینہار
عابدؑ تو پیادہ مرا ہوئوئے گا میں اسوار
پیاسا کئی دن کا تیرے گھر آئے گا شبیرؑ
پیاسا ہی ترے گھر سے چلا جائے گا شبیرؑ
وہ بولی بھلا جانے میں دوں گی تمہیں پیاسا
حضرت نے کہا خیر سمجھ لیں گے جو ہو گا
پہنچانے کو شیریں کے گئے دور تک آقا
رستے میں کہا لے تجھے اللہ کو سونپا
کیجیو دعا چین ملے غم سے ہمیں بھی
راحت دے خدا شیون وماتم سے ہمیں بھی
راوی لکھتا ہے کہ جب شیریں دولت سرائے امام مظلومؑ سے رخصت ہوئی،اور منزلیں طے کرتی ہوئیراہ شام میں ایک پہاڑ پر پہنچی،وہاں ایک شخص کے ساتھ عقد کر کے رہنے لگی۔ اکثر مورخین نے اس کے شوہر کا نام عزیز لکھا ہے۔ شیریں خاندان نبوتؑ کے فراق میں ہمیشہ مخزون وغمگین رہتی تھی،اور دل میں یہ کہا کرتی تھی،نظم
دیکھوں کس سامان سے شبیرؑ منہ دکھلائیں گے
صادق الاقرار ہیں اک دن مقرر آئیں گے
یا الہیٰ جلد آویں مرے گھر سبط نبیؑ
بھانجے،بھائی، بھتیجے ساتھ ہویں گے سبھی
زینب ؑ و کلثومؑ وکبریٰ ہوں تو ہو دل کی خوشی
ساتھ ہو بانو بھی سب کے مری شاہزادی
ساتھ بابا کے جو ہمشکل پیمبرؑ آئے گا
میری آنکھیں ہوں گی روشن گھر میرا بھر جائے گا
الغرض شب وروز اسی خیال میں کاٹتی تھی اور بجز ذکر حسینؑ کوئی اور ذکر اس نیک کردار کو اچھا نہ معلوم ہوتا تھا۔ چنانچہ وہ ، نظم
شوہر سے بھی ذکر شاہؑ دیں کرتی تھی اکثر
پہنچانے مجھے دور تلک آئے تھے سرورؑ
کہتی تھی کبھی دو مری بی بی کے ہیں دل بر
نام ایک کا سجادؑ ہے اور ایک کا اکبرؑ
دونوں سے عیاں قدرت رب ازلی ہے
بس نام خدا ایک نبیؑ ایک علی ہے
اہل بیت اطہار کے فیض صحبت کا اثر ان حضرات کی کنیزوں میں یہ تھا۔ کہ ان کے قلوب بھی ان کی مثل آئینہ صاف اور مجلا تھے۔اور شدنی امور ان کے خلوص قلب کی وجہ سے گویا ان پر منکشف ہو جاتے تھے۔چنانچہ جس زمانے میں معرکہ کربلا درپیش تھا۔ شیریں نہایت مضطر وبے قرار رہتی تھی۔اور جب گھر میں جی نہ لگتا،تو اکثر سبط رسولؑ دوسرا کےانتظار میں ڈیوڑھی پر بیٹھی رہتی تھی۔ نظم
شیریں کو عجب الفت سلطان امم تھی
ہر دم شاہ والا کی وہ مشتاق قدم تھی
آنکھوں کے تلے صورت بانوئے عجم تھی
پتلی صفت قبلہ نما سوئے حرم تھی
خوش ہوتی تھی اقرار امام دو جہاں پر
اس کی خبر نہ تھی کہ سر آئوئے گا سناں پر
ادھر شیریں کا تو یہ حال تھا۔ ادھر جناب امام حسین علیہ السلام بھی یثرب سے روانہ ہو کر میدان کربلا پہنچے۔اور روز عاشور مع انصار و اقربا درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ تو اہل بیت اطہار کو اشقیا قید کر کے شام کی جانب لے چلے۔کچھ دن کوفہ کے قید خانے میں رکھا۔ اور پھر یزید کے حکم کے بموجب عبد اللہ ابن زیاد نے ناموس نبیؑ کو اسی ہیئت سے بے مقنعہ وچادر روانہ شام کیا۔اور جب اہل بیت اطہار کا قافلہ شیریں کے مکان سے ایک روز کے فاصلہ پر رہ گیا۔ اس شب کو اس نیک سیرت نے ایک خواب ہولناک دیکھا۔کہ جناب امام حسینؑ میرے گھر کے صحن کے اندر بے سر کھڑے فرماتے ہیں،کہ اے شیریں کل کے روز میں تیرے گھر آئوں گا۔ بیت
وعدہ ترا لایا ہے مجھے کرب وبلا سے
پر آئے جو پیاسے ہیں تو جائیں گے بھی پیاسے
یہ خواب دیکھ کر صبح کے وقت شوہر سے گویا ہوئی،کہ میرا آقا سبط رسولؑ مختار ہے۔ صادق الاقرار ہے۔خدا نے چاہا تو آج شب میرے گھر مہمان ہوگا۔ تو جلد پیشوائی کو جا۔ صدقے کے لیے کچھ ساتھ لے۔میں یہاں پر دعوت کا سامان کرتی ہوں۔ بیت
آقا مرے گر پوچھیں کہ کیا کرتی ہے شیریں
کہیو کہ شتاب آئو دعا کرتی ہے شیریں
اور تاکید کی کہ تم جس وقت لشکر امام عالی مقام میں پہنچنا،تو سب کو بہ آئین شا ئستہ آداب غلامانہ بجا لانا۔ نظم
اور کاندھے پہ جس کے علم سبز ہو زیبا
عباسؑ وہ ہو نگے تو انہیں کیجیو مجرا
پھر ڈھونڈیو اکبرؑ کو تو اس القاب سے اس جا
ہم شکل نبیؑ کون ہے شبیرؑ کا بیٹا
تب ننھے سے تھے اب تو بڑے ہو ئیں گے اکبرؑ
شبیرؑ کے پہلو میں کھڑے ہو ئیں گے اکبرؑ
یاں سے تو روانہ ہوا وہ عاشق سرورؑ
منزل سے چلے ادھر صبح آل پیمبرؑ
ہنگام زوال ایک جگہ پہنچے برابر
لشکر میں پھرا چار طرف آکے وہ ششدر
دیکھا تو نہ شبیرؑ نہ عباسؑ علیؑ ہے
اک نیزے پہ لیکن سر ہم شکل نبیؑ ہے
کاندھے پہ علم رکھے بہت سے ہیں علمدار
پر ان میں نہیں شوکت عباسؑ خوش اطوار
بندی کی طرح اونٹوں پہ کچھ رانڈیں ہیں اسوار
چادر کسی بی بی کے فرق پر نہیں زنہار
گردن نہ اٹھاتے تھے ادھر کو نہ ادھر کو
بچے لیے گودوں میں جھکائے ہوئے سر کو
بیمار ہے اک طوق وسلاسل میں گرفتار
غش ہوتا ہے اونٹوں کی رسن کھینچ کے ہر بار
عابد سے کہا اس نے کہ اے صاحب آزار
کیا ہو تم ہی اس قافلہ کے وارث ومختار
وہ بولے میں بن باپ کا کہلاتا ہوں بھائی
وارث نہ کہو ان کا میں شرماتا ہوں بھائی
اس وقت حضرت زین العابدینؑ نے فرمایا کہ اے عزیز میں ایک بے کس وناچار ہوں۔ تجھ سے کیا کہوں۔بس اسی قدر کافی ہے،کہ یہ بیبیاں جو سر کھولے ہوئے ہیں،میری ماں پھوپھی اور بہنیں ہیں۔چھوٹی بہن کو دیکھ کہ طمانچوں سے منہ لال ہے۔رانڈوں کاوہ حال اور وارث کا یہ حال۔یہ سن کر عزیز شوہر شیریں بہت رویا۔ اور ان نشانات کے مطابق جو شیریں نے بیان کیے تھے۔ جب اس کو کچھ پتا لشکر امامؑ کا نہ ملا۔تو روتا ہوا اپنے گھر کو واپس آیا۔اور شیریں سے کہا کہ اے غم خوار لشکر ابن حیدر ؑ کرار کا پتا نہ لگا۔ میں دور تک ہو آیا۔ مگر ہاں ایک لشکر خونخوار جس کے ہمراہ نیزوں پر چند سر ہیں۔اس طرف کو آتا ہے۔ مگر اس کو لشکر حسینؑ سے کچھ نسبت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ چند عورتیں سر برہنہ اونٹوں پر سوار ہیں۔ اور نظم
ہیں ایک طرف نیزوں کی نوکوں پہ کئی سر
ہر سر کی زباں نکلی ہوئی ہونٹوں سے باہر
رستے میں یہ کہتے تھے وہ جلاد ستمگر
شب کو اسی قلعہ کے تلے اتریں گے چل کر
بندی ہے یہ سب پردہ نشینان عرب کی
آج ان سے خبر پوچھیو سلطانؑ عرب کی
القصہ لشکر یزید قریب شام زیر قلعہ شیریں آکرفروکش ہوا۔ اور اونٹوں سے اہل بیت اطہار اترنے لگے۔ بیت
پوچھا یہ سکینہؑ نے کہ لوگوں کدھر آئے
بولا سر شبیرؑ کہ شیریں کے گھر آئے
اک سمت کو لشکر کے اترنے کا وہ سامان
اک سمت کو سر کھولے ہوئے شام غریباں
نیزوں کے تلے بیبیوں کے بال پریشان
اور نیزوں پہ مظلوموں کے سر خون میں غلطان
زلف سر شاہ بکھری ہوئی منہ پہ پڑی تھی
نیزے کے تلے فاطمہؑ سر ننگے کھڑی تھی
کبریٰ کا بزیر سر قاسمؑ یہ تھا عالم
مہندی تو لگی ہاتھوں میں اور دولھا کا ماتم
زینبؑ سر اکبرؑ تلے کہتی تھی اس دم
انصاف کرو بچھڑے ہیں کس سن سے تم اور ہم
درد اٹھتا ہے رہ رہ کے مرے دل پہ بلا لوں
نیزے سے اتر آئو کلیجے سے لگا لوں
بانو سر اصغرؑ کے قریب آکے پکاری
اے لال جھنڈولے ترے بالوں کے میں واری
یہ شام کا وقت اور یہ نیزہ کی سواری
سر نیزہ پہ تن رن میں یہ تقدیر ہماری
اس دودھ بھری باچھوں پہ دائی یہ فدا ہو
ملتے ہیں دو وقت اور تم اماں سے جدا ہو
کلثوم سر عونؑ و محمدؑ کی نگہبان
چلاتی تھی اے بھانجوں میں صدقے میں قربان
خواہر تو مرے بھائی کے غم سے ہے پریشان
ہمشیر کے بدلے میں تمہیں روتی ہوں اس آن
نوحہ سر عباسؑ کا تھا ہائے سکینہؑ
تھی سر کی طرف کرتے کو پھیلائے سکینہ
جب شیریں نے گریہ وفغاں کا شور سنا تو بے تابانہ قافلہ کی طرف دوڑی۔ دیکھا تو قلعہ ہلتا پایا، قیدیوں کو فرش خاک پر بلا سایہ بیٹھا ہوا دیکھا۔نیزوں پر کئی سر مثل آفتاب کے چمکتے ہوئے نظر آئے۔جس وقت جناب بانو نے شیریں کو آتے ہوئے دیکھا،تو سب نے ارشاد کیا،کہ اے بیبیوں شیریں آتی ہے،اور کچھ دعوت سامان بھی ہمراہ لاتی ہے۔اگر مجھ خستہ جگر کو پوچھے تو ہرگز نہ بتانا۔للہ میرے حال کو چھپانا،کیونکہ ایک روز وہ تھا کہ میں نے پوشاک اور جواہرات دے کر رخصت کیا تھا۔ اور ایک روز یہ ہے کہ میں فرش خاک پر بے مقنعہ وچادر بیٹھی ہوں۔ایسا نہ ہو کہ مجھ کو محتاج سمجھ کر کچھ دے،بیت
پہچان لے شیریں کہیں ایسا نہ ہو غضب
موقوف صدا ہائے حسیناؑ کی بھی ہو اب
ہنوز آپ یہ فرمارہی تھیں کہ نظم
بانو ؑ ہی پاس آ ن کے بیٹھی جو وہ خوشخو
نہیوڑا لیا سر بانو نے مابین دو زانو
اور کھول دیے رسی بندھے ہاتھوںسے گیسو
شیریں نے کہا بی بی ذرا دیکھو ادھر کو
گو خاک پہ تم حال غریبی سے ہو بی بی
پر کتنی مشابہ میری بی بی سے ہو بی بی
رو کر بانو نے کہ یہ شبہ نہ تو کر
میں بیوہ کہاں اور کہاں بانوئے سرورؑ
تو بانو کی لونڈی ہے پر اب ہم سے ہے بہتر
سر پر ہے میرے خاک تیرے سر پہ ہے چادر
ڈھونڈے گی تو ایسے کہیں ناشاد نہ ہوںگے
ہم ایسے لٹے ہیں کہ پھر آباد نہ ہوںگے
بانو تو مدینہ میں ہے بانو کہاں اس جا
لوٹے گا اسے کون حسینؑ اس کا ہے آقا
شیریں نے کہا آپ بھی ہیں ان کی شناسا
ہیں آپ مدینہ کی کہ باشندہ بطحا
سیدانیو کے چین سے چین اپنا فقط ہے
مسلم کا ہوا خون یہ سچ ہے کہ غلط ہے
اے بی بی مدینہ میں بانوئے سرور سلامت ہے۔ کبھی میرے گھر آنے کا ذکر بھی فرماتی تھیں۔پھر حضرت سجادؑ اور علیؑ اکبرؑ کا حال پوچھنے لگی۔ اس وقت ،نظم
یہ سنتے ہی کانپا جگر بانو مضطر
غش کھا کے گری اور کہا ہے ہے علیؑ اکبرؑ
بے ہوشی میں شیریں نے جو دیکھا اسے جھک کر
پہچان لیا اور کہا ہائے مقدر
اب لاکھ تم انکار کرو کس کو یقیں ہے
کیوں بیبیو یہ بانو ئے شبیرؑ نہیں ہے
مجرا کیا پھر اور گری پائوں پہ رو رو
کہتی تھی نہ پہچانا خطا کی مجھے بخشو
بانو کہے جاتی تھی نہیں میں نہیں بانو
وہ کہتی تھی ہوئوئے گا ثواب اس میں بھی مجھ کو
بانو نہیں بانو کی ہمشکل تو تو ہے
زہراؑ کی صدا آئی یہی میری بہو ہے
پھر حضرت بانو سے شیریں نے عرض کیا۔ کہ اے زوجہ فرزند رسول ؑ ا ثقلین مجھ سے کیا حجاب ہے۔ لونڈی آپ کی فرما نبردار ہے۔ یہ سن کر حضرت شہر بانو نے چہرہ مبارک سے بال اٹھائے اور کہا کہ اے شیریں یہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ منہ دیکھ کر شیریں نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ہائے غضب مومنین آج وہی شیریں حضرت شہر بانو کی یہ حالت دیکھ کر اپنے سر کی چادر حضرت بانو کے سر پر ڈالتی ہے۔ اس وقت حضرت بانو نے نجف کی طرف منہ کرکےیوں فریاد کی،بیت
آج ہے وہ وقت حیدر کے گھرانے کے لیے
لونڈیاں دیتی ہیں چادر منہ چھپانے کے لیے
ابھی جناب بانو ؑ یہ ارشاد فرمارہی تھیں،کہ ناگاہ نظر شیریں کی ایک دلہن پر جا پڑی۔جس کے چہرے سے شان عروسی نمایاں تھی۔شیریں نے جب اس کا حال پوچھا،تو حضرت بانو نے فرمایا کہ یہ ناشاد ونامراد بیٹی ہے،فرزند رسولؑ کی،جو رات کو بیاہی گئی اور صبح کو بیوہ ہو گئی۔اس کا دولھا قاسم ابن حسنؑ مارا گیا۔ اور آہ آہ اس کی لاش اشقیا نے گھوڑوں سے پامال کر ڈالی۔ابھی شیریں اور شہر بانو میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ سر امام مظلومؑ سے یہ آواز دردناک آئی کہ اے شیریں بیت
مہمان ہوں مجھ سے بھی کوئی بات کرے گی
یا اپنی ہی بی بی کی مدارات کرے گی
یہ سن کر شیریں نیزے کی طرف دوڑی،اور عرض کی فدا ہو جان شیریں کی یہ لونڈی حاضر ہے۔ بیت
کس طرح سے شیریں ترے چہرے کی بلا لے
آگود میں اے فاطمہؑ کی گود کے پالے
یہ سن کر سر مبارک بہ اعجاز نوک نیزہ سے شیریں کی گود میں آیا۔ اس وقت شیریں کا عجب حال تھا۔ کہ بوجہ گریہ وبکا شیریں کے ہوش بجا نہ تھے۔نظم
اس نے انگشت شہادت سے اشارہ یہ کیا
السلام اے شاہؑ مظلوم وغریب الغربا
السلام اے پسر فاطمہؑ وشیرؑ خدا
السلام اے وطن آوارہ وشاہؑ شہدا
ترے لشکر ترے دربار کے صدقے شیریں
تیری لوٹی ہوئی سرکار کے صدقے شیریں
یہ کہہ کر سر مبارک گود میں لیے ہوئے اہل بیت کی جانب چلی۔ لشکر یزید نے سر لینا چاہا،تو شیریں نے کہا بیت۔
کیا لے کے یہ سر قبر بنانے کو چلی ہوں
بچھڑی ہوئی رانڈوں سے ملانے کو چلی ہوں
الغرض زر کثیر اس باتمیز نے سردار فوج اشقیا کو دے کر باقی شہدا کے سر بھی منگا لیے،اور بیوائوں کو لے کر اپنے گھر گئی۔ نظم
شیریں کے گھر گئے حرم اس شان سے باہم
گھر جاتے ہی شیریں نے بچھائی صف ماتم
سجادہ پہ رکھا سر سلطان دو عالم
گرد اس کے بھی رکھے بیوائوں نے سر اور بھی اس دم
زہراؑ کی صدا آنے لگی آل نبیؑ کو
رونا ہے تو اب رولو حسینؑ ابن علیؑ کو
القصہ بعد شہادت امام حسینؑ یہ پہلا روز تھا کہ اہل بیت کو رونے کا موقع ملا۔ نظم
رونے کو جو ترسی ہوئی تھی عترت مولا
ماتم کیا ایسا کہ قیامت ہوئی برپا
بہتا تھا لہو سینے سے اور آنکھوں سے دریا
روتی تھی بجوش آن کے اس غول میں زہراؑ
شیریں کبھی صدقہ تھی سر شاہ امم پر
گہ اٹھ کے چھڑکتی تھی گلاب اہل حرم پر
مشغول تھی ماتم میں ابھی آل پیمبرؑ
زینبؑ کی نظر جا پڑی جو بھائی کے سر پر
چلائی کہ ہے ہے مرے تشنہ لب برادر
شیریں سے کہا دیکھ تو کیا پیٹتی ہے سر
پانی کو ترس کر مرے بھائی جو موئے ہیں
اب تک لب خشک کو وہ کھولے ہوئے ہیں
یہ سن کر شیریں پر اور رقت طاری ہوئی،اور ایک جام آب سرد سے بھر کر قریب لب مبارک لا کر عرض کیا۔کہ اے مرے مہمان،اے مرے تشنہ لب آقا اس پانی کی پی لیجیے،اس وقت کا حال بیت
لکھا ہے کہ اشک شاہ خوشخو نکل آئے
لب ہوگئے بند آنکھ سے آنسو نکل آئے
پھر لب ہائے مبارک جنبش میں آئے۔اور آپ نے فرمایا کہ اے شیریں بیمار کربلا کو پانی پلا۔اس کو نہیں ملا۔ سکینہؑ پیاس سے مرتے ہے۔ میں کیوں کر پیو ں۔اکبرؑ اصغرؑ اسی پیاس کو ترستے ہوئے دنیا سے سدھارے ہیں۔ نظم
شیریں نے کہا پھر تو سکینہؑ سے اس آن
اے جان حسینؑ ابن علیؑ میں ترے قربان
تو پی لے یہ پانی تو لگی کہنے وہ نادان
اعدا کے طمانچوں سے لبوں پر ہے مری جان
بھائی علی اصغر ؑ کی قسم میں نہ پیوں گی
بابا نہیں پیتے ہیں تو میں بھی نہ پیوں گی
تب گرپڑی سیدانیوں کے قدموں پہ شیریں
اور بولی سنا عذر جو کرتے ہیں شاہ دیں
تم پی لو یہ پانی تو ہو اس لونڈی کو تسکیں
رو رو کے مخاطب ہوئی یوں زینبؑ دل گیر
پانی پیے کون ابن علیؑ پیاسا موا ہے
اور فاتحہ اب تک نہیں پیاسا کا ہوا ہے
الغرض پانی کسی نے نہ پیا نظم
بن پانی کٹی پیاسوں کو ماتم میں وہ سب رات
نکلا جو سپیدائے سحر کوچ کا ہیہات
شیریں نے قدم چوم کے اک اک کو ردا دی
سر ڈھانپ کے سیدانیوں نے اس کو دعا دی
افسوس صد افسوس کہ وہ چادریں بھی اشقیا نے چھین لیں۔ شیریں نے حضرت زینبؑ سے فرمایا کہ اے شیریں یہ ظالمین ہمارے سروں کو ردا سے ڈھانپنے کے روادار نہیں ہیں۔ لیکن عابدؑ بیمارضعف وناتوانی کے سبب پیدل نہیں چل سکتے ہیں۔ اگر ہو سکے تو بیت
کچھ دے کو تو سمجھا دو یہ اب شمر وعمر کو
ناقہ پہ بٹھا لیں مرے بیمار پسر کو
نظم
شیریں نے دیئے شمر وعمر وہیں دینار
اور دنوں سے عابدؑ کی سفارش بہ تکرار
بے وارث و بیمار ہے اور بے کس وناچار
بٹھلا دو تم اب اونٹ پہ اس کو کہ ہے بیمار
یہ بیڑی مجھے یا مرے شوہر کو پہنا دو
بن باپ کے بچے کی مگر جان بچادو
شیریں تو سماجت سے یہ کرتی رہی گفتار
اور لے گیا سیدانیوں کو لشکر کفار
غش کھا کے گری خاک پہ شیریں جگر فگار
پر غش میں بھی آنکھیں تھیں سوئے عترت اطہار
شیریں کو ادھر بیوائوں کو واں شغل بکا تھا
تا عرش بریں ماتم شاہ شہداؑ تھا
الغرض اہلبیت اطہار کو لشکر کفار نے شیریں کے گھر سے ہمراہ لے کر شام کی جانب کوچ کیا،اور شیریں تڑپتی رہ گئی۔
یہ عرض ہے وزیر کی تم سے امام دیں
کوثر کا جام مجھ کو پلانا پئے شیریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلام علیکم جناب شیریں کے بارےمیں جو یہ روایت ہے یہ کس کتاب میں ہے
ReplyDelete