﷽
تینتسویں مجلس
اہل بیت رسولؑ کا زندان میں قید ہونااور وہاں مع اپنی دختر کے ہند کا آنا
افسوس اہل بیت کہاں وہ مکاں کہاں
اجڑی ہوئی زمین کہاں آسمان کہاں
اے مومنین: جناب حوا زوجہ حضرت آدمؑ اور آسیہ زن فرعون،اور حضرت مریم مادر حضرت عیسیٰ ؑ اور جناب ہاجرہ وجناب خدیجۃ الکبریٰ زوجہ جناب رسولؑ خدا کی قدر ومنزلت اگر چہ تمام عورتوں سےبہت بلند اور زیادہ تھی۔لیکن جو عظمت وشرف جناب فاطمہ زہراؑ نے پایا۔ کسی بی بی کو حاصل نہیں ہوا۔آپ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔اور جناب فاطمہؑ زہرا کے بعد جو مرتبہ جناب زینبؑ کا ہے،وہ کسی بی بی کو نصیب نہیں ہوا۔ نظم
کیا مرتبہ بنت رسولؑ دوسرا ہے
خاتون جناں جن کو لقب حق سے ملا ہے
بلقیس وخدیجہؑ سے شرف ان کا سوا ہے
عصمت جسے کہتے ہیں وہ زینبؑ کی ردا ہے
زہراؑ سے بزرگی میں برابر نہیں کوئی
ڈھکتے ہیں گناہ جس سے وہ چادر انہی کی ہے
ماں سیدہ پاک ہے خاتون معظم
وہ زینت کونین یہ تاج سر عالم
آدم سے علیؑ پہلے یہ حوا سے مقدم
قرآن رسالت میں ہیں یہ سورۃ مریم
عصمت کا ادھر سر ہے قدم جس طرف ان کا
محبوبؑ خدا سے کوئی پوچھے شرف ان کا
ہے عرش جہاں پست وہ رتبہ ہے انہی کا
خورشید نے دیکھا نہ وہ سایہ ہے انہی کا
فردوس مقام ان کا ہے طوبےٰ ہے انہی کا
کہتے ہیں جسے شرم وہ پردہ ہے انہی کا
حوروں سے بھی تشبیہ انہیں دے نہیں سکتے
بے صل علےٰ نام ملک لے نہیں سکتے
نانا شاہؑ لولاک پدر حیدرؑ صفدر
ماں حضرت زہراؑ جگر وجان پیمبرؑ
سردار جوانان جناں دونوں برادر
اک حضرت شبیرؑ تو اک حضرت شبرؑ
بوطالب ذی شوکت وشان آپؑ کے جد ہیں
دادی اسد اللہ کی ماں بنت اسد ہے
اللہ رے اقبال خوشا عزت وتوقیر
پائی نہیں اب تک کسی بی بی نے یہ تقدیر
خوبو سے عیاں فاطمہؑ کے دودھ کی تاثیر
صانع نے بنائی تھی عجب نور کی تصویر
بیٹی بھی ہو اس شان کی بابا ہو جب ایسا
آپؑ ایسی گھر ایسا حسب ایسا نسب ایسا
کیوں اہل عزا جس کا یہ رتبہ ہو یہ توقیر
زندان میں اسے قید کرے فرقہ بے پیر
افسوس ہے اس بی بی کی برگشتہ ہو تقدیر
بازار میں سر ننگے پھرے خواہر شبیرؑ
جو ہاتھ اٹھیں امت عاصی کی دعا میں
اعدا انہیں باندھیں رسن ظلم وجفا میں
چنانچہ اہل بیت کی اسیری کا حال یوں تحریر ہے، کہ جب ان مخدرات عصمت وطہارت کو دربار کی ذلت ورسوائی سے نجات ملی۔ تو اس طرح کہ یزید ملعون کے حکم سے قید خانہ شام میں بند کر دیئے گئے۔ بیت
یوں خرابے میں اسیر آن کے کب قید ہوئے
جس ستم سے کہ اسیران حرم قید ہوئے
چنانچہ تحریر ہے کہ شام کے رہنے والے زن ومرد اکثر زندان کے پاس اہل بیت کی آہ وزاری اور تکلیف و مصیبت دیکھ کر خود بھی آکر حال گریہ اہل بیت پر رویا کرتے تھے۔ اور انسانوں کا کیا ذکر جن وملک مصروف ماتم داری تھے۔ نظم
چشم رضواں اسی اندوہ سے نم ہوتی تھی
آکے زندان میں ہر حور جناں روتی تھیں
دیکھ کر آل محمد ؑ کو خرابے میں اسیر
حامل عرش الہیٰ بھی تھے از حد دلگیر
قدسیوں کے لب طاہر پہ یہی تھی تقریر
خوب کی امت احمدؑ نے حرم کی توقیر
ظلم خاصان خدا پر یہ ہوا یاں ہے ہے
ہائے ناموس نبیؑ اور یہ زنداں ہائے ہائے
دیکھ کر قید میں عترت کو رسولؑ مختار
روتے تھے خانہ زنداں میں آکر ہر بار
تھے حزیں حیدر صفدر بھی بچشم خونبار
نالہ کش تھے حسنؑ سبز قبا لیل ونہار
رات دن خانہ زنداں میں نبیؑ روتے تھے
ان کے پیچھے کھڑے اس شاہ کے وصی روتے تھے
روتے زنداں میں تھے جس دم کی اسیران رسن
ساتھ ہی حوریں بھی روتی تھیں بشور وشیون
ہاجرہ شکوں سے تر کرتی تھی اپنا دامن
نالہ کش مریم وسارہ تھیں بصد رنج و محن
اور حوا و خدیجہؑ وہاں غش ہوتی تھیں
حضرت فاطمہؑ یہ کرکے بیاں روتی تھیں
دیکھو اے بیبیو ہے قید میں میرا کنبہ
ہے یہ کلثومؑ میری بیٹی یہ زینبؑ دکھیا
یہ سیکنہؑ یہ رقیہ یہ دلہن ہے کبریٰ
شہر بانو ہے بہو میری یہ بنت کسریٰ
سر رکھے زانو پہ روتی جو بصد یاس ہے یہ
اے خواتین جناں زوجہ عباسؑ ہے یہ
طوق وزنجیر جو یہ پہنے ہوئے روتا ہے یہی سجاد دلفگار میرا پوتا ہے
الصرض جس وقت گریہ اہلبیتؑ اطہار کا شور وغل ہوتا تھا نظم
اٹھتا تھا بسکہ آہوں کا ہر دم دھواں سیاہ
دو دن میں ہو گیا تھا وہ سارا مکاں سیاہ
حجرے سیاہ سقف سیہ سائبان سیاہ
تھا چشم اہل بیت میں سارا جہاں سیاہ
غل تھا اندھیری قبر میں لوگو نہاں ہیں ہم
کچھ سوجھتا نہیں ہے کدھر ہے کہاں ہیں ہم
زنداں نہ کہیے رنج ومصیبت کا تھا وہ گھر
کڑیاں شکستہ خم درو دیوار سر بسر
کہتی تھی آکے در پہ ہوا بھی کہ الحذر
تھے جیتے جی لحد میں اسیران نوحہ گر
روحیں پکارتی تھیں کہ گھٹتے نفس ہیں ہم
نالے دلوں کے تھے کہ قفس در قفس ہیں ہم
چلاتی تھی یہ مادر قاسمؑ بصد محن
صدقے میں تیری لاش کے اے دلبر حسنؑ
پامال ظلم رن میں ہوا پھول سابدن
ہے ہے تمہارے بیاہ کا خلعت بنا کفن
ایسا بھی عقد ہوتا ہے واری زمانے میں
دولہا تو کربلا میں دلہن قید خانے میں
مدت سے کچھ سنا نہیں ماں نے تمہارا حال
جنگل میں کیا گزر گئی اے میرے نونہال
مرتی ہے قید میں یہ اسیر غم وملال
میرا نہیں دلہن کا تو لازم ہے کچھ خیال
صدقے گئی خبر نہ لی آنکھ موڑ کے
جنگل میں سوئے رات کی بیاہی کو چھوڑ کے
کرتی تھی بین زوجہ عباسؑ نامدار
والی مرے کدھے تمہیں ڈھونڈے یہ سوگوار
قید بلا میں آپ کے بچے ہیں بے قرار
بابا کہاں گئے یہی کہتے ہیں بار بار
ہر دم شریک حال جفا ومحن میں ہیں
بیووں کے ساتھ ان کے گلے بھی رسن میں ہیں
صاحب بہت تھی تم کو سکینہؑ کی اپنی چاہ
زنداں میں کچھ نہ اس کی مصیبت پہ کی نگاہ
زاری کبھی ہے اور کبھی شور وفغاں آہ
ماتم میں آپ کے نہ جیئے گی یہ رشک ماہ
کیونکر چھپائیں حال شاہ مشرقین کا
دیکھا ہے طشت میں سر پر خوں حسینؑ کا
بانو جگر پکڑ کے یہ کہتی تھی دم بدم
لوگو دعا کرو کہ نکل جائے مرا دم
ہے ہے پسر کی بے کفنی کا مجھے ہے غم
صحرائے لق ودق وہ کڑی دھوپ ہے ستم
خالق نگہبان ہے تن پاش پاش کا
کیا حال ہو گا اکبرؑ ماہ رو کی لاش کا
الغرض اس طرح ہر ایک بی بی ایک ایک شہید کا نام لے کے روتی تھی،لیکن جناب زینبؑ کی بےقراری اور بے چینی سب سے زیادہ تھی۔جو بیان نہیں ہو سکتی۔ نظم
کیا حال بنت فاطمہؑ زہرا کروں بیاں
وہ بین دل خراش وہ فریاد وہ فغاں
آہیں وہ گرم وسرد وہ نالے کہ الاماں
جب ہائے بھائی کہتی تھی ہلتا تھا آسمان
کہتے تھے سن کے جن وملک ان کے بین کو
زہراؑ بھی ہوتیں تو یونہی روتی حسینؑ کو
دن رات پیٹنے کے سوا نہ تھا کوئی کام
منہ دشت کربلا کی طرف لب پہ یہ کلام
بھیا بہن تڑپتی تھی زنداں میں صبح وشام
اور آپ بے خبر ہیں تعجب کا ہے مقام
کس سے کہوں جو ہجر کی ایذا گزرتی ہے
اتنا تو پو چھتے کہ بہن کیا گزرتی ہے
صدقے گئی دکھائوں کسے اپنا حال زار
دل زخم دار ہے تو کلیجہ ہے داغ دار
شانے تمام نیزے کی نوکوں سے ہیں فگار
ماتم میں سر کھلا ہے گریبان ہے تار تار
زنداں میں اوڑھنا بھی بچھونا بھی خاک ہے
تن پر لباس گرد بھی اشکوں سے چاک ہے
صدقے گئی اسیر بہن کی مدد کو آئو
بھیا میں جاں بلب ہوں مجھے قید سے چھڑائو
چین آئے کس طرح دل بے تاب کو بتائو
ہے ہے بہن تو جیتی ہے اور تم کفن نہ پائو
غم سے نظر میں خلق کی بستی اجاڑ ہے
ہر شب ہے مجھ پہ قہر ہر اک دن پہاڑ ہے
زنداں میں یوں تڑپتی ہوں بھائی میں سوگ وار
جیسے قفس میں بلبل شیدا ہو بے قرار
کی ہے نگاہ یاس سے منت ہزار بار
مرجھا رہا ہے دھوپ میں زہراؑ کا گلعذار
سایہ بہن کرے گی تن پاش پاش پر
للہ مجھ کو جانے دو بھائی کی لاش پر
الغرض اہل بیت رسولؑ یوں ہی آہ وزاری اور فریاد وفغاں میں ہر وقت مشغول رہتے۔راوی لکھتا ہے کہ قیدخانہ یزید کے محل سے نزدیک تھا۔اور اسی محل میں یزید کی زوجہ ہند رہتی تھی۔اہل حرم کی یہ گریہ وزاری اور نالہ وفریاد کی آوازیں سن کر اس کا آب ودانہ اور آرام وچین سب چھوٹ گیا تھا۔ ہر چند لونڈیاں سمجھاتی تھیں کہ بی بی محل میں چاروں طرف دھوم دھام ہے۔حاکم مسرور وشاد ہے۔آپ کیوں اس قدر مغموم وبے قرار ہیں۔ ہند کہتی تھی کہ زندان سے قیدیوں کے فریاد وفغاں اور آہ وزاری کی آوازیں سن کر میری روح پر صدمہ ہے۔ نظم
واللہ پار ہوتی ہے سینے سے ان کی آہ
کیا درد ہے بکا میں کہ اللہ کی پناہ
ہے ہے کسے یزید نے لوٹا ہے بے گناہ
کس کو ستایا کس کا بھرا گھر کیا تباہ
ہر دم صدائیں سینہ زنی کی بلند ہیں
کس کے حرم ہیں یہ جو زنداں میں بند ہیں
قیدی ہوئے ہیں لوگ اسی زنداں میں بار ہا
لیکن کسی کے رونے کی آتی نہ تھی صدا
ان قیدیوں پہ کرب یہ کیسا ہے اے خدا
زاری جو رات دن ہے تو شام وسحر بکا
ہم تو بشر ہیں کیوں نہ کلیجہ کباب ہو
پتھر بھی ان کی آہ جو سن لے تو آب ہو
رونے پہ ان کے ہوتا ہے ٹکڑے میرا جگر
لگتی ہے دل پہ چوٹ یہ جب پیٹتے ہیں سر
کہتی ہے کوئی ہائے میرا نوجواں پسر
نوحہ یہ ہے کسی کا ہے ہے مرا پدر
عورت یہ کون سی ہے جو جان اپنی کھوتی ہے
شب بھر تڑپ تڑپ کے برادر کو روتی ہے
ان بیبیوں میں ہے کوئی دختر جگر فگار
فرقت میں باپ کی نہیں ا ک دم اسے قرار
اس درد سے بلکتی ہے شب بھر وہ سوگوار
سر پیٹتی ہے ابن علیؑ کہہ کے بار بار
ماں سے ہے ضد کہ لوں گی پدر کو میں آپ سے
شاید ہلی ہوئی تھی بہت اپنے باپ سے
سنتی ہوں تین چار برس کا ابھی ہے سن
منصف ہوں کس طرح اسے تسکین ہو باپ بن
یہ داغ وہ ہے جس سے لرزتے ہیں جن وانس
لوگو بتائو اس کی یتیمی کے ہیں یہ دن
کیونکر نہ غم رہے کہ خوشی دل سے فوت ہے
بچپن میں باپ سر پہ نہ ہووئے تو موت ہے
یہ سن کر ہند کی ایک ہمراز کنیز نے کہا بی بی سچ کہتی ہو۔خدا کسی کو داغ یتیمی نہ دکھائے۔ جس پر آفت پڑی ہو،اس سے پوچھیئے۔ آج رات مجھے بھی ان قیدیوں کی آہ زاری سن سن کر نیند نہیں آئی۔یوں تو سبھی قیدی رویا کیے۔ مگر ایک بچی بہت بے قرار تھی۔ایک بی بی نے اس سے نہایت شفقت ومحبت سے فرمایا،کہ بیٹی کب تک روئو گی۔میری گودی میں آکر سورہو۔ تو وہ لڑکی مچل کر کہنے لگی،بیت
کہتی تھی ڈھونڈتی ہوں شاہ مشرقین کو
بلوادو اے پھوپھی میرے بابا حسینؑ کو
نظم
نام حسینؑ سنتے ہی تھرا گیا جگر
چھاتی پہ ہاتھ مار کے بولی وہ خوش سیر
ہے ہے یہ کس حسینؑ کے غم میں ہیں نوحہ گر
اس نے کہا مجھ کو مفصل نہیں خبر
پیاسا ہوا شہید یہی شور وشین ہے
وارث کا نام ان کے مقرر حسینؑ ہے
بی بی مجھے تو رات سے تشویش ہے کمال
ہووئے کہیں حسینؑ نہ جس کا ہے یہ خیال
کچھ خود بخود ہے دل پہ ہجوم غم وملال
مارا گیا نہ ہو کہیں خیر انسا ء کا لال
کیوں مضطرب صدائے بکا سن کے ہم نہ ہوں
ہے ہے کہیں یہ قید اسی کے حرم نہ ہوں
جس دم سنا یہ ہند نے وحشت زدہ کلام
بولی خدا کے واسطے عورت زباں کو تھام
اس کا ہے تجھ کو شبہ جو ہے خلق کا امام
کرسی نشین عرش بریں شاہ ذوالکرام
فرزند وہ نبیؑ کا ہے یا کوئی غیر ہے
اس کے حرم اسیر ہیں یا کوئی اور ہے
فاسد ہے یہ گمان مجھے وسواس میں نہ ڈال
آگے مرے زباں سے تو نہ فال بد نکال
ہے نور چشم شیر خدا فاطمہؑ کا لال
ڈالے بری نظر کوئی اس پر یہ کیا مجال
وہ بھی علیؑ سے کم نہیں کچھ آن بان میں
ڈنکا ہے اس کے نام کا سارے جہان میں
اے بی بی کس کا جگر ہے جو ابن علیؑ سے آنکھ ملائے۔کس کی مجال ہے جو اس کے غلاموں پہ فتح پائے۔اس کے بھائی بھتیجے اور سب یاور وانصار ایسے شجاع اور بہادر ہیں،کہ اگر اس میں سے کوئی ایک بھی تلوار کھینچ کرلشکر کثیر پر حملہ آور ہو،تو ساری فوج بھاگ جائے۔اس خاندان کی نسبت ایسا ہتک آمیز کلمہ پھر زبان سے نہ نکالنا۔تو دختران فاطمہؑ کی عظمت وبزرگی سے واقف نہیں۔ امام حسینؑ کی دوبہنیں زینبؑ وکلثومؑ ہیں۔ نظم
کیا احتشام حضرت زینبؑ کروں بیاں
اک صبح بعد بندگی رب انس وجان
کھولا جو سر دعا کے لیے زیر آسمان
خورشید شرم سے نہ فلک پر ہوا عیاں
پنہاں ردا میں جب کہ رخ باصفا ہوا
نکلا فلک پہ مہر مگر کانپتا ہوا
جن کا یہ اوج ہو یہ شرف اور یہ عز وجاہ
واللہ ان کا ذکر اسیری بھی ہے گناہ
یہ اور ہے حسینؑ کوئی بندہ الہٰ
جنگل میں شامیوں نے کیا جس کا گھر تباہ
زنداں کہاں کہاں حرم پاک امامؑ کے
دنیا میں سینکڑوں ہیں بشر ایک نام کے
اس عاشق خدا کو لڑنے سے کیا کام،نہ ملک سے مطلب نہ ریاست سے غرض،رواج دین مصطفےٰاور اطاعت خدا کے سوا ان کو اور کسی بات سے واسطہ نہیں ہے۔ یہ قیدی تو آفت میں مبتلا ہیں۔زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ کل کے عقدہ کشا ہیں۔اولاد علیؑ مرتضےٰ ہیں۔اسی وجہ سے ان کے نام ان لوگوں کے ورد زبان ہیں۔ہند نے اس عورت سے یہ سب کچھ تو کہا،مگر خود بے قرار ہو کر پے در پےکبھی صحن میں آتی،کبھی حجرے کے اندر جاتی تھی۔ دل ہی دل میں زار زار روتی تھی۔اور دعا کرتی تھی کہ یا الہیٰ جو بلا حسینؑ پر آنے والی ہو، مجھ کو آجائے۔حسینؑ سبط رسولؑ الثقلین بچ جائے۔ القصہ جب نصف شب کے قریب یزید پلید داخل محل ہوا،تو ہند کو اس عالم اضطرار میں دیکھ کر کہنے لگا۔ بیت
میں جشن میں ہوں بد شگنی گھر میں ہوتی ہے
کیا کوئی مر گیا ہے جو اس طرح روتی ہے
نظم
بولی یہ ہند ہاں تجھے شادی ہے مجھ کو غم
آگے یہ کب تھے جو ہیں ترے عہد میں ستم
میں رحم دل ہوں روں نہ کس طرح دم بدم
جن کے فغاں کا شور ہے کس کے ہیں یہ حرم
نالوں سے ان کے تیر کلیجے پہ چلتے ہیں
انساں کا دل تو نرم ہے پتھر پگھلتے ہیں
جس دن سے ہیں یہ قید مجھے تلخ ہے حیات
دل رندھ گیا ہے کچھ نہیںبھاتی کسی کی بات
کھانا بھی چھٹ گیا ہے عجب ہے یہ واردات
شاہد ہیں لونڈیاں کہ تڑپتی ہوں ساری رات
فرط قلق سے چین نہیں ایک دم مجھے
مرتا عزیز بھی تو نہ ہوتا یہ غم مجھے
کل تک یہ تجھ سے پوچھ چکی ہوں بچشم تر
تونے مگر نہ مجھ سے مفصل کہی خبر
وسواس کی جگہ ہے نہ کیوں دل میں شک پڑے
جب میں نے پوچھا ترے بھی آنسو ٹپک پڑے
اچھا گناہ گار یہ قیدی اگر ہیں سب
پھر ان کا حال مجھ سے چھپانے کا کیا سبب
کھانا ہی کھائو ں گی نہ میں پانی پیوں گی اب
منہ ڈھانپ ڈھانپ کر یونہی روئوں گی روز وشب
حسرت یہ ہے ان کو ذرا دیکھ آئوں میں
مرضہ تری اگر ہو تو زنداں میں جائوں میں
یہ سن کر اس ظالم نے کہا میں نے کب منع کیا ہے۔ تیری خوشی ہے تو جا ان سے سب حال پوچھ آ
لیکن وہ مکان بہت مخدوش ہے۔ دیواریں شق ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تو جائے اور کوئی دیوار یا چھت تجھ پر آگرے۔وہ قیدی تو اسی واسطے اس مکان میں قید کیے گئے ہیں کہ کاش ان پر چھت گر پڑے اور وہ دب کر مر جائیں نظم
بولی یہ ہند کچھ ہو مگر جائوں گی ضرور
بولیں مصاحبیں کہ پھر اچھا چلیں حضور
زندان محل سرا سے کچھ اتنا نہیں ہے دور
آنکھوں سے اشک پونچھ کے اٹھی وہ ذی شعور
کچھ لونڈیاں کھڑی تھیں جو عہدے لیے ہوئے
دوڑیں کنول بلور کے روشن کیے ہوئے
الغرض ہند مع اپنی بیٹی کے زندان میں جانے کے لیے تیار ہوئی، نظم
سواری زن حاکم کا کیا کروں اظہار
جلوس سلطنت شام سب یمین ویسار
جلو میں تھیں کئی سو لونڈیاں بعز ووقار
سبھوں کی بر میں قرینے سے خلعت زع تار
ہر اک کنیز کے سر پر ردائے پر زر تھی
پہ قید خانے میں بنت علیؑ کھلے سر تھی
الغرض ہند اسی شان وشوکت سے زندان شام کے قریب پہنچی۔اور جناب زینبؑ کو اس کے آنے کی خبر معلوم ہوئی۔تو آپ بہت مضطرب ہوئیںاور ہر ایک بی بی سے فرمایا کہ برائے خدا ہند کو اپنے سے آگاہ نہ کرنا۔ اسی اثنا میں نظم
آن کر داخل زندان ہوئی وہ نیک سیر
دختر ہند کو یوں آئی نظر اک دختر
کرتہ سارا تھا پھٹا اوڑھنی نہ تھی سر پر
ماں سے یوں ہند کی بیٹی نے کہا پھر رو کر
شکل اس لاڈلی کی دیکھیے کیا بھولی ہے
اس کے نزدیک میں جائوں میری ہم جولی ہے
ہند نے کہا اے بیٹی یہ لوگ عرب کے اشراف اور بطحا کے سردار ہیں۔ان کے خورد وبزرگ لائق تعظیم ہیں۔میں جانے کو منع نہیں کرتی،مگر ان کے ادب کا پاس ولحاظ رکھنا۔ ان کی عزت وحرمت میں فرق نہ آنے دینا۔ الغرض نظم
سن کے یہ ماں کا سخن آئی سکینہ کے پاس
دیکھا واں خون سے آلودہ ہے سب اس کا لباس
سر جھکائے ہوئے وہ روتی ہے بے ہوش وحواس
سر اٹھاتی ہے تو بھرتی ہے وہ پیہم دم یاس
بیٹھی اک شغل یہ وہ اک کشتہ غم کرتی ہے
یا حسینؑ انگلی سے اپنی وہ رقم کرتی ہے
یہ دیکھ کر دختر ہند اپنی ماں کے پاس آئی اور سارا حال بیان کیا۔اور کہا کہ بے شک یہ شاہزادی ہے۔ فوج شام نے ناحق اس کو ایذا دی۔کانوں سے خون جاری ہے۔ تمام کرتا خون سے بھرا ہوا ہے۔ نظم
اماں اک اور ستم کا کروں میں تم سے بیاں
غور سے میں نے جو صورت پہ کیا اس کی دھیان
رنگ چہرے کا ہے فق پیاس سے سوکھی ہے زبان
کان کے خون سے کرتا بھی ہے سارا افشاں
صاف ظاہر ہے کہ اس کو نہیں چین اے اماں
خاک پہ لکھتی ہے یہ نام حسینؑ اے اماں
یہ سن کر دفعتہ" فرط غم والم سے ہند کا حال دگر گوں ہو گیا۔اور دل پر درد سے ایک آہ سرد کھینچ کر کہا،تیرے منہ میں خاک۔اس بے ادبی سے نام حسینؑ لیتی ہے۔ یہ متبرک نام میرے آقا کا ہے۔تو جلد واپس جا اور اس شاہزادی سے دریافت کر کہ حسینؑ تمہارا کون ہے؟۔ اور تم لوگ کس خاندان سے ہو۔
سن کے وہ پھر گئی بالی سکینہؑ کے قریں
کہا کچھ بات نہیں کرتی ہو اے ماہ جبین
بولی اس طرح سے رو رو کے وہ مغموم وحزیں
کہتی ہو سچ کہ بہت باتوں کی عادی میں نہیں
شمر بے رحم ایذا دے نہ کہیں ڈرتی ہوں
بے ضرورت میں کبھی بات نہیں کرتی ہوں
بیٹی حاکم کی ہے تو اور میں حزین وبے تاب
اپنی حالت میں گرفتار ہوں میں بے خور وخواب
چھاتی ٹھنڈی ہے تیری میرا کلیجہ ہے کباب
خیر جو پو چھتی ہے دیتی ہوں میں اس کا جواب
باپ مارا گیا گردوں کی ستائی ہوں میں
ساتھ ماں بہنوں کے یاں قید میں آئی ہوں میں
دختر ہند یہ بولی کہ بجا شیون وشین
باپ جب قتل ہو کس طرح تمہیں آئے چین
خاک پر انگلی سے جو تم لکھتی ہو ہائے حسینؑ
جھوٹ میں کہتی نہیں یہ بخدائے کونین
مجھے تشویش ہے اے بے کس وناکام یہی
اماں کہتی ہیں آقا کا میرے نام یہی
خیر اتنا ہی بتا دے مجھے اے خستہ جگر
یہ حسینؑ آہ ہے کس بحر صداقت کا گہر
کون سے باغ ولایت کا ہے یہ تازہ شجر
کون سے برج شرافت کا ہے ماہ انور
کون سے شاہ کا یہ بیٹا ہے اور پوتا ہے
نام جب سنتی ہوں مجھے رنج بہت ہوتا ہے
یہ سن کر حضرت سکینہؑ کی آکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔اے بہن کیا پو چھتی ہو کیا بتائوں۔میں غمگین ظالموں کی ستائی ہوں۔اپنے سترہ چاہنے والے تھے۔اب کوئی نہیں۔ ایک بیمار بھائی ہے۔ وہ بھی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ میرا وطن یثرب ہے۔باپ شہنشاہ عرب ہے۔ میرے گھر جبرائیل آتے تھے۔ دین ودنیا کے بادشاہ کی بیٹی شہنشاہ کی پوتی ہوں۔ مفصل کیا کہوں اماں کی حکم عدولی ہوگی۔اور پھوپھی کا خیال ہے۔ اصل حال چھپانے میں جھوٹ بولنے کا گناہ ہے۔ ایک بھائی میرا ہم شکل رسولؑ تھا۔ایک چھوٹا بھائی اصغر ؑ چھ مہینے کا تھا۔اب اور کیا کہوں دل سینے میں بے قرار ہے۔باپ کا جو نام پوچھتی ہے شاہ کونین ہے۔الغرض یہ باتیں سن کر وہ لڑکی پھر ہند کے پاس واپس آئی۔اور جو کچھ جناب سکینہؑ کی زبانی سنا تھا۔ بیان کرکے کہنے لگی نظم
اماں خود سوچیے کیونکر نہ ہو شک مجھ کو بھلا
گفتگو سے عیاں خانہ زہراؑ کا پتا
پوچھا جب ترا پدر شاہ کس اقلیم کا تھا
آنسو بھر کر شاہ کونین ہے یہ اس نے کہا
خیر شبیرؑ کی کرنا تو خدائے شبیرؑ
شاہ کونین نہیں کوئی سوائے شبیرؑ
یہ غضب اور نہ ہو کہتی تھی یہ مجھ سے ابھی
بھینا اک میرا بڑا بھائی تھا ہم شکل نبیؑ
چھوٹے بڑے جتنے تھے تقریر یہ سب سنتے تھے
جز یگانوں کے نہیں شکل نبیؑ غیر نبیؑ
گو گرفتار غم تشنہ دہانی ہیں یہ
ظاہرا احمدؑ وزہراؑ کی نشانی ہے یہ
ہند نے بیٹی کی تقریر سنی جب یہ تمام
رو کے کہنے لگی لاریب ہوئے قتل امامؑ
میں قسم کھاتی ہوں یہ ہے جگر شاہ انام
میرے آقا سے مشابہ ہے بہت یہ گل فام
ہونٹ سے ہونٹ جو ہنگام سخن ملتے ہیں
لب ودنداں سے شاہ دین کے نشاں ملتے ہیں
اب مجھے شک نہیں سر اس کے قدم پر دھر دے
گر پیے پانی تو بھر کر اسے ساغر دے
چادریں ساتھ ہیں اس لاڈلی کو چادر دے
خواہش میوہ جو ہو میوہ سے گودی بھر دے
شاید اس یوسف زہراؑ کا پتا پائوں میں
تو ٹھہر یاں اسیروں کے قریں جائوں میں
اپنی دختر سے یہ کہہ کر ہند اہل حرم کی جانب روانہ ہوئی۔ اور اہل حرم کے پاس پہنچ کر حیران وسرگرداں دیکھنے لگی۔ بیبیوں نے بالوں سے منہ چھپا لیے۔ ہند پھر دست بستہ یوں بولی۔ نظم
وہ بولی صاحبو مرا مجرا میرا سلام
لو سر اٹھائو زانو سے کچھ کرو کلام
بتلائو جلد بہر خدا وارثوں کے نام
میں پوچھنے کو آئی ہوں حال شاہ انام
اس فکر میں ہوں کھوئی ہوئی دل کے چین کو
شمر لعیں نے قتل کیا کس حسینؑ کو
لوگو جو ہے جہاں کا سلطان وہ نہ ہو
ایمان ہے جس کا تابع فرمان وہ نہ ہو
لونڈی کو جس حسینؑ کا ہے دھیان وہ نہ ہو
آئے اجل کنیز کو بے جان وہ نہ ہو
خیر اس کی چاہیئے مجھے جس کی تلاش ہے
پر شمر کے بیاں سے جگر پاش پاش ہے
الغرض سیدانیاں غیرت سے گڑی جاتی تھیں۔ جب کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ تو ہند نے حضرت سکینہؑ کو گود میں اٹھا لیا۔ اور کہنے لگی کہ اپنی بی بی کو زیور پہنائوں گی۔میوے کھلائوں گی نظم
آغوش میں یہ کہہ کے جو اس نے اٹھا لیا
دل تھام کر تڑپ گئی بنت شاہ ہدیٰ
چلائی مرے کانوں کو ہے ہے دکھا دیا۔
گھبرا گئی جو ہند تو بولی وہ مہہ لقا
تر خوں سے دیکھ لے میرے کپڑے یہ سارے ہیں
ظالم نے کان چیر کے گوہر اتارے ہیں
آہستہ بولی ہند پھر اس کے ذقن کو تھام
بی بی تمہارے باپ کا بتلائو کیا ہے نام
تتلا کے تب سکینہؑ نے اس سے کیا کلام
بابا کو مرے خلق میں کہتے ہیں سب امام
ظالم نے تیغ کیں سے جدا اس کا سر کیا
قسمت نے کم سنی میں مجھے بے پدر کیا
باتیں یہ سن کے ہند ہوئی اور بے قرار
چلائی کس سے پوچھوں مفصل مآل کار
گردن نہیں اٹھاتی کوئی بی بی زینہار
ٹکرائوں سر کو جا کے کہاں میں جگر فگار
للہ لوگو حال نہ شاہ کا چھپائو تم
لو سب کے پائوں پڑتی ہوں سر کو اٹھائو تم
الغرض جب ہند کی بے چینی اور بےقراری حد سے زیادہ دیکھی تو جناب زینبؑ سے صبر نہ ہوسکا۔ اس وقت، نظم
زینبؑ نے دیکھا ہند کو جب خاک پہ طپاں
آہستہ بولی اشک بہا کر وہ نیم جان
کیوں غم زدوں کے دل کو لگاتی ہو برچھیاں
اے ہند کس حسینؑ کا تجھ سے کروں بیاں
تو پوچھتی ہے بادشاہ مشرقین کو
ہم رو رہے ہیں بے کس وتنہا حسینؑ کو
مظلوم ہے غریب ہے وہ اک بندہ خدا
جس کا سوا اجل کے نہیں کوئی آشنا
ابن علیؑ کے قتل کا دل میں تو شک نہ لا
فرزند فاطمہؑ سے لڑے گا کوئی بھلا
اس وسوسہ کو دے نہ جگہ اپنے سینے میں
تیرا حسینؑ ہو گا سلامت مدینہ میں
یہ وہ حسینؑ ہے کہ وطن جس سے ہے بعید
یہ وہ حسینؑ ہے جسے سمجھا نہ کچھ یزید
یہ وہ حسینؑ کے ہے ہوئی مرنے سے جس کی عید
یہ وہ حسینؑ ہے جو ہوا تشنہ لب شہید
مرنے پہ بھی لحد سے آغوش تن نہیں
یہ وہ حسینؑ ہے کہ میسر کفن نہیں
آواز سن کے ہند کو گزرا جو اشتباہ
گردن جھکا کے غور سے چہرے پہ کی نگاہ
چلائی یوں تڑپ کے وہ سرور کی خیر خواہ
لو یہ تو میری بی بی ہے زینبؑ خدا گواہ
دربار عام میں مجھے سوجھا نہ دور سے
گھر سے نکل کے ہوتی مشرف حضور سے
بی بی بتائو سید والا کہاں ہیں آج
بنت نبیؑ کی گود کا پالا کہاں ھے آج
نور خدا کے گھر کا اجالا کہاں ھے آج
فرزند اس کا گیسوں والا کہاں ھے آج
حیدرؑ کی مصطفےٰؑ کی نشانی کو کیا کیا
فرمایئے بتول کے جانی کو کیا کیا
زینبؑ کو کوئی بات نہ بن پڑی جب وہاں
رو کر پکاری شاہ سدھارے سوئے جناں
اے ہند حال تجھ سے کہاں تک کروں بیاں
بھائی ہوا شہید بہن قید ہے یہاں
سر کٹ گیا بدن سے شاہؑ مشرقین کا
دے خواہر حسینؑ کو پرسا حسینؑ کا
شوہر نے تیرے ہائے ستم کیا کیا غضب کیا
لکھ لکھ کے خط حسینؑ کو گھر سے طلب کیا
مظلومؑ کا نہ شمر نے بھی کچھ کیا ادب
چھاتی پہ چڑھ کے ذبح کیا اس کو تشنہ لب
کیا ظالموں نے راہ میں صدمے دکھائے ہیں
نیزے پہ سر چڑھا کے شہیدوں کے لائے ہیں
زینبؑ سے جب سنا سر سرور کا اس نے نام
فورا" قدم پہ گر پڑی وہ عاشق امامؑ
بولی خدا کے واسطے اے آسماں مقام
دکھلا دو چل کے مجھ کو سر شاہ تشنہ کام
پیٹوں گی سر کو جان کو غارت کروں گی میں
اس کشتہ جفا کی زیارت کروں گی میں
یہ سن کے ساتھ ہند کے زینبؑ ہوئی رواں
سر پیٹتیں جلو میں چلی ساری بیبیاں
زندان کے در پہ آئیں جو با نالہ فغاں
زینبؑ نے سر پٹک کے کہا ہند سے کہ ہاں
نظارہ کر لے فاطمہؑ کے نور عین کا
وہ سب کے آگے نیزے پہ سر ہے حسینؑ کا
پہلے تو ہو گیا اسے سکتہ سا ایک بار
پھر لیں بلائیں دوڑ کے چہرے کی بے شمار
ٹکرا کے سر کو نیزے سے بولی وہ بےقرار
آقا تمہارے روئے مقدس کے میں نثار
گیسو بھرے ہیں خاک میں رخ خوں میں لال ہے
پہچاننا کنیز کو صورت محال ہے
یہ کہہ کے تڑپی خاک پر وہ شہہ کی دوستدار
سر پیٹا یاں تک کہ جبیں ہو گئی فگار
زینبؑ پچھاڑیں کھانے لگی ہو کے بے قرار
دوڑی سکینہؑ نیزے کی جانب بحال زار
چلائی بابا جان کہاں تم کو پائوں میں
اس خوں بھرے جمال کے قربان جائوں میں
منہ پیٹتی تھی ہاتھوں سے پھر تو وہ خستہ تن
چھاتی پہ ہاتھ مار کے نیلا کیا بدن
بولا یہ کانپ کر سر شاہنشاہ زمن
لے جائو یاں سے میری سکینہؑ کو اے بہن
نیزے سے یہ لپٹ کے فلک کو ہلاتی ہے
دشت بلا میں لاش مری تھرتھراتی ہے
الغرض ملاعین بے دین سر اقدس کو دروازہ زندان سے لے گئے۔اور نیزے سے اتار کے ایک چاہ میں رکھا۔ اور اہل حرم اور معصوم سکینہ ؑ تڑپتی اسی زندان تاریک میں رہ گئی۔ بیت
قبر وزیر میں ہو سماں حق کے نور کا
خاک شفا میں دفن ہوں صدقہ حضورؑ کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment