Skip to main content

پچسیویں مجلس امام حسینؑ کی شہادت کے بعد اہل بیت کے خیام کی تاراجی وبربادی

 پچسیویں مجلس
 امام حسینؑ کی شہادت کے بعد اہل بیت کے خیام کی تاراجی  وبربادی
     لمو لفہ
تاراجی خیام کا کیوں کر ذکر ہو آہ
ہوتے ہیں آج شاہ کے اہل حرم تباہ
سبحان اللہ: کیا مرتبہ ہے مجلس عزائے امام حسینؑ کا، ممکن نہیں کہ اس کی منزلت کو کوئی بشر تحریر کر سکے یا بیان کر سکے۔ روایت ہے کہ جس گھر میں مجلس عزائے امام حسینؑ مظلومؑ کی برپا ہوتی ہے،اور مصائب بیان کیے جاتے ہیں۔تو جناب فاطمہؑ زہرا بنت رسولؑ خدا مع حضرت مریم مادر جناب عیسیٰؑ وآسیہ زن فرعون لعیں اور خدیجہ الکبریٰ تشریف لاتی ہیں۔ان کے ہاتھ میں رومال ہوتے ہیں۔جس وقت دوستان حسینؑ روتے ہیں تو وہ مخدومہ اپنے ہاتھ سے بہ شفقت آنسو پونچھ کر فرماتی ہیں،خوشا حال تمہارا کہ تم میرے غریب فرزند کے واسطے روتے ہو۔ جس کا کوئی رونے والا نہیں ہے۔ نظم
 میرے شبیرؑ پہ گزری ہے مصیبت کیا کیا
 تین دن تک لب دریا اسے پانی نہ ملا
ظلم سے لشکر بے پیر نے اس کو مارا
ہو گیا دین پہ آخر کو وہ مظلومؑ فدا
ہوں میں ممنون تمہاری کہ ہو قربان حسینؑ
مجھ کو پیارے ہیں بہت تعزیہ داران حسینؑ
 زہے نصیب اس کا جو مجلس عزا برپا کرئے اور امام مظلومؑ کے غم میں روئے بیت۔
جان ومال سے جو شبیرؑ پہ ہوگا فدا
اس کا واللہ کہ رتبہ ہے بڑا پیش خدا
ہاں رونے والو کیا مرتبہ ہے تمہارا کہ جناب سیدہ خداوند کریم سے تمہارے لیے آمرزش طلب کرتی ہیں۔ اور فرماتی ہیں کہ اے رب کریم تو بخش دینا  ان لوگوں کو جو میرے مظلومؑ پر روتے ہیں۔بے شک فرزند رسولؑ کا غم ایسا نہیں ہے کہ کوئی سنے اور غمگین نہ ہو۔ خدا وند کریم کا وعدہ ہے کہ نظم
روئوے گا اس امام کے غم میں اگر کوئی
لاریب اس کو بخشوں گا نعمتیں خلد کی
عالم پہ اس کی فرض ہے واللہ دوستی
 جنت ہے اس کے دوستوں کے واسطے بنی
روئے گا  یا کسی کو جو کوئی رلائے گا
واللہ بے حساب وہ جنت میں جائے گا
اب ہے مقام غور محبان خوش سیر
احساں ہیں تم پہ سید والا کے کس قدر
امت نے کاٹا ظلم سے کس طرح ان کا سر
بچے تڑپ تڑپ کے موئے آہ خاک پر
پانی نہ دیا اپنے پیمبر کی آل کو
پیاسا کیا شہید محمد کے لال کو
چنانچہ روایت ہے کہ جب امام مظلومؑ کو شمر لعین نے بھوکا اور پیاسا شہید کیا، اس وقت ایک تلاطم عظیم زمین اورآسمان میں برپا ہوا،اور یہ آواز پیدا ہوئی،بیت
 غل تھا ستون عرش امامت گرادیا
یعنی چراغ بزم نبوت بجھا دیا
 جس وقت جناب امام حسین علیہ السلام کے قتل سے اعدائے دین فارغ ہوئے،تو ہر ایک آپس میں بغل گیر ہو کر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتا  تھا، فتح کے شادیانے بجنے لگے۔ گویا ان ملعونوں کے لیے ای عید تھی۔ ہر ایک اہل لشکر عمر سعد لعیں کو نذر دیتا تھا۔ اور وہ لعین ہر ایک سے انعام واکرام کا  اقرار کرتا تھا۔ اور سب سے زیادہ شمر ملعون کوش ہوتا اور ہر ایک کو سر امامؑ مظلوم دکھا کر فخریہ یہ کہتا تھا بیت
خنجر مرا پھرا ہے گلوئے امامؑ پر
اے ابن سعد  لعین لکھ کے یہ ظفر میرے نام پر
نظم
میں نے کیا مدینہ وبطحا کو بے چراغ
پامال مرکبوں سے کیا فاطمہؑ کا باغ
زینبؑ کے اک جگر کو دیئے میں نے پانچ داغ
برسوں کے مخمصے سے ملا آج انفراغ
اب ایک دم نہ قبر میں سووئے گی فاطمہؑ
 آٹھوں پہر حسینؑ کو رووئے گی فاطمہ
کس کا اب اپنی نظروں میں جاہ وحشم چڑھے
 شیروں کے منہ پہ زال ونریماں بھی کم چڑھے
شیر خدا کے شیر کے سینہ پہ ہم لعنتی چڑھے
کھینچے ہوئے نیام سے تیغ دودم چڑھے
 چڑھتا نہ کوئی سینہ شاہ انام پر
 کم ہے شرف رقم ہو جو کچھ میرے نام پر
ہنس کر کہا عمر لعیں نے کہ شاباش وآفرین
جرات کو تیری جانتے ہیں خلق میں ہمیں
جاگیر ومال کیا ہے اسے کیجیو یقیں
سارا خزانہ دے تجھے حاکم تو کچھ نہیں
منہ کھولیے تو بس تری مدحت میں کھولیے
تجھ کو ہزار بار جواہر میں تولیے
 یہ کہہ کر عمر سعد بد نہاد شمر لعیں سے کہنے لگا کہ اے سردار لعین در حقیقت تجھ سا بہادر اور جری اس فوج میں دوسرا نہیں ہے۔تونے آج وہ کام کیا ہے۔ کہ جو کسی سے ممکن نہ تھا۔ لیکن ابھی ایک اور کام باقی ہے۔ ابھی ابھی ابن زیاد لعیں کا نامہ آیا ہے۔ اس کا حکم ہے کہ حسینؑ کو قتل کرنے کے بعد ان کے اہل حرم کو لوٹنا،ان کے خیموں کو تاراج کرنا،لہذا  حکم امیر بجا لانا ضروری ہے۔ یہ کلام نافرجام اس شقی ازلی کا سن کرشمر ملعون فخر کرتا ہوا نظم
نکلا عمر کے خیمہ سے ہنستا وہ  لعیںبد گہر
 اور نیزہ پہ بلند کیا شاہ دیں کا سر
پھر چار سمت کو  یہ ندا دی پکار کر
ہاں افسران لعیں شام نہ کھولو ابھی کمر
برپا ہے گو حرم میں عزاداری حسینؑ
لوٹو جلائو خیمہء زنگاری حسینؑ
 اس طرف سے تو اشقیا تاراجی خیام کو چلے ادھر نظم
 واں در پہ بے حواس تھا بیوائوں کا کارواں
مشتاق آمد آمد مولائے بے کساں
ناگہ سر حسینؑ سناں پر ہوا عیاں
زینبؑ زمیں پہ لوٹ کے کرنے لگی فغاں
اے لوگو ہائے جان نہ میری نکل گئی
یہ لو چھری کلیجہ پہ زہراؑ کے چل گئی
اس طرف یہ حال،ادھر شمر لعین نے فوج کو آواز دے کر بلایا، نظم
پھر تو سمٹ سمٹ کے سب اہل ستم چلے
وہ روسیاہ کھول کے کالے علم چلے
کہتے ہوئے یہ سوئے خیام حرم چلے
عباسؑ اب کہاں ہیں سوئے خیمہ ہم چلے
سر حد عرب کی ہو گئی خالی حسینؑ سے
لوٹیں گے اب حسینؑ کی سرکار چین سے
فضہ کھڑی تھی خیمہ کے درپر برہنہ سر
یورش جو دیکھی فوج کی چلائی پیٹ کر
ہے ہے ڈرو خدا سے بڑھے آتے ہو کدھر
آگے ہے بارگاہ شہنشاہ بحر وبر
اس میں مقیم آل رسالتؑ پناہ ہے
سمجھو نہ اس کو خیمہ یہ عرش آلٰہ ہے
کیا قصد کیا ارادہ ہے جلدی مجھے بتائو
جل جائو گے نہ بے ادبانہ قدم بڑھائو
رنڈسالہ بانو کے لیے لاتے ہو گر تو لائو
ٹھہرو ابھی تو شاہ کے ماتم کا جوش ہے
رنڈسالہ کا کسی کو نہ پردے کا ہوش ہے
آئے ہو لوٹنے کو اگر مصطفےٰ کا گھر
کیا تم کو ہاتھ آئے گا یاں مال ہے نہ زر
زہراؑ کی عمر فاقہ کشی میں  ہوئی بسر
بی بی کے ورثہ دار ہیں محتاج سب کے سب
یاقوت ہیں نہ یاں گہر شب چراغ ہیں
 بدلے ورم کے دل پہ عزیزوں کے داغ ہیں
شمر لعیں پکارا کہ خاموش اے حزیں
کیونکر کہیں کہ گھر میں پیمبر کے کچھ نہیں
کل کا امام تھا شاہ مرداں کا جانشینؑ
 شہروں سے خمس بھیجتے تھے ان کو مومنین
بعد از حسنؑ حسینؑ شاہ دوسرا ہوئے
لعل وگوہر سے ہونگے خزانے بھرے ہوئے
کون تھا جو ان دشمنان دین کو جواب دیتا،اور سیدانیوں کو لوٹنے سے منع کرتا،اور روکتا، نہ عون محمد ؑتھے، نہ
قاسمؑ تھےنہ ہم شبیہ پیمبر تھے، نہ عباس سا صف شکن بھائی تھا۔نہ حسینؑ تھے۔زینبؑ وام کلثومؑ،سکینہ ورقیہؑ سب یتیم بچے لاوارث تھے۔بے یار ومددگار تھے۔اللہ اللہ مدینہ سے روانگی کے وقت زینبؑ کا وہ احترام تھا۔کہ سوار کرتے وقت خود امام حسینؑ پردا کیے ہوئے عباسؑ ساتھ تھے۔علیؑ اکبرؑ ہاتھ پکڑے امام مظلومؑ کو یہ پاس ولحاظ اس شاہزادی کا تھا۔اور پیش خدا جو مرتبہ ان کا ہوا تھا۔ وہ بھی ظاہر ہے۔ کہ ایک روز ثانی زہراؑ صحن میں بعد نماز صبح تلاوت قرآن مجید فرمارہی تھیں،کہ اتفاقا"  چادر  سر اقدس سے
دوش مبارک پر آگئی تھی۔تو بحکم خدائے کریم آفتاب نہ نکلا تھا۔کہ چشم آفتاب دختر مشکل کشا کو برہنہ سر نہ دیکھے یا آج نظم
وہ خیمہ امامؑ امم عرش احتشام
جس آستاں کے لیتے تھے بوسے ملک تمام
پیر فلک ادب سے سدا کرتا تھا سلام
درانہ آئے ہائے غضب اس میں اہل شام
ایک ایک نقد جاں کا خریدار ہو گیا
بالکل گھر اہل بیت کا بازار ہو گیا
خیمہ میں بھر گئے جو ستم گار جا بجا
 اہل حرم کو بھول گئی مرگ اقربا
ماتم کی صف سے چھپنے کو دوڑی برہنہ پا
بانو نے دھیان میں علیؑ اکبرؑ کے یہ کہا
بیٹا کہاں ہو تم یہ غضب کا مقام ہے
 واری تمہارے کنبہ پہ بلوائے عام ہے
اس طرف اہل حرم فریاد کرتے تھے،اور اس طرف نظم
انبوہ خاص وعام تھا خیمہ کے درمیاں
لیتا تھا کوئی مسند پیغمبرؑ زمان
عابد کا فرش کھینچتا تھا کوئی بد گمان
 اک چھینتا تھا بالی سکینہؑ کی بالیاں
بنت حسینؑ بالوں سے چہرہ چھپاتی تھی
کانوں پہ دونوں ہاتھ دھرے تھرتھراتی تھی
بھر بھر کے آنسو آنکھوں میں کہتی تھی وہ حزیں
اے شمر لعیں تجھ کو پاس بنی فاطمہؑ نہیں
سیلی لگا نہ بہر خدا مجھ کو او لعین
 اب تو ہیں نیلگوں میرے رخسار نازنین
ہلتا ہے عرش سن کے دہائی سکینہ ؑ کی
او بے ادب نہ کھینچ کلائی سکینہؑ کی
اور فرماتی تھیں کہ اے شمر لعین میرا بابا ایسا سخی تھا،کہ جس نے گھر بار عزیز وانصار سب راہ خدا میں نثار کر دیئے تھے۔میں بھی اسی کی بیٹی ہوں۔واللہ یہ گوہر مجھ کو پیارے نہیں،اگر تو خواہاںان گوہروں کا ہے تو ،بیت
صبر اتنا کر کہ زینبؑ ذی شاں اتار دیں
کانوں سے بالیاں پھوپھی اماں اتار دیں
اسی اثنا ءمیں اس نادان کو نیزہ پر سر امام مظلوم  ؑ نظر آیا تو وہ بچی   بیت
سمجھی کہ اشقیا جو ستانے کو آئے ہیں
میدان سے شاہ ہمیں بچانے کو آئے ہیں
غرض کہ وہ نادان خیمہ سے نکل کر امام کے سر کی جانب مقتل میں روانہ ہوئی نظم
دوڑی بسوئے نیزہ خولی لعیںوہ خوش خصال
فضہ بھی پیچھے پیچھے چلی کھولے سر کے بال
جا کر قریب نیزہ پکاری وہ خورد سال
فضہ شہید ہو گیا ہے ہے علیؑ کا لال
میں جانتی تھی قبلہ حاجات آئے ہیں
سر کو چڑھائے نیزہ پہ بد ذات لائے ہیں
پھر زیر نیزہ جھک کے پکاری وہ تشنہ کام
بابا حسینؑ قبلہ کونین السلام
با با اسیر ہوتے ہیں سجاد نیک نام
بابا تمہارا کنبہ بھی لٹتا ہے اب تمام
کہتے ہیں اشقیا کہ یہ خیمے جلائیں گے
پوتی کو سعد کی میرے گوہر پہنائیں گے
وہ بچی تو باپ کے سر سے اپنی مصیبت بیان کر رہی تھی،کہ پیچھے سے شمر ملعون بھی پہنچ گیا،اور بچی کے کان سے گوشوارے اس طرح کھینچے کہ نازک لویں پھٹ گئیں، بیت
 بھر گیا خون سے اس بچی کا کرتا اس آن
اس گھڑی پیٹ کے سر کہنے لگی وہ نادان
 سکینہ ؑ روتی پیٹتی خیمہ میں واپس آئیں۔راوی کہتا ہے کہ جناب امام زین العابدینؑ شدت تپ سے بے ہوش پڑے تھے۔ سکینہؑ کے رونے کی آواز گوش اقدس میں پہنچی، نظم
کھول کر آنکھ جو سجاد حزیں نے دیکھا
بس کہا دل میں کہ مارے گئے رن میں بابا
پیٹ کر سینہ وسر بانوئے بے کس نے کہا
کر گئے مجھ کو یتیم آہ شاہ ہر دوسرا
قصد ہے لشکر اظلم کا ستم گاری کا
سامنا اب نظر آتا ہے گرفتاری کا
ابھی سجاد یہ کہتے تھے کہ شمرلعیںغدار
آکے کہنے لگا اٹھ فرش سے جلدی بیمار
ساتھیوں کو  یہ پکارا عمر ناہنجار
دیکھو سجادؑ کے پہلو میں نہ ہوئوئے تلوار
 شیر کے پوتے کے تلوار جو ہاتھ آئے گی
 ہے یقیں مجھ کو کہ قیامت ابھی ہو جائے گی
پھر طلب اس نے کیا فوج سے ایک آہن گر
آیا حداد لعیں طوق وسلاسل لے کر
طوق اور بیڑیوں پہ جب پڑی حضرت کی نظر
پائوں پھیلا دیئے سجادؑ نے نہیوڑا کر سر
منہ سے بیمار کے تکبیر کی آواز آئی
گریہ مادر شبیرؑ کی آواز آئی
 ہائے جس وقت سجادؑ کو وہ اشقیا طوق وزنجیر پہنا چکے تو پسر سعد لعیں نے فوج کو حکم دیا کہ لوٹ لو۔ان کی آ   آہ وزاری پر ہر گز نہ رحم کھائو۔ نظم
 اس جفا کار کا جب حکم ستمگر نے سنا
 شمر لعیں نے پہلے اتاری سر زینبؑ سے ردا
گھر لگے فاطمہؑ کا لوٹنے پھر اہل جفا
خوف اعدا کو نہ اللہ ونبیؑ کا کچھ تھا
شرم سے بیٹیاں زہراؑ کی گڑی جاتی تھیں
سر جھکائے ہوئے سیدانیاں چلاتی تھیں
خیمہ میں طلاطم برپا تھا۔ سیدانیاں بالوں سے منہ چھپائے ایک دوسرے کے پیچھے چھپتی تھیں۔آخر جناب ام کلثوم نے فرمایا،ارے ظالموں خدا سے ڈرو،کچھ تو اپنے رسولؑ کا ادب کرو۔ہم تمہارے رسول کے اہل بیت ہیں۔مگر اس شاہزادی کی کون سنتا تھا۔ مسند رسولؑ اٹھا لی۔وہاں سے بڑھ کر بے شیر کے جھولے کے پاس آئے۔اس وقت حضرت بانو نے سر پیٹ لیا۔ اور ارشاد فرمایا کہ ارے ظالمو بیت
جھولا اصغرؑ کا نہ برباد کرو روئے گا
آئے گا جب میرا بچہ تو کہاں سوئے گا
جھولے کی غارت گری کے بعد نظم
 طرف فاطمہ کبریٰ جو چلا ایک لعیں
بھاگ کر ماں کے گئی پاس وہ مجبور وحزیں
بانو چلا کے لگی کہنے کہ سن او بے دین
پہلے ہی لٹ چکی کچھ پاس اب اس کے ہے نہیں
دولھا مارا گیا محبوس بلا ہے کبریٰ
زیست سے ایسے ہی خود آپ خفا ہے کبریٰ
رو کے کہتی رہی کتنا ہی وہ تفتیدہ جگر
چھن گیا ہائے مگر شادی کا سارا زیور
وہ بنی لوٹتی تھی خاک پہ کھولے ہوئے سر
ہائے دولہا کبھی کہتی تھی کبھی ہائے پدر
کبھی کہتی تھی کہ زہراؑ کا پسر ہے کہ نہیں
میں لٹی جاتی ہوں بابا کو خبر ہے کہ نہیں
بین یہ کر رہی تھی فاطمہ کبریٰ رو کر
ایک ظالم نے جو بانو کی اتاری چادر
تب وہ چلا کے یہ کہنے لگی تفتیدہ جگر
ماں لٹی جاتی ہے بس جلد اب آئو اکبرؑ
ننگے سر کرتے ہیں مردود دکھا کر بھالے
جلد لو میری خبر اے میرے غیرت والے
میں جو چلا کے کبھی بولتی تھی اے بیٹا
بولنا وہ نہ پسند آتا تھا تم کو  میرا
ماں سے اس طرح سے غافل ہوئے  اے ماہ لقا
اب ہے بلوئے میں ستمگاروں کے سر میرا کھلا
ابھی حضرت شہر بانو  ؑ یہ فرما رہی تھیں کہ اشقیا نے خیموں میں آگ لگا دی۔ نظم
 پھر تو خیام شاہ تھے اور آگ آہ آہ
مسند جلی رسولؑ کی حیدرؑ کی بارگاہ
یوں لوٹا گھر نبیؑ کہ اللہ کی پناہ
محتاج اک ردا کے ہوئے اہل بیت شاہ
اس پر بھی رحم آیا نہ ان روسیاہوں کو
لشکر میں لا کے قید کیا بے گناہوں کو
الغرض اہل بیت نبوتؑ کو قید کرکے تمام فوج نے کمریں کھولیں،اور اپنے اپنے خیموں میں آرام کرنے لگے۔تو عمر سعد لعیں بد نہاد نے حکم دیا کہ اہل بیت حسینؑ علیہ السلام کے لیے بھی کوئی خیمہ تلاش کرو، نظم
دی آکے منادی نے ندا فوج لعیں جفا میں
خیمہ کوئی باقی ہے خیام شہدا میں
 برپا کروں بیوائوں کے لیے دشت وغا میں
سب نے کہا اک تار نہیں پردہ سرا میں
غارت ہوئی لوٹی گئی سرکار حسینی ؑ
باقی ہے بس اک خیمہ دربار حسینی ؑ
 یہ تو عام قاعدہ ہے کہ جب کسی کا کوئی عزیز مر جاتا ہے،تو اس کی چیزوں کو میت کے وارثوں سے چھپا دیتے ہیں۔تاکہ اس کو دیکھ کر میت کی یاد نہ آئے،جو ان کے رنج وملال کا باعث ہو۔مگر اہل بیت اطہار کو خاص کر وہی چیزیں دی جاتی  تھیں،جو خاص امام مظلومؑ کی تھیں۔ الغرض       نظم
وہ خیمہ عمر  نے دیا خاصان خدا کو
اور حکم دیا پانچ ہزار اہل جفا لعیں کو
پہرے میں رکھو چار پہر آل عباؑ کو
جس طرح سے رکھتے ہیں اسیر اہل خطا کو
بیٹھے ہوئے یاں یہ اپنی تقدیر کو  روئیں
مقتل میں مگر جا کے نہ شبیرؑ کو روئیں
الغرض جس وقت سلطان مدینہ کا وہ خالی خیمہ حضرت سکینہؑ اور اہل بیت کو نظر پڑا،بکا کاشور بلند ہوا۔اور دربار حسینؑ کا جاہ وحشم نظروں میں پھر گیا اس وقت،نظم
گر کر کوئی بولی مرے سرورؑ کی وہ جا ہے
تکیوں کی یہ جا مسند حیدرؑ کی وہ جا ہے
اک نے کہا عباسؑ دلاور کی وہ جا ہے
 قاسمؑ کی یہ جا علی اکبرؑ کی وہ جا ہے
گھر رہ گیا گھر والے سفر کر گئے ہائے ہائے
جو خیمہ کی رونق تھےوہ سب مر گئے ہائے ہائے
درد اٹھتا ہے سکینہؑ کے جگر میں
 کہتی تھی موئی حسرت دیدار پدر میں
 سمجھاتی تھی ماں بی بی کا بابا ہے سفر میں
وہ پوچھتی  ہے سچ کہو کب آئیں گے بابا
 کس شہر کو پیاسے لب دریا سے سدھارے
اس گھر سے سدھارے کہ وہ دنیا سے سدھارے
اس بیان سے اور بھی محشر  برپا ہوا۔اس طرف سے اہل حرم کا تو یہ حال تھا،اور فوج شقی میں ہر خیمہ کے اندر عید تھی۔ایک دوسرے سے گلے ملتے اور مبارک باد دیتے تھے۔ اسی  عرصہ میں لشکر یزید لعین کھانے پینے سے فارغ ہوا۔اس وقت عمر سعد لعین نے پوچھا کہ قیدیوں کو کیا غذا ملتی ہے؟۔ حاضرین لشکر لعین نے کہا کہ اے سردار عام قیدیوں کے لیے تو ایک جو کی روٹی اور  ایک کوزہ پانی کا مشہور ہے،اور ادنےٰ قیدیوں کے لیے گندم بریاں دیا جاتا ہے۔ لیکن آل نبیؑ کو آج تک محبوس نہ دیکھا نہ سنا ہے۔کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے حضرت جبرائیل بہشت کے کھانے لاتے تھے۔یہ سن کر تھوڑی دیر اس ملعون نے غور کیا۔آہ آہ کیونکر عرض کروں، نظم

ظالم نے کہا ان کو بھی دو گندم بریاں
سلطان وگدا قید کے رتبہ میں ہیں یکساں
گندم سے لگن بھر کے تب اک دشمن ایماں
 راہی ہوا سوئے حرم شاہ شہیداں
ہے ہےجو اسیروں میں حقیروں کی غذا تھی
 اے مومنو وہ سب کے امیروں کی غذا تھی
 القصہ جب در خیمہ پر وہ ظالم آیا،لگن کو اتار کر اہل حرم کو پکارا کہ سیدانیو  کھانا لے جائو نظم
 منہ پیٹ کے کلثومؑ پکاری یہ شقی کو
کھانا جو کھلاتا ہے یتیمان نبیؑ کو
کیا دفن کیا لاش حسینؑ ابن علیؑ کو
اس نے کہا یہ تو نہیں مقدور کسی کو
لاش پسر فاطمہؑ بے گور رہے گی
دے غسل وکفن یہ نہیں طاقت ہے کسی کو
الغرض وہ شقی وہ بھنے ہوئے دانے اور کچھ گرم پانی ان ستم رسیدہ  بیبیووں کو دے کر چلا گیا۔آب ودانہ پر جو سیدانیوں کی نگاہ پڑی۔ایک شور تلاطم برپا ہوا۔اہل حرم کو اپنے عزیزوں کی بھوک پیاس یاد آئی۔آخر جناب زینبؑ نے کچھ دانے بچوں کو کھلائے۔اورپانی سے اپنا فاقہ توڑا،اور بچے روتے روتے سو گئے۔لیکن سیدانیاں تمام رات تمام شب اپنے عزیزوں کی یاد میں گریہ وزاری کرتی رہیں۔الغرض وہ تمام شب اہل بیت نے بہزار مصیبت بسر کی۔ اور صبح ہوتے ہی لشکر یزید ملعون نے اپنے مقتولین دفن کیے۔لیکن شہداء کی لاشیں اسی طرح خاک وخون میں غلطان چھوڑی دیں۔ اور اہل بیت رسولؑ کو برہنہ پشت اونٹوں پر سوار کرکے سید سجادؑ کے ہاتھوں میں ان کی مہار دے دی۔ اور ان کو پیدل لے چلے۔ نظم
اونٹوں پہ جب کہ آل نبیؑ کو کیا سوار
اس ناتواں وزار کے ہاتھوں میں دی مہار
جب لے چلے اسیروں کو مثل گنہگار
چلائی بنت فاطمہؑ غمگین و سوگوار
یا شاہ دیں اسیری زینبؑ کو دیکھیے
سر ننگے سب ہیں آل پیمبرؑ کو دیکھیے
جب دختر علیؑ نے یہ رو کر کیا بیان
نیزے پہ چشم شاہؑ سے آنسو ہوئے رواں
پھر شمر لعیں کو پکاری یہ زینبؑ بصد فغاں
گر حکم دے تو بھائی سے مل لے یہ خستہ جاں
لاش امامؑ پاک پھر اک بار دیکھ لے
سبط نبیؑ کا آخری دیدار دیکھ لے
جھنجھلا کے اس شقی نے کہا یہ نہیں قبول
لاشے پہ رونے پیٹنے سے ہو گا کیا حصول
ہمراہ ہے سناں پہ سر دلبر رسولؑ
بس ہاتھ مل کے رہ گئی وہ دختر بتولؑ
چلائی پاس آپ کے کس طرح آئوں میں
بھیا تمہاری لاش کے قربان جائوں میں
مجبور ہے یہ بے کس و مظلوم وبے وطن
شرمندہ ہوں کہ دے نہ سکی آپ کو کفن
سوم بھی کر سکی نہ تمہارا یہ خستہ تن
چادر بھی اب تو سر پہ نہیںکیا کرے بہن
ممکن نہیں کفن بھی تم ایسے غریب ہو
غربت میں دیکھیں کب تمہیں تربت نصیب ہو
زینبؑ کو شاہ کے حلق بریدہ نے دی صدا
اللہ کی رضا سے ہے بندہ کا زور کیا
غم ہے مجھے کہ سر پہ تمہارے نہیں ردا
سبط نبیؑ تمہاری محبت کے ہو فدا
پردے کا دھیان ہے نہ تباہی کا دھیان ہے
اس دکھ میں ابن شیر الہیٰ کا دھیان ہے
بھینا ہمارے لاشہ بے سر کا غم نہ کھائو
بس اب نہ پیٹ پیٹ کر بھائی کا دل دکھائو
سر ننگے راہ حق میں سوئے شام وکوفہ جائو
چادر اگر نہیں ہے تو بالوں سے منہ چھپائو
 دکھ درد سہہ لو بخشش امت کے واسطے
تم تو ہوئی ہو قید شفاعت کے واسطے
یاں تو بھائی کے بہن سے ہوتے تھے یہ کلام
چلایا شمر ہوئے گا اب کیا یہیں مقام
سجاد سے کہا کہ زمام اشتروں کی تھام
 اب جلد ہوں رواں حرم شاہؑ سوئے شام
منزل بہت کڑی ہے اذیت ہے راہ میں
ٹھہرے نہ اب اسیر کوئی قتل گاہ میں
روتے ہوئے یہ سن کے چلے عابدؑ حزیں
مجرے کو جھک گئے طرف لاش شاہ دیں
زینب پکاری اے پسر ختم المرسلین
مجبور ہے اسیر بہن اور کچھ نہیں
ہے ہے یہ دھوپ اس جسد پاش پاش پر
رونا ملا نہ بہن کو بھائی کی لاش پر
لو جارہی ہوں اے شاہ ابرارؑ الوداع
اے سرو باغ احمد مختار الوداع
آل نبیؑ کے سید وسردار الوداع
چلائے شاہ کہ خواہر غمخوار الوداع
سونپا تمہیں حمایت شیر الہٰ میں
زینبؑ سکینہؑ جان سے ہشیار راہ میں
راہی ہوئی ادھر وہ ناشاد نوحہ گر
محتاج قبر رہ گئی حضرتؑ کی لاش پر
وہ ریگ گرم اور وہ صحرائے بے خطر
روتے تھے طائران ہوا شاہ کی لاش پر
بے شبہ ارض کرب وبلا خاک اڑاتی تھی
چاروں طرف سے رونے کی آواز آتی تھی
الغرض اشقیائے اہل بیت اطہار کو لے کر کوفہ کی جانب روانہ ہوئے،اور شہدائے راہ  خدا  کی   لاشیں بے گور وکفن جلتی زمین پر پڑی رہ گئیں۔
مل جائے اب وزیر کو محنت کی یہ جزا
بر لائیں اہل بیت نبیؑ دل کا مدعا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا

﷽ انتیسویں مجلس امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا  اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو واللہ ناامید کے دل کو امید ہو  اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت  دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی نظم پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے  اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں ہمس...

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...