Skip to main content

تیسویں مجلس ایک یہودیہ کا ایمان لانا اور تنور میں جل کر زندہ ہونا



تیسویں مجلس
ایک یہودیہ کا ایمان لانا اور تنور میں جل کر زندہ ہونا اور سر امامؑ کا خانہ خولی میں تنور کے اندر رکھا جانا
چھوٹے بڑے جانتے ہیں مصرف تنور کا
خولی نے اس میں سر رکھا خالق کے نور کا
راویان جگر سوز اور ناقلان حکایت  غم اندوز اس طرح تحریر کرتے ہیں۔کہ کوئی بندہ خدا کیسا ہی عاصی وگنہگار اور کسی مذہب وملت کا ہو۔جس کو عشق دلی حسینؑ ابن علیؑ سے ہوگا۔بتصدق اس شہید کے امید ہے کہ خداوند کریم اس کو اپنے تفضلات بے غایات سے بخش دے گا۔ چنانچہ نظم
 راوی عقیق لب سے یہ کرتا ہے اب بیان
شہر یمن میں ایک یہودی کا تھا مکان
یوں شعلہ ور تھا بغض علیؑ دل میں ہر زمان
آتش درون سنگ ہو جس طرح سے نہاں
خیل یہود میں تو ذوی الاقتدار تھا
لیکن ابوترابؑ سے دل میں غبار تھا
زوجہ ملی تھی اس کو عجب نیک وپارسا
سو جان سے امامؑ دو عالم پہ تھی فدا
دنیا میں جس طرح زن فرعون،آسیہ
وہ فے المثل یزید تھا یہ ہند باوفا
وہ دشمن علیؑ یہ کنیز بتول تھی
وہ نار تھا یہ نور وہ کانٹا یہ پھول تھی
 چنانچہ جناب سیدؑ الشہدا  شہیدؑ کربلا سے اس زن یہودیہ کی محبت کا حال اس طرح لکھا ہے،کہ اس کو صحبت شوہر ایسی ناگوار تھی،جیسے صحبت فرعون سے آسیہ بےزار تھی۔اور بجز خیال غم حسینؑ جملہ کاروبار خانہ داری اس کو وبال جان تھا۔ مگر چار وناچار کرتی تھی۔لیکن ،نظم
ہوتی تھی جس جگہ پہ بپا مجلس عزا
جانا تھا اس کو فرض پئے نالہ وبکا
روتی تھی یوں وہ بہر شہنشاہؑ کربلا
رہتا تھا کچھ خیال نہ پردے کا مطلقا
واں بے نقاب چہرہ انور جو پاتے تھے
مجلس میں دیکھنے کے لیے لوگ آتے تھے
اس مرتبہ تھی عاشق سلطان کربلا
جاتی تھی مجلسوں میں ہمیشہ پیادہ پا
 گل سے قدم پہ کوئی کانٹا اگر چبھا
بے اختیار حال پہ دل مضطر رو دیا
کہتی تھی ہائے غم دل زہراؑ کو دے گئے
تا شام ننگے پائوں مرے آقا کو لے گئے
 اپنے مذہب کے خلاف یہ حالات دیکھ دیکھ کر تمام یہود اس یہودیہ سے اپنے دلوں میں جل کر پیچ وتاب کھاتے تھے۔لیکن اس سبب سے کہ وہ اپنی قوم میں صاحب اقتدار اور مال دار تھی۔کچھ زبان پر نہ لا سکتے تھے۔آخر اس فرقہ یہود کو اس زن یہودیہ کا مجلسوں میں جانا اور گریہ وبکا کرنے میں چہرہ کا کھل جانا بھی ناگوار ہوا۔ تب اس کے شوہر سے، نظم
اک دن کہا یہودیوں نے اس سے آن کر
خود رفتہ کوئی عشق میں ہوتا ہے اس قدر
غیرت کا کچھ خیال نہ عزت کی کچھ خبر
بے پردہ مجلسوں میں وہ ہوتی ہے بیشتر
نظارہ جمال کو  سب خلق  جاتی ہے
اور بے حیا تجھے نہیں کچھ شرم آتی ہے
راہی ہوئے یہ کہہ کے یہودان بد خصال
اور آئی گھر میں بزم عزا سے وہ نونہال
شوہر پکارا آج مجھے رنج ہے کمال
مجلس میں جایا کر پر  رہے پردے کا خیال
رومال کیسا اشکوں سے دامن بھگویا کر
پر چپکے چپکے برقع میں اپنے تو رویا کر
اس نے کہا کہ خیر مجھے کام سے ہے کام
اور مثل ابر رونے لگی وہ فلک مقام
طیش وغضب سے پھر کیا شوہر نے یہ کلام
حیراں ہوں میں یہ کون سا رونے کا ہے مقام
کیوں گل سے رخ کو اشکوں کی شبنم سے دھوتی ہے
منہ کھولنے کو منع کیا اس پہ روتی ہے
رونے لگی تب اور بھی وہ عاشق حسینؑ
شوہر بضد ہوا تو پکاری بشور وشین
حق بخشے جن کو چادر عصمت بزیب وزین
سو کربلا میں بعد شہنشاہ مشرقین
لوٹی گئیں اسیر ہوئیں در بدر ہوئیں
وہ زینبؑ خجستہ سیر دلبر رسولؑ
جس کو زمانہ جانتا تھا ثانی بتولؑ
چادر کو اس کے سر سے اتارا گیا ملول
حق کو تھا بھولا دل سے وہ سب لشکر جہول
اس پر بھی اکتفا نہ کیا آہ کیا کیا
بازار شام میں وہ پھراتے تھے بے ردا
شاہزادیوں کا سر تو ہو بازار میں کھلا
لونڈی کرے یہ پردہ بھلا ہے کہیں روا
کہہ کر یہ بات غش ہوئی وہ نیک وپارسا
شوہر بھی اس کلام سے خاموش ہو گیا
رویا بہت کلام سے زوجہ کے نیک خو
آنکھوں سے اس کے بہہ گئی اشکوں کی ایک جو
 اس زن نیک سیرت نے اسی ؑعالم غشی میں دیکھا کہ بازار کوفہ میں دوکانوں کی زینت کی جارہی ہے۔
اور چاروں طرف سے تماشائی جوق در جوق چلے آتے ہیں۔اور ایک طرف ایک فوج نیزوں پر کٹے ہوئے سر لاتی ہے۔جن کے ہمراہ چند شتران بے کجاوہ پر کچھ بیبیاں بے مقنع وچادر بالوں سے منہ چھپائے،سر جھکائے،اشک بہاتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر اس یہودیہ نے اسی عالم میں پوچھا کہ یہ کون عورتیں ہیں۔جو شتران بے کجاوہ پر سوار ہیں۔ان کی کیا خطا ہے؟ کہ رسیوں میں بندھی ہوئی ہیں۔ناگہاں حضرت زینبؑ نے آواز دی کہ اے بی بی میں زینبؑ خستہ جگر ہوں۔ جس کا حال تونے ابی اپنے شوہر سے بیان کیا۔اور یہ نیزوں پر میرے بھائی بھتیجوں کے سر ہیں۔گو تیرے شوہر نے تجھ کو میرے بھائی کی مجلس میں منہ کھولنے کو منع کیا ہے۔مگر ہمارا منہ تو بازار عام میں کھلا ہے۔
یہ بیان سن کر، بیت
آیا جو ہوش صرف بکا وفغاں ہوئی
تھی مجلس حسینؑ کہیں واں رواں ہوئی
الغرض وہ عاشق حسینؑ جس وقت مجلس میں پہنچی،اتفاقا" ذاکر اس وقت اہل حرم کی بے پردگی کے مصائب کا تذکرہ کر رہا تھا۔جیسا کہ اس یہودیہ نے عالم  غشی میں دیکھا تھا۔یہ حال سن کر اس کا غم پھر تازہ ہو گیا۔اور روتے روتے پھر غش آگیا۔    اس  عالم غشی میں چہرہ پرنور سے گوشہ چادر  علیحدہ ہو گیا۔اور لوگوں نے اس کا چہرہ پر نور دیکھ کر تعجب کیا۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کون بی بی ہے۔ یہ سن کر ایک شخص نے جواب دیا کہ بیت
 یہ اسم بامسمٰی ہے صاحب جمال ہے
نام اس کا ہے حمیدہ حمیدہ خصال ہے
 القصہ تھوڑے عرصہ میں اس نیک بخت کو ہوش آیا،نظم
ماتم کے بعد بزم عزا جب ہوئی تمام
گھر اپنے اپنے جانے لگے عاشق امامؑ
اک شخص اس کے ساتھ اٹھا دل کو اپنے تھام
اور عین راہ میں کیا رو رو کے یہ کلام
سنتا ہوں بے  قصور تو بہتر ہے حور سے
سن عاشق جمال میں آیا ہوں دور سے
پاس وفا ضرور ہے اے بندہ خدا
 دل سے اگر حسینؑ کے اوپر تو ہے فدا
تو بہر خون ناحق مظلوم کربلا
گوشہ الٹ نقاب کا صورت مجھے دکھا
دیتا ہوں تجھ کو سید مظلومؑ کی قسم
 بے پردگی زینبؑ وکلثومؑ کی قسم
نام حسینؑ سن کے بندھا آنسوئوں کا تار
بولی مجھے قسم نے دے آقا کی بار بار
عزت رہے کہ جائے پر شاہد ہے کردگار
نام حسینؑ پر دل وجاں سے ہوں میں نثار
یہ کہہ کے ایک اشکوں کا دریا بہا دیا
بولی زبان سے یا علیؑ اور منہ دکھا دیا
 اس کا حسن وجمال دیکھتے ہی وہ مرد شان پروردگار کو یاد کرکے بے ہوش ہو گیا۔ اور یہ عفت مآب اپنے گھر کو روانہ ہوئی۔ابھی گھر نہ پہنچی تھی کہ لوگوں نے مشہور کر دیا کہ حمیدہ یہودیہ نے  آج ایک اجنبی شخص کو حسینؑ کا واسطہ دینے پر اپنا منہ دکھایا۔اسی وقت یہویوں نے اس کے شوہر کے پاس جا کر منہ دکھانے کی ساری روداد سنائی بیت
 اک شخص نے حسینؑ کا جب واسطہ دیا
برقع اٹھا کے اس نے اسے منہ دکھا دیا
نظم
کانپا مثال شعلہ آتش وہ ایک بار
بولا کہ آئے تو سہی گھر میں وہ بد شعار
مجھ کو کیا ذلیل نہ شرمائی زینہار
دوں گا سزا میں اس کو جو کچھ ہو مآل کار
دل پہ غم فراق کا صدمہ اٹھائوں گا
اس نے جلایا مجھ کو میں اس کو جلائوں گا
یہ ذکر تھا کہ آن ہی پہنچی وہ دل جلی
شوہر پکارا مرگ مبارک ہو اس گھڑی
تجھ کو قسم دلا کے حسینؑ شہید کی
جو کچھ کہوں کر ے گی وہ بولی ابھی ابھی
لونڈی ہوں اس کی جو دل وجان بتولؑ ہے
آقا کے نام پر ہو جو سب کچھ قبول ہے
 یہ سن کر وہ شقی ازلی غضب ناک ہو کر  بولا میں نے سنا ہے کہ تونے اپنا چہرہ کسی حسینؑ کے ماننے والے کو دکھایا ہے۔ اس نے کہا سچ ہے، مگر اس میں ہم دونوں کی نیت میں کوئی فتور نہیں ہے۔ یہ سن کر وہ اور غیظ میں آیا۔اور کہا اچھا دیکھ، تونے مجھ کو میری قوم میں ذلیل ورسوا کیا ہے۔میں بھی تجھ کو بذلت وخواری جلائوں گا۔ یہ کہہ کر اپنے قبیلے کے آدمیوں کو جمع کیا۔اور ان لوگوں سے کہنے لگا۔ آج اس عورت نے مجھے تم لوگوں میں رسوا کیا ہے۔ لہذا اب میری مدد کرو۔اور زمین کھودنے کا سامان لے کر قبیلے کے چند لوگوں کو ساتھ لیا۔ اور ایک صحرائے لق ودق میں ایک غار عمیق مثل تنور تیار کیا۔اور اس میں لکڑیاں جمع کیں،پھر اس میں آگ لگا دی۔اور تنور کو روشن کرکے مردمان قبیلہ سے کہنے لگا،کہ اس بد بخت نے غیر کو منہ دکھا کر مجھ کو جلایا،اب بعوض اس کے تمہارے آگے میں بھی اس کو جلائوں گا۔اور اپنا دل ٹھنڈا کروں گا۔ یہ کہہ کر اہل قبیلہ کو وہیں چھوڑ کر نظم
آیا غرض کہ گھر میں وہ بے دین وبے عمل
زوجہ سے بولا آچکا عزت میں تو خلل
تجھ کو قسم حسینؑ کی ہمراہ میرے چل
 پس اٹھ کھڑی ہوئی وہ پسندیدہ اجل
 حیلہ کیا نہ ٹھہری نہ صرف فغاں ہوئی
شوہر کے ساتھ جانب صحرا رواں ہوئی
 جس وقت کہ یہود اس صاحب جود کو لے کر تنور کی طرف چلا،اس کی تمام ہمسائیوں میں شور برپا ہوا۔اس کی قوم کی ہر ایک عورت اس نیک بخت کی سفارش کرتی تھی۔اور اس کی عصمت کی شہادت زبور کی قسمیں کھا کھا کر دیتی تھی۔لیکن وہ یہود کسی کی نہ سنتا تھا۔اور بہزار خرابی لئے جاتا تھا۔ اور وہ عفت مآب خنداں وشاداں چلی جا رہی تھی۔اور کہتی تھی اے بیبیو میری سفارش مت کرو۔ ایسا دن کہاں پائوں گی کہ نام حسینؑ پر اپنی جان فدا کروں۔میرا آقا کارخانہ قدرت میں دخیل ہے۔مجھ کو کچھ دہشت جلنے کی نہیں ہے۔ مجھے خلیل خدا کا حال معلوم ہے۔ یہ کہتی ہوئی ،نظم
آئی میان دشت جو وہ غم کی مبتلا
دیکھا قضا کا سامنا ہے وامصیبتا
بولا یہود چار طرف دیکھتی ہے کیا
اس آتش تنور میں تجھ کو جلائوں گا
گر چور ہے تو الفت شاہؑ غیور میں
میں بھی تو دیکھوں کود پڑ تو اس تنور میں
 ہاں اہل عزا عشق حقیقی اس کو کہتے ہیں۔ خیال کرنے کی جگہ ہے کہ ایک عورت غیر ملت و مذہب کی کیسی عاشق حسینؑ تھی۔ کہ اس کو اپنی جان عزیز شہیدؑ کربلا کی ماتم داری کے مقابلہ میں عزیز نہ تھی۔کیا کہنا اس پاک طینت کے اعتقاد کا کہ جس وقت شوہر نے اسے سر تنور لا کر کھڑا کیا۔اور کہا کہ تجھ کو اس میں جلائوں گا۔ نظم
پھر تو نجف کو دیکھ کے بولی وہ دل جلی
شہرہ ترے کرم کا ہے مولا گلی گلی
لالہ کیا خلیلؑ پہ آتش کو یا علیؑ
میں بھی تمہاری لونڈی ہوں ہوگی نہ بکیلی
تم دیکھتے ہو رنج میں ہوں یا سرور میں
پھر یا حسینؑ کہہ کے گری اس تنور میں
جب گر پڑی تنور کے اندر وہ خوش سیر
 شوہر نے اس کے سنگدلی کی یہ الحذر
سنگ گراں اٹھا کے رکھا اس تنور پر
ساتھ اپنے اقربا کے پھرا واں سے اپنے گھر
پر عشق کے نشے میں جو تھا چور ہو رہا
منہ کو لپیٹ کر بسر خاک سوگیا
 المختصر جب وہ یہود اپنی زوجہ کو تنور میں ڈال کر گھر پہنچا تو بار بار دل میں نادم ہوتا تھا۔افسوس ہے میں نے اس کو جلا دیا۔کاش میری ملت اور مشرب کے خلاف نہ ہوتا،تو میں اس کو نہ جلاتا۔الغرض اس یہودی نے اسی فکر وپریشانی میں وہ تمام رات بسر کی۔نظم
القصہ شب تو گزری سحر ہو گئی عیاں
وقت نماز آیا ہوئی چار سو اذاں
ناگہ کسی نے در پہ  صدا دی بصد فغاں
دروازے کی طرف کو یہودی ہوا رواں
دیکھا کہ اک سوار بصد آب وتاب ہے
نیزہ ہے دست پاک میں منہ پر نقاب ہے
جونہی اس سوار عالی وقار کو اس یہودی نے دیکھا نظم
 حیران ہو کے تب تو یہودی نے یہ کہا
 اسم شریف اپنا مجھے دیجیے بتا
آئے ہو کس دیار سے مطلب ہے مجھ سے کیا
فرمایا مجھ سے پوچھتا ہے کیا میرا پتا
فاقہ کش مسافر ومرد غریب ہوں
میں اک ستم رسیدہ وآفت نصیب ہوں
کل شام سے عجب تردد میں ہوں پڑا
زوجہ تری کہاں ہے بلا اس کو اک ذرا
بولا یہود ماجرا اس کا کہوں میں کیا
جل جل کے خاک ہو گئی ہو گی وہ مہہ لقا
آیا عتاب میرا کنیز بتولؑ پر
مارا ہے جرم الفت سبط رسولؑ پر
 جب اس مرد یہود نے یہ حال بیان کیا،تو اس سوار کی دونوں آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے۔اور ارشاد کیا کہ اے یہودی تجھ کو میرے نام سے کیا غرض ہے۔میں اک مسافر بے دیار ہوں۔رسولؑ عربی کی درگاہ کا مجاور ہوں۔ یہ تقریر سن کر وہ یہودی اور حیران ہوا۔اور عرض کی کہ اے سوار عالی وقار تیری باتوں سے جگر شق ہوا جاتا ہے۔ خدا کا اور اسی رسولؑ کا واسطہ جس کی درگاہ کا اپنے تئیں مجاور بتاتا ہے۔ سچ سچ مجھ سے اپنا حال بیان کردے۔اور یہ بھی بتا کہاس سوختہ جگر سے کیا کام ہے۔جس وقت اس یہودی نے یہ قسم دی،تو سوار نے فرمایا نظم
آگاہ ہو کہ نائب مشکل کشا ہوں میں
حاجت روائے خلق شاہؑ کربلا ہوں میں
زہراؑ کا لال سبط رسولؑ خدا ہوں میں
حقا برادر حسنؑ مجتبےٰ ہوں میں
آرام روح فاتح بدر وحنین ہوں
میں بے کس وغریب مسافر حسینؑ ہوں
جن وملک ہیں سب میرے ماتم میں بے قرار
آدم سے تا بحضرت خاتم تھے سوگوار
زوجہ بھی تری میری ہی خاطر تھی اشک بار
 اشکوں کے بدلے پائے گی وہ در شاہوار
میری قسم پہ منہ کو جو اس نے دکھا دیا
 سو تونے اس قصور پہ اس کو جلا دیا

 جس وقت سے وہ نیک خصال تنور میں ڈالی گئی۔مجھ کو بھی ایک آن چین نہیں۔اور جو ستم اس ستم رسیدہ پر ہوئے مجھ پر گذرے۔اب میرے ساتھ تو بھی اس تنور پہ چل،تاکہ قدرت خدا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ القصہ یہ سن کر یہود مظلوم آقا کے ہمراہ اس صحرا میں آیا اور نظم
پہنچا لب تنور جو وہ نوح روزگار
فرمایا سنگ اٹھا تو پکارا وہ شرمسار
 مجھ ایک سے یہ سنگ اٹھے گا نہ زینہار
 نیزے سے تب اشارہ کیا شاہؑ نے ایک بار
وہ سنگ مثل گل کئی فرسنگ اڑ گیا
حیرت سے اس یہود کا بس تنگ اڑ گیا
بولے حسینؑ دیکھ ذرا قدرت خدا
سوئے تنور اس نے جب سر کو جھکا دیا
دیکھا کہ آگ تو نہیں اک باغ ہے کھلا
رونق فزا ہے تخت کے اوپر وہ ماہ لقا
نام حسینؑ لے کے فدا جان کرتی ہے
صورت یہ ہے تلاوت قرآن کرتی ہے
گر کر قدم پہ شاہ کے یہودی نے یہ کہا
سنتا تھا میں خلیل کا دنیا میں ماجرا
یعنی علیؑ نے آگ کو گلزار کر دیا
آنکھوں سے آج دیکھ لیا آپؑ پر فدا
واضع تمام دین کے آئین کیجیے
 اے سبط مصطفےٰ مجھے تلقین کیجیے
کلمہ پڑھایا شاہؑ نے اسے تب بہ کرو فر
اس رشک ماہ کو کیا تنور سے بدر
خوش خوش وہ دونوں زوجہ وزوج آئے اپنے گھر
پر گردش فلک سے میں حیراں ہو ں سر بسر
یہ بغض بڑھ گیا سپاہ یزید کا
رکھا تنور میں سر شاہؑ شہید کا
سیلاب اشک چشم سے اب مومنین نہائیں
جلنے سے تو یہودیہ کو شاہ دیں بچائیں
اور خیمہ اس حسینؑ کا اہل ستم جلائیں
خیمہ جلائیں بیبیوں کو در بدر پھرائیں
کنبہ برہنہ ہو شاہؑ مشرقین کا
نیزہ پہ تا بہ شام گیا سر حسینؑ کا
چنانچہ راہ شام کا حال روایت میں یوں تحریر ہے کہ جب شامیان بد کردار اہل بیتؑ اطہار کو اسیر کرکے مع سر ہائے شہدا ء کربلا سے روانہ شام ہوئے ،بیت
 آل نبیؑ کی در بدری تھی جو شہر میں
پہنچے اسیر آن کے خولی کے شہر میں
 اس وقت عمر سعد بد نہاد نے سیدؑ الشہداء کا سر مبارک خولی ملعون کو دے کر کہا کہ اسے اپنے گھر میں لے جا کر اس سر کی حفاظت کر۔یہ سن کر وہ لعین سر اقدس اٹھا کر اپنے گھر کی طرف چلا۔اس وقت جناب زینبؑ نے بے تاب ہو کر فرمایا کہ اے خولی اس سر کو کہاں لیے جاتا ہے۔ مجھ کو اس کی مفارقت کی تاب نہیں ہے،بیت
 اس سر پہ میری پتلی کا دانہ سپند کر
بھائی بہن کو ایک ہی زندان میں بند کر
نظم
مر جائوں گی تڑپ کے خدا اس کا ہے گواہ
پر کب خیال کرتا تھا وہ دشمن الہٰ
لا کر رکھا تنور میں سر شاہ دیں کا آہ
پتھر رکھا تنور پہ اک وامصیبتا
ناری نے کچھ فرق نہ کیا نار ونور میں
سبط نبیؑ کے سر کو چھپایا تنور میں
زوجہ لعیں کی آل پیمبرؑ  پہ تھی نثار
پوچھا یہ کس کا سر ہے جو تو لایا نابکار
بولا لعیں حسینؑ کا سر ہے بافتخار
وہ بولی آہ کون حسینؑ اس پہ میں نثار
کل کا امام بادشاہؑ خوشخصال ہے
 زینبؑ کا بھائی فاطمہ زہراؑ کا لال ہے
بولا لعیں کہ ہے تو وہی بادشاہؑ دیں
تو کیا کرے گی میرا وہ بولی کہ کچھ نہیں
لعنت کیا کروں گی سدا تجھ پہ اولعیں
حیدرؑ کا ماہ جبیں ہے یہ زہراؑ کا نازنین
عالم تمام ماتم آقا میں روئے گا
زینبؑ اگر سنے گی تو کیا حال ہوئے گا
ظالم پکارا اس سے چھپانے کا ذکر کیا
زینبؑ کے سامنے سر شبیرؑکٹ گیا
آئی ہے ساتھ بھائی کے سر کے وہ بے ردا
دل تھام کر وہ بیٹھ گئی اور یہ دی صدا
حیدرؑ کی بہویں بیٹیاں سب در بدر پھریں
ہے ہے میری خوزادیاں سب ننگے سر پھریں
 الغرض وہ لعین تو اپنے بستر پر سو رہا،اور وہ کنیز خاندان مرتضویؑ صحن خانہ میں بیٹھی ہوئی رویا کی، جب نصف شب گزری زوجہ خولی کیا دیکھتی ہے کہ آسمان کی جانب سے گریہ وبکا کی آواز آرہی ہے۔حیرت زدہ ہو کر سر اٹھایا تو دیکھا کہ ایک تخت پر نور فرشتے لیے ہوئے آرہے ہیں۔اور وہ تخت تنور کے قریب لا کر رکھ دیا گیا۔اس تخت پر سے ایک بزرگ سر پر خاک ڈالے ہوئے چاک گریبان اترے۔وہ فریاد کر رہے تھے کہ ہائے میرے فرزند حسینؑ۔آہ میرے نور عین۔اشقیا نے تجھے بھوکا پیاسا ذبح کر ڈالا۔میری قرابت کا پاس ولحاظ نہ کیا۔چند بزرگ نورانی صورت ان کے ساتھ ہیں۔ جو ان کو یہ کہہ کر دلاسا دے رہے ہیں کہ اے خدا کے حبیبؑ اے رسول دوجہاں انبیاؑ کے سر تاج صبر کیجیے۔ناگاہ نظم
 بڑھے نواسے کی جانب رسولؑ بے تاخیر
قریب سر کے جو آئے حبیبؑ رب قدیر
اٹھا رسولؑ کے مجرے کو وہ سر دلگیر
کہا نبیؑ نے کہ تعظیم ہو چکی شبیرؑ
بیا بیا کہ ترا تنگ در کنار کشم
 بہ تنگ آمدہ ام چند انتظار کشم
قدم پہ ناناؑ کے اس دم سر حسینؑ گرا
کہا بتایئے کچھ مجھ سے خوش ہوئے نانا
کہ میں نے دین خدا سے نہ کچھ عزیز کیا
کیا ہے اصغرؑ بے شیر کو بھی رن میں فدا
شہید ظلم ہوا حلق کو کٹا آیا
حسینؑ آپ کے اسلام کو جلا آیا
 اس وت جناب رسولؑ خدا نے فرمایا کہ اے نور نظر پارہ جگر ،بیت
واقف نہ کیا لعیں تھے تو بھوکا پیاسا ہے
کیا جانتے نہ تھے کہ نبیؑ کا نواسا ہے
نظم
 سن کر کلام کانپ گیا سر حسینؑ کا
یک بیک زمین سے تعظیم کو اٹھا
نانا کو رو کے دی لب اعجاز سے صدا
لب تشنہ مجھ کو قتل کیا واہ مصیبتا
میں کیا کہوں جو شمر لعیں نے ستم کیا
نام آپؑ کا سنا کیا اور سر قلم کیا
منہ پیٹ کر زمیں پہ گرے ختم انبیاؑ
حیدرؑ بھی اور حسنؑ بھی ہوئے غش بصد بکا
ناگاہ دور باش کی پیدا ہوئی صدا
ہودج سیاہ ایک فروکش وہاں ہوا
ہر سمت شور تھا کہ نبیؑ کی دہائی ہے
بیٹے کے سر سے فاطمہؑ ملنے کو آئی ہے
پہنچی لب تنور جونہی اشرف النساء
دے مارا سر کو سنگ پہ اور رو کے یہ کہا
 اے لال کس شقی نے یہ تجھ پہ ستم کیا
بولی نبیؑ کو دیکھ کے پھر یوں بصد بکا
کھویا تھا اس کے واسطے آرام وچین کو
پالا تھا کیا اسی لیے میں نے حسینؑ کو
پھر سر اٹھا کے اپنے گلے سے لگا لیا
بوسے کٹے گلے کے لیے اور یہ کہا
بیٹا تری غریبی پہ مادر تری فدا
سر تو قلم ہوا ترا پر یہ مجھے بتا
کیوں کر بزیر تیغ تو حق کا شناسا تھا
سر نے کہا اماں کئی دن کا پیاساتھا
 آخر سپیدہ سحر نمودار ہوا۔اور وہ تخت فرشتے پھر آسمان کی سمت لے کر چلے گئے۔اور خولی ملعون بستر خواب سے اٹھ کر امام مظلومؑ کا سر لیے لشکر یزید میں واپس آیا۔اور وہ فوج سر ہائے شہدائے کربلا واہل بیت اطہار کو لے کر شام کی جانب روانہ ہو ئی۔
مولا وزیر کو بھی حمیدہ خصال دو
عقبے میں خلد خلق میں جاہ وجلال دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا

﷽ انتیسویں مجلس امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا  اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو واللہ ناامید کے دل کو امید ہو  اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت  دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی نظم پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے  اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں ہمس...

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...