﷽
تیسویں مجلس
ایک یہودیہ کا ایمان لانا اور تنور میں جل کر زندہ ہونا اور سر امامؑ کا خانہ خولی میں تنور کے اندر رکھا جانا
چھوٹے بڑے جانتے ہیں مصرف تنور کا
خولی نے اس میں سر رکھا خالق کے نور کا
راویان جگر سوز اور ناقلان حکایت غم اندوز اس طرح تحریر کرتے ہیں۔کہ کوئی بندہ خدا کیسا ہی عاصی وگنہگار اور کسی مذہب وملت کا ہو۔جس کو عشق دلی حسینؑ ابن علیؑ سے ہوگا۔بتصدق اس شہید کے امید ہے کہ خداوند کریم اس کو اپنے تفضلات بے غایات سے بخش دے گا۔ چنانچہ نظم
راوی عقیق لب سے یہ کرتا ہے اب بیان
شہر یمن میں ایک یہودی کا تھا مکان
یوں شعلہ ور تھا بغض علیؑ دل میں ہر زمان
آتش درون سنگ ہو جس طرح سے نہاں
خیل یہود میں تو ذوی الاقتدار تھا
لیکن ابوترابؑ سے دل میں غبار تھا
زوجہ ملی تھی اس کو عجب نیک وپارسا
سو جان سے امامؑ دو عالم پہ تھی فدا
دنیا میں جس طرح زن فرعون،آسیہ
وہ فے المثل یزید تھا یہ ہند باوفا
وہ دشمن علیؑ یہ کنیز بتول تھی
وہ نار تھا یہ نور وہ کانٹا یہ پھول تھی
چنانچہ جناب سیدؑ الشہدا شہیدؑ کربلا سے اس زن یہودیہ کی محبت کا حال اس طرح لکھا ہے،کہ اس کو صحبت شوہر ایسی ناگوار تھی،جیسے صحبت فرعون سے آسیہ بےزار تھی۔اور بجز خیال غم حسینؑ جملہ کاروبار خانہ داری اس کو وبال جان تھا۔ مگر چار وناچار کرتی تھی۔لیکن ،نظم
ہوتی تھی جس جگہ پہ بپا مجلس عزا
جانا تھا اس کو فرض پئے نالہ وبکا
روتی تھی یوں وہ بہر شہنشاہؑ کربلا
رہتا تھا کچھ خیال نہ پردے کا مطلقا
واں بے نقاب چہرہ انور جو پاتے تھے
مجلس میں دیکھنے کے لیے لوگ آتے تھے
اس مرتبہ تھی عاشق سلطان کربلا
جاتی تھی مجلسوں میں ہمیشہ پیادہ پا
گل سے قدم پہ کوئی کانٹا اگر چبھا
بے اختیار حال پہ دل مضطر رو دیا
کہتی تھی ہائے غم دل زہراؑ کو دے گئے
تا شام ننگے پائوں مرے آقا کو لے گئے
اپنے مذہب کے خلاف یہ حالات دیکھ دیکھ کر تمام یہود اس یہودیہ سے اپنے دلوں میں جل کر پیچ وتاب کھاتے تھے۔لیکن اس سبب سے کہ وہ اپنی قوم میں صاحب اقتدار اور مال دار تھی۔کچھ زبان پر نہ لا سکتے تھے۔آخر اس فرقہ یہود کو اس زن یہودیہ کا مجلسوں میں جانا اور گریہ وبکا کرنے میں چہرہ کا کھل جانا بھی ناگوار ہوا۔ تب اس کے شوہر سے، نظم
اک دن کہا یہودیوں نے اس سے آن کر
خود رفتہ کوئی عشق میں ہوتا ہے اس قدر
غیرت کا کچھ خیال نہ عزت کی کچھ خبر
بے پردہ مجلسوں میں وہ ہوتی ہے بیشتر
نظارہ جمال کو سب خلق جاتی ہے
اور بے حیا تجھے نہیں کچھ شرم آتی ہے
راہی ہوئے یہ کہہ کے یہودان بد خصال
اور آئی گھر میں بزم عزا سے وہ نونہال
شوہر پکارا آج مجھے رنج ہے کمال
مجلس میں جایا کر پر رہے پردے کا خیال
رومال کیسا اشکوں سے دامن بھگویا کر
پر چپکے چپکے برقع میں اپنے تو رویا کر
اس نے کہا کہ خیر مجھے کام سے ہے کام
اور مثل ابر رونے لگی وہ فلک مقام
طیش وغضب سے پھر کیا شوہر نے یہ کلام
حیراں ہوں میں یہ کون سا رونے کا ہے مقام
کیوں گل سے رخ کو اشکوں کی شبنم سے دھوتی ہے
منہ کھولنے کو منع کیا اس پہ روتی ہے
رونے لگی تب اور بھی وہ عاشق حسینؑ
شوہر بضد ہوا تو پکاری بشور وشین
حق بخشے جن کو چادر عصمت بزیب وزین
سو کربلا میں بعد شہنشاہ مشرقین
لوٹی گئیں اسیر ہوئیں در بدر ہوئیں
وہ زینبؑ خجستہ سیر دلبر رسولؑ
جس کو زمانہ جانتا تھا ثانی بتولؑ
چادر کو اس کے سر سے اتارا گیا ملول
حق کو تھا بھولا دل سے وہ سب لشکر جہول
اس پر بھی اکتفا نہ کیا آہ کیا کیا
بازار شام میں وہ پھراتے تھے بے ردا
شاہزادیوں کا سر تو ہو بازار میں کھلا
لونڈی کرے یہ پردہ بھلا ہے کہیں روا
کہہ کر یہ بات غش ہوئی وہ نیک وپارسا
شوہر بھی اس کلام سے خاموش ہو گیا
رویا بہت کلام سے زوجہ کے نیک خو
آنکھوں سے اس کے بہہ گئی اشکوں کی ایک جو
اس زن نیک سیرت نے اسی ؑعالم غشی میں دیکھا کہ بازار کوفہ میں دوکانوں کی زینت کی جارہی ہے۔
اور چاروں طرف سے تماشائی جوق در جوق چلے آتے ہیں۔اور ایک طرف ایک فوج نیزوں پر کٹے ہوئے سر لاتی ہے۔جن کے ہمراہ چند شتران بے کجاوہ پر کچھ بیبیاں بے مقنع وچادر بالوں سے منہ چھپائے،سر جھکائے،اشک بہاتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر اس یہودیہ نے اسی عالم میں پوچھا کہ یہ کون عورتیں ہیں۔جو شتران بے کجاوہ پر سوار ہیں۔ان کی کیا خطا ہے؟ کہ رسیوں میں بندھی ہوئی ہیں۔ناگہاں حضرت زینبؑ نے آواز دی کہ اے بی بی میں زینبؑ خستہ جگر ہوں۔ جس کا حال تونے ابی اپنے شوہر سے بیان کیا۔اور یہ نیزوں پر میرے بھائی بھتیجوں کے سر ہیں۔گو تیرے شوہر نے تجھ کو میرے بھائی کی مجلس میں منہ کھولنے کو منع کیا ہے۔مگر ہمارا منہ تو بازار عام میں کھلا ہے۔
یہ بیان سن کر، بیت
آیا جو ہوش صرف بکا وفغاں ہوئی
تھی مجلس حسینؑ کہیں واں رواں ہوئی
الغرض وہ عاشق حسینؑ جس وقت مجلس میں پہنچی،اتفاقا" ذاکر اس وقت اہل حرم کی بے پردگی کے مصائب کا تذکرہ کر رہا تھا۔جیسا کہ اس یہودیہ نے عالم غشی میں دیکھا تھا۔یہ حال سن کر اس کا غم پھر تازہ ہو گیا۔اور روتے روتے پھر غش آگیا۔ اس عالم غشی میں چہرہ پرنور سے گوشہ چادر علیحدہ ہو گیا۔اور لوگوں نے اس کا چہرہ پر نور دیکھ کر تعجب کیا۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کون بی بی ہے۔ یہ سن کر ایک شخص نے جواب دیا کہ بیت
یہ اسم بامسمٰی ہے صاحب جمال ہے
نام اس کا ہے حمیدہ حمیدہ خصال ہے
القصہ تھوڑے عرصہ میں اس نیک بخت کو ہوش آیا،نظم
ماتم کے بعد بزم عزا جب ہوئی تمام
گھر اپنے اپنے جانے لگے عاشق امامؑ
اک شخص اس کے ساتھ اٹھا دل کو اپنے تھام
اور عین راہ میں کیا رو رو کے یہ کلام
سنتا ہوں بے قصور تو بہتر ہے حور سے
سن عاشق جمال میں آیا ہوں دور سے
پاس وفا ضرور ہے اے بندہ خدا
دل سے اگر حسینؑ کے اوپر تو ہے فدا
تو بہر خون ناحق مظلوم کربلا
گوشہ الٹ نقاب کا صورت مجھے دکھا
دیتا ہوں تجھ کو سید مظلومؑ کی قسم
بے پردگی زینبؑ وکلثومؑ کی قسم
نام حسینؑ سن کے بندھا آنسوئوں کا تار
بولی مجھے قسم نے دے آقا کی بار بار
عزت رہے کہ جائے پر شاہد ہے کردگار
نام حسینؑ پر دل وجاں سے ہوں میں نثار
یہ کہہ کے ایک اشکوں کا دریا بہا دیا
بولی زبان سے یا علیؑ اور منہ دکھا دیا
اس کا حسن وجمال دیکھتے ہی وہ مرد شان پروردگار کو یاد کرکے بے ہوش ہو گیا۔ اور یہ عفت مآب اپنے گھر کو روانہ ہوئی۔ابھی گھر نہ پہنچی تھی کہ لوگوں نے مشہور کر دیا کہ حمیدہ یہودیہ نے آج ایک اجنبی شخص کو حسینؑ کا واسطہ دینے پر اپنا منہ دکھایا۔اسی وقت یہویوں نے اس کے شوہر کے پاس جا کر منہ دکھانے کی ساری روداد سنائی بیت
اک شخص نے حسینؑ کا جب واسطہ دیا
برقع اٹھا کے اس نے اسے منہ دکھا دیا
نظم
کانپا مثال شعلہ آتش وہ ایک بار
بولا کہ آئے تو سہی گھر میں وہ بد شعار
مجھ کو کیا ذلیل نہ شرمائی زینہار
دوں گا سزا میں اس کو جو کچھ ہو مآل کار
دل پہ غم فراق کا صدمہ اٹھائوں گا
اس نے جلایا مجھ کو میں اس کو جلائوں گا
یہ ذکر تھا کہ آن ہی پہنچی وہ دل جلی
شوہر پکارا مرگ مبارک ہو اس گھڑی
تجھ کو قسم دلا کے حسینؑ شہید کی
جو کچھ کہوں کر ے گی وہ بولی ابھی ابھی
لونڈی ہوں اس کی جو دل وجان بتولؑ ہے
آقا کے نام پر ہو جو سب کچھ قبول ہے
یہ سن کر وہ شقی ازلی غضب ناک ہو کر بولا میں نے سنا ہے کہ تونے اپنا چہرہ کسی حسینؑ کے ماننے والے کو دکھایا ہے۔ اس نے کہا سچ ہے، مگر اس میں ہم دونوں کی نیت میں کوئی فتور نہیں ہے۔ یہ سن کر وہ اور غیظ میں آیا۔اور کہا اچھا دیکھ، تونے مجھ کو میری قوم میں ذلیل ورسوا کیا ہے۔میں بھی تجھ کو بذلت وخواری جلائوں گا۔ یہ کہہ کر اپنے قبیلے کے آدمیوں کو جمع کیا۔اور ان لوگوں سے کہنے لگا۔ آج اس عورت نے مجھے تم لوگوں میں رسوا کیا ہے۔ لہذا اب میری مدد کرو۔اور زمین کھودنے کا سامان لے کر قبیلے کے چند لوگوں کو ساتھ لیا۔ اور ایک صحرائے لق ودق میں ایک غار عمیق مثل تنور تیار کیا۔اور اس میں لکڑیاں جمع کیں،پھر اس میں آگ لگا دی۔اور تنور کو روشن کرکے مردمان قبیلہ سے کہنے لگا،کہ اس بد بخت نے غیر کو منہ دکھا کر مجھ کو جلایا،اب بعوض اس کے تمہارے آگے میں بھی اس کو جلائوں گا۔اور اپنا دل ٹھنڈا کروں گا۔ یہ کہہ کر اہل قبیلہ کو وہیں چھوڑ کر نظم
آیا غرض کہ گھر میں وہ بے دین وبے عمل
زوجہ سے بولا آچکا عزت میں تو خلل
تجھ کو قسم حسینؑ کی ہمراہ میرے چل
پس اٹھ کھڑی ہوئی وہ پسندیدہ اجل
حیلہ کیا نہ ٹھہری نہ صرف فغاں ہوئی
شوہر کے ساتھ جانب صحرا رواں ہوئی
جس وقت کہ یہود اس صاحب جود کو لے کر تنور کی طرف چلا،اس کی تمام ہمسائیوں میں شور برپا ہوا۔اس کی قوم کی ہر ایک عورت اس نیک بخت کی سفارش کرتی تھی۔اور اس کی عصمت کی شہادت زبور کی قسمیں کھا کھا کر دیتی تھی۔لیکن وہ یہود کسی کی نہ سنتا تھا۔اور بہزار خرابی لئے جاتا تھا۔ اور وہ عفت مآب خنداں وشاداں چلی جا رہی تھی۔اور کہتی تھی اے بیبیو میری سفارش مت کرو۔ ایسا دن کہاں پائوں گی کہ نام حسینؑ پر اپنی جان فدا کروں۔میرا آقا کارخانہ قدرت میں دخیل ہے۔مجھ کو کچھ دہشت جلنے کی نہیں ہے۔ مجھے خلیل خدا کا حال معلوم ہے۔ یہ کہتی ہوئی ،نظم
آئی میان دشت جو وہ غم کی مبتلا
دیکھا قضا کا سامنا ہے وامصیبتا
بولا یہود چار طرف دیکھتی ہے کیا
اس آتش تنور میں تجھ کو جلائوں گا
گر چور ہے تو الفت شاہؑ غیور میں
میں بھی تو دیکھوں کود پڑ تو اس تنور میں
ہاں اہل عزا عشق حقیقی اس کو کہتے ہیں۔ خیال کرنے کی جگہ ہے کہ ایک عورت غیر ملت و مذہب کی کیسی عاشق حسینؑ تھی۔ کہ اس کو اپنی جان عزیز شہیدؑ کربلا کی ماتم داری کے مقابلہ میں عزیز نہ تھی۔کیا کہنا اس پاک طینت کے اعتقاد کا کہ جس وقت شوہر نے اسے سر تنور لا کر کھڑا کیا۔اور کہا کہ تجھ کو اس میں جلائوں گا۔ نظم
پھر تو نجف کو دیکھ کے بولی وہ دل جلی
شہرہ ترے کرم کا ہے مولا گلی گلی
لالہ کیا خلیلؑ پہ آتش کو یا علیؑ
میں بھی تمہاری لونڈی ہوں ہوگی نہ بکیلی
تم دیکھتے ہو رنج میں ہوں یا سرور میں
پھر یا حسینؑ کہہ کے گری اس تنور میں
جب گر پڑی تنور کے اندر وہ خوش سیر
شوہر نے اس کے سنگدلی کی یہ الحذر
سنگ گراں اٹھا کے رکھا اس تنور پر
ساتھ اپنے اقربا کے پھرا واں سے اپنے گھر
پر عشق کے نشے میں جو تھا چور ہو رہا
منہ کو لپیٹ کر بسر خاک سوگیا
المختصر جب وہ یہود اپنی زوجہ کو تنور میں ڈال کر گھر پہنچا تو بار بار دل میں نادم ہوتا تھا۔افسوس ہے میں نے اس کو جلا دیا۔کاش میری ملت اور مشرب کے خلاف نہ ہوتا،تو میں اس کو نہ جلاتا۔الغرض اس یہودی نے اسی فکر وپریشانی میں وہ تمام رات بسر کی۔نظم
القصہ شب تو گزری سحر ہو گئی عیاں
وقت نماز آیا ہوئی چار سو اذاں
ناگہ کسی نے در پہ صدا دی بصد فغاں
دروازے کی طرف کو یہودی ہوا رواں
دیکھا کہ اک سوار بصد آب وتاب ہے
نیزہ ہے دست پاک میں منہ پر نقاب ہے
جونہی اس سوار عالی وقار کو اس یہودی نے دیکھا نظم
حیران ہو کے تب تو یہودی نے یہ کہا
اسم شریف اپنا مجھے دیجیے بتا
آئے ہو کس دیار سے مطلب ہے مجھ سے کیا
فرمایا مجھ سے پوچھتا ہے کیا میرا پتا
فاقہ کش مسافر ومرد غریب ہوں
میں اک ستم رسیدہ وآفت نصیب ہوں
کل شام سے عجب تردد میں ہوں پڑا
زوجہ تری کہاں ہے بلا اس کو اک ذرا
بولا یہود ماجرا اس کا کہوں میں کیا
جل جل کے خاک ہو گئی ہو گی وہ مہہ لقا
آیا عتاب میرا کنیز بتولؑ پر
مارا ہے جرم الفت سبط رسولؑ پر
جب اس مرد یہود نے یہ حال بیان کیا،تو اس سوار کی دونوں آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے۔اور ارشاد کیا کہ اے یہودی تجھ کو میرے نام سے کیا غرض ہے۔میں اک مسافر بے دیار ہوں۔رسولؑ عربی کی درگاہ کا مجاور ہوں۔ یہ تقریر سن کر وہ یہودی اور حیران ہوا۔اور عرض کی کہ اے سوار عالی وقار تیری باتوں سے جگر شق ہوا جاتا ہے۔ خدا کا اور اسی رسولؑ کا واسطہ جس کی درگاہ کا اپنے تئیں مجاور بتاتا ہے۔ سچ سچ مجھ سے اپنا حال بیان کردے۔اور یہ بھی بتا کہاس سوختہ جگر سے کیا کام ہے۔جس وقت اس یہودی نے یہ قسم دی،تو سوار نے فرمایا نظم
آگاہ ہو کہ نائب مشکل کشا ہوں میں
حاجت روائے خلق شاہؑ کربلا ہوں میں
زہراؑ کا لال سبط رسولؑ خدا ہوں میں
حقا برادر حسنؑ مجتبےٰ ہوں میں
آرام روح فاتح بدر وحنین ہوں
میں بے کس وغریب مسافر حسینؑ ہوں
جن وملک ہیں سب میرے ماتم میں بے قرار
آدم سے تا بحضرت خاتم تھے سوگوار
زوجہ بھی تری میری ہی خاطر تھی اشک بار
اشکوں کے بدلے پائے گی وہ در شاہوار
میری قسم پہ منہ کو جو اس نے دکھا دیا
سو تونے اس قصور پہ اس کو جلا دیا
جس وقت سے وہ نیک خصال تنور میں ڈالی گئی۔مجھ کو بھی ایک آن چین نہیں۔اور جو ستم اس ستم رسیدہ پر ہوئے مجھ پر گذرے۔اب میرے ساتھ تو بھی اس تنور پہ چل،تاکہ قدرت خدا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ القصہ یہ سن کر یہود مظلوم آقا کے ہمراہ اس صحرا میں آیا اور نظم
پہنچا لب تنور جو وہ نوح روزگار
فرمایا سنگ اٹھا تو پکارا وہ شرمسار
مجھ ایک سے یہ سنگ اٹھے گا نہ زینہار
نیزے سے تب اشارہ کیا شاہؑ نے ایک بار
وہ سنگ مثل گل کئی فرسنگ اڑ گیا
حیرت سے اس یہود کا بس تنگ اڑ گیا
بولے حسینؑ دیکھ ذرا قدرت خدا
سوئے تنور اس نے جب سر کو جھکا دیا
دیکھا کہ آگ تو نہیں اک باغ ہے کھلا
رونق فزا ہے تخت کے اوپر وہ ماہ لقا
نام حسینؑ لے کے فدا جان کرتی ہے
صورت یہ ہے تلاوت قرآن کرتی ہے
گر کر قدم پہ شاہ کے یہودی نے یہ کہا
سنتا تھا میں خلیل کا دنیا میں ماجرا
یعنی علیؑ نے آگ کو گلزار کر دیا
آنکھوں سے آج دیکھ لیا آپؑ پر فدا
واضع تمام دین کے آئین کیجیے
اے سبط مصطفےٰ مجھے تلقین کیجیے
کلمہ پڑھایا شاہؑ نے اسے تب بہ کرو فر
اس رشک ماہ کو کیا تنور سے بدر
خوش خوش وہ دونوں زوجہ وزوج آئے اپنے گھر
پر گردش فلک سے میں حیراں ہو ں سر بسر
یہ بغض بڑھ گیا سپاہ یزید کا
رکھا تنور میں سر شاہؑ شہید کا
سیلاب اشک چشم سے اب مومنین نہائیں
جلنے سے تو یہودیہ کو شاہ دیں بچائیں
اور خیمہ اس حسینؑ کا اہل ستم جلائیں
خیمہ جلائیں بیبیوں کو در بدر پھرائیں
کنبہ برہنہ ہو شاہؑ مشرقین کا
نیزہ پہ تا بہ شام گیا سر حسینؑ کا
چنانچہ راہ شام کا حال روایت میں یوں تحریر ہے کہ جب شامیان بد کردار اہل بیتؑ اطہار کو اسیر کرکے مع سر ہائے شہدا ء کربلا سے روانہ شام ہوئے ،بیت
آل نبیؑ کی در بدری تھی جو شہر میں
پہنچے اسیر آن کے خولی کے شہر میں
اس وقت عمر سعد بد نہاد نے سیدؑ الشہداء کا سر مبارک خولی ملعون کو دے کر کہا کہ اسے اپنے گھر میں لے جا کر اس سر کی حفاظت کر۔یہ سن کر وہ لعین سر اقدس اٹھا کر اپنے گھر کی طرف چلا۔اس وقت جناب زینبؑ نے بے تاب ہو کر فرمایا کہ اے خولی اس سر کو کہاں لیے جاتا ہے۔ مجھ کو اس کی مفارقت کی تاب نہیں ہے،بیت
اس سر پہ میری پتلی کا دانہ سپند کر
بھائی بہن کو ایک ہی زندان میں بند کر
نظم
مر جائوں گی تڑپ کے خدا اس کا ہے گواہ
پر کب خیال کرتا تھا وہ دشمن الہٰ
لا کر رکھا تنور میں سر شاہ دیں کا آہ
پتھر رکھا تنور پہ اک وامصیبتا
ناری نے کچھ فرق نہ کیا نار ونور میں
سبط نبیؑ کے سر کو چھپایا تنور میں
زوجہ لعیں کی آل پیمبرؑ پہ تھی نثار
پوچھا یہ کس کا سر ہے جو تو لایا نابکار
بولا لعیں حسینؑ کا سر ہے بافتخار
وہ بولی آہ کون حسینؑ اس پہ میں نثار
کل کا امام بادشاہؑ خوشخصال ہے
زینبؑ کا بھائی فاطمہ زہراؑ کا لال ہے
بولا لعیں کہ ہے تو وہی بادشاہؑ دیں
تو کیا کرے گی میرا وہ بولی کہ کچھ نہیں
لعنت کیا کروں گی سدا تجھ پہ اولعیں
حیدرؑ کا ماہ جبیں ہے یہ زہراؑ کا نازنین
عالم تمام ماتم آقا میں روئے گا
زینبؑ اگر سنے گی تو کیا حال ہوئے گا
ظالم پکارا اس سے چھپانے کا ذکر کیا
زینبؑ کے سامنے سر شبیرؑکٹ گیا
آئی ہے ساتھ بھائی کے سر کے وہ بے ردا
دل تھام کر وہ بیٹھ گئی اور یہ دی صدا
حیدرؑ کی بہویں بیٹیاں سب در بدر پھریں
ہے ہے میری خوزادیاں سب ننگے سر پھریں
الغرض وہ لعین تو اپنے بستر پر سو رہا،اور وہ کنیز خاندان مرتضویؑ صحن خانہ میں بیٹھی ہوئی رویا کی، جب نصف شب گزری زوجہ خولی کیا دیکھتی ہے کہ آسمان کی جانب سے گریہ وبکا کی آواز آرہی ہے۔حیرت زدہ ہو کر سر اٹھایا تو دیکھا کہ ایک تخت پر نور فرشتے لیے ہوئے آرہے ہیں۔اور وہ تخت تنور کے قریب لا کر رکھ دیا گیا۔اس تخت پر سے ایک بزرگ سر پر خاک ڈالے ہوئے چاک گریبان اترے۔وہ فریاد کر رہے تھے کہ ہائے میرے فرزند حسینؑ۔آہ میرے نور عین۔اشقیا نے تجھے بھوکا پیاسا ذبح کر ڈالا۔میری قرابت کا پاس ولحاظ نہ کیا۔چند بزرگ نورانی صورت ان کے ساتھ ہیں۔ جو ان کو یہ کہہ کر دلاسا دے رہے ہیں کہ اے خدا کے حبیبؑ اے رسول دوجہاں انبیاؑ کے سر تاج صبر کیجیے۔ناگاہ نظم
بڑھے نواسے کی جانب رسولؑ بے تاخیر
قریب سر کے جو آئے حبیبؑ رب قدیر
اٹھا رسولؑ کے مجرے کو وہ سر دلگیر
کہا نبیؑ نے کہ تعظیم ہو چکی شبیرؑ
بیا بیا کہ ترا تنگ در کنار کشم
بہ تنگ آمدہ ام چند انتظار کشم
قدم پہ ناناؑ کے اس دم سر حسینؑ گرا
کہا بتایئے کچھ مجھ سے خوش ہوئے نانا
کہ میں نے دین خدا سے نہ کچھ عزیز کیا
کیا ہے اصغرؑ بے شیر کو بھی رن میں فدا
شہید ظلم ہوا حلق کو کٹا آیا
حسینؑ آپ کے اسلام کو جلا آیا
اس وت جناب رسولؑ خدا نے فرمایا کہ اے نور نظر پارہ جگر ،بیت
واقف نہ کیا لعیں تھے تو بھوکا پیاسا ہے
کیا جانتے نہ تھے کہ نبیؑ کا نواسا ہے
نظم
سن کر کلام کانپ گیا سر حسینؑ کا
یک بیک زمین سے تعظیم کو اٹھا
نانا کو رو کے دی لب اعجاز سے صدا
لب تشنہ مجھ کو قتل کیا واہ مصیبتا
میں کیا کہوں جو شمر لعیں نے ستم کیا
نام آپؑ کا سنا کیا اور سر قلم کیا
منہ پیٹ کر زمیں پہ گرے ختم انبیاؑ
حیدرؑ بھی اور حسنؑ بھی ہوئے غش بصد بکا
ناگاہ دور باش کی پیدا ہوئی صدا
ہودج سیاہ ایک فروکش وہاں ہوا
ہر سمت شور تھا کہ نبیؑ کی دہائی ہے
بیٹے کے سر سے فاطمہؑ ملنے کو آئی ہے
پہنچی لب تنور جونہی اشرف النساء
دے مارا سر کو سنگ پہ اور رو کے یہ کہا
اے لال کس شقی نے یہ تجھ پہ ستم کیا
بولی نبیؑ کو دیکھ کے پھر یوں بصد بکا
کھویا تھا اس کے واسطے آرام وچین کو
پالا تھا کیا اسی لیے میں نے حسینؑ کو
پھر سر اٹھا کے اپنے گلے سے لگا لیا
بوسے کٹے گلے کے لیے اور یہ کہا
بیٹا تری غریبی پہ مادر تری فدا
سر تو قلم ہوا ترا پر یہ مجھے بتا
کیوں کر بزیر تیغ تو حق کا شناسا تھا
سر نے کہا اماں کئی دن کا پیاساتھا
آخر سپیدہ سحر نمودار ہوا۔اور وہ تخت فرشتے پھر آسمان کی سمت لے کر چلے گئے۔اور خولی ملعون بستر خواب سے اٹھ کر امام مظلومؑ کا سر لیے لشکر یزید میں واپس آیا۔اور وہ فوج سر ہائے شہدائے کربلا واہل بیت اطہار کو لے کر شام کی جانب روانہ ہو ئی۔
مولا وزیر کو بھی حمیدہ خصال دو
عقبے میں خلد خلق میں جاہ وجلال دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment