بتیسویں مجلس
ہند کی ولادت کا حال،اور اس کا امام حسین علیہ السلام سے عقد،پھرآپ کا طلاق دینا،اور دربار شام میں ہند کا آنا اور امام مظلومؑ کی ماتم داری
ہے ذکر وفاداری ہند جگر فگار
مقبول خدا عاشق شہنشاہ ابرار
محرران حکایات درد والم واخبار نویسان حالات اہل حرم ہند کی ولادت کا حال صفحہ قرطاس پر قلم اعجاز سے اس طرح تحریر کرتے ہیں۔کہ جناب رسولؑ خدا کے زمانے میں ایک شخص عبداللہ عامر تھا،وہ مدینہ کے اطراف میں کسی قریہ میں رہتا تھا۔لیکن اس کی گلزار حیات میں نخل تمنا بار آور نہ ہوتا تھا۔اس واسطے اکثر پژمردہ اور غمگین زندگی گزارتا تھا۔آخر رفتہ رفتہ اعجاز سید المرسلینؑ کی شہرت اس کے کانوں تک پہنچی۔آپؑ کے کمالات سن کر وہ اپنے مسکن سے روانہ ہوا۔اور اس نبیؑ اکرم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا۔جس کا فیض عام دور ونزدیک مشہور تھا۔اول دولت اسلام سے مشرف ہوا۔ پھر اپنا دلی مقصد یوں بیان کیا کہ نظم
فرمائیں دعا بندے کے حق میں یہ خدا سے
اولاد عطا مجھ کو کرے فضل وعطا سے
ممتاز ہو وہ تربیت خیر الورا سے
لے درس فصاحت کا رسولؑ دوسرا سے
پیری میں پڑھوں صاف سبق علم وہنر کا
طالب ہوں میں عینک کے عوض نور نظر کا
اقرار کیا مخبر صادق نے دعا کا
فرمایا کہ مشکل نہیں لہجہ فصحا کا
ہم میں ہے وہ اک بندہ مقبول خدا کا
اک بات میں حل کرتا ہے مطلب دوسرا کا
جب عرش خدا پر گئے ہم اپنے مکاں سے
کیں باتیں خدا نے اسی بندے کی زبان سے
یہ سن کر عبد اللہ عامر نے عرض کی کہ یا رسولؑ اللہ وہ بندہ مقبول کون ہے۔جناب سرورؑ کائنات نے مشکل کشائے عالم جناب حیدر کرارؑ کی طرف اشارہ کیا۔وہ جناب شیر خدا علی المرتضےٰؑ کے دیدار سے مشرف ہوتے ہی آپؑ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر تسلیم بجا لایا۔گرد پھرا اور دولت فصاحت کا طالب ہوا۔القصہ اس باب علوم کے فیض تعلیم سے ایسا فصیح ہوا کہ عرب میں کوئی فصیح وبلیغ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔اور ہادی کونین رسولؑ الثقلین کی دعا کی برکت سے خدا وند کریم نے چند روز کے بعد اس کو ایک نیک دختر بھی عطا کی۔الغرض دونوں مطلب دلی اس کے بر آئے بیت
ہاتھ آئی زبان فصحا دست خدا سے
اور نور نظر پایا پیمبرؑ کی دعا سے
نظم
روشن ہوا گھر اس کا کہ دختر ہوئی پیدا
خورشید لقا ہند خوش اختر ہوئی پیدا
ہر سمت یہ آواز برابر ہوئی پیدا
لو خادمہ آل پیمبرؑ ہوئی پیدا
یہ شاہ شہداں کی عزادار بنے گی
اک دن یہ ردا زینبؑ وکلثومؑ کو دے گی
جس وقت کہ اس سعید ازلی کی دلی مراد بر آئی۔اور نخل تمنا بارآور ہوا،وہ وفور مسرت سے شاد ہو کر بادشاہ کونین جد حسینؑ کی خدمت با برکت میںحاضر ہوا۔ اور دختر کی ولادت کا مژدہ سنا کر عرض کی، بیت
القاب بھی دیں آپؑ کہ سب کچھ تو دیا ہے
مادر نے موسومہ بہ ہند اس کو کیا ہے
نظم
یہ سنتے ہی گریاں ہوا وہ واقف انجام
آنکھوں تلے پھرنے لگا حادثہ شام
پھر سینہ میں دل تھا نہ دل پاک میں آرام
اغلب تھا کہ مسجد میں گرے کعبۃ الاسلام
پر شوہر خاتون قیامت نے سنبھالا
ہاتھوں پہ نبوت کو امامت نے سنبھالا
بوسہ دیا مومن نے نبیؑ کے کف پا کو
پوچھا کہ بتلائیں سبب حزن وبکا کو
غم اس کی ولادت سے ہے جو خیرالوریٰ کو
کیا اس سے ضرر پہنچے گا کچھ آل عبا کو
یہ خادمہ عترت اطہار نہیں ہے
اس طرح کی بیٹی مجھے درکار نہیں ہے
طالع سے بد ونیک کے خوب آپ ہیں محرم
گر ہو نہ یہ زہراؑ کی محب اے شاہ عالم
جھولے میں اسے ذبح کروں جا کے اسی دم
عیش اس کی ولادت کا ہے مرے لیے ماتم
فرمائیں تو مادر نہ اسے شیر پلائے
بندہ ابھی آب دم شمشیر پلائے
یہ کلام سن کر آپؑ انگشت بدنداں ہوئے،اور فرمایا کہ اے عبد اللہ اس وقت میرے رونے کا سبب یہ نہیں ہے۔ جو تونے خیال کیا۔بلکہ اپنے پارہ جگر نور عین ابا عبد اللہ الحسینؑ کے انجام سے آب دیدہ ہوں۔کہ ایک روز گلستان زہراؑ و علیؑ پا مال ہو جائے گا۔اور اس کے اہل بیت جفا کاران امت کے ظلم وستم میں گرفتار ہو کر یزید پلید کے رو برو حاضر کیے جائیں گے۔اور اتفاق وقت سے ہند خوش اقبال اس کے گھر میں ہوگی،اور بجز ہند کے کوئی خاطر داری کرنے والا مظلوموں کا نہ ہوگا۔ یہ سن کر وہ محب خاص رونے لگا۔اور عرض کی کہ یا رسولؑ اللہ دعا کیجیے کہ آپؑ کا حسینؑ بچ جائے۔خدا وہ وقت نہ لائے۔ سب شیعوں کی جانیں اس پر سے قربان ہو جائے۔ اتفاقاَ اسی اثنا میں جناب امام حسینؑ تشریف لائے۔اس وقت عبد اللہ عامر آپؑ کے صدقے ہوئے،اور دعائے سلامتی دے کر عرض کی،کہ اے شاہزادہ کونین بندہ ہزار جان سے آپؑ پر فدا اور نثار ہو۔ بیت
تم کار برآری کو ہمارے ہوئے پیدا
ہم تعزیہ داری کو تمہارے ہوئے پیدا
القصہ وہ مومن نیک انجام وہاں سے رخصت ہو کر جناب فاطمہ زہراؑ کے در دولت پر باچشم غمناک حاضر ہوا۔ اور حضرت فضہ کو آواز دی۔ کہ اے کنیز زہراؑ قدم بتول عذرا کی تھوڑی خاک مجھ کو لا دے۔ کیونکر بیت،
اس گھر سے ملی مجھ کو میری نور بصر ہے
سرمہ تو اسی خاک کا منظور نظر ہے
عبد اللہ کی یہ گزارش سن کر نظم
اک مشت اسے فضہ نے اکسیر عطا کی
گھر لے گیا اک بار وہ دولت دوسرا کی
تھی خاک میں طلعت قدم خیر الانسا کی
مٹی نے تجلی ید بیضا سے سوا کی
مکہ کا نہ یہ سرمہ تھا نہ یہ طور کا سرمہ
اس خاک سے روشن تھا کہ ہے نور کا سرمہ
غرض جناب فاطمہؑ زہرا بتول عذرا کی خاک پاک کا سرمہ لگاتے ہی ہند کو عرفان الہیٰ سے بہر کامل ہوگیا۔
اور اس کی صاحب ایمان ماں اس ہند کی پرورش میںاس طرح مصروف ہوئی،کہ بلا وضو کبھی دودھ نہ پلایا۔اور نہ کبھی چھاتی پر سلایا۔نہ کبھی گہوارہ عفت میں جھلایا۔المختصر جب ایام رضاعت ختم ہوئے،اور ہند نے عنایت خدا سے ہوش سنبھالا۔تو ایک روز اس کے باپ نے پوچھا کہ اے بیٹی کیا تو رسولؑ خدا سے بھی تو واقف ہے۔تب اس باوفا نے جواب دیا۔ کہ اے پدر بزرگوار کیا خوب آپ نے دریافت کیا۔جس کی برکت دعا سے میں پیدا ہوئی،اسی کو نہ پہچانوں۔یہ بات سن کر بیت،
اس نے کہا شاباش بڑی عقل رسا ہے
اب مجھ پہ کھلا خادمہ آل عبا ہے
یہ سن کر ہند کی طرف مخاطب ہوا اور پوچھا ، نظم
کہہ حب وطن ہے کہ مدینہ کی ہے الفت
یہ قریہ ہے وہ شہر ہے یہ گھر ہے وہ جنت
یاں ماں ہے وہاں حضرت خاتون قیامت
یاں روئے پدر ہے واں شاہ مرداں کی زیارت
یاں قبح فصاحت ہے وہاں حسن بیاں ہے
رہنا تجھے منظور یہاں ہے کہ وہاں ہے
وہ بولی میں راغب کبھی باطل پہ نہ ہوں گی
اماں نہ برا مانیں جو حق ہے وہ کہوں گی
مخدومہ کونین کی فرقت نہ سہوں گی
کہلاتی ہوں میں جن کی انہی کے پاس رہوں گی
سب لونڈیاں ہیں بیبیوں کے پاس جہاں میں
پہنچا دو مجھے خدمت خاتون جناں میں
یہ سن کر عبد اللہ عامر اپنی زوجہ کو دیکھنے لگے،اور ہند خوش ایمان نے بھی اپنی ماں سے اجازت چاہی۔سبحان اللہ عشق دلی اس کو کہتے ہیں۔ کہ تمام عمر میں ایک لڑکی پیدا ہوئی،اس کو بھی اہلبیت اطہار کی کنیزی کے مقابلہ میں اس کی ماں نےاپنے پاس سےعلیحدہ کرنے میں کچھ تامل نہ کیا۔بلکہ نہایت خوشی سے خلعت فاخرہ وزیور بے بہا پہنا کر رخصت کیا۔اور عبد اللہ عامر اپنی اس نور نظر کو مع دیگر مردان قبیلہ کے بڑی دھوم سے لے کر رسولؑ مقبول کی خدمت میں حاضر ہوا۔اللہ رے انقلاب زمانہ بیت
کس جاہ سے ہند آئی تھی زینبؑ کے وطن میں
گھر اس کے جو زینبؑ گئی بازو تھے رسن میں
القصہ جب عبد اللہ عامر ہند کو رسولؑ دوسرا کی خدمت میں لایا۔آپ نے اس پر نہایت لطف وکرم فرمایا۔اور خانہ فاطمہؑ زہرا میں پہنچا دیا۔جناب فاطمہ زہراؑ اس کے ساتھ کمال شفقت و محبت سے پیش آتی تھیں۔اور ہمیشہ اس کی دل جوئی فرماتی تھیں۔ نظم
بلقیس بنی ہند سلیمان زمن کی
کہلاتی وہ بلبل شاہ مرداں کے چمن میں
پرواہ دل وجان کی تھی اس نے سر وتن کی
صورت کبھی پیدا نہ ہوئی رنج ومحن کی
آنکھیں رخ شبیرؑ پہ دل زیر قدم تھا
سر ہند کا اخلاص کی محراب میں خم تھا
جاتا تھا جو گھر سے وہ دل فاطمہؑ کا چین
یہ پیش قدم جھاڑ کے رکھ دیتی تھی نعلین
ہوتے تھے خراماں وہ اگر صحن کے مابین
گرد ان کے یہ پھرتی تھی بصد زیب بصد زین
خم کرتی تھی سر صاحب تطھیر کے آگے
آنکھوں کو بچھا دیتی تھی شبیرؑ کے آگے
جب جناب فاطمہ زہراؑ نے حضرت امام حسینؑ کے ساتھ اس کی یہ مہر و محبت مشاہدہ کی۔تو اس پر اور زیادہ شفقت وعنایت فرمانے لگیں۔پھر عبد اللہ عامر سے مشورہ کرکے امام حسینؑ کے ساتھ اس کے عقد کی تجویز فرمائی۔لیکن یہ خوشی دیکھنا نصیب نہ ہوئی نظم
ناگاہ چھپا خاک میں خورشید نبوت
پھر حشر ہوا مر گئیں خاتون قیامت
خط کوفہ سے آیا کہ علیؑ کی ہوئی رحلت
مسجد میں گرا کعبہ پر نور امامت
سر پیٹتے پرسے کو سب اہل وطن آئے
بن باپ کے کوفہ سے حسینؑ وحسنؑ آئے
فارغ ہوئے جب سوگ شاہ قلعہ شکن سے
تھا ربط وہی ہند کا سلطان زمن سے
حضرتؑ نے کیا مشورہ خلوت میں حسنؑ سے
شبرؑ نے رضا عقد کی دی وجہ حسن سے
احکام پیمبرؑ سے اور الہام خدا سے
پھر عقد ہوا ہند کا شاہ شہدا سے
چونکہ ہند حسن میں شہرہ آفاق تھی۔ صانع قدرت نے ایسا سراپا عطا فرمایا تھا۔ کہ جس کی تعریف میں عقل حیران وسرگردان ہے۔المختصر اس کے حسن وجمال کی خبر یزید پلید کو بھی ہوئی،اور وہ بھی اس حور تمثال سے عقد کا خواستگار ہوا۔ مگر کوئی صورت نظر نہ آئی،اور اس کی وارفتگی بڑھتی گئی۔آخر یہ خبر معاویہ کو پہنچی کہ یزید ہند کے لیے نہایت بے تاب ہے،تو اس نے امام حسنؑ کی خدمت میں عریضہ بھیجا،کہ آپ اپنے جناب حسینؑ کو سمجھا کر ہند کو طلاق دلوادیجیے۔کیونکہ یزید جاہل ہے۔ اس کی طبیعت ہند کی طرف رجوع ہے۔ مجھ کو خوف ہے کہ بیت
یہ عقد نہ باعث ہو کسی بے ادبی کا
کینہ نہ کہیں دل میں پڑے آل نبیؑ کا
اگر حسینؑ ہند کو طلاق دے دیں،تو اس کا عقد یزید سے کرددوں گا۔اور اس کے دل میں پھر کوئی کینہ باقی نہ رہ جائے گا۔اسی مضمون کے اکثر خطوط آئے۔ بیت
شبیرؑ کو ہر نامہ دکھا دیتے تھے مولا
کہتے نہ تھے کچھ سر کو جھکا لیتے تھے مولا
آخر رفع شر کے خیال سے جناب امام حسینؑ نے ہند کو طلاق دے کر رخصت فرمایا۔اور اس روز سے ہند اکثر امام حسینؑ کی قدم بوسی کو آتی،پھر اپنے گھر چلی جاتی۔جب معاویہ کو یہ معلوم ہوا کہ حسینؑ نے طلاق دے دی ہے ،تو اس نے حاکم یثرب کو تحریر کیا کہ ہند کو کسی طرح رضا مند کرکے شام میں بھیج دے۔ ہر چند کہ حاکم یثرب نے اس بات میں کوشش کی مگر وہ نیک بخت راضی نہ ہوئی،الغرض ایک روز موقع پا کر
نظم
ظالم کو لکھا حاکم یثرب نے یہ ناگاہ
لے ہند کے کنبہ میں کسی شخص کا ہے بیاہ
واں جائے گی مہمان مدینہ سے یہ ذی جاہ
فوج اس نے رواں کی کہ رہے جا کے سر راہ
جب ہووئے سواری کا گزر راہ گزر میں
داخل یہ کریں ہند کو لا کر میرے گھر میں
القصہ پے نور چلے شام سے ناری
گوشہ میں سر راہ چھپے دشمن باری
لکھا ہے واں ہند کی آئی جو سواری
اک دفعہ سواری پہ گری فوج وہ ساری
وہ بولی خبر دار جو کچھ بے ادبی کی
میں خادمہ ہوں سبط رسولؑ عربی کی
ہند خوش سیر کا یہ کلام سن کر حاکم شام کی فوج نے کہاکہ اے صاحب عصمت وحیا ہم کو خود تیرا ادب ملحوظ ہے۔کیونکہ تیرا مشتاق حاکم شام کا فرزند ہے۔ شبیرؑ کے یاں فاقہ واں راحت وآرام ہے۔یہاں تجھ کو رنج ومصیبت ہے وہاں دولت وحشمت ہے۔ یہ سن کر نظم
فریاد کی اس نے کہ ڈرو خوف خدا سے
توبہ کرو توبہ کرو فاسق کی ثنا سے
پیوند میرا ہو چکا آل عبا سے
رشتہ ہے محبت کا امام دوسرا سے
بتلائو تمہیں کون بھلا در نجف ہے
وہ ہندہ کا پوتا ہے یہ زہراؑ کا خلف ہے
گو سبط نبیؑ نے مجھے آزاد کیا ہے
لیکن میری جان ان پہ تصدق ہے فدا ہے
دنیا میں کسی رتبہ کی حاجت مجھے کیا ہے
کہلا چکی زہراؑ کی بہو شکر خدا ہے
اب میل نہ دنیا میں نہ دولت کی طلب ہے
کافی مجھے تازیست یہی فخر بس اب ہے
وہ خار ہے یہ گل ہے وہ ہے ننگ یہ ہے نام
شیطان کا وہ وسواس یہ رحمان کا الہام
وہ درد یہ تسکین وہ ایذا ہے یہ آرام
وہ دیر ہے یہ کعبہ ہے وہ کفر یہ اسلام
وہ جہل میں بوجہل ہے یہ دانش میں نبیؑ ہے
وہ بخل میں قارون یہ بخشش میں علیؑ ہے
وہ نار ہے فطرت میں تو یہ نور ہے واللہ
وہ زخم یہ مرہم وہ مرض اور یہ مسیحا
وہ سحر یہ اعجاز وہ فرعون یہ موسیؑ
وہ قہر یہ رحمت وہ نجاست ہے یہ تقویٰ
ہر مصحف معبود کی صحت یہ فقط ہے
وہ حرف غلط سطر غلط فرد غلط ہے
پوشاک میری چھین لو زیور میرا لے لو
اب آنکھ میں سب خاک ہے بستر مرا لے لو
ساتھ آئو مرے لوٹ کے سب گھر مرا لے لو
لے جائو نہ واں کاٹ کے یاں سر مرا لے لو
اللہ کا ڈر ہے نہ پیمبرؑ کا ادب ہے
سادات کی لونڈی پہ یہ کیا قہر وغضب ہے
ہر چند ہند نے نالہ وفریاد کی،مگر ان ملاعین نے کچھ نہ سنا،آخر کو کہنے لگی اچھا برائے خدا اتنی مہلت دو کہ حضرت زینبؑ کی زیارت کر آئوں،شبیرؑ کی قدم بوسی سے مشرف ہو آئوں،مگر کوئی بات ان اشقیا نے منظور نہ کی، اور جبرا" حاکم شام کے پاس لے گیے۔ نظم
حاکم نے کیا ہند سے عقد اپنے پسر کا
در کر دیا پھر بند مدینہ کی خبر کا
نے آئے ادھر کا نہ کوئی جائے ادھر کا
ہاں نام نہ لے اب کوئی شبیرؑ کے گھر کا
پر یاد نہ تھا ہند کو اک حرف لعیں کا
کلمہ تھا اسے یاد جناب شاہ دیں کا
تھی بس کہ یہ شیدائے جمال شاہ ابرار
گزرے جو کوئی سال تحمل ہوا دشوار
عرضی میں یہ لکھ بھیجا کہ اے خاصہ غفار
دیکھوں مجھے دکھلاتی ہے کیا حسرت دیدار
سیدانیوں کے شوق زیارت میں مروں گی
پھر حشر تلک قبر میں تڑپا ہی کروں گی
حضرت نے کیا خامہ اعجاز سے تحریر
اے ہند نہ مضطر ہو نہ مایوس نہ دل گیر
تدبیر ملاقات میں سر گرم ہے تقدیر
کنبہ لیے آتا ہے تیرے شہر میں شبیرؑ
واں دیکھیو تو آل پیمبر کے حشم کو
اس شان سے دیکھا ہے نہ زینبؑ کو نہ ہم کو
اس نامہ کو پڑھتے ہی ہوئی ہند کو حیرت
جی میں کہا کس شان سے یاں آئیں گے حضرت
چنداں نہ ملازم ہیں نہ لشکر ہے نہ حشمت
ہاں قبضہ قدرت میں ہے اللہ کی قدرت
لکھا ہے کہ آئوں گا نئی شوکت وشان سے
یہ دھیان نہ تھا زلفیں بندھی ہوں گی سناں سے
زینبؑ کے تصور میں یہ کہتی تھی وہ ششدر
اتری تھی جو زہراؑ کے لیے عرش سے چادر
اغلب ہے کہ اوڑھے ہو اسے دختر حیدرؑ
فردوس کے یاقوت زمرد کا ہو زیور
یہ علم نہ تھا اس کو کہ لٹ جائے گی زینبؑ
بھائی کا لہو منہ پہ ملے آئے گی زینبؑ
ناگاہ اس حیات ناپائیدار کو ختم کرکے معاویہ نے قضا کی۔اور اس کی جگہ تخت سلطنت پر یزید متمکن ہوا۔اور امام حسینؑ سے بیعت طلب کی۔ ساتھ ہی حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر حسینؑ میری بیعت سے انکار کریں،تو ان کا سر کاٹ کے میرے پاس بھیج دے۔ الغرض بیت
لشکر تو چلا کوفہ سے شبیرؑ وطن سے
عاشور کو مقتل میں چھٹا بھائی بہن سے
راوی لکھتا ہے کہ روز عاشور نظم
جب قتل کیا شمر نے زہراؑ کے پسرؑ کو
مرقد میں دیا داغ دلی خیر بشر کو
جنت میں برہنہ کیا جبرائیل نے سر کو
کیا رنج دیا فاطمہؑ نیک سیر کو
چاک اپنا گریبان کیا حیدرؑ نے حسنؑ نے
یہ جوش کیا خون شہنشاہ زمن نے
گل رنگ در وبام ہوئے روم سے تا شام
پر شام کا حاکم اسے سمجھا شفق شام
لکھا ہے کہ اس وقت ہند خوش انجام
سجادہ پہ مصروف عبادت تھی لب بام
ناگاہ مصلےٰ اسے گلگوں نظر آیا
ملبوس جو پہنے تھی وہ پر خوں نظر آیا
تشویش وتردد میں نماز اس نے ادا کی
تسبیح پڑھی انگلیوں پہ خیر النساء کی
پھر ہاتھ اٹھا کے پے مولا جو دعا کی
گل رنگ ہتھیلی ہوئی اس اہل وفا کی
سمجھی کہ بلا چرخ سیہ فام سے اتری
پڑھتی ہوئی بس ناد علیؑ بام سے اتری
کوٹھے سے تلے آتے ہی حاکم کو بلایا
آیا جو شقی اس کو لباس اپنا دکھایا
ہر قطرہ خون انگلیوں سے اس کو بتایا
تھرا کے کہا قہر خدا بندوں پہ آیا
محشر ہے بپا نالہ جنات وملک سے
پانی کے عوض خون برستا ہے فلک سے
سنتی ہوں کہیں ہے تیرے لشکر کی چڑھائی
کہہ صاف کہ منظور ہے کس گھر کی صفائی
یثرب سے کوئی تازہ خبر تو نہیں آئی
زہراؑ کی نشانی تو نہیں تونے مٹائی
کس معرکہ میں تیرا خزانہ ہوا خالی
ہلتی ہے زمین کس سے زمانہ ہوا خالی
یہ سن کر وہ غدار بولا کہ ہاں محمدؑ کا نام مٹا دیا۔حسین ؑ قتل ہو گئے۔ یہ سنتے ہی وہ عاشق امام بے تاب ہو کر بولی کہ اے ستم گر تیرے منہ میں خاک،ہوش میں آ۔آدمیوں کی سی بات کر۔الغرض یزید پلید ہند کے پاس سے چلا آیا۔اسی وقت سے ہند کے دل پر رنج والم کی گھٹائیں چھائی رہتی تھیں۔اتفاقا" ایک شب خواب پریشان دیکھ کر ہند نے گریبان پھاڑنا شروع کیا۔ خواصوں نے ہاتھ پکڑا اور عرض کی کہ اے بی بی یہ کیا ہے۔تو وہ بے قرار ہو کر بولی کہ میں نے اپنے آقا امام حسینؑ آج عجیب حال سے خواب میں دیکھا ہے کہ سر مبارک نیزہ پر بلند ہے۔آپ کے قریب ایک شتر بے کجاوہ پر ثانی زہراؑ بنت حیدر کرارؑ جناب زینبؑ سر برہنہ سوار ہیں۔ شہزادی کے ہاتھوں میں ریسمان بندھی ہوئی ہے۔اور میرا شاہزادہ سید سجاد طوق وزنجیر میں جکڑا ہوا ہے۔اور جناب رسولؑ خدا،علی مرتضےٰؑ اور فاطمہ زہراؑ سب سر برہنہ ان کے ساتھ ساتھ ہیں۔ ذرا تم لوگ دریافت تو کرو کہ شام میں کچھ قیدی تو نہیں آئے؟ یہ حال سن کر نظم
کی عرض کنیزوں نے مفصل نہیں معلوم
پر شہر میں ہے جشن چراغاں کی بڑی دھوم
سنتے ہیں کہ دنیا سے سدھارا کوئی مظلوم
ناگاہ بجا طبل و رود سپہ شوم
دل ہل گیا جنبش میں زمین وفلک آئے
سر ننگے بنی فاطمہؑ ناکہ تلک آئے
کیا ذکر کہوں داخلہ فوج عمر کا
راکب بھی زرہ پوش تھے اور زین تھے زر کے
ہاتھوں میں چمکتے ہوئے پھل تیر وتبر کے
کہتے تھے یہ تیغیں نہیں حربے ہیں ظفر کے
ان بجلیوں نے باغ علیؑ خشک کیا ہے
شیروں کا انہی مچھلیوں نے خون پیا ہے
اور پشت پہ سب لوٹ کے اسباب برابر
بقچوں میں لیے چادریں صندوقوں میں زیور
یاں توسن اکبرؑ وہاں گہوارا اصغرؑ
اونٹوں پہ حرم نیزوں کی نوکوں پہ کٹے سر
غل تھا کہ سر آتا ہے حسینؑ ابن علیؑ کا
یہ سیدوں کے سر ہیں وہ کنبہ ہے نبیؑ کا
آہ آہ کیوں کر عرض کروں اس وقت ہند کا کیا حال تھا۔ چادر سر سے پھینک دی،گریبان چاک کر ڈالا۔ اور لونڈیوں کو حکم دیا کہ برائے خدا جلد ان اسیروں کی خبر مفصل معلوم کرکے بیان کرو۔یہ لوگ کس ملک،کس قوم اور قبیلہ سے ہیں۔اسی اثنا میں اسیروں کا قافلہ قریب آن پہنچا الغرض نظم۔۔
نزدیک رہا جب کہ در حاکم گمراہ
باندھے گئے رسی میں غزالان حرم آہ
استادہ تھی اک خادمہ ہند سر راہ
دوڑی وہ خبر لے کے کیا ہند کو آگاہ
لو پھر چکے ہر کوچہ وبازار میں قیدی
کوٹھے پہ چلو جاتے ہیں دربار میں قیدی
کوٹھے پہ تو وہ چڑھ نہ سکی حال تھا تغیر
آہستہ چلی جانب در ششدر ودل گیر
ساتھ اس کے چلی حاکم بدکار کی ہمشیر
ہمراہ خواصیں تھیں بصد عزت وتوقیر
تھا مقنعہ زر خواہر بے پیر کے سر پر
چادر نہ تھی شبیرؑ کی ہمشیر کے سر پر
الغرض محل سرا کے دروازے پر ہند یزید کی بہن کے ساتھ آکر کرسی پر بیٹھ گئی۔اور دروازے میں چلمن ڈال دی۔ ناگہاں اہل بیت اطہار کا لٹا ہوا قافلہ دربار میں داخل ہوا۔ ہند نے اہل بیت رسولؑ کو شناخت کر لیا۔ خصوصا" حضرت زینبؑ کو دیکھ کر بیت
چلائی کہ فریاد رسولؑ عربی کی
یہ تو مری شہزادی نواسی ہے نبیؑ کی
نظم
تھرا گئی حاکم کی بہن اس کے سخن پر
ہاتھ اپنا دھرا ہند خوش ایمان کے دہن پر
بولی میرا بھائی ہے شریعت کے چلن پر
یہ ظلم کرے گا وہ بھلا شاہ کی بہن پر
شک ہے تجھے یہ خواہر شبیرؑ نہ ہو گی
ایسی تو میرے بھائی سے تقصیر نہ ہو گی
فہمیدہ ہو تم نہیں سمجھانے کے قابل
یہ بات زبان سے نہیں فرمانے کے قابل
دربار میں زینبؑ ہے بھلا آنے کے قابل
رسی جگر فاطمہؑ کے شانے کے قابل
سر ننگے یہ ہمشیر امامؑ مدنی ہے
ہے ہے نہ کہو بے ادبی بد شگنی ہے
اتنے میں کھلا تخت پہ واں طشت طلائی
ہر سو سر شبیرؑ نے کی جلوہ نمائی
یاں ہند کو چلمن سے تجلی نظر آئی
بس چوب شقی نے لب شاہ پر جو لگائی
پھر ہند کے دل کو نہ کسی طرح کل آئی
سر پیٹتی پردے سے کھلے سر نکل آئی
اور یزید بد انجام سے بولی کہ اے شقی ازلی تونے یہ کیا غضب کیا کہ فرزند رسولؑ ابا عبد اللہ الحسینؑ کا سر کٹواکر نیزہ پر بلند کرایا۔ جس کی ولادت کے وقت جنت کی حور لعبہ خدمت گزاری کے لیے آئی۔اور جس کا جھولا اکثر جبرائیلؑ امین جھلایا کرتے تھے۔ارے یہ اسی بزرگ کا سر طشت طلا میں اب تیرے سامنے رکھا گیا ہے۔ یزید پلید ہند کو سر برہنہ دیکھ کر نہایت شرمندہ ہوا اور جلدی سے تخت سے اٹھا،اور ہند کے سر پر اپنی عبا اوڑھا دی۔اور حاضرین دربار سے بولا کہ اپنی اپنی آنکھیں بند کر لو۔ بیت
رسوا ہوا اقلیم میں اب نام ہمارا
ناموس نکل آیا سر عام ہمارا
نظم
یوں وارثی ہند جو کرنے لگا جلاد
سیدانیوں نے وارثوں کو اپنے کیا یاد
فضہ نے کہا غور کر اے بانی بے داد
اک ہند کے آنے سے تو اس درجہ ہے ناشاد
اے وائے قلق روح رسولؑ عربی کا
عاشورے سے سر ننگا ہے سب کنبہ علیؑ کا
بانوئے حزیں سہم کے عابدؑ کو پکاری
منہ پھیر لو تم بھی یاں ہند آتی ہے واری
زینبؑ پہ عجب طرح کا غصہ ہوا طاری
چلائی کہ انصاف تیرے ہاتھ ہے ناری
بنت شاہ مرداں ہوں نہ مرنے سے ڈروں گی
اس دم تو میں قائل تجھے مجمع میں کروں گی
لے تو ہی اب انصاف کر اے حاکم بے پیر
ناموس کا اپنے تو ہے یہ پردہ یہ توقیر
تشہیر کا فتویٰ ہے پئے عترت شبیرؑ
دربار کہاں اور کہاں آہ یہ دل گیر
واجب ہے تجھے بانوئے دلگیر کی حرمت
وہ ہے تیری حرمت یہ ہے شبیرؑ کی حرمت
کہہ ہند کے آنے سے کیا حال ہے جی کا
اب تجھ کو نہیں پاس امیروں میں کسی کا
لا دھیان میں اندوہ رسولؑ عربی کا
عاشورہ سے انبوہ میں کنبہ ہے نبیؑ کا
اغلب ہے کہ ہند آئی تو دربار میں آئی
میں ماریہ سے شام کے بازار میں آئی
بے پردگی ہند سے اتنا تو ہے مضطر
سر کھلنے سے بانو کے تڑپتے ہیں پیمبرؑ
جس روز سے میں بال کھلے پھرتی ہوں در در
اماں مری جنت میں نہیں اوڑھتیں چادر
چلاتا ہے تو ہند کی صورت کو نہ دیکھو
کہتے ہیں پیمبر مری عترت کو نہ دیکھو
سر ننگے ہی آئی ہے فقط ہند خوش اقبال
دکھلائیں کسے ہم یہ بندھے ہاتھ کھلے بال
دل ٹکڑے ہے اور پشت بھی نیزوں سے ہے غربال
کن آنکھوں سے تو دیکھتا ہے بیوائوں کا یہ حال
آنکھیں ادب ہند سے سب بند کیے ہیں
ہم آل نبیؑ آہ تماشے کے لیے ہیں
پھر ہند نے یزید ملعون سے کہا کہ اے بد سرشت تجھ کو میری بے پردگی کا تو اس قدر خیال ہے۔ کہ میرے سر پر چادر ڈال دی،اہل دربار کو آنکھیں بند کرنے اور منہ پھیر لینے کا حکم دیا۔اور عترت رسولؑ مختار اور دختران حیدرؑ کرار کی تیرے نزدیک اتنی بھی عزت نہیں۔ان کو ذلیل وحقیر کرکے شہر شہر بے مقنعہ وچادر پھرایا۔روز قیامت تو رسولؑ خدا کو کیا منہ دکھائے گا۔یہ سن کر وہ ملعون پشیمان ہوا۔ اور عذر ومعذرت کرکے ہند کو محل میں لے گیا۔ اور اہل حرم کو قید خانے میں بھیج دیا۔
روشن ہے قلب رونے سے آنکھوں میں نور ہے
زینبؑ مدد وزیر کی تم کو ضرور ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہند کی ولادت کا حال،اور اس کا امام حسین علیہ السلام سے عقد،پھرآپ کا طلاق دینا،اور دربار شام میں ہند کا آنا اور امام مظلومؑ کی ماتم داری
ہے ذکر وفاداری ہند جگر فگار
مقبول خدا عاشق شہنشاہ ابرار
محرران حکایات درد والم واخبار نویسان حالات اہل حرم ہند کی ولادت کا حال صفحہ قرطاس پر قلم اعجاز سے اس طرح تحریر کرتے ہیں۔کہ جناب رسولؑ خدا کے زمانے میں ایک شخص عبداللہ عامر تھا،وہ مدینہ کے اطراف میں کسی قریہ میں رہتا تھا۔لیکن اس کی گلزار حیات میں نخل تمنا بار آور نہ ہوتا تھا۔اس واسطے اکثر پژمردہ اور غمگین زندگی گزارتا تھا۔آخر رفتہ رفتہ اعجاز سید المرسلینؑ کی شہرت اس کے کانوں تک پہنچی۔آپؑ کے کمالات سن کر وہ اپنے مسکن سے روانہ ہوا۔اور اس نبیؑ اکرم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا۔جس کا فیض عام دور ونزدیک مشہور تھا۔اول دولت اسلام سے مشرف ہوا۔ پھر اپنا دلی مقصد یوں بیان کیا کہ نظم
فرمائیں دعا بندے کے حق میں یہ خدا سے
اولاد عطا مجھ کو کرے فضل وعطا سے
ممتاز ہو وہ تربیت خیر الورا سے
لے درس فصاحت کا رسولؑ دوسرا سے
پیری میں پڑھوں صاف سبق علم وہنر کا
طالب ہوں میں عینک کے عوض نور نظر کا
اقرار کیا مخبر صادق نے دعا کا
فرمایا کہ مشکل نہیں لہجہ فصحا کا
ہم میں ہے وہ اک بندہ مقبول خدا کا
اک بات میں حل کرتا ہے مطلب دوسرا کا
جب عرش خدا پر گئے ہم اپنے مکاں سے
کیں باتیں خدا نے اسی بندے کی زبان سے
یہ سن کر عبد اللہ عامر نے عرض کی کہ یا رسولؑ اللہ وہ بندہ مقبول کون ہے۔جناب سرورؑ کائنات نے مشکل کشائے عالم جناب حیدر کرارؑ کی طرف اشارہ کیا۔وہ جناب شیر خدا علی المرتضےٰؑ کے دیدار سے مشرف ہوتے ہی آپؑ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر تسلیم بجا لایا۔گرد پھرا اور دولت فصاحت کا طالب ہوا۔القصہ اس باب علوم کے فیض تعلیم سے ایسا فصیح ہوا کہ عرب میں کوئی فصیح وبلیغ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔اور ہادی کونین رسولؑ الثقلین کی دعا کی برکت سے خدا وند کریم نے چند روز کے بعد اس کو ایک نیک دختر بھی عطا کی۔الغرض دونوں مطلب دلی اس کے بر آئے بیت
ہاتھ آئی زبان فصحا دست خدا سے
اور نور نظر پایا پیمبرؑ کی دعا سے
نظم
روشن ہوا گھر اس کا کہ دختر ہوئی پیدا
خورشید لقا ہند خوش اختر ہوئی پیدا
ہر سمت یہ آواز برابر ہوئی پیدا
لو خادمہ آل پیمبرؑ ہوئی پیدا
یہ شاہ شہداں کی عزادار بنے گی
اک دن یہ ردا زینبؑ وکلثومؑ کو دے گی
جس وقت کہ اس سعید ازلی کی دلی مراد بر آئی۔اور نخل تمنا بارآور ہوا،وہ وفور مسرت سے شاد ہو کر بادشاہ کونین جد حسینؑ کی خدمت با برکت میںحاضر ہوا۔ اور دختر کی ولادت کا مژدہ سنا کر عرض کی، بیت
القاب بھی دیں آپؑ کہ سب کچھ تو دیا ہے
مادر نے موسومہ بہ ہند اس کو کیا ہے
نظم
یہ سنتے ہی گریاں ہوا وہ واقف انجام
آنکھوں تلے پھرنے لگا حادثہ شام
پھر سینہ میں دل تھا نہ دل پاک میں آرام
اغلب تھا کہ مسجد میں گرے کعبۃ الاسلام
پر شوہر خاتون قیامت نے سنبھالا
ہاتھوں پہ نبوت کو امامت نے سنبھالا
بوسہ دیا مومن نے نبیؑ کے کف پا کو
پوچھا کہ بتلائیں سبب حزن وبکا کو
غم اس کی ولادت سے ہے جو خیرالوریٰ کو
کیا اس سے ضرر پہنچے گا کچھ آل عبا کو
یہ خادمہ عترت اطہار نہیں ہے
اس طرح کی بیٹی مجھے درکار نہیں ہے
طالع سے بد ونیک کے خوب آپ ہیں محرم
گر ہو نہ یہ زہراؑ کی محب اے شاہ عالم
جھولے میں اسے ذبح کروں جا کے اسی دم
عیش اس کی ولادت کا ہے مرے لیے ماتم
فرمائیں تو مادر نہ اسے شیر پلائے
بندہ ابھی آب دم شمشیر پلائے
یہ کلام سن کر آپؑ انگشت بدنداں ہوئے،اور فرمایا کہ اے عبد اللہ اس وقت میرے رونے کا سبب یہ نہیں ہے۔ جو تونے خیال کیا۔بلکہ اپنے پارہ جگر نور عین ابا عبد اللہ الحسینؑ کے انجام سے آب دیدہ ہوں۔کہ ایک روز گلستان زہراؑ و علیؑ پا مال ہو جائے گا۔اور اس کے اہل بیت جفا کاران امت کے ظلم وستم میں گرفتار ہو کر یزید پلید کے رو برو حاضر کیے جائیں گے۔اور اتفاق وقت سے ہند خوش اقبال اس کے گھر میں ہوگی،اور بجز ہند کے کوئی خاطر داری کرنے والا مظلوموں کا نہ ہوگا۔ یہ سن کر وہ محب خاص رونے لگا۔اور عرض کی کہ یا رسولؑ اللہ دعا کیجیے کہ آپؑ کا حسینؑ بچ جائے۔خدا وہ وقت نہ لائے۔ سب شیعوں کی جانیں اس پر سے قربان ہو جائے۔ اتفاقاَ اسی اثنا میں جناب امام حسینؑ تشریف لائے۔اس وقت عبد اللہ عامر آپؑ کے صدقے ہوئے،اور دعائے سلامتی دے کر عرض کی،کہ اے شاہزادہ کونین بندہ ہزار جان سے آپؑ پر فدا اور نثار ہو۔ بیت
تم کار برآری کو ہمارے ہوئے پیدا
ہم تعزیہ داری کو تمہارے ہوئے پیدا
القصہ وہ مومن نیک انجام وہاں سے رخصت ہو کر جناب فاطمہ زہراؑ کے در دولت پر باچشم غمناک حاضر ہوا۔ اور حضرت فضہ کو آواز دی۔ کہ اے کنیز زہراؑ قدم بتول عذرا کی تھوڑی خاک مجھ کو لا دے۔ کیونکر بیت،
اس گھر سے ملی مجھ کو میری نور بصر ہے
سرمہ تو اسی خاک کا منظور نظر ہے
عبد اللہ کی یہ گزارش سن کر نظم
اک مشت اسے فضہ نے اکسیر عطا کی
گھر لے گیا اک بار وہ دولت دوسرا کی
تھی خاک میں طلعت قدم خیر الانسا کی
مٹی نے تجلی ید بیضا سے سوا کی
مکہ کا نہ یہ سرمہ تھا نہ یہ طور کا سرمہ
اس خاک سے روشن تھا کہ ہے نور کا سرمہ
غرض جناب فاطمہؑ زہرا بتول عذرا کی خاک پاک کا سرمہ لگاتے ہی ہند کو عرفان الہیٰ سے بہر کامل ہوگیا۔
اور اس کی صاحب ایمان ماں اس ہند کی پرورش میںاس طرح مصروف ہوئی،کہ بلا وضو کبھی دودھ نہ پلایا۔اور نہ کبھی چھاتی پر سلایا۔نہ کبھی گہوارہ عفت میں جھلایا۔المختصر جب ایام رضاعت ختم ہوئے،اور ہند نے عنایت خدا سے ہوش سنبھالا۔تو ایک روز اس کے باپ نے پوچھا کہ اے بیٹی کیا تو رسولؑ خدا سے بھی تو واقف ہے۔تب اس باوفا نے جواب دیا۔ کہ اے پدر بزرگوار کیا خوب آپ نے دریافت کیا۔جس کی برکت دعا سے میں پیدا ہوئی،اسی کو نہ پہچانوں۔یہ بات سن کر بیت،
اس نے کہا شاباش بڑی عقل رسا ہے
اب مجھ پہ کھلا خادمہ آل عبا ہے
یہ سن کر ہند کی طرف مخاطب ہوا اور پوچھا ، نظم
کہہ حب وطن ہے کہ مدینہ کی ہے الفت
یہ قریہ ہے وہ شہر ہے یہ گھر ہے وہ جنت
یاں ماں ہے وہاں حضرت خاتون قیامت
یاں روئے پدر ہے واں شاہ مرداں کی زیارت
یاں قبح فصاحت ہے وہاں حسن بیاں ہے
رہنا تجھے منظور یہاں ہے کہ وہاں ہے
وہ بولی میں راغب کبھی باطل پہ نہ ہوں گی
اماں نہ برا مانیں جو حق ہے وہ کہوں گی
مخدومہ کونین کی فرقت نہ سہوں گی
کہلاتی ہوں میں جن کی انہی کے پاس رہوں گی
سب لونڈیاں ہیں بیبیوں کے پاس جہاں میں
پہنچا دو مجھے خدمت خاتون جناں میں
یہ سن کر عبد اللہ عامر اپنی زوجہ کو دیکھنے لگے،اور ہند خوش ایمان نے بھی اپنی ماں سے اجازت چاہی۔سبحان اللہ عشق دلی اس کو کہتے ہیں۔ کہ تمام عمر میں ایک لڑکی پیدا ہوئی،اس کو بھی اہلبیت اطہار کی کنیزی کے مقابلہ میں اس کی ماں نےاپنے پاس سےعلیحدہ کرنے میں کچھ تامل نہ کیا۔بلکہ نہایت خوشی سے خلعت فاخرہ وزیور بے بہا پہنا کر رخصت کیا۔اور عبد اللہ عامر اپنی اس نور نظر کو مع دیگر مردان قبیلہ کے بڑی دھوم سے لے کر رسولؑ مقبول کی خدمت میں حاضر ہوا۔اللہ رے انقلاب زمانہ بیت
کس جاہ سے ہند آئی تھی زینبؑ کے وطن میں
گھر اس کے جو زینبؑ گئی بازو تھے رسن میں
القصہ جب عبد اللہ عامر ہند کو رسولؑ دوسرا کی خدمت میں لایا۔آپ نے اس پر نہایت لطف وکرم فرمایا۔اور خانہ فاطمہؑ زہرا میں پہنچا دیا۔جناب فاطمہ زہراؑ اس کے ساتھ کمال شفقت و محبت سے پیش آتی تھیں۔اور ہمیشہ اس کی دل جوئی فرماتی تھیں۔ نظم
بلقیس بنی ہند سلیمان زمن کی
کہلاتی وہ بلبل شاہ مرداں کے چمن میں
پرواہ دل وجان کی تھی اس نے سر وتن کی
صورت کبھی پیدا نہ ہوئی رنج ومحن کی
آنکھیں رخ شبیرؑ پہ دل زیر قدم تھا
سر ہند کا اخلاص کی محراب میں خم تھا
جاتا تھا جو گھر سے وہ دل فاطمہؑ کا چین
یہ پیش قدم جھاڑ کے رکھ دیتی تھی نعلین
ہوتے تھے خراماں وہ اگر صحن کے مابین
گرد ان کے یہ پھرتی تھی بصد زیب بصد زین
خم کرتی تھی سر صاحب تطھیر کے آگے
آنکھوں کو بچھا دیتی تھی شبیرؑ کے آگے
جب جناب فاطمہ زہراؑ نے حضرت امام حسینؑ کے ساتھ اس کی یہ مہر و محبت مشاہدہ کی۔تو اس پر اور زیادہ شفقت وعنایت فرمانے لگیں۔پھر عبد اللہ عامر سے مشورہ کرکے امام حسینؑ کے ساتھ اس کے عقد کی تجویز فرمائی۔لیکن یہ خوشی دیکھنا نصیب نہ ہوئی نظم
ناگاہ چھپا خاک میں خورشید نبوت
پھر حشر ہوا مر گئیں خاتون قیامت
خط کوفہ سے آیا کہ علیؑ کی ہوئی رحلت
مسجد میں گرا کعبہ پر نور امامت
سر پیٹتے پرسے کو سب اہل وطن آئے
بن باپ کے کوفہ سے حسینؑ وحسنؑ آئے
فارغ ہوئے جب سوگ شاہ قلعہ شکن سے
تھا ربط وہی ہند کا سلطان زمن سے
حضرتؑ نے کیا مشورہ خلوت میں حسنؑ سے
شبرؑ نے رضا عقد کی دی وجہ حسن سے
احکام پیمبرؑ سے اور الہام خدا سے
پھر عقد ہوا ہند کا شاہ شہدا سے
چونکہ ہند حسن میں شہرہ آفاق تھی۔ صانع قدرت نے ایسا سراپا عطا فرمایا تھا۔ کہ جس کی تعریف میں عقل حیران وسرگردان ہے۔المختصر اس کے حسن وجمال کی خبر یزید پلید کو بھی ہوئی،اور وہ بھی اس حور تمثال سے عقد کا خواستگار ہوا۔ مگر کوئی صورت نظر نہ آئی،اور اس کی وارفتگی بڑھتی گئی۔آخر یہ خبر معاویہ کو پہنچی کہ یزید ہند کے لیے نہایت بے تاب ہے،تو اس نے امام حسنؑ کی خدمت میں عریضہ بھیجا،کہ آپ اپنے جناب حسینؑ کو سمجھا کر ہند کو طلاق دلوادیجیے۔کیونکہ یزید جاہل ہے۔ اس کی طبیعت ہند کی طرف رجوع ہے۔ مجھ کو خوف ہے کہ بیت
یہ عقد نہ باعث ہو کسی بے ادبی کا
کینہ نہ کہیں دل میں پڑے آل نبیؑ کا
اگر حسینؑ ہند کو طلاق دے دیں،تو اس کا عقد یزید سے کرددوں گا۔اور اس کے دل میں پھر کوئی کینہ باقی نہ رہ جائے گا۔اسی مضمون کے اکثر خطوط آئے۔ بیت
شبیرؑ کو ہر نامہ دکھا دیتے تھے مولا
کہتے نہ تھے کچھ سر کو جھکا لیتے تھے مولا
آخر رفع شر کے خیال سے جناب امام حسینؑ نے ہند کو طلاق دے کر رخصت فرمایا۔اور اس روز سے ہند اکثر امام حسینؑ کی قدم بوسی کو آتی،پھر اپنے گھر چلی جاتی۔جب معاویہ کو یہ معلوم ہوا کہ حسینؑ نے طلاق دے دی ہے ،تو اس نے حاکم یثرب کو تحریر کیا کہ ہند کو کسی طرح رضا مند کرکے شام میں بھیج دے۔ ہر چند کہ حاکم یثرب نے اس بات میں کوشش کی مگر وہ نیک بخت راضی نہ ہوئی،الغرض ایک روز موقع پا کر
نظم
ظالم کو لکھا حاکم یثرب نے یہ ناگاہ
لے ہند کے کنبہ میں کسی شخص کا ہے بیاہ
واں جائے گی مہمان مدینہ سے یہ ذی جاہ
فوج اس نے رواں کی کہ رہے جا کے سر راہ
جب ہووئے سواری کا گزر راہ گزر میں
داخل یہ کریں ہند کو لا کر میرے گھر میں
القصہ پے نور چلے شام سے ناری
گوشہ میں سر راہ چھپے دشمن باری
لکھا ہے واں ہند کی آئی جو سواری
اک دفعہ سواری پہ گری فوج وہ ساری
وہ بولی خبر دار جو کچھ بے ادبی کی
میں خادمہ ہوں سبط رسولؑ عربی کی
ہند خوش سیر کا یہ کلام سن کر حاکم شام کی فوج نے کہاکہ اے صاحب عصمت وحیا ہم کو خود تیرا ادب ملحوظ ہے۔کیونکہ تیرا مشتاق حاکم شام کا فرزند ہے۔ شبیرؑ کے یاں فاقہ واں راحت وآرام ہے۔یہاں تجھ کو رنج ومصیبت ہے وہاں دولت وحشمت ہے۔ یہ سن کر نظم
فریاد کی اس نے کہ ڈرو خوف خدا سے
توبہ کرو توبہ کرو فاسق کی ثنا سے
پیوند میرا ہو چکا آل عبا سے
رشتہ ہے محبت کا امام دوسرا سے
بتلائو تمہیں کون بھلا در نجف ہے
وہ ہندہ کا پوتا ہے یہ زہراؑ کا خلف ہے
گو سبط نبیؑ نے مجھے آزاد کیا ہے
لیکن میری جان ان پہ تصدق ہے فدا ہے
دنیا میں کسی رتبہ کی حاجت مجھے کیا ہے
کہلا چکی زہراؑ کی بہو شکر خدا ہے
اب میل نہ دنیا میں نہ دولت کی طلب ہے
کافی مجھے تازیست یہی فخر بس اب ہے
وہ خار ہے یہ گل ہے وہ ہے ننگ یہ ہے نام
شیطان کا وہ وسواس یہ رحمان کا الہام
وہ درد یہ تسکین وہ ایذا ہے یہ آرام
وہ دیر ہے یہ کعبہ ہے وہ کفر یہ اسلام
وہ جہل میں بوجہل ہے یہ دانش میں نبیؑ ہے
وہ بخل میں قارون یہ بخشش میں علیؑ ہے
وہ نار ہے فطرت میں تو یہ نور ہے واللہ
وہ زخم یہ مرہم وہ مرض اور یہ مسیحا
وہ سحر یہ اعجاز وہ فرعون یہ موسیؑ
وہ قہر یہ رحمت وہ نجاست ہے یہ تقویٰ
ہر مصحف معبود کی صحت یہ فقط ہے
وہ حرف غلط سطر غلط فرد غلط ہے
پوشاک میری چھین لو زیور میرا لے لو
اب آنکھ میں سب خاک ہے بستر مرا لے لو
ساتھ آئو مرے لوٹ کے سب گھر مرا لے لو
لے جائو نہ واں کاٹ کے یاں سر مرا لے لو
اللہ کا ڈر ہے نہ پیمبرؑ کا ادب ہے
سادات کی لونڈی پہ یہ کیا قہر وغضب ہے
ہر چند ہند نے نالہ وفریاد کی،مگر ان ملاعین نے کچھ نہ سنا،آخر کو کہنے لگی اچھا برائے خدا اتنی مہلت دو کہ حضرت زینبؑ کی زیارت کر آئوں،شبیرؑ کی قدم بوسی سے مشرف ہو آئوں،مگر کوئی بات ان اشقیا نے منظور نہ کی، اور جبرا" حاکم شام کے پاس لے گیے۔ نظم
حاکم نے کیا ہند سے عقد اپنے پسر کا
در کر دیا پھر بند مدینہ کی خبر کا
نے آئے ادھر کا نہ کوئی جائے ادھر کا
ہاں نام نہ لے اب کوئی شبیرؑ کے گھر کا
پر یاد نہ تھا ہند کو اک حرف لعیں کا
کلمہ تھا اسے یاد جناب شاہ دیں کا
تھی بس کہ یہ شیدائے جمال شاہ ابرار
گزرے جو کوئی سال تحمل ہوا دشوار
عرضی میں یہ لکھ بھیجا کہ اے خاصہ غفار
دیکھوں مجھے دکھلاتی ہے کیا حسرت دیدار
سیدانیوں کے شوق زیارت میں مروں گی
پھر حشر تلک قبر میں تڑپا ہی کروں گی
حضرت نے کیا خامہ اعجاز سے تحریر
اے ہند نہ مضطر ہو نہ مایوس نہ دل گیر
تدبیر ملاقات میں سر گرم ہے تقدیر
کنبہ لیے آتا ہے تیرے شہر میں شبیرؑ
واں دیکھیو تو آل پیمبر کے حشم کو
اس شان سے دیکھا ہے نہ زینبؑ کو نہ ہم کو
اس نامہ کو پڑھتے ہی ہوئی ہند کو حیرت
جی میں کہا کس شان سے یاں آئیں گے حضرت
چنداں نہ ملازم ہیں نہ لشکر ہے نہ حشمت
ہاں قبضہ قدرت میں ہے اللہ کی قدرت
لکھا ہے کہ آئوں گا نئی شوکت وشان سے
یہ دھیان نہ تھا زلفیں بندھی ہوں گی سناں سے
زینبؑ کے تصور میں یہ کہتی تھی وہ ششدر
اتری تھی جو زہراؑ کے لیے عرش سے چادر
اغلب ہے کہ اوڑھے ہو اسے دختر حیدرؑ
فردوس کے یاقوت زمرد کا ہو زیور
یہ علم نہ تھا اس کو کہ لٹ جائے گی زینبؑ
بھائی کا لہو منہ پہ ملے آئے گی زینبؑ
ناگاہ اس حیات ناپائیدار کو ختم کرکے معاویہ نے قضا کی۔اور اس کی جگہ تخت سلطنت پر یزید متمکن ہوا۔اور امام حسینؑ سے بیعت طلب کی۔ ساتھ ہی حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر حسینؑ میری بیعت سے انکار کریں،تو ان کا سر کاٹ کے میرے پاس بھیج دے۔ الغرض بیت
لشکر تو چلا کوفہ سے شبیرؑ وطن سے
عاشور کو مقتل میں چھٹا بھائی بہن سے
راوی لکھتا ہے کہ روز عاشور نظم
جب قتل کیا شمر نے زہراؑ کے پسرؑ کو
مرقد میں دیا داغ دلی خیر بشر کو
جنت میں برہنہ کیا جبرائیل نے سر کو
کیا رنج دیا فاطمہؑ نیک سیر کو
چاک اپنا گریبان کیا حیدرؑ نے حسنؑ نے
یہ جوش کیا خون شہنشاہ زمن نے
گل رنگ در وبام ہوئے روم سے تا شام
پر شام کا حاکم اسے سمجھا شفق شام
لکھا ہے کہ اس وقت ہند خوش انجام
سجادہ پہ مصروف عبادت تھی لب بام
ناگاہ مصلےٰ اسے گلگوں نظر آیا
ملبوس جو پہنے تھی وہ پر خوں نظر آیا
تشویش وتردد میں نماز اس نے ادا کی
تسبیح پڑھی انگلیوں پہ خیر النساء کی
پھر ہاتھ اٹھا کے پے مولا جو دعا کی
گل رنگ ہتھیلی ہوئی اس اہل وفا کی
سمجھی کہ بلا چرخ سیہ فام سے اتری
پڑھتی ہوئی بس ناد علیؑ بام سے اتری
کوٹھے سے تلے آتے ہی حاکم کو بلایا
آیا جو شقی اس کو لباس اپنا دکھایا
ہر قطرہ خون انگلیوں سے اس کو بتایا
تھرا کے کہا قہر خدا بندوں پہ آیا
محشر ہے بپا نالہ جنات وملک سے
پانی کے عوض خون برستا ہے فلک سے
سنتی ہوں کہیں ہے تیرے لشکر کی چڑھائی
کہہ صاف کہ منظور ہے کس گھر کی صفائی
یثرب سے کوئی تازہ خبر تو نہیں آئی
زہراؑ کی نشانی تو نہیں تونے مٹائی
کس معرکہ میں تیرا خزانہ ہوا خالی
ہلتی ہے زمین کس سے زمانہ ہوا خالی
یہ سن کر وہ غدار بولا کہ ہاں محمدؑ کا نام مٹا دیا۔حسین ؑ قتل ہو گئے۔ یہ سنتے ہی وہ عاشق امام بے تاب ہو کر بولی کہ اے ستم گر تیرے منہ میں خاک،ہوش میں آ۔آدمیوں کی سی بات کر۔الغرض یزید پلید ہند کے پاس سے چلا آیا۔اسی وقت سے ہند کے دل پر رنج والم کی گھٹائیں چھائی رہتی تھیں۔اتفاقا" ایک شب خواب پریشان دیکھ کر ہند نے گریبان پھاڑنا شروع کیا۔ خواصوں نے ہاتھ پکڑا اور عرض کی کہ اے بی بی یہ کیا ہے۔تو وہ بے قرار ہو کر بولی کہ میں نے اپنے آقا امام حسینؑ آج عجیب حال سے خواب میں دیکھا ہے کہ سر مبارک نیزہ پر بلند ہے۔آپ کے قریب ایک شتر بے کجاوہ پر ثانی زہراؑ بنت حیدر کرارؑ جناب زینبؑ سر برہنہ سوار ہیں۔ شہزادی کے ہاتھوں میں ریسمان بندھی ہوئی ہے۔اور میرا شاہزادہ سید سجاد طوق وزنجیر میں جکڑا ہوا ہے۔اور جناب رسولؑ خدا،علی مرتضےٰؑ اور فاطمہ زہراؑ سب سر برہنہ ان کے ساتھ ساتھ ہیں۔ ذرا تم لوگ دریافت تو کرو کہ شام میں کچھ قیدی تو نہیں آئے؟ یہ حال سن کر نظم
کی عرض کنیزوں نے مفصل نہیں معلوم
پر شہر میں ہے جشن چراغاں کی بڑی دھوم
سنتے ہیں کہ دنیا سے سدھارا کوئی مظلوم
ناگاہ بجا طبل و رود سپہ شوم
دل ہل گیا جنبش میں زمین وفلک آئے
سر ننگے بنی فاطمہؑ ناکہ تلک آئے
کیا ذکر کہوں داخلہ فوج عمر کا
راکب بھی زرہ پوش تھے اور زین تھے زر کے
ہاتھوں میں چمکتے ہوئے پھل تیر وتبر کے
کہتے تھے یہ تیغیں نہیں حربے ہیں ظفر کے
ان بجلیوں نے باغ علیؑ خشک کیا ہے
شیروں کا انہی مچھلیوں نے خون پیا ہے
اور پشت پہ سب لوٹ کے اسباب برابر
بقچوں میں لیے چادریں صندوقوں میں زیور
یاں توسن اکبرؑ وہاں گہوارا اصغرؑ
اونٹوں پہ حرم نیزوں کی نوکوں پہ کٹے سر
غل تھا کہ سر آتا ہے حسینؑ ابن علیؑ کا
یہ سیدوں کے سر ہیں وہ کنبہ ہے نبیؑ کا
آہ آہ کیوں کر عرض کروں اس وقت ہند کا کیا حال تھا۔ چادر سر سے پھینک دی،گریبان چاک کر ڈالا۔ اور لونڈیوں کو حکم دیا کہ برائے خدا جلد ان اسیروں کی خبر مفصل معلوم کرکے بیان کرو۔یہ لوگ کس ملک،کس قوم اور قبیلہ سے ہیں۔اسی اثنا میں اسیروں کا قافلہ قریب آن پہنچا الغرض نظم۔۔
نزدیک رہا جب کہ در حاکم گمراہ
باندھے گئے رسی میں غزالان حرم آہ
استادہ تھی اک خادمہ ہند سر راہ
دوڑی وہ خبر لے کے کیا ہند کو آگاہ
لو پھر چکے ہر کوچہ وبازار میں قیدی
کوٹھے پہ چلو جاتے ہیں دربار میں قیدی
کوٹھے پہ تو وہ چڑھ نہ سکی حال تھا تغیر
آہستہ چلی جانب در ششدر ودل گیر
ساتھ اس کے چلی حاکم بدکار کی ہمشیر
ہمراہ خواصیں تھیں بصد عزت وتوقیر
تھا مقنعہ زر خواہر بے پیر کے سر پر
چادر نہ تھی شبیرؑ کی ہمشیر کے سر پر
الغرض محل سرا کے دروازے پر ہند یزید کی بہن کے ساتھ آکر کرسی پر بیٹھ گئی۔اور دروازے میں چلمن ڈال دی۔ ناگہاں اہل بیت اطہار کا لٹا ہوا قافلہ دربار میں داخل ہوا۔ ہند نے اہل بیت رسولؑ کو شناخت کر لیا۔ خصوصا" حضرت زینبؑ کو دیکھ کر بیت
چلائی کہ فریاد رسولؑ عربی کی
یہ تو مری شہزادی نواسی ہے نبیؑ کی
نظم
تھرا گئی حاکم کی بہن اس کے سخن پر
ہاتھ اپنا دھرا ہند خوش ایمان کے دہن پر
بولی میرا بھائی ہے شریعت کے چلن پر
یہ ظلم کرے گا وہ بھلا شاہ کی بہن پر
شک ہے تجھے یہ خواہر شبیرؑ نہ ہو گی
ایسی تو میرے بھائی سے تقصیر نہ ہو گی
فہمیدہ ہو تم نہیں سمجھانے کے قابل
یہ بات زبان سے نہیں فرمانے کے قابل
دربار میں زینبؑ ہے بھلا آنے کے قابل
رسی جگر فاطمہؑ کے شانے کے قابل
سر ننگے یہ ہمشیر امامؑ مدنی ہے
ہے ہے نہ کہو بے ادبی بد شگنی ہے
اتنے میں کھلا تخت پہ واں طشت طلائی
ہر سو سر شبیرؑ نے کی جلوہ نمائی
یاں ہند کو چلمن سے تجلی نظر آئی
بس چوب شقی نے لب شاہ پر جو لگائی
پھر ہند کے دل کو نہ کسی طرح کل آئی
سر پیٹتی پردے سے کھلے سر نکل آئی
اور یزید بد انجام سے بولی کہ اے شقی ازلی تونے یہ کیا غضب کیا کہ فرزند رسولؑ ابا عبد اللہ الحسینؑ کا سر کٹواکر نیزہ پر بلند کرایا۔ جس کی ولادت کے وقت جنت کی حور لعبہ خدمت گزاری کے لیے آئی۔اور جس کا جھولا اکثر جبرائیلؑ امین جھلایا کرتے تھے۔ارے یہ اسی بزرگ کا سر طشت طلا میں اب تیرے سامنے رکھا گیا ہے۔ یزید پلید ہند کو سر برہنہ دیکھ کر نہایت شرمندہ ہوا اور جلدی سے تخت سے اٹھا،اور ہند کے سر پر اپنی عبا اوڑھا دی۔اور حاضرین دربار سے بولا کہ اپنی اپنی آنکھیں بند کر لو۔ بیت
رسوا ہوا اقلیم میں اب نام ہمارا
ناموس نکل آیا سر عام ہمارا
نظم
یوں وارثی ہند جو کرنے لگا جلاد
سیدانیوں نے وارثوں کو اپنے کیا یاد
فضہ نے کہا غور کر اے بانی بے داد
اک ہند کے آنے سے تو اس درجہ ہے ناشاد
اے وائے قلق روح رسولؑ عربی کا
عاشورے سے سر ننگا ہے سب کنبہ علیؑ کا
بانوئے حزیں سہم کے عابدؑ کو پکاری
منہ پھیر لو تم بھی یاں ہند آتی ہے واری
زینبؑ پہ عجب طرح کا غصہ ہوا طاری
چلائی کہ انصاف تیرے ہاتھ ہے ناری
بنت شاہ مرداں ہوں نہ مرنے سے ڈروں گی
اس دم تو میں قائل تجھے مجمع میں کروں گی
لے تو ہی اب انصاف کر اے حاکم بے پیر
ناموس کا اپنے تو ہے یہ پردہ یہ توقیر
تشہیر کا فتویٰ ہے پئے عترت شبیرؑ
دربار کہاں اور کہاں آہ یہ دل گیر
واجب ہے تجھے بانوئے دلگیر کی حرمت
وہ ہے تیری حرمت یہ ہے شبیرؑ کی حرمت
کہہ ہند کے آنے سے کیا حال ہے جی کا
اب تجھ کو نہیں پاس امیروں میں کسی کا
لا دھیان میں اندوہ رسولؑ عربی کا
عاشورہ سے انبوہ میں کنبہ ہے نبیؑ کا
اغلب ہے کہ ہند آئی تو دربار میں آئی
میں ماریہ سے شام کے بازار میں آئی
بے پردگی ہند سے اتنا تو ہے مضطر
سر کھلنے سے بانو کے تڑپتے ہیں پیمبرؑ
جس روز سے میں بال کھلے پھرتی ہوں در در
اماں مری جنت میں نہیں اوڑھتیں چادر
چلاتا ہے تو ہند کی صورت کو نہ دیکھو
کہتے ہیں پیمبر مری عترت کو نہ دیکھو
سر ننگے ہی آئی ہے فقط ہند خوش اقبال
دکھلائیں کسے ہم یہ بندھے ہاتھ کھلے بال
دل ٹکڑے ہے اور پشت بھی نیزوں سے ہے غربال
کن آنکھوں سے تو دیکھتا ہے بیوائوں کا یہ حال
آنکھیں ادب ہند سے سب بند کیے ہیں
ہم آل نبیؑ آہ تماشے کے لیے ہیں
پھر ہند نے یزید ملعون سے کہا کہ اے بد سرشت تجھ کو میری بے پردگی کا تو اس قدر خیال ہے۔ کہ میرے سر پر چادر ڈال دی،اہل دربار کو آنکھیں بند کرنے اور منہ پھیر لینے کا حکم دیا۔اور عترت رسولؑ مختار اور دختران حیدرؑ کرار کی تیرے نزدیک اتنی بھی عزت نہیں۔ان کو ذلیل وحقیر کرکے شہر شہر بے مقنعہ وچادر پھرایا۔روز قیامت تو رسولؑ خدا کو کیا منہ دکھائے گا۔یہ سن کر وہ ملعون پشیمان ہوا۔ اور عذر ومعذرت کرکے ہند کو محل میں لے گیا۔ اور اہل حرم کو قید خانے میں بھیج دیا۔
روشن ہے قلب رونے سے آنکھوں میں نور ہے
زینبؑ مدد وزیر کی تم کو ضرور ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment