چھتیسویں مجلس زندان شام سے رہائی اور دفن امام کے بعد اہل بیت اطہار کا مدینہ میں ورود
صغرےٰ تھی بے قرار فراق امامؑ میں
آتے ہیں اہل بیت مدینہ میں شام سے
مفسران کلام الہیٰ آیات کریمہ کی تفسیر میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ خدا وند کریم نے حضرت یعقوب علیہ سلام کو بارہ فرزند عطا فرمائے تھے۔ مگر جناب یعقوبؑ کو اپنے ایک فرزند حضرت یوسف سے بے انتہا محبت تھی۔اور چونکہ خاصان خدا کا امتحان بھی بہت سخت ہوا کرتا ہے۔لہذا خدا نے حضرت یعقوبؑ کا امتحان ان کے سب سے پیارے فرزند کو ان سے جدا کرکے لیا۔جناب یوسفؑ ان سے جدا ہوئے۔ان کے فراق میں حضرت یعقوبؑ اس قدر روئے کہ آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ بیت
فرزند کے غم میں جو ہوا دل تہہ وبالا
آنکھیں ہوئیں بے نور گیا گھر کا اجالا
ہاں عزادارو: فرزند کی جدائی کا کچھ ایسا روح شکن صدمہ ہوتا ہے کہ جس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے۔جس کا کوئی فرزند بچھڑا ہو۔جناب یعقوبؑ کی آنکھوں کے سامنے گیارہ فرزند موجود تھے۔ صرف ایک فرزند جدا ہوا تھا۔اور حضرت یعقوبؑ جانتے تھے کہ وہ زندہ ہیں۔اور صحیح وسلامت ہے۔اور ایک دن اس سے ملاقات بھی ہو گی۔اس کے باوجود جدائی کا صدمہ ایسا تھا کہ روتے روتے آنکھیں بے نور ہو گئیں۔مگر اللہ رے صبر حسینؑ کے علیؑ اکبرؑ سا کڑیل جوان فرزند آنکھوں کے سامنے برچھی کھا کر دم توڑتا ہے۔ اور آپؑ کے مولا شکر کرتے ہیں۔پھر چھ مہینے کا بچہ ہاتھوں پر تیر ظلم سے شہید ہوتا ہے۔اور مولا شکر کرتے ہیں۔
المختصر جس وقت حضرت یعقوبؑ کا یہ حال پہنچا،حضرت جبرائیل بحکم رب جلیل نازل ہوئے،اور کہا کہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ دعا میں پنجتن پاک کا توسل اختیار کرو۔لہذا آنحضرت نے پنجتن پاک کے اسمائے متبرکہ سے توسل کیااور یوں دعا کی کہ پالنے والے تجھ کو پنجتن پاک کا وا سطہ خصوصا" حسینؑ شہید کا صدقہ مجھ کو میرے یوسفؑ سے ملادے۔تو فورا" دعائے جناب یعقوبؑ مستجاب ہوئی،سبحان اللہ کیا قدر ومنزلت ہے مظلوم کربلا کی پیش خدا کہ ابھی دعائے حضرتؑ یعقوب تمام نہ ہوئی تھی،کہ ادھر حضرت یوسفؑ کو حکم ہوا کہ اپنا پیراہن جناب یعقوبؑ کے پاس بھیجو۔ جناب یوسفؑ نے اپنے ایک متعمد بشیر نامی کے ہاتھ اپنا پیراہن روانہ کیا۔ جس وقت بشیر قریب شہر پہنچا تو معلوم ہوا کہ حضرت یعقوبؑ کے حزن وملال کے سبب ملائکہ اور جن وانس سب غمگین وپریشان رہتے ہیں۔حضرت یعقوبؑ گوشہ نشین ہو گئے تھے۔اس وقت باد نسیم نے خدا کے حکم سے حضرت یوسفؑ کے پیراہن کی خوشبو مشام حضرت یعقوبؑ میں پہنچائی۔پھر بشیر نے حضرت یوسفؑ کا پیراہن لا کر حضرت یعقوبؑ کی آنکھوں پر رکھ دیا۔ بیت
القصہ اس نے آن کے یوسفؑ کی دی خبر
بے خوف شمع تک ہوا پروانہ کا گزر
جس سے حضرت کی آنکھیں فورا" روشن ہو گئیں۔اور بشیر نے مژدہ سنایا کہ آپؑ کا فرزند مصر کا بادشاہ ہے۔ تخت شاہی پر جلوہ افروز ہے۔ہاں مومنین ایک بشیر نے تو حضرت یعقوبؑ کو سلطنت یوسفؑ کی خبر دی۔اب دوسرے بشیر کا حال سنیئے۔یعنی بشیر ابن جزلم مدینہ میں یوسفؑ کربلا کی شہادت کی سنانی لے کر آتا ہے۔ چنانچہ روایت میں وارد ہے کہ جس وقت اہل بیت اطہار شہدائے کربلا کے اجسام مطہرہ کو دفن کرکے مدینہ پہنچے تو امام زین العابدین نے بشیر ابن جزلم سے فرمایا کہ مدینہ میں جا کر ہمارے آنے کی خبر کردے۔مدینہ کے مکانات جو نظر آئے تو اہل بیت اطہار میں ایک کہرام مچ گیا۔ادھر فاطمہؑ صغری اور حضرت ام البنینؑ امام حسینؑ کی جدائی میں بے چین تھیں۔چنانچہ حضرت ام ا لبنین کےحال میں لکھا ہے کہ ہر روز اپنے مسافروں کا حال معلوم کرنے کے لیے مدینہ کے دروازے پر آکر بیٹھ جاتی تھیں۔اور جب خبر نہ ملتی تو مایوس ہو کر گھر کو واپس چلی جاتی تھیں۔ نظم
پر ان کو ناکہ پہ ہر روز دونوں وقت آنا
خبر ملے نہ ملے پوچھ کر چلے جانا
ہمیشہ فاطمہؑ صغریٰ کے دل کو بہلانا
تصور شاہ مظلوم میں یہ فرمانا
زرفتن تو من از عمر بے نصیب شدم
سفر تو کردی ومن در وطن غریب شدم
الغرض بحکم امامؑ عالی مقام بشیر داخل مدینہ ہوا۔جب قریب مسجد رسولؑ پہنچا،تو اس کو زمانہ پیغمبرؑ خدا ومرتبہ شہید کربلا یاد آیا۔طاقت ضبط نہ رہی۔ بے ساختہ رونے لگا اور بلند آواز سے پکارا کہ اے اہل مدینہ کیا اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہو،مدینہ رہنے کے قابل نہیں رہا۔ وارث مدینہ فرزند رسولؑ خدا جگر گوشہ فاطمہ زہراؑ کو ظالموں نے کربلا میں تین دن کا بھوکا پیاسا ذبح کردیا۔اور وہ مصیبت آنجناب پر گزری کہ بیان سے باہر ہے،اے اہل مدینہ حضرت زینبؑ وام کلثوم ودیگر مخدرات اہل حرم مع حضرت زین العابدینؑ آکر بیرون مدینہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ آہ جس وقت یہ آواز اہل مدینہ نے سنی سب پردہ نشین عورتیں بے تاب ہو کر گھروں سے باہر نکل پڑیں۔ اس شکل سے کہ بال سروں کے کھلے ہوئے،منہ پر طمانچے مارتی تھیں۔ بال نوچتی تھیں،بے اختیار روتی تھیں۔ اس حال سے سب کی سب حضرت زینبؑ کے خیمے کی طرف دوڑیں۔ بشیر کہتا ہے کہ میں نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی،تاکہ امام زین العابدینؑ کو پہلے جا کر اس واقعہ کی خبر دوں۔لیکن لوگوں کے اژدہام کی وجہ سے جگہ نہ پائی،ناچار گھوڑا وہیں چھوڑ کر امام کی خدمت میں پیدل حاضر ہوا۔آنحضرت بیرون خیمہ بیٹھے تھے۔ اور بے اختیار رو رہے تھے۔ رونے سے افاقہ نہ تھا۔اسی اثنا میں عورتیں اور مرد صدائے واویلا،واہ حسیناؑبلند کرتے ہوئے پہنچے،اور تمام عورتیں خیمہ جناب زینبؑ میں پہنچیں۔اس وقت کا حال کیا عرض کروں۔ صدائے گریہ وماتم سے ایک قیامت برپا تھی۔الغرض وہاں سے یہ لٹا ہوا قافلہ روضہ رسولؑ کی جانب روانہ ہوا۔اس وقت جناب زینبؑ فرماتی تھیں بیت
صغریٰ سے شرم سار میں ہونے کو آئی ہوں
بھائی کو ماں کی قبر پہ رونے کو آئی ہوں
اسی طرح روتی پیٹتی سرور کائنات کے روضے میں داخل ہوئیں۔ نظم
اہل حرم نے روضہ میں آکر پیٹا جو اپنا سر
زینبؑ نے قبر احمدؑ وزہراؑپہ کی نظر
اور مرثیہ وہ پڑھنے لگیں بچشم تر
قربان جائوں اب تو غریبوں کی لو خبر
اماں ترے پسر کے عزادار آئے ہیں
نانا ترے نواسے کے عزادار آئے ہیں
جدا میں اپنا حال کہوں یا اخی کا حال
امت نے مجھ کو قید کیا ان کو پائمال
دربار کی جفا کہوں یا قید کا ملال
تھی واں ہم اہل بیت کی بندی کی سی مثال
سر ننگے کوفہ وشام میں میں بھوکی پیاسی تھی
گویا کہ نانا میں نہ تمہاری نواسی تھی
جدا لٹا حسینؑ کا عمامہ وعبا
جدا خضاب خون ترے فرزند نے کیا
جدا تری بہو پھری بلوئے میں ننگے سر
جدا ترے نواسے پہ کی شمر نے جفا
روضہ پہ آکے نیل رسن کے دکھائوں گی
اب آج میں ضریع مبارک ہلائوں گی
مرگ حسنؑ کا اتنا ہوا نہ تھا ہم کو غم
ناچار کرکے سر کیا شبیرؑ کا قلم
وہ بے کسی کی موت وہ تنہائی کا عالم
شبیرؑ ذبح ہوتے تھے اور دیکھتے تھے ہم
کعبہ کی راہ نہ مدینہ کی راہ دی
مانگی پناہ پر کسی نے نہ پناہ دی
دردا بنی امیر اور ہم فقیر
حاکم یزید نائب مشکل کشا اسیر
جدا ہمارے زخم نہیں ہیں شفا پذیر
ہم جیتے آئے مرگئے طفل وجوان وپیر
عابد کا حلق وطوق گراں واہ مصیبتا
زینبؑ کی پشت وہ نوک سنان وامصیبتا
زینبؑ کی یہ حدیث مصیبت سنی جو ہائے
نزدیک تھا کہ عرش معظم زمین پر آئے
اور کشور مدینہ مع خلق بیٹھ جائے
واللہ بام ودر عربستاں کے تھر تھرائے
اندر لحد کے لاش نبیؑ کانپ جاتی تھی
صدمے سے جس کے قبر نبی تھرتھراتی تھی
اس بیان غم سے تمام مدینہ میں شور محشر بر پا ہو گیا۔درو دیوار سے اواز گریہ وبکا آنے لگی۔ بیت
ہاں مومنو روئو کہ دم سینہ زنی ہے
تازہ غم فرزند رسول مدنی ہے
الغرض جناب زینبؑ نے بقچہ کھول کر امام حسینؑ کا خون آلود عمامہ نکال کر مزار پیغمبرؑ خدا پر رکھا۔اور عرض کی بیت
تحفہ یہ نانا جان نیا لے کے آئی ہوں
کٹوا کے سر حسینؑ کا عمامہ لائی ہوں
الغرض حضرت زینبؑ یہ بین کرتے کرتے غش کر گئیں۔عورتوں نے آپ کو اٹھایا اور کہا ۔نظم
زینبؑ کو دی کسی نے خبرآکے ناگہاں
اب گھر چلو جمع ہیں پرسے کو بیبیاں
فرمایا گھر تو لٹ گیا مقتل میں گھر کہاں
لوگو قصور وار ہوں سب کی میں خستہ جان
صغرٰ ی سے شرم آتی ہے زہراؑ کی جائی کو
کھو آئی کربلا میں علیؑ کی کمائی کو
کتنوں کے بھائی کتنوں کے یوسف لقا پسر
حضرت کے ساتھ نکلے تھے گھر اپنا چھوڑ کر
کس منہ سے ان کے مرنے کی دوں گی انہیں خبر
یارب دہائی چھپ کے چلی جائوں میں کدھر
مر جائوں گی یہاں سے مگر گھر نہ جائوں گا
نانا کی قبر پر یہیں بستر لگائوں گی
اسی اثنا میں کسی نے خبر دی کہ فاطمہ صغرٰ ی اپنے پردیسیوں سے ملنے آتی ہے۔ یہ سن کر سیدانیوں میں اک شور قیامت برپا ہوا۔جناب زینبؑ نے بے قرار ہو کر فرمایا،لوگو میں کہاں جا کر منہ چھپائوں۔صغرٰ ٰی جو اپنے پدر کو پوچھے گی تو کیا جواب دوںگی۔الغرض فاطمہ صغرٰ ی روضہ رسولؑ میں داخل ہوئیں۔راوی کہتا ہے کہ روضہ کے اندر داخل ہو کے جناب فاطمہ صغریٰ نے چاروں طرف نگاہ کی۔لیکن نہ اپنی پھوپھیوں کو دیکھا نہ اپنی بہنوں کو پایا۔تو بے تاب ہو کر پوچھنے لگیں،لوگو کربلا کے مسافر کہاں ہیں۔پھوپھی زینبؑ کس طرف ہیں۔کیا انہوں نے بھی کربلا کو آباد کیا۔جناب زینبؑ یہ سن کر بے قرار ہو گئیں۔اور صغریٰ سے لپٹ گئیں۔اور فرمایا کہ پھوپھی کی جان تم نے بھی مجھ دکھیا کو نہیں پہچانا۔اے صغریٰ میں ہوں تیری پھوپھی زینبؑ بی بی لوگ سفر سے اپنے عزیزوں اور ملنے والوں کے لیے طرح طرح کےتحفے لاتے ہیں۔لیکن تیری پھوپھی تیرے باپ بھائیوں کی سنانی لائی ہے۔اے صغرٰی زینبؑ منہ دکھانے کے قابل نہیں ہے۔پردیس میں فاطمہ زہراؑ کی کمائی لٹا آئی ہوں۔اے صغریٰ تیرے بابا کو اشقیا نے تین دن کا بھوکا پیاسا ذبح کر ڈالا۔ہائے پانی ہی کے لیے عباسؑ کے شانے کاٹے گئے۔اے صغریٰ تیرے جوان بھائی ہم شبیہ رسولؑ اکرم علی اکبرؑ کے سینہ پر برچھی لگی۔قاسم کی لاش گھوڑوں کی ٹاپوں سے پائمال کی گئی۔اے صغریٰ یہ دکھیا زینبؑ لوٹی گئی۔اسیر ہوئی ننگے سر بازاروں میں پھرائی گئی۔ یہ سن کر بیمار وناتواں صغریٰ کے دل پر غم کا خنجر چل گیا۔کربلا کی طرف ہاتھ اٹھا کر پکاری کیوں بابا کیا میری بیماری کی یہی دوا تھی۔یہ بیمار آپ کے دیدار کی آس لگائے جی رہی تھی۔بھیا علیؑ اکبرؑ کے انتظار میں دن گنا کرتی تھی۔ہائے بابا اب صغریٰ کی آس ٹوٹ گئی۔یہ بیمار کس کے سہارے جیئے گی۔یہ بین سن سن کر تمام بیبیوں میں کہرام برپا ہو گیا تھا۔اتنے میں روتے روتے کچھ خیال آیا تو صغرٰی اٹھی۔اور ایک ایک بی بی کی گود دیکھنے لگیں۔جناب زینبؑ نے پوچھا کہ اے بی بی کیا تلاش کر رہی ہو۔صغریٰ نے عرض کی،صغریٰ نے عرض کی پھوپھی اماں باپ اور بھائی تو میدان کربلا میں لڑ کر مارے گئے۔ ان سب لوگوں سے تو صغریٰ بے آس ہو گئی۔لیکن میرا ننھا مسافر علی اصغرؑ کہاں ہے۔میں اس کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ یہ سن کر سیدانیوں میں رونے کا ایک حشر بپا ہو گیا۔ جناب رباب سر پٹکنے لگیں۔ زینبؑ نے صغریٰ کو گلے لگا کر فرمایا،بیٹی کیا پوچھتی ہو،علی اصغرؑ بھی میدان میںحرملہ لعین کا تیر گلے پر کھا کر جنت کو سدھارے۔اے صغریٰ بس یہ سمجھ لو کہ سید سجادؑ کے سوا مردوں میں کوئی باقی نہیں۔ الغرض جب اہل بیت رسولؑ کا گریہ وبکا سے افاقہ ہوا تو صغریٰ سب کو ساتھ لے کر دولت سرا میں آئیں،نظم
پھر آئی گھر میں لے کے حرم کو یتیم شاہؑ
فضہ نے در پہ باندھ دیا پردہ سیاہ
کرسی پہ آکے بیٹھ گئے شاہ دین پناہ
آنکھوں میں اشک ہاتھ میں رومال لب پہ آہ
گردن میں ایک شال عزا تھی پڑی ہوئی
کرسی کو گھیرے خلق خدا تھی کھڑی ہوئی
اک پیٹتا تھا سر کف پا دیکھ کے گفار
اک زخم تازیانے کے گن کر تھا بے قرار
سر کھولے گھر میں بیبیاں جاتی تھیں بے شمار
منہ ڈھانپتی تھیں بیٹیاں زہراؑ کی بار بار
تقریب تعزیت میں عرب جمع ہوتے تھے
عابدؑ کے ساتھ فاتحہ پڑھ پڑھ کے روتے تھے
دل ہلتا ہے وزیر کا لغزش میں قلم ہے
زینبؑ جو عنایت ہو عوض اس کا وہ کم ہے
Comments
Post a Comment