Skip to main content

تینتسویں مجلس اہل بیت رسولؑ کا زندان میں قید ہونااور وہاں مع اپنی دختر کے ہند کا آنا


تینتسویں مجلس
اہل بیت رسولؑ  کا زندان میں قید ہونااور وہاں مع اپنی دختر کے ہند کا آنا
 افسوس اہل بیت کہاں وہ مکاں کہاں
اجڑی ہوئی زمین کہاں آسمان کہاں
اے مومنین: جناب حوا  زوجہ حضرت آدمؑ اور آسیہ زن فرعون،اور حضرت مریم مادر حضرت عیسیٰ ؑ اور جناب ہاجرہ وجناب خدیجۃ الکبریٰ زوجہ جناب رسولؑ خدا کی قدر ومنزلت اگر چہ تمام عورتوں سےبہت بلند اور زیادہ تھی۔لیکن جو عظمت وشرف جناب فاطمہ زہراؑ نے پایا۔ کسی بی بی  کو حاصل نہیں  ہوا۔آپ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔اور جناب فاطمہؑ زہرا کے بعد جو مرتبہ جناب زینبؑ کا ہے،وہ کسی بی بی کو نصیب نہیں ہوا۔ نظم
 کیا مرتبہ بنت رسولؑ دوسرا  ہے
خاتون جناں جن کو لقب حق سے ملا ہے
بلقیس وخدیجہؑ سے شرف ان کا سوا ہے
عصمت جسے کہتے ہیں وہ زینبؑ کی ردا ہے
زہراؑ سے بزرگی میں برابر نہیں کوئی
ڈھکتے ہیں گناہ جس سے وہ چادر انہی کی ہے
ماں سیدہ پاک ہے خاتون معظم
وہ زینت کونین یہ تاج سر عالم
آدم سے علیؑ پہلے یہ حوا سے مقدم
قرآن رسالت میں ہیں یہ سورۃ مریم
عصمت کا ادھر سر ہے قدم جس طرف ان کا
محبوبؑ خدا سے کوئی پوچھے شرف ان کا
ہے عرش جہاں پست وہ رتبہ ہے انہی کا
خورشید نے دیکھا نہ وہ سایہ ہے انہی کا
فردوس مقام ان کا ہے طوبےٰ ہے انہی کا
کہتے ہیں جسے شرم وہ پردہ ہے انہی کا
حوروں سے بھی تشبیہ انہیں دے نہیں سکتے
بے صل علےٰ نام ملک لے نہیں سکتے
نانا شاہؑ لولاک پدر حیدرؑ صفدر
ماں حضرت زہراؑ جگر وجان پیمبرؑ
سردار جوانان جناں دونوں برادر
اک حضرت شبیرؑ تو اک حضرت شبرؑ
بوطالب ذی شوکت وشان آپؑ کے جد ہیں
دادی اسد اللہ کی ماں بنت اسد ہے
اللہ رے اقبال خوشا عزت وتوقیر
پائی نہیں اب تک کسی بی بی نے یہ تقدیر
خوبو سے عیاں فاطمہؑ کے دودھ کی تاثیر
صانع نے بنائی تھی عجب نور کی تصویر
بیٹی بھی ہو اس شان کی بابا ہو جب ایسا
 آپؑ ایسی گھر ایسا حسب ایسا نسب ایسا
کیوں اہل عزا جس کا یہ رتبہ ہو یہ توقیر
زندان میں اسے قید کرے فرقہ بے پیر
افسوس ہے اس بی بی کی برگشتہ ہو تقدیر
بازار میں سر ننگے پھرے خواہر شبیرؑ
جو ہاتھ اٹھیں امت عاصی کی دعا میں
اعدا انہیں باندھیں رسن ظلم وجفا میں
چنانچہ اہل بیت کی اسیری کا حال یوں تحریر ہے، کہ جب ان مخدرات عصمت وطہارت کو دربار کی ذلت ورسوائی سے نجات ملی۔ تو اس طرح کہ یزید ملعون کے حکم سے قید خانہ شام میں بند کر دیئے گئے۔ بیت
 یوں خرابے میں اسیر آن کے کب قید ہوئے
جس ستم سے کہ اسیران حرم قید ہوئے
 چنانچہ تحریر ہے کہ شام کے رہنے والے زن ومرد اکثر زندان کے پاس اہل بیت کی آہ وزاری اور تکلیف و مصیبت دیکھ کر خود بھی آکر حال گریہ اہل بیت پر رویا کرتے تھے۔ اور انسانوں کا کیا ذکر جن وملک مصروف ماتم داری تھے۔ نظم
چشم رضواں اسی اندوہ سے نم ہوتی تھی
آکے زندان میں ہر حور جناں روتی تھیں
دیکھ کر آل محمد ؑ کو خرابے میں اسیر
حامل عرش الہیٰ بھی تھے از حد دلگیر
قدسیوں کے لب طاہر پہ یہی تھی تقریر
خوب کی امت احمدؑ نے حرم کی توقیر
ظلم خاصان خدا پر یہ ہوا یاں ہے ہے
ہائے ناموس نبیؑ اور یہ زنداں ہائے ہائے
دیکھ کر قید میں عترت کو رسولؑ مختار
روتے تھے خانہ زنداں میں آکر ہر بار
تھے حزیں حیدر صفدر بھی بچشم خونبار
نالہ کش تھے حسنؑ سبز قبا لیل ونہار
رات دن خانہ زنداں میں نبیؑ روتے تھے
ان کے پیچھے کھڑے اس شاہ کے وصی روتے تھے
روتے زنداں میں تھے جس دم کی اسیران رسن
 ساتھ ہی حوریں بھی روتی تھیں بشور وشیون
ہاجرہ شکوں سے تر کرتی تھی اپنا دامن
نالہ کش مریم وسارہ تھیں بصد رنج و محن
اور حوا و خدیجہؑ وہاں غش ہوتی تھیں
حضرت فاطمہؑ یہ کرکے بیاں روتی تھیں
دیکھو اے بیبیو ہے قید میں میرا کنبہ
ہے یہ کلثومؑ میری بیٹی یہ زینبؑ دکھیا
یہ سیکنہؑ یہ رقیہ یہ دلہن ہے کبریٰ
شہر بانو ہے بہو میری یہ بنت کسریٰ
سر رکھے زانو پہ روتی جو بصد یاس ہے یہ
اے خواتین جناں زوجہ عباسؑ ہے یہ
طوق وزنجیر جو یہ پہنے ہوئے روتا ہے یہی سجاد دلفگار میرا پوتا ہے
 الصرض جس وقت گریہ اہلبیتؑ اطہار کا شور وغل ہوتا تھا نظم
اٹھتا تھا بسکہ آہوں کا ہر دم دھواں سیاہ
دو دن میں ہو گیا تھا وہ سارا مکاں سیاہ
حجرے سیاہ سقف سیہ سائبان سیاہ
تھا چشم اہل بیت میں سارا جہاں سیاہ
غل تھا اندھیری قبر میں لوگو نہاں ہیں ہم
کچھ سوجھتا نہیں ہے کدھر ہے کہاں ہیں ہم
زنداں نہ کہیے رنج ومصیبت کا تھا وہ گھر
کڑیاں شکستہ خم درو دیوار سر بسر
کہتی تھی آکے در پہ ہوا بھی کہ الحذر
تھے جیتے جی لحد میں اسیران نوحہ گر
روحیں پکارتی تھیں کہ گھٹتے نفس ہیں ہم
نالے دلوں کے تھے کہ قفس در قفس ہیں ہم
چلاتی تھی یہ مادر قاسمؑ بصد محن
صدقے میں تیری لاش کے اے دلبر حسنؑ
پامال ظلم رن میں ہوا پھول سابدن
ہے ہے تمہارے بیاہ کا خلعت بنا کفن
ایسا بھی عقد ہوتا ہے واری زمانے میں
دولہا تو کربلا میں دلہن قید خانے میں
مدت سے کچھ سنا نہیں ماں نے تمہارا حال
جنگل میں کیا گزر گئی اے میرے نونہال
مرتی ہے قید میں یہ اسیر غم وملال
میرا نہیں دلہن کا تو لازم ہے کچھ خیال
صدقے گئی خبر نہ لی آنکھ موڑ کے
جنگل میں سوئے رات کی بیاہی کو چھوڑ کے
کرتی تھی بین زوجہ عباسؑ نامدار
والی مرے کدھے تمہیں ڈھونڈے یہ سوگوار
قید بلا میں آپ کے بچے ہیں بے قرار
بابا کہاں گئے یہی کہتے ہیں بار بار
ہر دم شریک حال جفا ومحن میں ہیں
بیووں کے ساتھ ان کے گلے بھی رسن میں ہیں
صاحب بہت تھی تم کو سکینہؑ کی اپنی چاہ
زنداں میں کچھ نہ اس کی مصیبت پہ کی نگاہ
زاری کبھی ہے اور کبھی شور وفغاں آہ
ماتم میں آپ کے نہ جیئے گی یہ رشک ماہ
کیونکر چھپائیں حال شاہ مشرقین کا
دیکھا ہے طشت میں سر پر خوں حسینؑ کا
بانو جگر پکڑ کے  یہ کہتی تھی دم بدم
لوگو دعا کرو کہ نکل جائے مرا دم
ہے ہے پسر کی بے کفنی کا مجھے ہے غم
صحرائے لق ودق وہ کڑی دھوپ ہے ستم
خالق نگہبان ہے تن پاش پاش کا
 کیا حال ہو گا اکبرؑ ماہ رو کی لاش کا
 الغرض اس طرح ہر ایک بی بی ایک ایک شہید کا نام لے کے روتی تھی،لیکن جناب زینبؑ کی بےقراری اور بے چینی سب سے زیادہ تھی۔جو بیان نہیں ہو سکتی۔ نظم
 کیا حال بنت فاطمہؑ زہرا کروں بیاں
وہ بین دل خراش وہ فریاد وہ فغاں
آہیں وہ گرم وسرد وہ نالے کہ الاماں
جب ہائے بھائی کہتی تھی ہلتا تھا آسمان
کہتے تھے سن کے جن وملک ان کے بین کو
زہراؑ بھی ہوتیں تو یونہی روتی حسینؑ کو
دن رات پیٹنے کے سوا نہ تھا کوئی کام
منہ دشت کربلا کی طرف لب پہ یہ کلام
بھیا بہن تڑپتی تھی زنداں میں صبح وشام
اور آپ بے خبر ہیں تعجب کا ہے مقام
کس سے کہوں جو ہجر کی ایذا گزرتی ہے
اتنا تو پو  چھتے کہ بہن کیا گزرتی ہے
صدقے گئی دکھائوں کسے اپنا حال زار
 دل زخم دار ہے تو کلیجہ ہے داغ دار
شانے تمام نیزے کی نوکوں سے ہیں فگار
ماتم میں سر کھلا ہے گریبان ہے تار تار
زنداں میں اوڑھنا بھی بچھونا بھی خاک ہے
تن پر لباس گرد بھی اشکوں سے چاک ہے
صدقے گئی اسیر بہن کی مدد کو آئو
بھیا میں جاں بلب ہوں مجھے قید سے چھڑائو
چین آئے کس طرح دل بے تاب کو بتائو
ہے ہے بہن تو جیتی ہے اور تم کفن نہ پائو
غم سے نظر  میں خلق کی بستی اجاڑ ہے
ہر شب ہے مجھ پہ قہر ہر اک دن پہاڑ ہے
زنداں میں یوں تڑپتی ہوں بھائی میں سوگ وار
جیسے قفس میں بلبل شیدا ہو بے قرار
کی ہے نگاہ یاس سے منت ہزار بار
مرجھا رہا ہے دھوپ میں زہراؑ کا گلعذار
سایہ بہن کرے گی تن پاش پاش پر
للہ مجھ کو جانے دو بھائی کی لاش پر
الغرض اہل بیت رسولؑ یوں ہی آہ وزاری اور فریاد وفغاں میں ہر وقت مشغول رہتے۔راوی لکھتا ہے کہ قیدخانہ یزید کے محل سے نزدیک تھا۔اور اسی محل میں یزید کی زوجہ ہند  رہتی تھی۔اہل حرم کی یہ گریہ وزاری اور نالہ وفریاد کی آوازیں سن کر اس کا آب ودانہ اور آرام وچین سب چھوٹ گیا تھا۔ ہر چند لونڈیاں سمجھاتی تھیں کہ بی بی محل میں  چاروں  طرف دھوم دھام ہے۔حاکم مسرور وشاد ہے۔آپ کیوں اس قدر مغموم وبے قرار ہیں۔ ہند کہتی تھی کہ زندان سے قیدیوں کے فریاد وفغاں اور آہ وزاری کی آوازیں سن کر میری روح پر صدمہ ہے۔ نظم
 واللہ پار ہوتی ہے سینے سے ان کی آہ
کیا درد ہے بکا میں کہ اللہ کی پناہ
ہے ہے کسے یزید نے لوٹا ہے بے گناہ
کس کو ستایا کس کا بھرا گھر کیا تباہ
ہر دم صدائیں سینہ زنی کی بلند ہیں
کس کے حرم ہیں یہ جو زنداں میں بند ہیں
قیدی ہوئے ہیں لوگ اسی زنداں میں بار ہا
لیکن کسی کے رونے کی آتی نہ تھی صدا
ان قیدیوں پہ کرب یہ کیسا ہے اے خدا
زاری جو رات دن ہے تو شام وسحر بکا
ہم تو بشر ہیں کیوں نہ کلیجہ کباب ہو
پتھر بھی ان کی آہ جو سن لے تو آب ہو
رونے پہ ان کے ہوتا ہے ٹکڑے میرا جگر
لگتی ہے دل پہ چوٹ یہ جب پیٹتے ہیں سر
کہتی ہے کوئی ہائے میرا نوجواں پسر
نوحہ یہ ہے کسی کا ہے ہے مرا پدر
عورت یہ کون سی ہے جو جان اپنی کھوتی ہے
 شب بھر تڑپ تڑپ کے برادر کو روتی ہے
ان بیبیوں میں ہے کوئی دختر جگر فگار
 فرقت میں باپ کی نہیں ا ک دم اسے قرار
 اس درد سے بلکتی ہے شب بھر وہ سوگوار
 سر پیٹتی ہے ابن علیؑ کہہ کے بار بار
 ماں سے ہے ضد کہ لوں گی پدر کو میں آپ سے
شاید ہلی ہوئی تھی بہت اپنے باپ سے
سنتی ہوں تین چار برس کا ابھی ہے سن
منصف ہوں کس طرح اسے تسکین ہو باپ بن
یہ داغ وہ ہے جس سے لرزتے ہیں جن وانس
لوگو بتائو اس کی یتیمی کے ہیں یہ دن
کیونکر نہ غم رہے کہ خوشی دل سے فوت ہے
بچپن میں باپ سر پہ نہ ہووئے تو موت ہے
 یہ سن کر ہند کی ایک ہمراز کنیز نے کہا بی بی سچ کہتی ہو۔خدا کسی کو داغ یتیمی نہ دکھائے۔ جس پر آفت پڑی ہو،اس سے پوچھیئے۔ آج رات مجھے بھی ان قیدیوں کی آہ زاری سن سن کر نیند نہیں آئی۔یوں تو سبھی قیدی رویا کیے۔ مگر ایک بچی بہت بے قرار تھی۔ایک بی بی نے اس سے نہایت شفقت ومحبت سے فرمایا،کہ بیٹی کب تک روئو گی۔میری گودی میں آکر سورہو۔ تو وہ لڑکی مچل کر کہنے لگی،بیت
 کہتی تھی ڈھونڈتی ہوں شاہ مشرقین کو
بلوادو اے پھوپھی میرے بابا حسینؑ کو
نظم
نام حسینؑ سنتے ہی تھرا گیا جگر
چھاتی پہ ہاتھ مار کے بولی وہ خوش سیر
ہے ہے یہ کس حسینؑ کے غم میں ہیں نوحہ گر
اس نے کہا مجھ کو مفصل نہیں خبر
پیاسا ہوا شہید یہی شور وشین ہے
وارث کا نام ان کے مقرر حسینؑ ہے
بی بی مجھے تو رات سے تشویش ہے کمال
ہووئے کہیں حسینؑ نہ جس کا ہے یہ خیال
کچھ خود بخود ہے دل پہ ہجوم غم وملال
مارا گیا نہ ہو کہیں خیر انسا ء کا لال
کیوں مضطرب صدائے بکا سن کے ہم نہ ہوں
ہے ہے کہیں یہ قید اسی کے حرم نہ ہوں
جس دم سنا یہ ہند نے وحشت زدہ کلام
بولی خدا کے واسطے عورت زباں کو تھام
اس کا ہے تجھ کو شبہ جو ہے خلق کا امام
کرسی نشین عرش بریں شاہ ذوالکرام
فرزند وہ نبیؑ کا ہے یا کوئی غیر ہے
اس کے حرم اسیر ہیں یا کوئی اور ہے
فاسد ہے یہ گمان مجھے وسواس میں نہ ڈال
آگے مرے زباں سے تو نہ فال بد نکال
ہے نور چشم شیر خدا فاطمہؑ کا لال
ڈالے بری نظر کوئی اس پر یہ کیا مجال
وہ بھی علیؑ سے کم نہیں کچھ آن بان میں
ڈنکا ہے اس کے نام کا سارے جہان میں
 اے بی بی کس کا جگر ہے جو ابن علیؑ سے آنکھ ملائے۔کس کی مجال ہے جو اس کے غلاموں پہ فتح پائے۔اس کے بھائی بھتیجے اور سب یاور وانصار ایسے شجاع اور بہادر ہیں،کہ اگر اس میں سے کوئی ایک بھی تلوار کھینچ کرلشکر کثیر پر حملہ آور ہو،تو ساری فوج بھاگ جائے۔اس خاندان کی نسبت ایسا ہتک آمیز کلمہ پھر زبان سے نہ نکالنا۔تو دختران فاطمہؑ کی عظمت وبزرگی سے واقف نہیں۔ امام حسینؑ کی دوبہنیں زینبؑ وکلثومؑ ہیں۔ نظم
کیا احتشام حضرت زینبؑ کروں بیاں
اک صبح بعد بندگی رب انس وجان
کھولا جو سر دعا کے لیے زیر آسمان
خورشید شرم سے نہ فلک پر ہوا عیاں
پنہاں ردا میں جب کہ رخ باصفا ہوا
نکلا فلک پہ مہر مگر کانپتا ہوا
جن کا یہ اوج ہو یہ شرف اور یہ عز وجاہ
واللہ ان کا ذکر اسیری بھی ہے گناہ
یہ اور ہے حسینؑ کوئی بندہ الہٰ
جنگل میں شامیوں نے کیا جس کا گھر تباہ
زنداں کہاں کہاں حرم پاک امامؑ کے
دنیا میں سینکڑوں ہیں بشر ایک نام کے
 اس عاشق خدا کو لڑنے سے کیا کام،نہ ملک سے مطلب نہ ریاست سے غرض،رواج دین مصطفےٰاور اطاعت خدا کے سوا ان کو اور کسی بات سے واسطہ نہیں ہے۔ یہ قیدی تو آفت میں مبتلا ہیں۔زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ کل کے عقدہ کشا ہیں۔اولاد علیؑ مرتضےٰ ہیں۔اسی وجہ سے ان کے نام ان لوگوں کے ورد زبان ہیں۔ہند نے اس عورت سے یہ سب کچھ تو کہا،مگر خود بے قرار ہو کر پے در پےکبھی صحن میں آتی،کبھی حجرے کے اندر جاتی تھی۔ دل ہی دل میں زار زار روتی تھی۔اور دعا کرتی تھی کہ یا الہیٰ جو بلا حسینؑ پر آنے والی ہو، مجھ کو آجائے۔حسینؑ سبط رسولؑ الثقلین بچ جائے۔ القصہ جب نصف شب کے قریب یزید پلید داخل محل ہوا،تو ہند کو اس عالم اضطرار میں دیکھ کر کہنے لگا۔ بیت
میں جشن میں ہوں بد شگنی گھر میں ہوتی ہے
کیا کوئی مر گیا ہے جو اس طرح روتی ہے
نظم
بولی یہ ہند ہاں تجھے شادی ہے مجھ کو غم
آگے یہ کب تھے جو ہیں ترے عہد میں ستم
میں رحم دل ہوں روں نہ کس طرح دم بدم
جن کے فغاں کا شور ہے کس کے ہیں یہ حرم
 نالوں سے ان کے تیر کلیجے پہ چلتے ہیں
 انساں کا دل تو نرم ہے پتھر پگھلتے ہیں
جس دن سے ہیں یہ قید مجھے تلخ ہے حیات
دل رندھ گیا ہے  کچھ نہیںبھاتی کسی کی بات
کھانا بھی چھٹ گیا ہے عجب ہے یہ واردات
 شاہد ہیں لونڈیاں کہ تڑپتی ہوں ساری رات
فرط قلق سے چین نہیں ایک دم مجھے
مرتا عزیز بھی تو نہ ہوتا یہ غم مجھے
کل تک یہ تجھ سے پوچھ چکی ہوں بچشم تر
تونے مگر نہ مجھ سے مفصل کہی خبر
وسواس کی جگہ ہے نہ کیوں دل میں شک پڑے
جب میں نے پوچھا ترے بھی آنسو ٹپک پڑے
اچھا گناہ گار یہ قیدی اگر ہیں سب
پھر ان کا حال مجھ سے چھپانے کا کیا سبب
کھانا ہی کھائو ں گی نہ میں پانی پیوں گی اب
منہ ڈھانپ ڈھانپ کر یونہی روئوں گی روز وشب
حسرت یہ ہے ان کو ذرا دیکھ آئوں میں
مرضہ تری اگر ہو  تو زنداں میں جائوں میں
 یہ سن کر اس ظالم نے کہا میں نے کب منع کیا ہے۔ تیری خوشی ہے تو جا ان سے سب حال پوچھ آ
لیکن وہ مکان بہت مخدوش ہے۔ دیواریں شق ہیں۔ ایسا نہ ہو  کہ تو جائے اور کوئی دیوار یا چھت تجھ پر آگرے۔وہ قیدی تو اسی واسطے اس مکان میں قید کیے گئے ہیں کہ کاش ان پر چھت گر پڑے اور وہ دب کر مر جائیں نظم
 بولی یہ ہند کچھ ہو مگر جائوں گی ضرور
بولیں مصاحبیں کہ پھر اچھا چلیں حضور
زندان محل سرا سے کچھ اتنا نہیں ہے دور
آنکھوں سے اشک پونچھ کے اٹھی وہ ذی شعور
کچھ لونڈیاں کھڑی تھیں جو عہدے لیے ہوئے
دوڑیں کنول بلور کے روشن کیے ہوئے
 الغرض ہند مع اپنی بیٹی کے زندان میں جانے کے لیے تیار ہوئی، نظم
 سواری زن حاکم کا کیا کروں اظہار
 جلوس سلطنت شام سب یمین ویسار
جلو میں تھیں کئی سو لونڈیاں بعز ووقار
سبھوں کی بر میں قرینے سے خلعت زع تار
ہر اک کنیز کے سر پر ردائے پر زر تھی
پہ قید خانے میں بنت علیؑ کھلے سر تھی
الغرض ہند اسی  شان وشوکت سے زندان شام کے قریب پہنچی۔اور جناب زینبؑ کو اس کے آنے کی خبر معلوم ہوئی۔تو آپ بہت مضطرب ہوئیںاور ہر ایک بی بی سے فرمایا کہ برائے خدا ہند کو اپنے سے آگاہ نہ کرنا۔ اسی اثنا میں نظم
آن کر داخل زندان ہوئی وہ نیک سیر
دختر ہند کو یوں آئی نظر اک دختر
کرتہ سارا تھا پھٹا اوڑھنی نہ تھی سر پر
 ماں سے یوں ہند کی بیٹی نے کہا پھر رو کر
 شکل اس لاڈلی کی دیکھیے کیا بھولی ہے
 اس کے نزدیک میں جائوں میری ہم جولی ہے
 ہند نے کہا اے بیٹی یہ لوگ عرب کے اشراف اور بطحا کے سردار ہیں۔ان کے خورد وبزرگ لائق تعظیم ہیں۔میں جانے کو منع نہیں کرتی،مگر ان کے ادب کا پاس ولحاظ رکھنا۔ ان کی عزت وحرمت میں فرق نہ آنے دینا۔ الغرض نظم
 سن کے یہ ماں کا سخن آئی سکینہ کے پاس
دیکھا واں خون سے آلودہ ہے سب اس کا لباس
سر جھکائے ہوئے وہ روتی ہے بے ہوش وحواس
سر اٹھاتی ہے تو بھرتی ہے وہ پیہم دم یاس
بیٹھی اک شغل یہ وہ اک کشتہ غم کرتی ہے
یا حسینؑ انگلی سے اپنی وہ رقم کرتی ہے
 یہ دیکھ کر دختر ہند اپنی ماں کے پاس آئی اور سارا حال بیان کیا۔اور کہا کہ بے شک یہ شاہزادی ہے۔ فوج شام نے ناحق اس کو ایذا دی۔کانوں سے خون جاری ہے۔ تمام کرتا خون سے بھرا ہوا ہے۔ نظم
 اماں اک اور ستم کا کروں میں تم سے بیاں
غور سے میں نے جو صورت پہ کیا اس کی دھیان
 رنگ چہرے کا ہے فق پیاس سے سوکھی ہے زبان
 کان کے خون سے کرتا بھی ہے سارا افشاں
صاف ظاہر ہے کہ اس کو نہیں چین اے اماں
 خاک پہ لکھتی ہے یہ نام حسینؑ اے اماں
 یہ سن کر دفعتہ" فرط غم والم سے ہند کا حال دگر گوں ہو گیا۔اور دل پر درد سے ایک آہ سرد کھینچ کر کہا،تیرے منہ میں خاک۔اس بے ادبی سے نام حسینؑ لیتی ہے۔ یہ متبرک نام میرے آقا کا ہے۔تو جلد واپس جا اور اس شاہزادی سے دریافت کر کہ حسینؑ تمہارا کون ہے؟۔ اور تم لوگ کس خاندان سے ہو۔
 سن کے وہ پھر گئی بالی سکینہؑ کے قریں
کہا کچھ بات نہیں کرتی ہو اے ماہ جبین
بولی اس طرح سے رو رو کے وہ مغموم وحزیں
کہتی ہو سچ کہ بہت باتوں کی عادی میں نہیں
شمر بے رحم ایذا دے نہ کہیں ڈرتی ہوں
بے ضرورت میں کبھی بات نہیں کرتی ہوں
بیٹی حاکم کی ہے تو اور میں حزین وبے تاب
اپنی حالت میں گرفتار ہوں میں بے خور وخواب
چھاتی ٹھنڈی ہے تیری میرا کلیجہ ہے کباب
خیر جو پو چھتی ہے دیتی ہوں میں اس کا جواب
باپ مارا گیا گردوں کی ستائی ہوں میں
 ساتھ ماں بہنوں کے یاں قید میں آئی ہوں میں
دختر ہند یہ بولی کہ بجا شیون وشین
باپ جب قتل ہو کس طرح تمہیں آئے چین
خاک پر انگلی سے جو تم لکھتی ہو ہائے حسینؑ
جھوٹ میں کہتی نہیں یہ بخدائے کونین
مجھے تشویش ہے اے بے کس وناکام یہی
اماں کہتی ہیں آقا کا میرے نام یہی
خیر اتنا ہی بتا دے مجھے اے خستہ جگر
 یہ حسینؑ آہ ہے کس بحر صداقت کا گہر
کون سے باغ ولایت کا ہے یہ تازہ شجر
کون سے برج شرافت کا ہے ماہ انور
کون سے شاہ کا یہ بیٹا ہے اور پوتا ہے
نام جب سنتی ہوں مجھے رنج بہت ہوتا ہے
 یہ سن کر حضرت سکینہؑ کی آکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔اے بہن کیا پو چھتی ہو کیا بتائوں۔میں غمگین ظالموں کی ستائی ہوں۔اپنے سترہ چاہنے والے تھے۔اب کوئی نہیں۔ ایک بیمار بھائی ہے۔ وہ بھی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ میرا وطن یثرب ہے۔باپ شہنشاہ عرب ہے۔ میرے گھر جبرائیل آتے تھے۔ دین ودنیا کے بادشاہ کی بیٹی شہنشاہ کی پوتی ہوں۔ مفصل کیا کہوں اماں کی حکم عدولی ہوگی۔اور پھوپھی کا خیال ہے۔ اصل حال چھپانے میں جھوٹ بولنے کا گناہ ہے۔ ایک بھائی میرا ہم شکل رسولؑ تھا۔ایک چھوٹا بھائی اصغر ؑ چھ مہینے کا تھا۔اب اور کیا کہوں دل سینے میں بے قرار ہے۔باپ کا جو نام پوچھتی ہے شاہ کونین ہے۔الغرض یہ باتیں سن کر وہ لڑکی پھر ہند کے پاس واپس آئی۔اور جو کچھ جناب سکینہؑ کی زبانی سنا تھا۔ بیان کرکے کہنے لگی  نظم
 اماں خود سوچیے کیونکر نہ ہو شک مجھ کو بھلا
گفتگو سے عیاں خانہ زہراؑ کا پتا
پوچھا جب ترا پدر شاہ کس اقلیم کا تھا
آنسو بھر کر شاہ کونین ہے یہ اس نے کہا
خیر شبیرؑ کی کرنا تو خدائے شبیرؑ
 شاہ کونین نہیں کوئی سوائے شبیرؑ
یہ غضب اور نہ ہو کہتی تھی یہ مجھ سے ابھی
بھینا اک میرا بڑا بھائی تھا ہم شکل نبیؑ
چھوٹے بڑے جتنے تھے تقریر یہ سب سنتے تھے
جز یگانوں کے نہیں شکل نبیؑ غیر نبیؑ
گو گرفتار غم تشنہ دہانی ہیں یہ
ظاہرا احمدؑ وزہراؑ کی نشانی ہے یہ
ہند نے بیٹی کی تقریر سنی جب یہ تمام
 رو کے کہنے لگی لاریب ہوئے قتل امامؑ
میں قسم کھاتی ہوں یہ ہے جگر شاہ انام
میرے آقا سے مشابہ ہے بہت یہ گل فام
ہونٹ سے ہونٹ جو ہنگام سخن ملتے ہیں
لب ودنداں سے شاہ دین کے نشاں ملتے ہیں
اب مجھے شک نہیں سر اس کے قدم پر دھر دے
گر پیے پانی تو بھر کر اسے ساغر دے
 چادریں ساتھ ہیں اس لاڈلی کو چادر دے
خواہش میوہ جو ہو میوہ سے گودی بھر دے
شاید اس یوسف زہراؑ کا پتا پائوں میں
تو ٹھہر یاں اسیروں کے قریں جائوں میں
اپنی دختر سے یہ کہہ کر ہند اہل حرم کی جانب روانہ ہوئی۔ اور اہل حرم کے پاس پہنچ کر حیران وسرگرداں دیکھنے لگی۔ بیبیوں نے بالوں سے منہ چھپا لیے۔ ہند پھر دست بستہ یوں بولی۔ نظم
 وہ بولی صاحبو مرا مجرا میرا سلام
لو سر اٹھائو زانو سے کچھ کرو کلام
بتلائو جلد بہر خدا وارثوں کے نام
میں پوچھنے کو آئی ہوں حال شاہ انام
اس فکر میں ہوں کھوئی ہوئی دل کے چین کو
شمر لعیں نے قتل کیا کس حسینؑ کو
لوگو جو ہے جہاں کا سلطان وہ نہ ہو
 ایمان ہے جس کا تابع فرمان وہ نہ ہو
لونڈی کو جس حسینؑ کا ہے دھیان وہ نہ ہو
آئے اجل کنیز کو بے جان وہ نہ ہو
خیر اس کی چاہیئے مجھے جس کی تلاش ہے
پر شمر کے بیاں سے جگر پاش پاش ہے
 الغرض سیدانیاں غیرت سے گڑی جاتی تھیں۔ جب کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ تو ہند نے حضرت سکینہؑ کو گود میں اٹھا لیا۔ اور کہنے لگی کہ اپنی بی بی کو زیور پہنائوں گی۔میوے کھلائوں گی نظم
آغوش میں یہ کہہ کے جو اس نے اٹھا لیا
دل تھام کر تڑپ گئی بنت شاہ ہدیٰ
چلائی مرے کانوں کو ہے ہے دکھا دیا۔
گھبرا گئی جو ہند تو بولی وہ مہہ لقا
تر خوں سے دیکھ لے میرے کپڑے یہ سارے ہیں
ظالم نے کان چیر کے گوہر اتارے ہیں
آہستہ بولی ہند پھر اس کے ذقن کو تھام
بی بی تمہارے باپ کا بتلائو کیا ہے نام
تتلا کے تب سکینہؑ نے اس سے کیا کلام
بابا کو مرے خلق میں کہتے ہیں سب امام
ظالم نے تیغ کیں سے جدا اس کا سر کیا
 قسمت نے کم سنی میں مجھے بے پدر کیا
باتیں یہ سن کے ہند ہوئی اور بے قرار
چلائی کس سے پوچھوں مفصل مآل کار
گردن نہیں اٹھاتی کوئی بی بی زینہار
ٹکرائوں سر کو جا کے کہاں میں جگر فگار
للہ لوگو حال نہ شاہ کا چھپائو تم
لو سب کے پائوں پڑتی ہوں سر کو اٹھائو تم
 الغرض جب ہند کی بے چینی اور بےقراری حد سے زیادہ دیکھی تو جناب زینبؑ سے صبر نہ ہوسکا۔ اس وقت، نظم
 زینبؑ نے دیکھا ہند کو جب خاک پہ طپاں
آہستہ بولی اشک بہا کر وہ نیم جان
کیوں غم زدوں کے دل کو لگاتی ہو برچھیاں
اے ہند کس حسینؑ کا تجھ سے کروں بیاں
تو پوچھتی ہے بادشاہ مشرقین کو
 ہم رو رہے ہیں بے کس وتنہا حسینؑ کو
مظلوم ہے غریب ہے وہ اک بندہ خدا
جس کا سوا اجل کے نہیں کوئی آشنا
 ابن علیؑ کے قتل کا دل میں تو شک نہ لا
فرزند فاطمہؑ سے لڑے گا کوئی بھلا
اس وسوسہ کو دے نہ جگہ اپنے سینے میں
تیرا حسینؑ ہو گا سلامت مدینہ میں
 یہ وہ حسینؑ ہے کہ وطن جس سے ہے بعید
یہ وہ حسینؑ ہے جسے سمجھا نہ کچھ یزید
یہ وہ حسینؑ کے ہے ہوئی مرنے سے جس کی عید
یہ وہ حسینؑ ہے جو ہوا تشنہ لب شہید
مرنے پہ بھی لحد سے آغوش تن نہیں
یہ وہ حسینؑ ہے کہ میسر کفن نہیں
آواز سن کے ہند کو گزرا جو اشتباہ
 گردن جھکا کے غور سے چہرے پہ کی نگاہ
چلائی یوں تڑپ کے وہ سرور کی خیر خواہ
 لو یہ تو میری بی بی ہے زینبؑ خدا گواہ
 دربار عام میں مجھے سوجھا نہ دور سے
 گھر سے نکل کے ہوتی مشرف حضور سے
بی بی بتائو سید والا کہاں ہیں آج
 بنت نبیؑ کی گود کا پالا کہاں ھے آج
 نور خدا کے گھر کا اجالا کہاں  ھے آج
 فرزند اس کا گیسوں والا کہاں ھے آج
حیدرؑ کی مصطفےٰؑ کی نشانی کو کیا کیا
فرمایئے بتول کے جانی کو کیا کیا
زینبؑ کو کوئی بات نہ بن پڑی جب وہاں
رو کر پکاری شاہ سدھارے سوئے جناں
اے ہند حال تجھ سے کہاں تک کروں بیاں
بھائی ہوا شہید بہن قید ہے یہاں
سر کٹ گیا بدن سے شاہؑ مشرقین کا
دے خواہر حسینؑ کو پرسا حسینؑ کا
شوہر نے تیرے ہائے ستم کیا کیا غضب کیا
لکھ لکھ کے خط حسینؑ کو گھر سے طلب کیا
مظلومؑ کا  نہ شمر نے بھی کچھ کیا ادب
چھاتی پہ چڑھ کے ذبح کیا اس کو تشنہ لب
کیا ظالموں نے راہ میں صدمے دکھائے ہیں
نیزے پہ سر چڑھا کے شہیدوں کے لائے ہیں
 زینبؑ سے جب سنا سر سرور کا اس نے نام
 فورا" قدم پہ گر پڑی وہ عاشق امامؑ
بولی خدا کے واسطے اے آسماں مقام
 دکھلا دو چل کے مجھ کو سر شاہ تشنہ کام
پیٹوں گی سر کو جان کو غارت کروں گی میں
اس کشتہ جفا کی زیارت کروں گی میں
یہ سن کے ساتھ ہند کے زینبؑ ہوئی رواں
سر پیٹتیں جلو میں چلی ساری بیبیاں
زندان کے در پہ آئیں جو با نالہ فغاں
زینبؑ نے سر پٹک کے کہا ہند سے کہ ہاں
نظارہ کر لے فاطمہؑ کے نور عین کا
وہ سب کے آگے نیزے پہ سر ہے حسینؑ کا
پہلے تو ہو گیا اسے سکتہ سا ایک بار
پھر لیں بلائیں دوڑ کے چہرے کی بے شمار
ٹکرا کے سر کو نیزے سے بولی وہ بےقرار
آقا تمہارے روئے مقدس کے میں نثار
گیسو بھرے ہیں خاک  میں رخ خوں میں لال ہے
پہچاننا کنیز کو صورت محال ہے
یہ کہہ کے تڑپی خاک پر وہ شہہ کی دوستدار
سر پیٹا یاں تک کہ جبیں ہو گئی فگار
زینبؑ پچھاڑیں کھانے لگی ہو کے بے قرار
دوڑی سکینہؑ نیزے کی جانب بحال زار
چلائی بابا جان کہاں تم کو پائوں میں
اس خوں بھرے جمال کے قربان جائوں میں
منہ پیٹتی تھی ہاتھوں سے پھر تو وہ خستہ تن
 چھاتی پہ ہاتھ مار کے نیلا کیا بدن
 بولا یہ کانپ کر سر شاہنشاہ زمن
لے جائو یاں سے میری سکینہؑ کو اے بہن
نیزے سے یہ لپٹ کے فلک کو ہلاتی ہے
دشت بلا میں لاش مری تھرتھراتی ہے
 الغرض ملاعین بے دین سر اقدس کو دروازہ زندان سے لے گئے۔اور نیزے سے اتار کے ایک چاہ میں رکھا۔ اور اہل حرم اور معصوم سکینہ  ؑ تڑپتی اسی زندان تاریک میں رہ گئی۔ بیت
قبر وزیر میں ہو سماں حق کے نور کا
 خاک شفا میں دفن ہوں صدقہ حضورؑ کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا

﷽ انتیسویں مجلس امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا  اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو واللہ ناامید کے دل کو امید ہو  اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت  دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی نظم پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے  اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں ہمس...

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...