Skip to main content

چھتیسویں مجلس زندان شام سے رہائی اور دفن امام کے بعد اہل بیت اطہار کا مدینہ میں ورود


چھتیسویں مجلس زندان شام سے رہائی اور دفن امام کے بعد اہل بیت اطہار کا مدینہ میں ورود
صغرےٰ تھی بے قرار فراق امامؑ میں
آتے ہیں اہل بیت مدینہ میں شام سے
مفسران کلام الہیٰ آیات کریمہ کی تفسیر میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ خدا وند کریم نے حضرت یعقوب علیہ سلام کو بارہ فرزند عطا فرمائے تھے۔ مگر جناب یعقوبؑ کو اپنے ایک فرزند حضرت یوسف سے بے انتہا محبت تھی۔اور چونکہ خاصان خدا کا امتحان بھی بہت سخت ہوا کرتا ہے۔لہذا خدا نے حضرت یعقوبؑ کا امتحان ان کے سب سے پیارے فرزند کو ان سے جدا کرکے لیا۔جناب یوسفؑ ان سے جدا ہوئے۔ان کے فراق میں حضرت یعقوبؑ اس قدر روئے کہ آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ بیت
 فرزند کے غم میں جو ہوا دل تہہ وبالا
آنکھیں ہوئیں بے نور گیا گھر کا اجالا
ہاں عزادارو: فرزند کی جدائی کا کچھ ایسا روح شکن صدمہ ہوتا ہے کہ جس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے۔جس کا کوئی فرزند بچھڑا ہو۔جناب یعقوبؑ کی آنکھوں کے سامنے گیارہ فرزند موجود تھے۔ صرف ایک فرزند جدا ہوا تھا۔اور حضرت یعقوبؑ جانتے تھے کہ وہ زندہ ہیں۔اور صحیح وسلامت ہے۔اور ایک دن اس سے ملاقات بھی ہو گی۔اس کے باوجود جدائی کا صدمہ ایسا تھا کہ روتے روتے آنکھیں بے نور ہو گئیں۔مگر اللہ رے صبر حسینؑ کے علیؑ اکبرؑ سا کڑیل جوان فرزند آنکھوں کے سامنے برچھی کھا کر دم توڑتا ہے۔ اور آپؑ کے مولا شکر کرتے ہیں۔پھر چھ مہینے کا بچہ ہاتھوں پر تیر ظلم سے شہید ہوتا ہے۔اور مولا شکر کرتے ہیں۔
المختصر جس وقت حضرت یعقوبؑ کا یہ حال پہنچا،حضرت جبرائیل بحکم رب جلیل نازل ہوئے،اور کہا کہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ دعا میں پنجتن پاک کا توسل اختیار کرو۔لہذا آنحضرت نے پنجتن پاک کے اسمائے متبرکہ سے توسل کیااور یوں دعا کی کہ پالنے والے تجھ کو پنجتن پاک کا وا سطہ خصوصا" حسینؑ شہید کا صدقہ مجھ کو میرے یوسفؑ سے ملادے۔تو فورا" دعائے جناب  یعقوبؑ مستجاب ہوئی،سبحان اللہ کیا قدر ومنزلت ہے مظلوم کربلا کی پیش  خدا کہ ابھی دعائے حضرتؑ یعقوب تمام نہ ہوئی تھی،کہ ادھر حضرت یوسفؑ کو حکم ہوا کہ اپنا پیراہن جناب یعقوبؑ کے پاس بھیجو۔ جناب یوسفؑ نے اپنے ایک متعمد  بشیر نامی کے ہاتھ اپنا پیراہن روانہ کیا۔ جس وقت بشیر قریب شہر پہنچا تو معلوم ہوا کہ حضرت یعقوبؑ کے حزن وملال کے سبب ملائکہ اور جن وانس سب غمگین وپریشان رہتے ہیں۔حضرت یعقوبؑ گوشہ نشین ہو گئے تھے۔اس وقت باد نسیم نے خدا کے حکم سے حضرت یوسفؑ کے پیراہن کی خوشبو مشام حضرت یعقوبؑ میں پہنچائی۔پھر بشیر نے حضرت یوسفؑ کا پیراہن لا کر حضرت یعقوبؑ کی آنکھوں پر رکھ دیا۔ بیت
القصہ اس نے آن کے یوسفؑ کی دی خبر
بے خوف شمع تک ہوا پروانہ کا گزر
 جس سے حضرت کی آنکھیں فورا" روشن ہو گئیں۔اور بشیر نے مژدہ سنایا کہ آپؑ کا فرزند مصر کا بادشاہ ہے۔ تخت شاہی پر جلوہ افروز ہے۔ہاں مومنین ایک بشیر نے تو حضرت یعقوبؑ کو سلطنت یوسفؑ کی خبر دی۔اب دوسرے بشیر کا حال سنیئے۔یعنی بشیر ابن جزلم مدینہ میں یوسفؑ کربلا کی شہادت کی سنانی لے کر آتا ہے۔ چنانچہ روایت میں وارد ہے کہ جس وقت اہل بیت اطہار شہدائے کربلا کے اجسام مطہرہ کو دفن کرکے مدینہ پہنچے تو امام زین العابدین نے بشیر ابن جزلم سے فرمایا کہ مدینہ میں جا کر ہمارے آنے کی خبر کردے۔مدینہ کے مکانات جو نظر آئے تو اہل بیت اطہار میں ایک کہرام مچ گیا۔ادھر فاطمہؑ صغری اور حضرت ام  البنینؑ امام حسینؑ کی جدائی میں بے چین تھیں۔چنانچہ حضرت ام  ا لبنین کےحال میں لکھا ہے کہ ہر روز اپنے مسافروں کا حال معلوم کرنے کے لیے مدینہ کے دروازے پر آکر بیٹھ جاتی تھیں۔اور جب خبر نہ ملتی تو مایوس ہو کر گھر کو واپس چلی جاتی تھیں۔ نظم
 پر ان کو ناکہ پہ ہر روز دونوں وقت آنا
خبر ملے نہ ملے پوچھ کر چلے جانا
ہمیشہ فاطمہؑ صغریٰ کے دل کو بہلانا
تصور شاہ مظلوم میں یہ فرمانا
زرفتن تو من از عمر بے نصیب شدم
 سفر تو کردی ومن در وطن غریب شدم
 الغرض بحکم امامؑ عالی مقام بشیر داخل مدینہ ہوا۔جب قریب مسجد رسولؑ پہنچا،تو اس کو زمانہ پیغمبرؑ خدا ومرتبہ شہید کربلا یاد آیا۔طاقت ضبط نہ رہی۔ بے ساختہ رونے لگا اور بلند آواز سے پکارا کہ اے اہل مدینہ کیا اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہو،مدینہ رہنے کے قابل نہیں رہا۔ وارث مدینہ فرزند رسولؑ خدا جگر گوشہ فاطمہ زہراؑ کو ظالموں نے کربلا میں تین دن کا بھوکا پیاسا ذبح کردیا۔اور وہ مصیبت آنجناب پر گزری کہ بیان سے باہر ہے،اے اہل مدینہ حضرت زینبؑ وام کلثوم ودیگر مخدرات اہل حرم مع حضرت زین العابدینؑ آکر بیرون مدینہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ آہ جس وقت یہ آواز اہل مدینہ نے سنی سب پردہ نشین عورتیں بے تاب ہو کر گھروں سے باہر نکل پڑیں۔ اس شکل سے کہ بال سروں کے کھلے ہوئے،منہ پر طمانچے مارتی تھیں۔ بال نوچتی تھیں،بے اختیار روتی تھیں۔ اس حال سے سب کی سب حضرت زینبؑ کے خیمے کی طرف دوڑیں۔ بشیر کہتا ہے کہ میں نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی،تاکہ امام زین العابدینؑ کو پہلے جا کر اس واقعہ کی خبر دوں۔لیکن لوگوں کے اژدہام کی وجہ سے جگہ نہ پائی،ناچار گھوڑا وہیں چھوڑ کر امام کی خدمت میں پیدل حاضر ہوا۔آنحضرت بیرون خیمہ بیٹھے تھے۔ اور بے اختیار رو رہے تھے۔ رونے سے افاقہ نہ تھا۔اسی اثنا  میں عورتیں  اور مرد  صدائے واویلا،واہ حسیناؑبلند کرتے ہوئے پہنچے،اور تمام عورتیں خیمہ جناب زینبؑ میں پہنچیں۔اس وقت کا حال کیا عرض کروں۔ صدائے گریہ وماتم سے  ایک قیامت برپا تھی۔الغرض وہاں سے یہ لٹا ہوا قافلہ روضہ رسولؑ کی جانب روانہ ہوا۔اس وقت جناب زینبؑ فرماتی تھیں بیت
صغریٰ سے شرم سار میں ہونے کو آئی ہوں
بھائی کو ماں کی قبر پہ رونے کو آئی ہوں
 اسی طرح روتی پیٹتی سرور کائنات کے روضے میں داخل ہوئیں۔ نظم
 اہل حرم نے روضہ میں آکر پیٹا جو اپنا سر
 زینبؑ نے قبر احمدؑ وزہراؑپہ کی نظر
اور مرثیہ وہ پڑھنے لگیں بچشم تر
قربان جائوں اب تو غریبوں کی لو خبر
اماں ترے پسر کے عزادار آئے ہیں
 نانا ترے نواسے کے عزادار آئے ہیں
جدا میں اپنا حال کہوں یا اخی کا حال
امت نے مجھ کو قید کیا ان کو پائمال
دربار کی جفا کہوں یا قید کا ملال
تھی واں ہم اہل بیت کی بندی کی سی مثال
سر ننگے کوفہ وشام میں میں بھوکی پیاسی تھی
گویا کہ نانا میں نہ تمہاری نواسی تھی
جدا  لٹا حسینؑ کا عمامہ وعبا
جدا خضاب خون ترے فرزند نے کیا
جدا تری بہو پھری بلوئے میں ننگے سر
جدا ترے نواسے پہ کی شمر نے جفا
روضہ پہ آکے نیل رسن کے دکھائوں گی
اب آج میں ضریع مبارک ہلائوں گی
مرگ حسنؑ کا اتنا ہوا نہ تھا ہم کو غم
ناچار کرکے سر کیا شبیرؑ کا قلم
وہ بے کسی کی موت وہ تنہائی کا عالم
شبیرؑ ذبح ہوتے تھے اور دیکھتے تھے ہم
کعبہ کی راہ نہ مدینہ کی راہ دی
مانگی پناہ پر کسی نے نہ پناہ دی
دردا بنی امیر اور ہم فقیر
 حاکم یزید نائب مشکل کشا اسیر
جدا ہمارے زخم نہیں ہیں شفا پذیر
ہم جیتے آئے مرگئے طفل وجوان وپیر
عابد کا حلق وطوق گراں واہ مصیبتا
زینبؑ کی پشت وہ نوک سنان وامصیبتا
زینبؑ کی یہ حدیث مصیبت سنی جو ہائے
نزدیک تھا کہ عرش معظم زمین پر آئے
اور کشور مدینہ مع خلق بیٹھ جائے
واللہ بام ودر عربستاں کے تھر تھرائے
اندر لحد کے لاش نبیؑ کانپ جاتی تھی
صدمے سے جس کے قبر نبی تھرتھراتی تھی
اس بیان غم سے تمام مدینہ میں شور محشر بر پا ہو گیا۔درو دیوار سے اواز گریہ وبکا آنے لگی۔ بیت
ہاں مومنو روئو کہ دم سینہ زنی ہے
تازہ غم فرزند رسول مدنی ہے
 الغرض جناب زینبؑ نے بقچہ کھول کر امام حسینؑ کا خون آلود عمامہ نکال کر مزار پیغمبرؑ خدا پر رکھا۔اور عرض کی بیت
تحفہ یہ نانا جان نیا لے کے آئی ہوں
کٹوا کے سر حسینؑ کا عمامہ لائی ہوں
الغرض حضرت زینبؑ یہ بین کرتے کرتے غش کر گئیں۔عورتوں نے آپ کو اٹھایا اور کہا ۔نظم
زینبؑ کو دی کسی نے خبرآکے ناگہاں
اب گھر چلو جمع ہیں پرسے کو بیبیاں
فرمایا گھر تو لٹ گیا مقتل میں گھر کہاں
لوگو قصور وار ہوں سب کی میں خستہ جان
صغرٰ ی سے شرم آتی ہے زہراؑ کی جائی کو
کھو آئی کربلا میں علیؑ کی کمائی کو
کتنوں کے بھائی کتنوں کے یوسف لقا پسر
حضرت کے ساتھ نکلے تھے گھر اپنا چھوڑ کر
کس منہ سے ان کے مرنے کی دوں گی انہیں خبر
یارب دہائی چھپ کے چلی جائوں میں کدھر
مر جائوں گی یہاں سے مگر گھر نہ جائوں گا
نانا کی قبر پر یہیں بستر لگائوں گی
اسی اثنا میں کسی نے خبر دی کہ فاطمہ صغرٰ  ی اپنے پردیسیوں سے ملنے آتی ہے۔ یہ سن کر سیدانیوں میں اک شور قیامت برپا ہوا۔جناب زینبؑ نے بے قرار ہو کر فرمایا،لوگو میں کہاں جا کر منہ چھپائوں۔صغرٰ  ٰی جو اپنے پدر کو پوچھے گی تو کیا جواب دوںگی۔الغرض فاطمہ صغرٰ  ی روضہ رسولؑ میں داخل ہوئیں۔راوی کہتا ہے کہ روضہ کے اندر داخل ہو کے جناب فاطمہ صغریٰ نے چاروں طرف نگاہ کی۔لیکن نہ اپنی پھوپھیوں کو  دیکھا نہ اپنی بہنوں کو پایا۔تو بے تاب ہو کر پوچھنے لگیں،لوگو کربلا کے مسافر کہاں ہیں۔پھوپھی زینبؑ کس طرف ہیں۔کیا انہوں نے بھی کربلا کو آباد کیا۔جناب زینبؑ یہ سن کر بے قرار ہو گئیں۔اور صغریٰ سے لپٹ گئیں۔اور فرمایا کہ پھوپھی کی جان تم نے بھی مجھ دکھیا کو نہیں پہچانا۔اے صغریٰ میں ہوں تیری پھوپھی زینبؑ بی بی لوگ سفر سے اپنے عزیزوں اور ملنے والوں کے لیے طرح طرح کےتحفے لاتے ہیں۔لیکن تیری پھوپھی تیرے باپ بھائیوں کی سنانی لائی ہے۔اے صغرٰی زینبؑ منہ دکھانے کے قابل نہیں ہے۔پردیس میں فاطمہ زہراؑ کی کمائی لٹا آئی ہوں۔اے صغریٰ تیرے بابا کو اشقیا نے تین دن کا بھوکا پیاسا ذبح کر ڈالا۔ہائے پانی ہی کے لیے عباسؑ کے شانے کاٹے گئے۔اے صغریٰ تیرے جوان بھائی ہم شبیہ رسولؑ اکرم علی اکبرؑ کے سینہ پر برچھی لگی۔قاسم کی لاش گھوڑوں کی ٹاپوں سے پائمال کی گئی۔اے صغریٰ یہ دکھیا زینبؑ لوٹی گئی۔اسیر ہوئی ننگے سر بازاروں میں پھرائی گئی۔ یہ سن کر بیمار وناتواں  صغریٰ کے دل پر غم کا خنجر چل گیا۔کربلا کی طرف ہاتھ اٹھا کر پکاری کیوں بابا کیا میری بیماری کی یہی دوا تھی۔یہ بیمار آپ کے دیدار کی آس لگائے جی رہی تھی۔بھیا علیؑ اکبرؑ کے انتظار میں دن گنا کرتی تھی۔ہائے بابا اب صغریٰ کی آس ٹوٹ گئی۔یہ بیمار کس کے سہارے جیئے گی۔یہ بین سن سن کر تمام بیبیوں میں کہرام برپا ہو گیا تھا۔اتنے میں روتے روتے کچھ خیال آیا تو صغرٰی اٹھی۔اور ایک ایک بی بی کی گود دیکھنے لگیں۔جناب زینبؑ نے پوچھا کہ اے بی بی کیا تلاش کر رہی ہو۔صغریٰ نے عرض کی،صغریٰ نے عرض کی پھوپھی اماں باپ اور بھائی تو میدان کربلا میں لڑ کر مارے گئے۔ ان سب لوگوں سے تو صغریٰ بے آس ہو گئی۔لیکن میرا ننھا مسافر علی اصغرؑ کہاں ہے۔میں اس کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ یہ سن کر سیدانیوں میں رونے کا ایک حشر بپا ہو گیا۔ جناب رباب سر پٹکنے لگیں۔ زینبؑ نے صغریٰ کو گلے لگا کر فرمایا،بیٹی کیا پوچھتی ہو،علی اصغرؑ بھی میدان میںحرملہ لعین کا تیر گلے پر کھا کر جنت کو سدھارے۔اے صغریٰ بس یہ سمجھ  لو کہ سید سجادؑ کے سوا مردوں میں کوئی باقی نہیں۔ الغرض جب اہل بیت رسولؑ کا گریہ وبکا سے افاقہ ہوا تو صغریٰ سب کو ساتھ لے کر دولت سرا میں آئیں،نظم
 پھر آئی گھر میں لے کے حرم کو یتیم شاہؑ
فضہ نے در پہ باندھ دیا پردہ سیاہ
 کرسی پہ آکے بیٹھ گئے شاہ دین پناہ
آنکھوں میں اشک ہاتھ میں رومال لب پہ آہ
گردن میں ایک شال عزا تھی پڑی ہوئی
کرسی کو گھیرے خلق خدا تھی کھڑی ہوئی
 اک پیٹتا تھا سر کف پا دیکھ کے گفار
اک زخم تازیانے کے گن کر تھا بے قرار
سر کھولے گھر میں بیبیاں جاتی تھیں بے شمار
منہ ڈھانپتی تھیں بیٹیاں زہراؑ کی بار بار
تقریب تعزیت میں عرب جمع ہوتے تھے
عابدؑ کے ساتھ فاتحہ پڑھ پڑھ کے روتے تھے
دل ہلتا ہے وزیر کا لغزش میں قلم ہے
زینبؑ جو عنایت ہو عوض اس کا وہ کم ہے

Comments

Popular posts from this blog

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا

﷽ انتیسویں مجلس امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا  اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو واللہ ناامید کے دل کو امید ہو  اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت  دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی نظم پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے  اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں ہمس...

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...