Skip to main content

چوبیسویں مجلس مظلوم کربلا جناب امام حسین علیہ السلام کی شہادت

چوبیسویں مجلس
مظلوم کربلا جناب امام حسین علیہ السلام کی شہادت
رخصت ہے آج سب سے امام سعید کی
 روایت ہے کہ جس وقت حضرت آدم علےٰ نبینا وعلیہ السلام اس دنیائے ناپائیدار میں بھیجے گئے،تو حیات مستعار کے لیے غذا کی بھی  ضرور ت تھی۔ لہذا درگاہ رب العالمین سے ارشاد ہوا کہ آدم کھانا پکانے کا سامان بھی چا ہیے۔ تب بحکم رب جلیل حضرت جبرائیل نے جہنم پر موکل فرشتے سے آگ طلب کی۔اور ایک ذرہ کے برابر آگ لے کر چلنے کا رادہ کیا۔ اس وقت مالک نے کہا کہ اے جبرائیل اگر بجنسہ یہ آگ طبقہ زمیں پر جائے گی بیت
 کہسار بھی دریا بھی رہیں گے نہ کہیں کے
جل جاویں گے چودہ طبق افلاک وزمیں کے
 یہ سن کر حضرت جبرائیل نے اس آگ کو ستر نہروں میں جو بحکم پروردگار جاری تھیں،ستر ستر بار غوطہ دیا اور ٹھنڈا کیا۔الغرض جملہ چار ہزار نو سو مرتبہ غوطہ دے کر لائے، بیت
اور کوہ پہ وہ آگ رکھی روح امیںؑ نے
پگھلا وہ پہاڑ ایسا کہ جنبش کی زمیں نے
 الغرض اس آگ کی حدت سے پہاڑ کو تاب نہ رہی،پھر بحکم خدا وہ آگ جہنم میں اڑ کر چلی گئی۔اسی روز سے دنیا میں آگ استعمال ہونے لگی۔اللہ اللہ جہنم کی ایک ذرہ  کے برابرآگ چار ہزار نو سو مرتبہ نہروں میں غوطہ دے کر پہاڑوں پر رکھی گئی،اور اس کی حرارت سے ہر ایک پتھر میںآگ پیدا ہو گئی۔اور وہ اصل آگ بھی جہنم میں واپس چلی گئی۔ تو روز قیامت جب جہنم میں گنہگارڈ الے جائیں گے تو کیا حال ہو گا ان کے خاکی جسموں کا ہر ایک پیغمبرؑ اور نبیؑ نفسا نفسی پکارے گا۔ بیت
 فریاد کا موقع نہ محل داد رسی کا
حال اپنا ہو جب غیر ت پھر کون کسی کا
 الغرض جب شور الغیاث  اور فریاد کا ہر ایک صف انبیاؑ اور اوصیاؑ سے برپا ہو گا۔ اس وقت خدا وند عالم فرشتوں سے فرمائے گا۔ کہ اب میری رحمت بھی ہر ایک کو دکھا دو۔ زحمت سے پناہ دو۔فرشتے عرض کریں گے۔ کہ بار الہا ہم کس طرح اس آگ کو ٹھنڈا کریں۔ ندا آئوئے گی بیت
 وہ شیشے جو کہ طاق رحیمی پہ دھرے ہیں
جو مجلس شبیرؑ کے اشکوں سے بھرے ہیں
 اللہ کیا مرتبہ ہے اشک عزائے حسینؑ کا کہ خدا وند کریم فرماتا ہے کہ نظم
ممکن نہیں اس آگ سے کوئی مفر پائے
 ان شیشوں کا اک قطرہ چھڑک دو کہ یہ ہٹ جائے
چلائیں گے قدسی کہ ابھی لائے ابھی لائے
شبیرؑ کے قربان یہاں بھی وہی کام آئے
بزم شاہ مظلوم ؑ کی توقیر کے صدقے
 ربا ترے صدقے ترے شبیرؑ کے صدقے
لرزاں تھے پرو بال کے کہ دوزخ نے جلایا
پر اشک غم شاہ شہیداں نے بچایا
غفار نے کیا مژدہ جاں بخش سنایا
کچھ تیری نہ حکمت کا اثر ذہن میں آیا
آگے ہمیں حیرت تھی کہ کیسے ہیں یہ آنسو
اب آج آنکھ کھلی کہ ایسے ہیں یہ آنسو
 الغرض وہ شیشے لائے جائیں گے۔ ایک قطرہ ان میں سے لے کر آتش جہنم میں ڈالا جائے گا۔ تو اشک عزائے حسینؑ کی برکت سے دوزخ اس طرح گریزاں ہو گی بیت
جیسے کہ ہوا ہوئوئے  دھواں تند ہوا سے
خس موج سے دھوپ ابر سے،تپ خاک شفا سے
 اس وقت اہل محشر خوش ہو کر کہیں گے کہ نہ پانی برسا نہ ابر آیا۔ آگ کو کس نے ہٹایا،اس وقت منادی سرکار الہیٰ آواز دے گا کہ اے اہل محشر بیت
ہاں مومنین: اشک ہائے غم حسینؑ کی قدر ومنزلت آپ نے سنی اب اپنے آقا کے صبر وشکر کا حال سنیئے،سید ابن طاوس رحمتہ نے کتاب لہوف میں ابو جعفر طبری سے اور انہوں نے واقدی اور زرارہ بن صالح سے روایت کی ہے۔زرارہ کہتے ہیں کہ جب امام حسینؑ نے مدینہ طیبہ سے سفر عراق کا ارادہ کیا،روانگی کو تین روز باقی تھے۔ کہ ہم نے خدمت با برکت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا ابن رسول اللہ اہل کوفہ مکار اور دغا  پیشہ ہیں۔ بظاہر طاعت پر آمادہ اور باطن میں آمادہ بغاوت سنے گئے ہیں۔آپ قصد سفر نہ فرمائیں،کیونکہ ان سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یہ سن کر آں امام مظلومؑ نے انگلی  سے آسمان کی جانب اشارہ کیا۔اس وقت ہم نے دیکھا کہ بے حد وانتہا فرشتے زمین پر نازل ہوئے ہیں۔ کہ بجز پروردگار کے ان کا شمار کسی سے ممکن نہیں ہے۔اور ان فرشتوں نے عرض کی کہ اے حبیب خدا کے ن  چشم ہم ہمیشہ لڑائیوں میں لڑائیوں میں آپ کے جد بزرگوار جناب رسول خداؑ کے معین ومددگار رہے ہیں۔اور اب آپ کی مدد کو بھی حاضر ہیں۔اس وقت امام مظلومؑ نے ہم سے ارشاد فرمایا کہ اے واقدی اور زراہ اگر کوئی بندہ موت کے خوف سے قلعہ میں پوشیدہ ہو جائے، تب بھی نہیں بچ سکتا۔ اشقیائے امت پر فتح حاصل کرنا ہی مقصود ہوتا  ، تو فرشتوں کی یہ جماعت میری مدد کے لیے کافی تھی۔مگر مجھے تو دین کی بقا منظور ہے۔ظاہری فتح وظفر کی تمنا نہیں،میں خوب جانتا  ہوں کہ جہاں میرے عوان وانصار شہید ہو ں گے۔ اور بجز میرے فرزند زین العابدینؑ کے کوئی زندہ نہ بچے گا۔ پھر  ٓپ نے اپنے فرشتوں سے فرمایا کہ جب  وہ وقت آئے گا،تو دیکھا جائے گا۔اور اس گروہ ملائکہ کو رخصت کیا۔ نیز کتاب ارشاد میں  شیخ مفید علیہ الرحمتہ نے ارشاد  کی سند سے جناب امام جعفر صادقؑ علیہ السلامؑ سے یہ روایت کی ہے کہ فوج ملائک کے بعد فوج  کثیر جنات کی حاضر ہوئی اور گزارش کی کہ یا مولا کہ ہم سب غلام او فرمانبردار ہیں،اور آپؑ کے پدر بزرگوار علیؑ ابن ابی طالب کے شیعہ ہیں۔ آپ مجبور سفر کوفہ نہ فرمائیں اگر حکم ہو تو یہ غلام آپؑ کے دشمنوں کو قتل کر آئیں۔اور آپ یہاں سے حرکت نہ فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم سب کو خداوند کریم جزائے خیر عطا فرمائے۔ کہ میری نصرت پر آمادہ ہو۔ لیکن اگر مشیت ایزدی میں یہی گزارا ہے، کہ میں اور میرے اعزا وانصار شہید ہوں،تو میں راضی بر ضا ہوں۔یقینا" میں اپنے مدفن پر جسے کربلا کہتے ہیں، پہنچوں گا،اس وقت تم رخصت ہو اور دسویں محرم کو اس وقت آنا، جب گروہ اشقیا مجھے گھیر لیں۔ اس وقت جو میرا معبود چاہے گا بجا لائوں گا۔الٖغرض مدینہ منورہ سے آپ نے عراق کی جانب کوچ فرمایا۔اور داخل کعبہ ہوئے اور وہاں بھی امان نہ پائی اور وہاں سے بھی کوچ فرمایا۔
کعبہ سے عین عرفہ کو مولا جدا ہوئے
غرہ کے روز داخل کرب وبلا ہوئے
آخر عاشور کو لڑائی شروع ہوئی، نظم
 تھی ٹھیک دوپہر کہ جو لشکر ہوا تمام
تاوقت ظہر فاطمہؑ کا گھر ہوا تمام
برچھی لگی کلیجے پہ اکبرؑ ہوا تمام
 ہاتھوں پہ شاہ کے علیؑ اصغر ہوا تمام
 تنہا جو پایا فاطمہؑ کے نور عین کو
 چاروں طرف سے گھیر لیا بس حسینؑ کو
 جس وقت امام مظلومؑ تنہا رہ گئے تو آخری حجت تمام کرنے کے لیے فوج اشقیا کے سامنے تشریف لائے اور فرمایا نظم
 پیاسے پہ جور وظلم بھلا کیا ضرور ہے
ثابت تو پہلے کر لو میرا کیا قصور ہے
تم نے مرے رفیقوں کا خون بے سبب کیا
بے وجہ تم نے قتل کیے مرے اقربا
اصغرؑ ہوا نشانہ پیکان بے خطا
جز شکر رب زباں سے میں نے کچھ کہا
کیا تم کو ہاتھ آئے گا پیاسے کے قتل سے
باز آئو اب نبیؑ کے نواسے کے قتل سے
کیا قہر ہے لعینوں نے ہنس ہنس کے یہ کہا
مجبور ہو کے کرنے لگے عذر والتجا
پائی بغاوت عمر سعدلعیں کی سزا
آخر بچانا جان کا دشوار ہو گیا
اب بھی اگر یزید لعیں کی بیعت قبول ہو
تم پھر وہی حسینؑ ہو سبط رسولؑ ہو
یہ سن کے رنگ چہرہ انور بدل گیا
 کف آیا لب پہ غصے سے تن کانپنے لگا
فرمایا پھر تو منہ سے نکالو یہ کیا کہا
ہم طاعت یزید لعیں کریں شان کبریا
گردن مروڑی ہو جس نے دیو مرید کی
قدرت خدا کی وہ کرے بیعت یزیدلعین کی
 ہم ہیں امام حامی اسلام ودیں پناہ
 سکہ ہے اپنی ضرب کا ماہی  سے تا  بہ ماہ
کب مرتبہ میں ہم سے زیادہ یزید لعین ہے
آیا ہمارے گھر میں کلام مجید ہے
سوچو تو دل میں کیا ہے یزیدلعین زبوں سیر
 بد قول وبد طریقہ وبد ذات وبد گہر
مکار وپر فریب خطا کار وخیرہ سر
ایسے کا زیر دست ہو سلطان بحر وبر
 افسوس تم کو فکر کچھ انجام کی نہیں
 مجھ سے زباں درازیاں یہ کام کی نہیں
اس شیر بیشہ اسلام کا یہ ارشاد سن کر اشقیا سر نگوں ہو گے،اور آپ پشت فرس پر جھومنے لگے کہ نظم
 ناگاہ آمد آمد زعفر ہوئی بپا
تنہا تھے آپؑ فوج تھی باقی نہ اقربا
ناگہ اڑی وہ گرد کہ تھرائے اشقیا
اس گرد میں سے ایک سوار آیا بر ملا
پاس ادب سے چھوڑ دیا خوش خرام کو
مجرا کیا حسین علیہ السلام کو
گو جانتے تھے زعفر جن کو شاہ انام
 پر مسکرا کے پوچھا تو ہے کون کیا ہے نام
زعفر پکارا آپؑ کے قربان یا امامؑ
زعفر ہے میرا نام میں حیدرؑ کا ہوں غلام
خادم ہوں آپ کا مجھے ممتاز کیجیے
اذن جہاد دے کے سرفراز کیجیے
شہہؑ نے کہا کہ بھائی جو ہونا تھا ہو چکا
اب زندگی بخیر کہ درپیش ہے قضا
پھر جا تو اپنے گھر کو یہی ہے مری رضا
دیوے گا اجر تجھ کو شہادت کا کبریا
غم میں ہمارے نالہ وفریاد کیجیو
 جب پانی  پیجو تو  ہمیں یاد کیجیو
 الغرض بادشا انس وجان کے حکم سے وہ سلطان جنات رخصت ہوا۔ راوی کہتا ہے کہ خیمہ سے حضرت زینبؑ یہ گفتگو سن رہی تھیں،بےتاب ہو کر آواز دی کہ بھیا آپ زعفر جن کو کیوں واپس کیے دیتے ہیں۔آپؑ نے تو مدینہ سے کوچ کے وقت اس سے کربلا میں آنے کا وعدہ لیا تھا۔اور بیر الام کی جنگ میں پدر بزگوار نے بھی جب اس کے باپ ک کومسلمان کیا تھا،تو اس سے کربلا میں آپ کی مدد کا وعدہ لیا تھا۔ امام اپنی ہمشیر کی بے تابی دیکھ کر ان کو دلاسہ دینے کے لیے خیمے میں تشریف لائے ،بیت
 اس وقت چھاتی دیکھنے والوں کی پھٹ گئی
باہیں گلے میں ڈال کے زینب لپٹ گئی
 امام مظلومؑ نے جناب زینبؑ کو تسلی وتشفی دے کر فرمایا کہ اے بہن اب مجھ کو کسی امداد کی کیا حاجت ہے۔اب زندہ رہ کر کیا کروں گا،جبکہ اکبرؑ وعباس  ؑ حتیٰ کہ علیؑ اصغر شیر خوار تک قتل ہو گیا۔ بجز سر کٹانے کے کوئی چارہ نہیں۔اے بہن صبر کرو اپنے مظلومؑ کو رخصت کرو۔
الوداع اخیر
 ہاں حاضران بزم عزائے  شاہ ہدا
ہاں سامعان کیفیت شاہ ؑ کربلا
ہاں باکیان حال غریبی بے نوا
ہاں ناطران سورۃ والشمس والضحیٰ
لیتا ہوں ہاتھ میں ورق آفتاب کو
لکھتا ہوں رخصت شہہ گردوں جناب کو
 واحسرتا یہ رخصت وقت اخیر ہے
 باقی کوئی جواں ہے شاہ کا نہ پیر ہے
نرغہ میں اہل ظلم کے کل کا امیر ہے
دعوت میں شاہ کے خنجر وتلوار وتیر ہے
 قبے خیام شاہ کے اب تھر تھراتے ہیں
زینبؑ پچھاڑیں کھاتی ہے شبیرؑ جاتے ہیں
سیدانیوں نے خیمے میں کھولے ہیں سر کے بال
روتے ہیں سب کو دیکھ کے اطفال خور وسال
 بالی سکینہ کہتی ہے باہیں گلے میں ڈال
 قربان جائوں میری طرف تو کرو خیال
ثابت ہے کیا قصور جو منہ موڑتے ہو تم
 اس چھ برس کے سن میں مجھے چھوڑتے  ہو تم
گھیرے ہوئے ہیں شاہ کو اہل حرم تمام
 آئی نظر نہ بانوئے بےکس جو تشنہ کام
جویا ہوئے چاروں طرف کو شاہ انام
زینبؑ پکاری ڈھونڈتے ہو کس کو یا امامؑ
 فرمایا شاہ نے بانوئے بے کس کدھر گئیں
کیا فرقت شبیہ پیمبر میں مر گئیں
 اس وقت بصد اضطراب حضرت زینبؑ نے فضہ سے خطاب کیا کہ اے فضہ بھابھی کو ڈھونڈ لائو۔پس بفرمان جناب زینبؑ کے فضہ تلاش کرتی کرتی  قریب جناب بانو پہنچیں۔مومنین کس حال میں جناب بانو تھیں، فضہ نے آپ کو دیکھ کر سر پیٹ لیا۔کیونکہ اس وقت حضرت بانو کا یہ حال مشاہدہ کیا، بیت
 رنڈاسالہ پہنے پاس ہے کبریٰ کھڑی ہوئی
جھولے پہ تھی صغیر کے بانو پڑی ہوئی
نظم
فضہ قدم پکڑ کے پکاری دہائی ہے
بانو اٹھو وداع شاہ کربلائی ہے
اب گھر کی اہل بیت کے دم میں صفائی ہے
 بی بی کی میری روح بھی ملنے کو آئی ہے
رانڈیں پچھاڑیں کھاتی ہیں ماتم کا جوش ہے
 باقر کو ہے نہ ہوش نہ عابد کو ہوش ہے
پہنچی صدائے فضہ جو بانو کے گوش تک
تھی گو کہ غش میں چونک پڑی کھل گئی پلک
یا فاطمہؑ جو کہہ کے اٹھی بانو یک بیک
لرزا ہوا زمین کو تھرا گئے فلک
جس دم قدم بڑھایا تو محشر کا ساتھ تھا
فضہ پہ ایک دوسرا کبریٰ پہ ہاتھ تھا
 تھی کس حشم سے آمد بانوئے خستہ جاں
کبریٰ وفضہ شانوں کو پکڑے بصد فغاں
پہلو میں تھی بہو کے ادھر فاطمہ ؑ رواں
 اور اس طرف کو مریم وحوا تھیں نوحہ خواں
غل تھا حیا نہیں فلک نیل فام کو
جاتی ہے مہر بخشنے بانو امام ؑ کو
پس جس  وقت اس حال سے بانوئے حزین قریب سلطان مومنین پہنچیں تو ملاحظہ فرمایا کہ سب مخدارات حرم گرد شاہ امم کھڑی ہیں۔آپ نے آواز دی کہ اے والی میرے  کیا کام ہے جو اس  کنیزناچیز کو یاد فرمایا ہے۔ اس وقت امام مظلومؑ نے ارشاد فرمایا کہ رخصت ہوتا ہوں،اور یہ رخصت میری آخری ہے۔اب پھر کر خیمہ میں نہ آئوں گا۔تمہارے اکبرؑ واصغرؑ کے پاس جائوں گا۔ تم شاہزادی عجم ہو اگر اس وقت میں مجھ کو مہر بخش دو،تو بعید از کرم نہیں۔امت کا کام ہو، تمہارا نام ہو، یہ سن کر حضرت بانو نے سر پیٹ لیا اور عرض کہ اے والی مجھ کو آپؑ کے فرمان سے کبھی انکار نہیں ہوا۔امت پہ جب اکبرؑ واصغر کو فدا کر دیا تو یہ مہر کیا چیز ہے نظم
یہ ذکر تھا شبیر پکارے جو الوداع
 کبریٰ سکینہ بانوئے دلگیر الوداع
 فضہ رقیہ زینبؑ دلگیر الوداع
اب لوٹنے کو آئیں گے بے پیر الوداع
امید اب نہیں ہے جو پھر کرکے آئیں ہم
عابد سے کہہ دو ہوش میں آئو تو جائیں ہم
سجادؑ کے سرہانے گئیں بیبیاں تمام
دیکھا پڑا ہے غش میں وہ نو بادہ امامؑ
 بانو یہ سر کو پیٹ کے کرنےل  لگیں کلام
بیٹا اٹھو میں لٹتی ہوں رن کو چلے امامؑ
محشر دکھائی دیتا ہے نزدیک ودور سے
بابا تمہارے جاتے ہیں مل لو حضور سے
پہنچی جو غش میں کان میں عابد کے یہ صدا
وہ آہ سرد کھینچی کہ عرش بریں ہلا
اٹھے عصا کو تھام کے جلدی بصد بکا
عمامہ سر سے پھینک دیا اور یہ کہا
دردا جوان ہو کے نہ سر کو کٹائیں ہم
بابا تو جائیں مرنے کو اور مر نہ جائیں ہم
یہ کہہ کے لڑکھڑاتے ہوئے بے خبر چلے
مطلق نہ ہوش تھا کہ کہاں تھے کدھر چلے
 شانوں کو تھامتے ہوئے خیر البشر چلے
جنات ادھر قدسی ادھر نوحہ گر چلے
دیکھا یہ شاہ نے دور سے سجاد آتے ہیں
پر ضعف کے سبب سے قدم ڈگمگاتے ہیں
آئے قریب شاہؑ کے جو سجادؑ نیک نام
فرمایا السلام علیک ایہا الامامؑ
شاہؑ نے دیا جواب سلام اور یہ پیام
اسرار علم غیب مبارک تمہیں تمام
تم ہو امام وقتؑ یتیموں کو پالنا
ہم سر کٹانے جاتے ہیں تم گھر سنبھالنا
پھر رو کے بولے آئو گلے سے لگو ذرا
باہیں گلے میں ڈال کے بیٹا لپٹ گیا
اس وقت ایک محشر تازہ بپا ہوا
 بیوائیں گرد بیچ وہ دونوں مقتدا
 غل تھا کہ آسمان وزمین آج ملتے ہیں
فرقت نصیب یوسفؑ ویعقوبؑ ملتے ہیں
ہاں شیعو پیٹو سر کہ قیامت کا وقت ہے
 عابدؑ سے اب حسینؑ کی رخصت کا وقت ہے
رولو عزیز ودوستوں رقت کا وقت ہے
 کیا دم کا اعتبار یہ فرصت کا وقت ہے
کہرام ہے امام کے گھر میں پڑا ہوا
ڈیوڑھی پہ ذوالجناح ہے شاہؑ کا کھڑا ہوا
 الغرض امام مظلومؑ اہلبیت اطہار سے رخصت آخر حاصل کرکے پھر مقابل قوم جفا کار ہوئے۔ اور علیؑ مرتضےٰ کی ذوالفقار کھینچ کر سینکڑوں اشقیا کو فی النار کیا۔یہاں تک کہ اشقیا خدا ورسولؑ کی دہائی دینے لگے۔اسی اثنا میں نظم
آئی صدا خالق غفار واہ واہ
اے نور عین احمدؑ مختار واہ واہ
اے صدمہ وبلا کے گرفتار واہ واہ
 کہتے ہیں اس کو ضربت تلوار واہ واہ
لیکن بہت نہ تیغ کے جوہر دکھایئے
 اب امتحان صبر کا ہے سر کٹایئے
مظلومیت بھی ہم کو دکھائو گے یا نہیں
نیزوں کے وار جسم پہ کھائو گے یا نہیں
دوزخ سے عاصیوں کو بچائو گے یا نہیں
سینہ پہ شمر لعیں کو بٹھائو گے یا نہیں
دربار میں مرے یہ رسائی کا وقت ہے
 عاشق میرے یہ وعدہ وفائی کا وقت ہے
طفلی میں مہر کی ہے شہادت کے واسطے
اب سر کٹائو بخشش امت کے وا سطے
صدمے اٹھائو شیعوں کی راحت کے واسطے
جنت ترے لیے ہے تو جنت کے واسطے
مختار تم ہو کوثر و خلد و جحیم کے
مالک ہو کائنات خدائے کریم کے
 مولا نے جس وقت خدائے کون ومکاں کا یہ حکم سنا،فورا" سر جھکا لیا،اور تیغ شرر فشاں کو نیام میں رکھ کر عمامہ سر سے اتار کر ہاتھوں پر رکھا اور بارگاہ احدیت میں عرض کی، بیت
 جو تیرا حکم ہو وہ بجا لائے گا حسینؑ
 سر دے کے تیری راہ میں مر جائے گا حسینؑ
 اے معبود میرے تیرا بندہ راضی بر رضا ہے۔ بس شمر لعیں کا انتظار ہے۔ بیت
 شمشیر وتیر کھانے کو موجود ہے حسینؑ
 تو خوش ہو دکھ اٹھانے کو موجود ہے حسینؑ
نظم
 سینہ پہ بیٹھے شمرلعیں  ستمگر میں شاد ہوں
پھر جائے حلق خشک پہ خنجر میں شاد ہوں
بلوہ میں سر برہنہ ہو خواہر میں شاد ہوں
لٹ جائے تیری راہ میں سب گھر میں شاد ہوں
راضی ہوں رخ سکینہؑ سیلی سے لال ہو
نیزہ پہ سر میرا ہو بدن پائمال ہو
ناگاہ ہر طرف سے گھر آئی سپاہ آہ
 ابر ستم میں گھر گیا زہراؑ کا ماہ آہ
حیرت ہے کیوں نہ گر پڑا عرش  الہٰ آہ
بوچھار کردی تیروں کی حضرت پہ آہ آہ
یوں تو بہت سے زخم ہر اک عضو تن پہ تھے
نوسو خدنگ ظلم کے روزن بدن پہ تھے
دوسو تھے زخم تیروں کے سینہ سے تا کمر
اکاون آہ زخم تھے تیغوں کے سر بسر
اب شرح زخم سنگ جفا سخت ہے مگر
وہ حال من وعن نہیں آتا زبان پر
زخموں سے چور چور شاہ نامدار تھے
لکھا ہے زخم جسم پہ سب دس ہزار تھے
یہ نکتہ بس ہے مومنو کے شور وشین کو
تیغوں سے چور کرکے شاہ مشرقین کو
پتھر لگائے سنگ دلوںنے حسینؑ کو
آخر غش آیا فاطمہؑ کے نور عین کو
لرزہ ہوا زمیں کو فلک کانپنے لگا
گھوڑے پہ شاہ جن و ملک ہانپنے لگا
 اب کس زبان سے عرض کروں مومنین: جس وقت آقا زخموں سے چور چور ہو گئے،اور طاقت ذوالجناح پر بیٹھنے کی نہ رہی،کوئی نہ تھا کہ امام مظلومؑ کو  ذوالجناح سے سہارا دے کر اتارے۔ نظم
گھوڑے کو حال شاہ جو دیگر گوں نظر پڑا
گھٹنے زمیں پہ ٹیک کے بیٹھا وہ باوفا
آنے لگا جو غش تو شہنشاہؑ کربلا
آہستہ اترے گھوڑے سے رونے کی ہے یہ جا
آئی ندا کہ گھوڑے سے قران گر پڑا
 رکن رکین کعبہ ایمان گر پڑا
گیسوئے مشک فام کیے رخ پہ شاہ نے واہ
ہاتھوں پہ رکھا سبز عمامہ لہو بھرا
 اور ہاتھ اٹھا کے جانب افلاک یہ کہا
 کرتا ہوں آج وعدہ طفلی کو میں ادا
خواہش ہے تخت کی نہ مجھے تاج کی ہوس
 بس اب سنان پہ سر کو ہے معراج کی ہوس
ہوں تیری بارگاہ میں معبود شرمسار
حاضر ہے میرا سر پئے ہدیہ کردگار
 فضل وکرم سے ہوں تیرے یا رب امیدوار
 دوزخ سے کردے امت عاصی کو رستگار
مقبول التماس ہو ابن بتولؑ کی
یا ذوالجلال بخش دے امت رسولؑ کی
زینبؑ کا سر کھلے تو کھلے کچھ نہیں الم
پر ہو کسی طرح کا نہ امت کو درد وغم
 سو بار ہو گلا جو تہہ خنجر ستم
بھولوں نہ یاد امت احمدؑ میں ایک دم
گھر میرا گر لٹے تو لٹے شاد یہ رہیں
میں ہوں تباہ خلق میں آباد یہ رہیں
آئی ندائے غیب کہ اے فدیہ خدا
کیا کام تونے آج کیا واہ مرحبا
راضی ہے اے حسینؑ بہت تجھ سے کبریا
طے کی عجب شان سے تونے راہ رضا
ثابت قدم رہا تو ہر اک امتحان میں
تجھ سا نہ ہوگا صابر وشاکر جہان میں
ابھی عابد اور معبود میں یہ کلام ہو رہے تھے کہ نظم
ناگاہ فوج سے عمر سعد نے کہا
ہاں کاٹ لو حسینؑ کا سر دیکھتے ہو کیا
یہ سن کے اپنی فوج سے شمر لعیں بڑھا
اب کیا کہوں جو ظلم ہوا واہ مصیبتا
موزہ تو سینہ شاہؑ مظلوم پہ رکھا
خنجر کمر سے کھینچ کے حلقوم پہ رکھا
 امام نے غش سے آنکھیں کھول دیں، اور خشک زبان دکھا کر فرمایا،اے شمر لعیں اگر مجھے ذبح ہی کرنا چاہتا ہے۔ تو پہلے تھوڑا پانی پلا دے۔ اس ملعون نے جواب دیا کہ اے حسینؑاگر تمام روئے زمین پانی ہو جائے، تو ایک قطرہ تم کو نہ دوں۔ اسی اثنا میں امام مظلومؑ نے دیکھا کہ زینبؑ سر پیٹتی چلی آتی ہے۔ اور کہہ رہی ہیں،نظم
 بھیا حسینؑ میری غریبی پہ رحم کھائو
کس جا ہو کس طرف ہو ہمیں بھی وہاں بلائو
اس غم زدہ بہن کو بھی ہمراہ لیتے جائو
دروازے پہ کھڑے ہوئے سادات روتے ہیں
آواز دی حسینؑ نے ہم ذبح ہوتے ہیں
سینہ پہ شمر لعیں بیٹھا ہے کیوں کر صدا سنائیں
خنجر ہمارے حلق پہ ہے کس طرح بلائیں
 اس دم سکینہؑ جان کو اپنی کہاں سے لائیں
حسرت ہے ایک مرتبہ اس کو گلے لگائیں
پھر میرے بعد کون ترس اس پہ کھائے گا
شمر لعیں اس کو طمانچے لگائے گا
لو بھینا اب حسینؑ کی رخصت ہے الوداع
 شبیرؑ کا سفر سوئے جنت ہے الوداع
 وقت دعائے بخشش امت ہے الوداع
 اب تم ہو اور ہر اک مصیبت ہے الوداع
ہمشیر جائو بہر خدا خیمہ گاہ میں
شبیرؑ ذبح ہوتا ہے خالق کی راہ میں
ناگاہ پھیری شمرلعیں نے گردن پہ تیغ آہ
کٹنے لگیں گلے کی رگیں واہ محمداؑ
 تب سوئے خیمہ دیکھ کے با حالت تباہ
بولے تصور حرم محترم میں شاہ
لو اے سکینہؑ کوچ ہے دنیا سے باپ کا
 اے عابد مریض خدا حافظ آپؑ کا
 اسی عرصہ میں جناب زینبؑ امامؑ کے قریب پہنچ گئیں۔کیوں کر عرض کروں کہ حضرت زینبؑ نے بھائی کو کس حال میں دیکھا بیت
 بھیا حسینؑ کہہ کے گلے سے لپٹ گئی
 واں بوسہ گاہ احمدؑ مختار کٹ گئی
نظم
 زینب کا آہ خاک اڑانا کہوںمیں کیا
مقتل سے پیٹتے ہوئے جانک کہوںمیں کیا
حضرت کے سر کا اشک بہانا کہوں میں کیا
ڈیوڑھی پہ ذوالجناح کا آنا کہوں میں کیا
زیں سے لہو ٹپکتا تھا تازہ حسینؑ کا
 اک حشر تھا کہ یہ ہے جنازہ حسینؑ کا
 پس جس وقت کہ وہ گھوڑا در خیمہ اطہر پر آیا،تمام اہل بیت میں اک حشر برپا تھا،اور نظم
 غل تھا کہ اے فرس شاہ والا کو کیا ہوا
ہے ہے امامؑ بے کس وتنہا کو کیا ہوا
چلاتی تھی سکینہؑ کہ بابا کو کیا ہوا
اس بین سے جگر پہ جو صدمہ گزر گیا
گھوڑے نے سر زمین پہ پٹکا کہ مر گیا
یہ التجا وزیر کی ہے آپؑ سے امام
ذاکر ہوں زائروں میںبھی شامل ہو میرا نام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا

﷽ انتیسویں مجلس امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا  اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو واللہ ناامید کے دل کو امید ہو  اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت  دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی نظم پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے  اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں ہمس...

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...