چوبیسویں مجلس
مظلوم کربلا جناب امام حسین علیہ السلام کی شہادت
رخصت ہے آج سب سے امام سعید کی
روایت ہے کہ جس وقت حضرت آدم علےٰ نبینا وعلیہ السلام اس دنیائے ناپائیدار میں بھیجے گئے،تو حیات مستعار کے لیے غذا کی بھی ضرور ت تھی۔ لہذا درگاہ رب العالمین سے ارشاد ہوا کہ آدم کھانا پکانے کا سامان بھی چا ہیے۔ تب بحکم رب جلیل حضرت جبرائیل نے جہنم پر موکل فرشتے سے آگ طلب کی۔اور ایک ذرہ کے برابر آگ لے کر چلنے کا رادہ کیا۔ اس وقت مالک نے کہا کہ اے جبرائیل اگر بجنسہ یہ آگ طبقہ زمیں پر جائے گی بیت
کہسار بھی دریا بھی رہیں گے نہ کہیں کے
جل جاویں گے چودہ طبق افلاک وزمیں کے
یہ سن کر حضرت جبرائیل نے اس آگ کو ستر نہروں میں جو بحکم پروردگار جاری تھیں،ستر ستر بار غوطہ دیا اور ٹھنڈا کیا۔الغرض جملہ چار ہزار نو سو مرتبہ غوطہ دے کر لائے، بیت
اور کوہ پہ وہ آگ رکھی روح امیںؑ نے
پگھلا وہ پہاڑ ایسا کہ جنبش کی زمیں نے
الغرض اس آگ کی حدت سے پہاڑ کو تاب نہ رہی،پھر بحکم خدا وہ آگ جہنم میں اڑ کر چلی گئی۔اسی روز سے دنیا میں آگ استعمال ہونے لگی۔اللہ اللہ جہنم کی ایک ذرہ کے برابرآگ چار ہزار نو سو مرتبہ نہروں میں غوطہ دے کر پہاڑوں پر رکھی گئی،اور اس کی حرارت سے ہر ایک پتھر میںآگ پیدا ہو گئی۔اور وہ اصل آگ بھی جہنم میں واپس چلی گئی۔ تو روز قیامت جب جہنم میں گنہگارڈ الے جائیں گے تو کیا حال ہو گا ان کے خاکی جسموں کا ہر ایک پیغمبرؑ اور نبیؑ نفسا نفسی پکارے گا۔ بیت
فریاد کا موقع نہ محل داد رسی کا
حال اپنا ہو جب غیر ت پھر کون کسی کا
الغرض جب شور الغیاث اور فریاد کا ہر ایک صف انبیاؑ اور اوصیاؑ سے برپا ہو گا۔ اس وقت خدا وند عالم فرشتوں سے فرمائے گا۔ کہ اب میری رحمت بھی ہر ایک کو دکھا دو۔ زحمت سے پناہ دو۔فرشتے عرض کریں گے۔ کہ بار الہا ہم کس طرح اس آگ کو ٹھنڈا کریں۔ ندا آئوئے گی بیت
وہ شیشے جو کہ طاق رحیمی پہ دھرے ہیں
جو مجلس شبیرؑ کے اشکوں سے بھرے ہیں
اللہ کیا مرتبہ ہے اشک عزائے حسینؑ کا کہ خدا وند کریم فرماتا ہے کہ نظم
ممکن نہیں اس آگ سے کوئی مفر پائے
ان شیشوں کا اک قطرہ چھڑک دو کہ یہ ہٹ جائے
چلائیں گے قدسی کہ ابھی لائے ابھی لائے
شبیرؑ کے قربان یہاں بھی وہی کام آئے
بزم شاہ مظلوم ؑ کی توقیر کے صدقے
ربا ترے صدقے ترے شبیرؑ کے صدقے
لرزاں تھے پرو بال کے کہ دوزخ نے جلایا
پر اشک غم شاہ شہیداں نے بچایا
غفار نے کیا مژدہ جاں بخش سنایا
کچھ تیری نہ حکمت کا اثر ذہن میں آیا
آگے ہمیں حیرت تھی کہ کیسے ہیں یہ آنسو
اب آج آنکھ کھلی کہ ایسے ہیں یہ آنسو
الغرض وہ شیشے لائے جائیں گے۔ ایک قطرہ ان میں سے لے کر آتش جہنم میں ڈالا جائے گا۔ تو اشک عزائے حسینؑ کی برکت سے دوزخ اس طرح گریزاں ہو گی بیت
جیسے کہ ہوا ہوئوئے دھواں تند ہوا سے
خس موج سے دھوپ ابر سے،تپ خاک شفا سے
اس وقت اہل محشر خوش ہو کر کہیں گے کہ نہ پانی برسا نہ ابر آیا۔ آگ کو کس نے ہٹایا،اس وقت منادی سرکار الہیٰ آواز دے گا کہ اے اہل محشر بیت
ہاں مومنین: اشک ہائے غم حسینؑ کی قدر ومنزلت آپ نے سنی اب اپنے آقا کے صبر وشکر کا حال سنیئے،سید ابن طاوس رحمتہ نے کتاب لہوف میں ابو جعفر طبری سے اور انہوں نے واقدی اور زرارہ بن صالح سے روایت کی ہے۔زرارہ کہتے ہیں کہ جب امام حسینؑ نے مدینہ طیبہ سے سفر عراق کا ارادہ کیا،روانگی کو تین روز باقی تھے۔ کہ ہم نے خدمت با برکت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا ابن رسول اللہ اہل کوفہ مکار اور دغا پیشہ ہیں۔ بظاہر طاعت پر آمادہ اور باطن میں آمادہ بغاوت سنے گئے ہیں۔آپ قصد سفر نہ فرمائیں،کیونکہ ان سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یہ سن کر آں امام مظلومؑ نے انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا۔اس وقت ہم نے دیکھا کہ بے حد وانتہا فرشتے زمین پر نازل ہوئے ہیں۔ کہ بجز پروردگار کے ان کا شمار کسی سے ممکن نہیں ہے۔اور ان فرشتوں نے عرض کی کہ اے حبیب خدا کے ن چشم ہم ہمیشہ لڑائیوں میں لڑائیوں میں آپ کے جد بزرگوار جناب رسول خداؑ کے معین ومددگار رہے ہیں۔اور اب آپ کی مدد کو بھی حاضر ہیں۔اس وقت امام مظلومؑ نے ہم سے ارشاد فرمایا کہ اے واقدی اور زراہ اگر کوئی بندہ موت کے خوف سے قلعہ میں پوشیدہ ہو جائے، تب بھی نہیں بچ سکتا۔ اشقیائے امت پر فتح حاصل کرنا ہی مقصود ہوتا ، تو فرشتوں کی یہ جماعت میری مدد کے لیے کافی تھی۔مگر مجھے تو دین کی بقا منظور ہے۔ظاہری فتح وظفر کی تمنا نہیں،میں خوب جانتا ہوں کہ جہاں میرے عوان وانصار شہید ہو ں گے۔ اور بجز میرے فرزند زین العابدینؑ کے کوئی زندہ نہ بچے گا۔ پھر ٓپ نے اپنے فرشتوں سے فرمایا کہ جب وہ وقت آئے گا،تو دیکھا جائے گا۔اور اس گروہ ملائکہ کو رخصت کیا۔ نیز کتاب ارشاد میں شیخ مفید علیہ الرحمتہ نے ارشاد کی سند سے جناب امام جعفر صادقؑ علیہ السلامؑ سے یہ روایت کی ہے کہ فوج ملائک کے بعد فوج کثیر جنات کی حاضر ہوئی اور گزارش کی کہ یا مولا کہ ہم سب غلام او فرمانبردار ہیں،اور آپؑ کے پدر بزرگوار علیؑ ابن ابی طالب کے شیعہ ہیں۔ آپ مجبور سفر کوفہ نہ فرمائیں اگر حکم ہو تو یہ غلام آپؑ کے دشمنوں کو قتل کر آئیں۔اور آپ یہاں سے حرکت نہ فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم سب کو خداوند کریم جزائے خیر عطا فرمائے۔ کہ میری نصرت پر آمادہ ہو۔ لیکن اگر مشیت ایزدی میں یہی گزارا ہے، کہ میں اور میرے اعزا وانصار شہید ہوں،تو میں راضی بر ضا ہوں۔یقینا" میں اپنے مدفن پر جسے کربلا کہتے ہیں، پہنچوں گا،اس وقت تم رخصت ہو اور دسویں محرم کو اس وقت آنا، جب گروہ اشقیا مجھے گھیر لیں۔ اس وقت جو میرا معبود چاہے گا بجا لائوں گا۔الٖغرض مدینہ منورہ سے آپ نے عراق کی جانب کوچ فرمایا۔اور داخل کعبہ ہوئے اور وہاں بھی امان نہ پائی اور وہاں سے بھی کوچ فرمایا۔
کعبہ سے عین عرفہ کو مولا جدا ہوئے
غرہ کے روز داخل کرب وبلا ہوئے
آخر عاشور کو لڑائی شروع ہوئی، نظم
تھی ٹھیک دوپہر کہ جو لشکر ہوا تمام
تاوقت ظہر فاطمہؑ کا گھر ہوا تمام
برچھی لگی کلیجے پہ اکبرؑ ہوا تمام
ہاتھوں پہ شاہ کے علیؑ اصغر ہوا تمام
تنہا جو پایا فاطمہؑ کے نور عین کو
چاروں طرف سے گھیر لیا بس حسینؑ کو
جس وقت امام مظلومؑ تنہا رہ گئے تو آخری حجت تمام کرنے کے لیے فوج اشقیا کے سامنے تشریف لائے اور فرمایا نظم
پیاسے پہ جور وظلم بھلا کیا ضرور ہے
ثابت تو پہلے کر لو میرا کیا قصور ہے
تم نے مرے رفیقوں کا خون بے سبب کیا
بے وجہ تم نے قتل کیے مرے اقربا
اصغرؑ ہوا نشانہ پیکان بے خطا
جز شکر رب زباں سے میں نے کچھ کہا
کیا تم کو ہاتھ آئے گا پیاسے کے قتل سے
باز آئو اب نبیؑ کے نواسے کے قتل سے
کیا قہر ہے لعینوں نے ہنس ہنس کے یہ کہا
مجبور ہو کے کرنے لگے عذر والتجا
پائی بغاوت عمر سعدلعیں کی سزا
آخر بچانا جان کا دشوار ہو گیا
اب بھی اگر یزید لعیں کی بیعت قبول ہو
تم پھر وہی حسینؑ ہو سبط رسولؑ ہو
یہ سن کے رنگ چہرہ انور بدل گیا
کف آیا لب پہ غصے سے تن کانپنے لگا
فرمایا پھر تو منہ سے نکالو یہ کیا کہا
ہم طاعت یزید لعیں کریں شان کبریا
گردن مروڑی ہو جس نے دیو مرید کی
قدرت خدا کی وہ کرے بیعت یزیدلعین کی
ہم ہیں امام حامی اسلام ودیں پناہ
سکہ ہے اپنی ضرب کا ماہی سے تا بہ ماہ
کب مرتبہ میں ہم سے زیادہ یزید لعین ہے
آیا ہمارے گھر میں کلام مجید ہے
سوچو تو دل میں کیا ہے یزیدلعین زبوں سیر
بد قول وبد طریقہ وبد ذات وبد گہر
مکار وپر فریب خطا کار وخیرہ سر
ایسے کا زیر دست ہو سلطان بحر وبر
افسوس تم کو فکر کچھ انجام کی نہیں
مجھ سے زباں درازیاں یہ کام کی نہیں
اس شیر بیشہ اسلام کا یہ ارشاد سن کر اشقیا سر نگوں ہو گے،اور آپ پشت فرس پر جھومنے لگے کہ نظم
ناگاہ آمد آمد زعفر ہوئی بپا
تنہا تھے آپؑ فوج تھی باقی نہ اقربا
ناگہ اڑی وہ گرد کہ تھرائے اشقیا
اس گرد میں سے ایک سوار آیا بر ملا
پاس ادب سے چھوڑ دیا خوش خرام کو
مجرا کیا حسین علیہ السلام کو
گو جانتے تھے زعفر جن کو شاہ انام
پر مسکرا کے پوچھا تو ہے کون کیا ہے نام
زعفر پکارا آپؑ کے قربان یا امامؑ
زعفر ہے میرا نام میں حیدرؑ کا ہوں غلام
خادم ہوں آپ کا مجھے ممتاز کیجیے
اذن جہاد دے کے سرفراز کیجیے
شہہؑ نے کہا کہ بھائی جو ہونا تھا ہو چکا
اب زندگی بخیر کہ درپیش ہے قضا
پھر جا تو اپنے گھر کو یہی ہے مری رضا
دیوے گا اجر تجھ کو شہادت کا کبریا
غم میں ہمارے نالہ وفریاد کیجیو
جب پانی پیجو تو ہمیں یاد کیجیو
الغرض بادشا انس وجان کے حکم سے وہ سلطان جنات رخصت ہوا۔ راوی کہتا ہے کہ خیمہ سے حضرت زینبؑ یہ گفتگو سن رہی تھیں،بےتاب ہو کر آواز دی کہ بھیا آپ زعفر جن کو کیوں واپس کیے دیتے ہیں۔آپؑ نے تو مدینہ سے کوچ کے وقت اس سے کربلا میں آنے کا وعدہ لیا تھا۔اور بیر الام کی جنگ میں پدر بزگوار نے بھی جب اس کے باپ ک کومسلمان کیا تھا،تو اس سے کربلا میں آپ کی مدد کا وعدہ لیا تھا۔ امام اپنی ہمشیر کی بے تابی دیکھ کر ان کو دلاسہ دینے کے لیے خیمے میں تشریف لائے ،بیت
اس وقت چھاتی دیکھنے والوں کی پھٹ گئی
باہیں گلے میں ڈال کے زینب لپٹ گئی
امام مظلومؑ نے جناب زینبؑ کو تسلی وتشفی دے کر فرمایا کہ اے بہن اب مجھ کو کسی امداد کی کیا حاجت ہے۔اب زندہ رہ کر کیا کروں گا،جبکہ اکبرؑ وعباس ؑ حتیٰ کہ علیؑ اصغر شیر خوار تک قتل ہو گیا۔ بجز سر کٹانے کے کوئی چارہ نہیں۔اے بہن صبر کرو اپنے مظلومؑ کو رخصت کرو۔
الوداع اخیر
ہاں حاضران بزم عزائے شاہ ہدا
ہاں سامعان کیفیت شاہ ؑ کربلا
ہاں باکیان حال غریبی بے نوا
ہاں ناطران سورۃ والشمس والضحیٰ
لیتا ہوں ہاتھ میں ورق آفتاب کو
لکھتا ہوں رخصت شہہ گردوں جناب کو
واحسرتا یہ رخصت وقت اخیر ہے
باقی کوئی جواں ہے شاہ کا نہ پیر ہے
نرغہ میں اہل ظلم کے کل کا امیر ہے
دعوت میں شاہ کے خنجر وتلوار وتیر ہے
قبے خیام شاہ کے اب تھر تھراتے ہیں
زینبؑ پچھاڑیں کھاتی ہے شبیرؑ جاتے ہیں
سیدانیوں نے خیمے میں کھولے ہیں سر کے بال
روتے ہیں سب کو دیکھ کے اطفال خور وسال
بالی سکینہ کہتی ہے باہیں گلے میں ڈال
قربان جائوں میری طرف تو کرو خیال
ثابت ہے کیا قصور جو منہ موڑتے ہو تم
اس چھ برس کے سن میں مجھے چھوڑتے ہو تم
گھیرے ہوئے ہیں شاہ کو اہل حرم تمام
آئی نظر نہ بانوئے بےکس جو تشنہ کام
جویا ہوئے چاروں طرف کو شاہ انام
زینبؑ پکاری ڈھونڈتے ہو کس کو یا امامؑ
فرمایا شاہ نے بانوئے بے کس کدھر گئیں
کیا فرقت شبیہ پیمبر میں مر گئیں
اس وقت بصد اضطراب حضرت زینبؑ نے فضہ سے خطاب کیا کہ اے فضہ بھابھی کو ڈھونڈ لائو۔پس بفرمان جناب زینبؑ کے فضہ تلاش کرتی کرتی قریب جناب بانو پہنچیں۔مومنین کس حال میں جناب بانو تھیں، فضہ نے آپ کو دیکھ کر سر پیٹ لیا۔کیونکہ اس وقت حضرت بانو کا یہ حال مشاہدہ کیا، بیت
رنڈاسالہ پہنے پاس ہے کبریٰ کھڑی ہوئی
جھولے پہ تھی صغیر کے بانو پڑی ہوئی
نظم
فضہ قدم پکڑ کے پکاری دہائی ہے
بانو اٹھو وداع شاہ کربلائی ہے
اب گھر کی اہل بیت کے دم میں صفائی ہے
بی بی کی میری روح بھی ملنے کو آئی ہے
رانڈیں پچھاڑیں کھاتی ہیں ماتم کا جوش ہے
باقر کو ہے نہ ہوش نہ عابد کو ہوش ہے
پہنچی صدائے فضہ جو بانو کے گوش تک
تھی گو کہ غش میں چونک پڑی کھل گئی پلک
یا فاطمہؑ جو کہہ کے اٹھی بانو یک بیک
لرزا ہوا زمین کو تھرا گئے فلک
جس دم قدم بڑھایا تو محشر کا ساتھ تھا
فضہ پہ ایک دوسرا کبریٰ پہ ہاتھ تھا
تھی کس حشم سے آمد بانوئے خستہ جاں
کبریٰ وفضہ شانوں کو پکڑے بصد فغاں
پہلو میں تھی بہو کے ادھر فاطمہ ؑ رواں
اور اس طرف کو مریم وحوا تھیں نوحہ خواں
غل تھا حیا نہیں فلک نیل فام کو
جاتی ہے مہر بخشنے بانو امام ؑ کو
پس جس وقت اس حال سے بانوئے حزین قریب سلطان مومنین پہنچیں تو ملاحظہ فرمایا کہ سب مخدارات حرم گرد شاہ امم کھڑی ہیں۔آپ نے آواز دی کہ اے والی میرے کیا کام ہے جو اس کنیزناچیز کو یاد فرمایا ہے۔ اس وقت امام مظلومؑ نے ارشاد فرمایا کہ رخصت ہوتا ہوں،اور یہ رخصت میری آخری ہے۔اب پھر کر خیمہ میں نہ آئوں گا۔تمہارے اکبرؑ واصغرؑ کے پاس جائوں گا۔ تم شاہزادی عجم ہو اگر اس وقت میں مجھ کو مہر بخش دو،تو بعید از کرم نہیں۔امت کا کام ہو، تمہارا نام ہو، یہ سن کر حضرت بانو نے سر پیٹ لیا اور عرض کہ اے والی مجھ کو آپؑ کے فرمان سے کبھی انکار نہیں ہوا۔امت پہ جب اکبرؑ واصغر کو فدا کر دیا تو یہ مہر کیا چیز ہے نظم
یہ ذکر تھا شبیر پکارے جو الوداع
کبریٰ سکینہ بانوئے دلگیر الوداع
فضہ رقیہ زینبؑ دلگیر الوداع
اب لوٹنے کو آئیں گے بے پیر الوداع
امید اب نہیں ہے جو پھر کرکے آئیں ہم
عابد سے کہہ دو ہوش میں آئو تو جائیں ہم
سجادؑ کے سرہانے گئیں بیبیاں تمام
دیکھا پڑا ہے غش میں وہ نو بادہ امامؑ
بانو یہ سر کو پیٹ کے کرنےل لگیں کلام
بیٹا اٹھو میں لٹتی ہوں رن کو چلے امامؑ
محشر دکھائی دیتا ہے نزدیک ودور سے
بابا تمہارے جاتے ہیں مل لو حضور سے
پہنچی جو غش میں کان میں عابد کے یہ صدا
وہ آہ سرد کھینچی کہ عرش بریں ہلا
اٹھے عصا کو تھام کے جلدی بصد بکا
عمامہ سر سے پھینک دیا اور یہ کہا
دردا جوان ہو کے نہ سر کو کٹائیں ہم
بابا تو جائیں مرنے کو اور مر نہ جائیں ہم
یہ کہہ کے لڑکھڑاتے ہوئے بے خبر چلے
مطلق نہ ہوش تھا کہ کہاں تھے کدھر چلے
شانوں کو تھامتے ہوئے خیر البشر چلے
جنات ادھر قدسی ادھر نوحہ گر چلے
دیکھا یہ شاہ نے دور سے سجاد آتے ہیں
پر ضعف کے سبب سے قدم ڈگمگاتے ہیں
آئے قریب شاہؑ کے جو سجادؑ نیک نام
فرمایا السلام علیک ایہا الامامؑ
شاہؑ نے دیا جواب سلام اور یہ پیام
اسرار علم غیب مبارک تمہیں تمام
تم ہو امام وقتؑ یتیموں کو پالنا
ہم سر کٹانے جاتے ہیں تم گھر سنبھالنا
پھر رو کے بولے آئو گلے سے لگو ذرا
باہیں گلے میں ڈال کے بیٹا لپٹ گیا
اس وقت ایک محشر تازہ بپا ہوا
بیوائیں گرد بیچ وہ دونوں مقتدا
غل تھا کہ آسمان وزمین آج ملتے ہیں
فرقت نصیب یوسفؑ ویعقوبؑ ملتے ہیں
ہاں شیعو پیٹو سر کہ قیامت کا وقت ہے
عابدؑ سے اب حسینؑ کی رخصت کا وقت ہے
رولو عزیز ودوستوں رقت کا وقت ہے
کیا دم کا اعتبار یہ فرصت کا وقت ہے
کہرام ہے امام کے گھر میں پڑا ہوا
ڈیوڑھی پہ ذوالجناح ہے شاہؑ کا کھڑا ہوا
الغرض امام مظلومؑ اہلبیت اطہار سے رخصت آخر حاصل کرکے پھر مقابل قوم جفا کار ہوئے۔ اور علیؑ مرتضےٰ کی ذوالفقار کھینچ کر سینکڑوں اشقیا کو فی النار کیا۔یہاں تک کہ اشقیا خدا ورسولؑ کی دہائی دینے لگے۔اسی اثنا میں نظم
آئی صدا خالق غفار واہ واہ
اے نور عین احمدؑ مختار واہ واہ
اے صدمہ وبلا کے گرفتار واہ واہ
کہتے ہیں اس کو ضربت تلوار واہ واہ
لیکن بہت نہ تیغ کے جوہر دکھایئے
اب امتحان صبر کا ہے سر کٹایئے
مظلومیت بھی ہم کو دکھائو گے یا نہیں
نیزوں کے وار جسم پہ کھائو گے یا نہیں
دوزخ سے عاصیوں کو بچائو گے یا نہیں
سینہ پہ شمر لعیں کو بٹھائو گے یا نہیں
دربار میں مرے یہ رسائی کا وقت ہے
عاشق میرے یہ وعدہ وفائی کا وقت ہے
طفلی میں مہر کی ہے شہادت کے واسطے
اب سر کٹائو بخشش امت کے وا سطے
صدمے اٹھائو شیعوں کی راحت کے واسطے
جنت ترے لیے ہے تو جنت کے واسطے
مختار تم ہو کوثر و خلد و جحیم کے
مالک ہو کائنات خدائے کریم کے
مولا نے جس وقت خدائے کون ومکاں کا یہ حکم سنا،فورا" سر جھکا لیا،اور تیغ شرر فشاں کو نیام میں رکھ کر عمامہ سر سے اتار کر ہاتھوں پر رکھا اور بارگاہ احدیت میں عرض کی، بیت
جو تیرا حکم ہو وہ بجا لائے گا حسینؑ
سر دے کے تیری راہ میں مر جائے گا حسینؑ
اے معبود میرے تیرا بندہ راضی بر رضا ہے۔ بس شمر لعیں کا انتظار ہے۔ بیت
شمشیر وتیر کھانے کو موجود ہے حسینؑ
تو خوش ہو دکھ اٹھانے کو موجود ہے حسینؑ
نظم
سینہ پہ بیٹھے شمرلعیں ستمگر میں شاد ہوں
پھر جائے حلق خشک پہ خنجر میں شاد ہوں
بلوہ میں سر برہنہ ہو خواہر میں شاد ہوں
لٹ جائے تیری راہ میں سب گھر میں شاد ہوں
راضی ہوں رخ سکینہؑ سیلی سے لال ہو
نیزہ پہ سر میرا ہو بدن پائمال ہو
ناگاہ ہر طرف سے گھر آئی سپاہ آہ
ابر ستم میں گھر گیا زہراؑ کا ماہ آہ
حیرت ہے کیوں نہ گر پڑا عرش الہٰ آہ
بوچھار کردی تیروں کی حضرت پہ آہ آہ
یوں تو بہت سے زخم ہر اک عضو تن پہ تھے
نوسو خدنگ ظلم کے روزن بدن پہ تھے
دوسو تھے زخم تیروں کے سینہ سے تا کمر
اکاون آہ زخم تھے تیغوں کے سر بسر
اب شرح زخم سنگ جفا سخت ہے مگر
وہ حال من وعن نہیں آتا زبان پر
زخموں سے چور چور شاہ نامدار تھے
لکھا ہے زخم جسم پہ سب دس ہزار تھے
یہ نکتہ بس ہے مومنو کے شور وشین کو
تیغوں سے چور کرکے شاہ مشرقین کو
پتھر لگائے سنگ دلوںنے حسینؑ کو
آخر غش آیا فاطمہؑ کے نور عین کو
لرزہ ہوا زمیں کو فلک کانپنے لگا
گھوڑے پہ شاہ جن و ملک ہانپنے لگا
اب کس زبان سے عرض کروں مومنین: جس وقت آقا زخموں سے چور چور ہو گئے،اور طاقت ذوالجناح پر بیٹھنے کی نہ رہی،کوئی نہ تھا کہ امام مظلومؑ کو ذوالجناح سے سہارا دے کر اتارے۔ نظم
گھوڑے کو حال شاہ جو دیگر گوں نظر پڑا
گھٹنے زمیں پہ ٹیک کے بیٹھا وہ باوفا
آنے لگا جو غش تو شہنشاہؑ کربلا
آہستہ اترے گھوڑے سے رونے کی ہے یہ جا
آئی ندا کہ گھوڑے سے قران گر پڑا
رکن رکین کعبہ ایمان گر پڑا
گیسوئے مشک فام کیے رخ پہ شاہ نے واہ
ہاتھوں پہ رکھا سبز عمامہ لہو بھرا
اور ہاتھ اٹھا کے جانب افلاک یہ کہا
کرتا ہوں آج وعدہ طفلی کو میں ادا
خواہش ہے تخت کی نہ مجھے تاج کی ہوس
بس اب سنان پہ سر کو ہے معراج کی ہوس
ہوں تیری بارگاہ میں معبود شرمسار
حاضر ہے میرا سر پئے ہدیہ کردگار
فضل وکرم سے ہوں تیرے یا رب امیدوار
دوزخ سے کردے امت عاصی کو رستگار
مقبول التماس ہو ابن بتولؑ کی
یا ذوالجلال بخش دے امت رسولؑ کی
زینبؑ کا سر کھلے تو کھلے کچھ نہیں الم
پر ہو کسی طرح کا نہ امت کو درد وغم
سو بار ہو گلا جو تہہ خنجر ستم
بھولوں نہ یاد امت احمدؑ میں ایک دم
گھر میرا گر لٹے تو لٹے شاد یہ رہیں
میں ہوں تباہ خلق میں آباد یہ رہیں
آئی ندائے غیب کہ اے فدیہ خدا
کیا کام تونے آج کیا واہ مرحبا
راضی ہے اے حسینؑ بہت تجھ سے کبریا
طے کی عجب شان سے تونے راہ رضا
ثابت قدم رہا تو ہر اک امتحان میں
تجھ سا نہ ہوگا صابر وشاکر جہان میں
ابھی عابد اور معبود میں یہ کلام ہو رہے تھے کہ نظم
ناگاہ فوج سے عمر سعد نے کہا
ہاں کاٹ لو حسینؑ کا سر دیکھتے ہو کیا
یہ سن کے اپنی فوج سے شمر لعیں بڑھا
اب کیا کہوں جو ظلم ہوا واہ مصیبتا
موزہ تو سینہ شاہؑ مظلوم پہ رکھا
خنجر کمر سے کھینچ کے حلقوم پہ رکھا
امام نے غش سے آنکھیں کھول دیں، اور خشک زبان دکھا کر فرمایا،اے شمر لعیں اگر مجھے ذبح ہی کرنا چاہتا ہے۔ تو پہلے تھوڑا پانی پلا دے۔ اس ملعون نے جواب دیا کہ اے حسینؑاگر تمام روئے زمین پانی ہو جائے، تو ایک قطرہ تم کو نہ دوں۔ اسی اثنا میں امام مظلومؑ نے دیکھا کہ زینبؑ سر پیٹتی چلی آتی ہے۔ اور کہہ رہی ہیں،نظم
بھیا حسینؑ میری غریبی پہ رحم کھائو
کس جا ہو کس طرف ہو ہمیں بھی وہاں بلائو
اس غم زدہ بہن کو بھی ہمراہ لیتے جائو
دروازے پہ کھڑے ہوئے سادات روتے ہیں
آواز دی حسینؑ نے ہم ذبح ہوتے ہیں
سینہ پہ شمر لعیں بیٹھا ہے کیوں کر صدا سنائیں
خنجر ہمارے حلق پہ ہے کس طرح بلائیں
اس دم سکینہؑ جان کو اپنی کہاں سے لائیں
حسرت ہے ایک مرتبہ اس کو گلے لگائیں
پھر میرے بعد کون ترس اس پہ کھائے گا
شمر لعیں اس کو طمانچے لگائے گا
لو بھینا اب حسینؑ کی رخصت ہے الوداع
شبیرؑ کا سفر سوئے جنت ہے الوداع
وقت دعائے بخشش امت ہے الوداع
اب تم ہو اور ہر اک مصیبت ہے الوداع
ہمشیر جائو بہر خدا خیمہ گاہ میں
شبیرؑ ذبح ہوتا ہے خالق کی راہ میں
ناگاہ پھیری شمرلعیں نے گردن پہ تیغ آہ
کٹنے لگیں گلے کی رگیں واہ محمداؑ
تب سوئے خیمہ دیکھ کے با حالت تباہ
بولے تصور حرم محترم میں شاہ
لو اے سکینہؑ کوچ ہے دنیا سے باپ کا
اے عابد مریض خدا حافظ آپؑ کا
اسی عرصہ میں جناب زینبؑ امامؑ کے قریب پہنچ گئیں۔کیوں کر عرض کروں کہ حضرت زینبؑ نے بھائی کو کس حال میں دیکھا بیت
بھیا حسینؑ کہہ کے گلے سے لپٹ گئی
واں بوسہ گاہ احمدؑ مختار کٹ گئی
نظم
زینب کا آہ خاک اڑانا کہوںمیں کیا
مقتل سے پیٹتے ہوئے جانک کہوںمیں کیا
حضرت کے سر کا اشک بہانا کہوں میں کیا
ڈیوڑھی پہ ذوالجناح کا آنا کہوں میں کیا
زیں سے لہو ٹپکتا تھا تازہ حسینؑ کا
اک حشر تھا کہ یہ ہے جنازہ حسینؑ کا
پس جس وقت کہ وہ گھوڑا در خیمہ اطہر پر آیا،تمام اہل بیت میں اک حشر برپا تھا،اور نظم
غل تھا کہ اے فرس شاہ والا کو کیا ہوا
ہے ہے امامؑ بے کس وتنہا کو کیا ہوا
چلاتی تھی سکینہؑ کہ بابا کو کیا ہوا
اس بین سے جگر پہ جو صدمہ گزر گیا
گھوڑے نے سر زمین پہ پٹکا کہ مر گیا
یہ التجا وزیر کی ہے آپؑ سے امام
ذاکر ہوں زائروں میںبھی شامل ہو میرا نام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مظلوم کربلا جناب امام حسین علیہ السلام کی شہادت
رخصت ہے آج سب سے امام سعید کی
روایت ہے کہ جس وقت حضرت آدم علےٰ نبینا وعلیہ السلام اس دنیائے ناپائیدار میں بھیجے گئے،تو حیات مستعار کے لیے غذا کی بھی ضرور ت تھی۔ لہذا درگاہ رب العالمین سے ارشاد ہوا کہ آدم کھانا پکانے کا سامان بھی چا ہیے۔ تب بحکم رب جلیل حضرت جبرائیل نے جہنم پر موکل فرشتے سے آگ طلب کی۔اور ایک ذرہ کے برابر آگ لے کر چلنے کا رادہ کیا۔ اس وقت مالک نے کہا کہ اے جبرائیل اگر بجنسہ یہ آگ طبقہ زمیں پر جائے گی بیت
کہسار بھی دریا بھی رہیں گے نہ کہیں کے
جل جاویں گے چودہ طبق افلاک وزمیں کے
یہ سن کر حضرت جبرائیل نے اس آگ کو ستر نہروں میں جو بحکم پروردگار جاری تھیں،ستر ستر بار غوطہ دیا اور ٹھنڈا کیا۔الغرض جملہ چار ہزار نو سو مرتبہ غوطہ دے کر لائے، بیت
اور کوہ پہ وہ آگ رکھی روح امیںؑ نے
پگھلا وہ پہاڑ ایسا کہ جنبش کی زمیں نے
الغرض اس آگ کی حدت سے پہاڑ کو تاب نہ رہی،پھر بحکم خدا وہ آگ جہنم میں اڑ کر چلی گئی۔اسی روز سے دنیا میں آگ استعمال ہونے لگی۔اللہ اللہ جہنم کی ایک ذرہ کے برابرآگ چار ہزار نو سو مرتبہ نہروں میں غوطہ دے کر پہاڑوں پر رکھی گئی،اور اس کی حرارت سے ہر ایک پتھر میںآگ پیدا ہو گئی۔اور وہ اصل آگ بھی جہنم میں واپس چلی گئی۔ تو روز قیامت جب جہنم میں گنہگارڈ الے جائیں گے تو کیا حال ہو گا ان کے خاکی جسموں کا ہر ایک پیغمبرؑ اور نبیؑ نفسا نفسی پکارے گا۔ بیت
فریاد کا موقع نہ محل داد رسی کا
حال اپنا ہو جب غیر ت پھر کون کسی کا
الغرض جب شور الغیاث اور فریاد کا ہر ایک صف انبیاؑ اور اوصیاؑ سے برپا ہو گا۔ اس وقت خدا وند عالم فرشتوں سے فرمائے گا۔ کہ اب میری رحمت بھی ہر ایک کو دکھا دو۔ زحمت سے پناہ دو۔فرشتے عرض کریں گے۔ کہ بار الہا ہم کس طرح اس آگ کو ٹھنڈا کریں۔ ندا آئوئے گی بیت
وہ شیشے جو کہ طاق رحیمی پہ دھرے ہیں
جو مجلس شبیرؑ کے اشکوں سے بھرے ہیں
اللہ کیا مرتبہ ہے اشک عزائے حسینؑ کا کہ خدا وند کریم فرماتا ہے کہ نظم
ممکن نہیں اس آگ سے کوئی مفر پائے
ان شیشوں کا اک قطرہ چھڑک دو کہ یہ ہٹ جائے
چلائیں گے قدسی کہ ابھی لائے ابھی لائے
شبیرؑ کے قربان یہاں بھی وہی کام آئے
بزم شاہ مظلوم ؑ کی توقیر کے صدقے
ربا ترے صدقے ترے شبیرؑ کے صدقے
لرزاں تھے پرو بال کے کہ دوزخ نے جلایا
پر اشک غم شاہ شہیداں نے بچایا
غفار نے کیا مژدہ جاں بخش سنایا
کچھ تیری نہ حکمت کا اثر ذہن میں آیا
آگے ہمیں حیرت تھی کہ کیسے ہیں یہ آنسو
اب آج آنکھ کھلی کہ ایسے ہیں یہ آنسو
الغرض وہ شیشے لائے جائیں گے۔ ایک قطرہ ان میں سے لے کر آتش جہنم میں ڈالا جائے گا۔ تو اشک عزائے حسینؑ کی برکت سے دوزخ اس طرح گریزاں ہو گی بیت
جیسے کہ ہوا ہوئوئے دھواں تند ہوا سے
خس موج سے دھوپ ابر سے،تپ خاک شفا سے
اس وقت اہل محشر خوش ہو کر کہیں گے کہ نہ پانی برسا نہ ابر آیا۔ آگ کو کس نے ہٹایا،اس وقت منادی سرکار الہیٰ آواز دے گا کہ اے اہل محشر بیت
ہاں مومنین: اشک ہائے غم حسینؑ کی قدر ومنزلت آپ نے سنی اب اپنے آقا کے صبر وشکر کا حال سنیئے،سید ابن طاوس رحمتہ نے کتاب لہوف میں ابو جعفر طبری سے اور انہوں نے واقدی اور زرارہ بن صالح سے روایت کی ہے۔زرارہ کہتے ہیں کہ جب امام حسینؑ نے مدینہ طیبہ سے سفر عراق کا ارادہ کیا،روانگی کو تین روز باقی تھے۔ کہ ہم نے خدمت با برکت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا ابن رسول اللہ اہل کوفہ مکار اور دغا پیشہ ہیں۔ بظاہر طاعت پر آمادہ اور باطن میں آمادہ بغاوت سنے گئے ہیں۔آپ قصد سفر نہ فرمائیں،کیونکہ ان سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یہ سن کر آں امام مظلومؑ نے انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا۔اس وقت ہم نے دیکھا کہ بے حد وانتہا فرشتے زمین پر نازل ہوئے ہیں۔ کہ بجز پروردگار کے ان کا شمار کسی سے ممکن نہیں ہے۔اور ان فرشتوں نے عرض کی کہ اے حبیب خدا کے ن چشم ہم ہمیشہ لڑائیوں میں لڑائیوں میں آپ کے جد بزرگوار جناب رسول خداؑ کے معین ومددگار رہے ہیں۔اور اب آپ کی مدد کو بھی حاضر ہیں۔اس وقت امام مظلومؑ نے ہم سے ارشاد فرمایا کہ اے واقدی اور زراہ اگر کوئی بندہ موت کے خوف سے قلعہ میں پوشیدہ ہو جائے، تب بھی نہیں بچ سکتا۔ اشقیائے امت پر فتح حاصل کرنا ہی مقصود ہوتا ، تو فرشتوں کی یہ جماعت میری مدد کے لیے کافی تھی۔مگر مجھے تو دین کی بقا منظور ہے۔ظاہری فتح وظفر کی تمنا نہیں،میں خوب جانتا ہوں کہ جہاں میرے عوان وانصار شہید ہو ں گے۔ اور بجز میرے فرزند زین العابدینؑ کے کوئی زندہ نہ بچے گا۔ پھر ٓپ نے اپنے فرشتوں سے فرمایا کہ جب وہ وقت آئے گا،تو دیکھا جائے گا۔اور اس گروہ ملائکہ کو رخصت کیا۔ نیز کتاب ارشاد میں شیخ مفید علیہ الرحمتہ نے ارشاد کی سند سے جناب امام جعفر صادقؑ علیہ السلامؑ سے یہ روایت کی ہے کہ فوج ملائک کے بعد فوج کثیر جنات کی حاضر ہوئی اور گزارش کی کہ یا مولا کہ ہم سب غلام او فرمانبردار ہیں،اور آپؑ کے پدر بزرگوار علیؑ ابن ابی طالب کے شیعہ ہیں۔ آپ مجبور سفر کوفہ نہ فرمائیں اگر حکم ہو تو یہ غلام آپؑ کے دشمنوں کو قتل کر آئیں۔اور آپ یہاں سے حرکت نہ فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم سب کو خداوند کریم جزائے خیر عطا فرمائے۔ کہ میری نصرت پر آمادہ ہو۔ لیکن اگر مشیت ایزدی میں یہی گزارا ہے، کہ میں اور میرے اعزا وانصار شہید ہوں،تو میں راضی بر ضا ہوں۔یقینا" میں اپنے مدفن پر جسے کربلا کہتے ہیں، پہنچوں گا،اس وقت تم رخصت ہو اور دسویں محرم کو اس وقت آنا، جب گروہ اشقیا مجھے گھیر لیں۔ اس وقت جو میرا معبود چاہے گا بجا لائوں گا۔الٖغرض مدینہ منورہ سے آپ نے عراق کی جانب کوچ فرمایا۔اور داخل کعبہ ہوئے اور وہاں بھی امان نہ پائی اور وہاں سے بھی کوچ فرمایا۔
کعبہ سے عین عرفہ کو مولا جدا ہوئے
غرہ کے روز داخل کرب وبلا ہوئے
آخر عاشور کو لڑائی شروع ہوئی، نظم
تھی ٹھیک دوپہر کہ جو لشکر ہوا تمام
تاوقت ظہر فاطمہؑ کا گھر ہوا تمام
برچھی لگی کلیجے پہ اکبرؑ ہوا تمام
ہاتھوں پہ شاہ کے علیؑ اصغر ہوا تمام
تنہا جو پایا فاطمہؑ کے نور عین کو
چاروں طرف سے گھیر لیا بس حسینؑ کو
جس وقت امام مظلومؑ تنہا رہ گئے تو آخری حجت تمام کرنے کے لیے فوج اشقیا کے سامنے تشریف لائے اور فرمایا نظم
پیاسے پہ جور وظلم بھلا کیا ضرور ہے
ثابت تو پہلے کر لو میرا کیا قصور ہے
تم نے مرے رفیقوں کا خون بے سبب کیا
بے وجہ تم نے قتل کیے مرے اقربا
اصغرؑ ہوا نشانہ پیکان بے خطا
جز شکر رب زباں سے میں نے کچھ کہا
کیا تم کو ہاتھ آئے گا پیاسے کے قتل سے
باز آئو اب نبیؑ کے نواسے کے قتل سے
کیا قہر ہے لعینوں نے ہنس ہنس کے یہ کہا
مجبور ہو کے کرنے لگے عذر والتجا
پائی بغاوت عمر سعدلعیں کی سزا
آخر بچانا جان کا دشوار ہو گیا
اب بھی اگر یزید لعیں کی بیعت قبول ہو
تم پھر وہی حسینؑ ہو سبط رسولؑ ہو
یہ سن کے رنگ چہرہ انور بدل گیا
کف آیا لب پہ غصے سے تن کانپنے لگا
فرمایا پھر تو منہ سے نکالو یہ کیا کہا
ہم طاعت یزید لعیں کریں شان کبریا
گردن مروڑی ہو جس نے دیو مرید کی
قدرت خدا کی وہ کرے بیعت یزیدلعین کی
ہم ہیں امام حامی اسلام ودیں پناہ
سکہ ہے اپنی ضرب کا ماہی سے تا بہ ماہ
کب مرتبہ میں ہم سے زیادہ یزید لعین ہے
آیا ہمارے گھر میں کلام مجید ہے
سوچو تو دل میں کیا ہے یزیدلعین زبوں سیر
بد قول وبد طریقہ وبد ذات وبد گہر
مکار وپر فریب خطا کار وخیرہ سر
ایسے کا زیر دست ہو سلطان بحر وبر
افسوس تم کو فکر کچھ انجام کی نہیں
مجھ سے زباں درازیاں یہ کام کی نہیں
اس شیر بیشہ اسلام کا یہ ارشاد سن کر اشقیا سر نگوں ہو گے،اور آپ پشت فرس پر جھومنے لگے کہ نظم
ناگاہ آمد آمد زعفر ہوئی بپا
تنہا تھے آپؑ فوج تھی باقی نہ اقربا
ناگہ اڑی وہ گرد کہ تھرائے اشقیا
اس گرد میں سے ایک سوار آیا بر ملا
پاس ادب سے چھوڑ دیا خوش خرام کو
مجرا کیا حسین علیہ السلام کو
گو جانتے تھے زعفر جن کو شاہ انام
پر مسکرا کے پوچھا تو ہے کون کیا ہے نام
زعفر پکارا آپؑ کے قربان یا امامؑ
زعفر ہے میرا نام میں حیدرؑ کا ہوں غلام
خادم ہوں آپ کا مجھے ممتاز کیجیے
اذن جہاد دے کے سرفراز کیجیے
شہہؑ نے کہا کہ بھائی جو ہونا تھا ہو چکا
اب زندگی بخیر کہ درپیش ہے قضا
پھر جا تو اپنے گھر کو یہی ہے مری رضا
دیوے گا اجر تجھ کو شہادت کا کبریا
غم میں ہمارے نالہ وفریاد کیجیو
جب پانی پیجو تو ہمیں یاد کیجیو
الغرض بادشا انس وجان کے حکم سے وہ سلطان جنات رخصت ہوا۔ راوی کہتا ہے کہ خیمہ سے حضرت زینبؑ یہ گفتگو سن رہی تھیں،بےتاب ہو کر آواز دی کہ بھیا آپ زعفر جن کو کیوں واپس کیے دیتے ہیں۔آپؑ نے تو مدینہ سے کوچ کے وقت اس سے کربلا میں آنے کا وعدہ لیا تھا۔اور بیر الام کی جنگ میں پدر بزگوار نے بھی جب اس کے باپ ک کومسلمان کیا تھا،تو اس سے کربلا میں آپ کی مدد کا وعدہ لیا تھا۔ امام اپنی ہمشیر کی بے تابی دیکھ کر ان کو دلاسہ دینے کے لیے خیمے میں تشریف لائے ،بیت
اس وقت چھاتی دیکھنے والوں کی پھٹ گئی
باہیں گلے میں ڈال کے زینب لپٹ گئی
امام مظلومؑ نے جناب زینبؑ کو تسلی وتشفی دے کر فرمایا کہ اے بہن اب مجھ کو کسی امداد کی کیا حاجت ہے۔اب زندہ رہ کر کیا کروں گا،جبکہ اکبرؑ وعباس ؑ حتیٰ کہ علیؑ اصغر شیر خوار تک قتل ہو گیا۔ بجز سر کٹانے کے کوئی چارہ نہیں۔اے بہن صبر کرو اپنے مظلومؑ کو رخصت کرو۔
الوداع اخیر
ہاں حاضران بزم عزائے شاہ ہدا
ہاں سامعان کیفیت شاہ ؑ کربلا
ہاں باکیان حال غریبی بے نوا
ہاں ناطران سورۃ والشمس والضحیٰ
لیتا ہوں ہاتھ میں ورق آفتاب کو
لکھتا ہوں رخصت شہہ گردوں جناب کو
واحسرتا یہ رخصت وقت اخیر ہے
باقی کوئی جواں ہے شاہ کا نہ پیر ہے
نرغہ میں اہل ظلم کے کل کا امیر ہے
دعوت میں شاہ کے خنجر وتلوار وتیر ہے
قبے خیام شاہ کے اب تھر تھراتے ہیں
زینبؑ پچھاڑیں کھاتی ہے شبیرؑ جاتے ہیں
سیدانیوں نے خیمے میں کھولے ہیں سر کے بال
روتے ہیں سب کو دیکھ کے اطفال خور وسال
بالی سکینہ کہتی ہے باہیں گلے میں ڈال
قربان جائوں میری طرف تو کرو خیال
ثابت ہے کیا قصور جو منہ موڑتے ہو تم
اس چھ برس کے سن میں مجھے چھوڑتے ہو تم
گھیرے ہوئے ہیں شاہ کو اہل حرم تمام
آئی نظر نہ بانوئے بےکس جو تشنہ کام
جویا ہوئے چاروں طرف کو شاہ انام
زینبؑ پکاری ڈھونڈتے ہو کس کو یا امامؑ
فرمایا شاہ نے بانوئے بے کس کدھر گئیں
کیا فرقت شبیہ پیمبر میں مر گئیں
اس وقت بصد اضطراب حضرت زینبؑ نے فضہ سے خطاب کیا کہ اے فضہ بھابھی کو ڈھونڈ لائو۔پس بفرمان جناب زینبؑ کے فضہ تلاش کرتی کرتی قریب جناب بانو پہنچیں۔مومنین کس حال میں جناب بانو تھیں، فضہ نے آپ کو دیکھ کر سر پیٹ لیا۔کیونکہ اس وقت حضرت بانو کا یہ حال مشاہدہ کیا، بیت
رنڈاسالہ پہنے پاس ہے کبریٰ کھڑی ہوئی
جھولے پہ تھی صغیر کے بانو پڑی ہوئی
نظم
فضہ قدم پکڑ کے پکاری دہائی ہے
بانو اٹھو وداع شاہ کربلائی ہے
اب گھر کی اہل بیت کے دم میں صفائی ہے
بی بی کی میری روح بھی ملنے کو آئی ہے
رانڈیں پچھاڑیں کھاتی ہیں ماتم کا جوش ہے
باقر کو ہے نہ ہوش نہ عابد کو ہوش ہے
پہنچی صدائے فضہ جو بانو کے گوش تک
تھی گو کہ غش میں چونک پڑی کھل گئی پلک
یا فاطمہؑ جو کہہ کے اٹھی بانو یک بیک
لرزا ہوا زمین کو تھرا گئے فلک
جس دم قدم بڑھایا تو محشر کا ساتھ تھا
فضہ پہ ایک دوسرا کبریٰ پہ ہاتھ تھا
تھی کس حشم سے آمد بانوئے خستہ جاں
کبریٰ وفضہ شانوں کو پکڑے بصد فغاں
پہلو میں تھی بہو کے ادھر فاطمہ ؑ رواں
اور اس طرف کو مریم وحوا تھیں نوحہ خواں
غل تھا حیا نہیں فلک نیل فام کو
جاتی ہے مہر بخشنے بانو امام ؑ کو
پس جس وقت اس حال سے بانوئے حزین قریب سلطان مومنین پہنچیں تو ملاحظہ فرمایا کہ سب مخدارات حرم گرد شاہ امم کھڑی ہیں۔آپ نے آواز دی کہ اے والی میرے کیا کام ہے جو اس کنیزناچیز کو یاد فرمایا ہے۔ اس وقت امام مظلومؑ نے ارشاد فرمایا کہ رخصت ہوتا ہوں،اور یہ رخصت میری آخری ہے۔اب پھر کر خیمہ میں نہ آئوں گا۔تمہارے اکبرؑ واصغرؑ کے پاس جائوں گا۔ تم شاہزادی عجم ہو اگر اس وقت میں مجھ کو مہر بخش دو،تو بعید از کرم نہیں۔امت کا کام ہو، تمہارا نام ہو، یہ سن کر حضرت بانو نے سر پیٹ لیا اور عرض کہ اے والی مجھ کو آپؑ کے فرمان سے کبھی انکار نہیں ہوا۔امت پہ جب اکبرؑ واصغر کو فدا کر دیا تو یہ مہر کیا چیز ہے نظم
یہ ذکر تھا شبیر پکارے جو الوداع
کبریٰ سکینہ بانوئے دلگیر الوداع
فضہ رقیہ زینبؑ دلگیر الوداع
اب لوٹنے کو آئیں گے بے پیر الوداع
امید اب نہیں ہے جو پھر کرکے آئیں ہم
عابد سے کہہ دو ہوش میں آئو تو جائیں ہم
سجادؑ کے سرہانے گئیں بیبیاں تمام
دیکھا پڑا ہے غش میں وہ نو بادہ امامؑ
بانو یہ سر کو پیٹ کے کرنےل لگیں کلام
بیٹا اٹھو میں لٹتی ہوں رن کو چلے امامؑ
محشر دکھائی دیتا ہے نزدیک ودور سے
بابا تمہارے جاتے ہیں مل لو حضور سے
پہنچی جو غش میں کان میں عابد کے یہ صدا
وہ آہ سرد کھینچی کہ عرش بریں ہلا
اٹھے عصا کو تھام کے جلدی بصد بکا
عمامہ سر سے پھینک دیا اور یہ کہا
دردا جوان ہو کے نہ سر کو کٹائیں ہم
بابا تو جائیں مرنے کو اور مر نہ جائیں ہم
یہ کہہ کے لڑکھڑاتے ہوئے بے خبر چلے
مطلق نہ ہوش تھا کہ کہاں تھے کدھر چلے
شانوں کو تھامتے ہوئے خیر البشر چلے
جنات ادھر قدسی ادھر نوحہ گر چلے
دیکھا یہ شاہ نے دور سے سجاد آتے ہیں
پر ضعف کے سبب سے قدم ڈگمگاتے ہیں
آئے قریب شاہؑ کے جو سجادؑ نیک نام
فرمایا السلام علیک ایہا الامامؑ
شاہؑ نے دیا جواب سلام اور یہ پیام
اسرار علم غیب مبارک تمہیں تمام
تم ہو امام وقتؑ یتیموں کو پالنا
ہم سر کٹانے جاتے ہیں تم گھر سنبھالنا
پھر رو کے بولے آئو گلے سے لگو ذرا
باہیں گلے میں ڈال کے بیٹا لپٹ گیا
اس وقت ایک محشر تازہ بپا ہوا
بیوائیں گرد بیچ وہ دونوں مقتدا
غل تھا کہ آسمان وزمین آج ملتے ہیں
فرقت نصیب یوسفؑ ویعقوبؑ ملتے ہیں
ہاں شیعو پیٹو سر کہ قیامت کا وقت ہے
عابدؑ سے اب حسینؑ کی رخصت کا وقت ہے
رولو عزیز ودوستوں رقت کا وقت ہے
کیا دم کا اعتبار یہ فرصت کا وقت ہے
کہرام ہے امام کے گھر میں پڑا ہوا
ڈیوڑھی پہ ذوالجناح ہے شاہؑ کا کھڑا ہوا
الغرض امام مظلومؑ اہلبیت اطہار سے رخصت آخر حاصل کرکے پھر مقابل قوم جفا کار ہوئے۔ اور علیؑ مرتضےٰ کی ذوالفقار کھینچ کر سینکڑوں اشقیا کو فی النار کیا۔یہاں تک کہ اشقیا خدا ورسولؑ کی دہائی دینے لگے۔اسی اثنا میں نظم
آئی صدا خالق غفار واہ واہ
اے نور عین احمدؑ مختار واہ واہ
اے صدمہ وبلا کے گرفتار واہ واہ
کہتے ہیں اس کو ضربت تلوار واہ واہ
لیکن بہت نہ تیغ کے جوہر دکھایئے
اب امتحان صبر کا ہے سر کٹایئے
مظلومیت بھی ہم کو دکھائو گے یا نہیں
نیزوں کے وار جسم پہ کھائو گے یا نہیں
دوزخ سے عاصیوں کو بچائو گے یا نہیں
سینہ پہ شمر لعیں کو بٹھائو گے یا نہیں
دربار میں مرے یہ رسائی کا وقت ہے
عاشق میرے یہ وعدہ وفائی کا وقت ہے
طفلی میں مہر کی ہے شہادت کے واسطے
اب سر کٹائو بخشش امت کے وا سطے
صدمے اٹھائو شیعوں کی راحت کے واسطے
جنت ترے لیے ہے تو جنت کے واسطے
مختار تم ہو کوثر و خلد و جحیم کے
مالک ہو کائنات خدائے کریم کے
مولا نے جس وقت خدائے کون ومکاں کا یہ حکم سنا،فورا" سر جھکا لیا،اور تیغ شرر فشاں کو نیام میں رکھ کر عمامہ سر سے اتار کر ہاتھوں پر رکھا اور بارگاہ احدیت میں عرض کی، بیت
جو تیرا حکم ہو وہ بجا لائے گا حسینؑ
سر دے کے تیری راہ میں مر جائے گا حسینؑ
اے معبود میرے تیرا بندہ راضی بر رضا ہے۔ بس شمر لعیں کا انتظار ہے۔ بیت
شمشیر وتیر کھانے کو موجود ہے حسینؑ
تو خوش ہو دکھ اٹھانے کو موجود ہے حسینؑ
نظم
سینہ پہ بیٹھے شمرلعیں ستمگر میں شاد ہوں
پھر جائے حلق خشک پہ خنجر میں شاد ہوں
بلوہ میں سر برہنہ ہو خواہر میں شاد ہوں
لٹ جائے تیری راہ میں سب گھر میں شاد ہوں
راضی ہوں رخ سکینہؑ سیلی سے لال ہو
نیزہ پہ سر میرا ہو بدن پائمال ہو
ناگاہ ہر طرف سے گھر آئی سپاہ آہ
ابر ستم میں گھر گیا زہراؑ کا ماہ آہ
حیرت ہے کیوں نہ گر پڑا عرش الہٰ آہ
بوچھار کردی تیروں کی حضرت پہ آہ آہ
یوں تو بہت سے زخم ہر اک عضو تن پہ تھے
نوسو خدنگ ظلم کے روزن بدن پہ تھے
دوسو تھے زخم تیروں کے سینہ سے تا کمر
اکاون آہ زخم تھے تیغوں کے سر بسر
اب شرح زخم سنگ جفا سخت ہے مگر
وہ حال من وعن نہیں آتا زبان پر
زخموں سے چور چور شاہ نامدار تھے
لکھا ہے زخم جسم پہ سب دس ہزار تھے
یہ نکتہ بس ہے مومنو کے شور وشین کو
تیغوں سے چور کرکے شاہ مشرقین کو
پتھر لگائے سنگ دلوںنے حسینؑ کو
آخر غش آیا فاطمہؑ کے نور عین کو
لرزہ ہوا زمیں کو فلک کانپنے لگا
گھوڑے پہ شاہ جن و ملک ہانپنے لگا
اب کس زبان سے عرض کروں مومنین: جس وقت آقا زخموں سے چور چور ہو گئے،اور طاقت ذوالجناح پر بیٹھنے کی نہ رہی،کوئی نہ تھا کہ امام مظلومؑ کو ذوالجناح سے سہارا دے کر اتارے۔ نظم
گھوڑے کو حال شاہ جو دیگر گوں نظر پڑا
گھٹنے زمیں پہ ٹیک کے بیٹھا وہ باوفا
آنے لگا جو غش تو شہنشاہؑ کربلا
آہستہ اترے گھوڑے سے رونے کی ہے یہ جا
آئی ندا کہ گھوڑے سے قران گر پڑا
رکن رکین کعبہ ایمان گر پڑا
گیسوئے مشک فام کیے رخ پہ شاہ نے واہ
ہاتھوں پہ رکھا سبز عمامہ لہو بھرا
اور ہاتھ اٹھا کے جانب افلاک یہ کہا
کرتا ہوں آج وعدہ طفلی کو میں ادا
خواہش ہے تخت کی نہ مجھے تاج کی ہوس
بس اب سنان پہ سر کو ہے معراج کی ہوس
ہوں تیری بارگاہ میں معبود شرمسار
حاضر ہے میرا سر پئے ہدیہ کردگار
فضل وکرم سے ہوں تیرے یا رب امیدوار
دوزخ سے کردے امت عاصی کو رستگار
مقبول التماس ہو ابن بتولؑ کی
یا ذوالجلال بخش دے امت رسولؑ کی
زینبؑ کا سر کھلے تو کھلے کچھ نہیں الم
پر ہو کسی طرح کا نہ امت کو درد وغم
سو بار ہو گلا جو تہہ خنجر ستم
بھولوں نہ یاد امت احمدؑ میں ایک دم
گھر میرا گر لٹے تو لٹے شاد یہ رہیں
میں ہوں تباہ خلق میں آباد یہ رہیں
آئی ندائے غیب کہ اے فدیہ خدا
کیا کام تونے آج کیا واہ مرحبا
راضی ہے اے حسینؑ بہت تجھ سے کبریا
طے کی عجب شان سے تونے راہ رضا
ثابت قدم رہا تو ہر اک امتحان میں
تجھ سا نہ ہوگا صابر وشاکر جہان میں
ابھی عابد اور معبود میں یہ کلام ہو رہے تھے کہ نظم
ناگاہ فوج سے عمر سعد نے کہا
ہاں کاٹ لو حسینؑ کا سر دیکھتے ہو کیا
یہ سن کے اپنی فوج سے شمر لعیں بڑھا
اب کیا کہوں جو ظلم ہوا واہ مصیبتا
موزہ تو سینہ شاہؑ مظلوم پہ رکھا
خنجر کمر سے کھینچ کے حلقوم پہ رکھا
امام نے غش سے آنکھیں کھول دیں، اور خشک زبان دکھا کر فرمایا،اے شمر لعیں اگر مجھے ذبح ہی کرنا چاہتا ہے۔ تو پہلے تھوڑا پانی پلا دے۔ اس ملعون نے جواب دیا کہ اے حسینؑاگر تمام روئے زمین پانی ہو جائے، تو ایک قطرہ تم کو نہ دوں۔ اسی اثنا میں امام مظلومؑ نے دیکھا کہ زینبؑ سر پیٹتی چلی آتی ہے۔ اور کہہ رہی ہیں،نظم
بھیا حسینؑ میری غریبی پہ رحم کھائو
کس جا ہو کس طرف ہو ہمیں بھی وہاں بلائو
اس غم زدہ بہن کو بھی ہمراہ لیتے جائو
دروازے پہ کھڑے ہوئے سادات روتے ہیں
آواز دی حسینؑ نے ہم ذبح ہوتے ہیں
سینہ پہ شمر لعیں بیٹھا ہے کیوں کر صدا سنائیں
خنجر ہمارے حلق پہ ہے کس طرح بلائیں
اس دم سکینہؑ جان کو اپنی کہاں سے لائیں
حسرت ہے ایک مرتبہ اس کو گلے لگائیں
پھر میرے بعد کون ترس اس پہ کھائے گا
شمر لعیں اس کو طمانچے لگائے گا
لو بھینا اب حسینؑ کی رخصت ہے الوداع
شبیرؑ کا سفر سوئے جنت ہے الوداع
وقت دعائے بخشش امت ہے الوداع
اب تم ہو اور ہر اک مصیبت ہے الوداع
ہمشیر جائو بہر خدا خیمہ گاہ میں
شبیرؑ ذبح ہوتا ہے خالق کی راہ میں
ناگاہ پھیری شمرلعیں نے گردن پہ تیغ آہ
کٹنے لگیں گلے کی رگیں واہ محمداؑ
تب سوئے خیمہ دیکھ کے با حالت تباہ
بولے تصور حرم محترم میں شاہ
لو اے سکینہؑ کوچ ہے دنیا سے باپ کا
اے عابد مریض خدا حافظ آپؑ کا
اسی عرصہ میں جناب زینبؑ امامؑ کے قریب پہنچ گئیں۔کیوں کر عرض کروں کہ حضرت زینبؑ نے بھائی کو کس حال میں دیکھا بیت
بھیا حسینؑ کہہ کے گلے سے لپٹ گئی
واں بوسہ گاہ احمدؑ مختار کٹ گئی
نظم
زینب کا آہ خاک اڑانا کہوںمیں کیا
مقتل سے پیٹتے ہوئے جانک کہوںمیں کیا
حضرت کے سر کا اشک بہانا کہوں میں کیا
ڈیوڑھی پہ ذوالجناح کا آنا کہوں میں کیا
زیں سے لہو ٹپکتا تھا تازہ حسینؑ کا
اک حشر تھا کہ یہ ہے جنازہ حسینؑ کا
پس جس وقت کہ وہ گھوڑا در خیمہ اطہر پر آیا،تمام اہل بیت میں اک حشر برپا تھا،اور نظم
غل تھا کہ اے فرس شاہ والا کو کیا ہوا
ہے ہے امامؑ بے کس وتنہا کو کیا ہوا
چلاتی تھی سکینہؑ کہ بابا کو کیا ہوا
اس بین سے جگر پہ جو صدمہ گزر گیا
گھوڑے نے سر زمین پہ پٹکا کہ مر گیا
یہ التجا وزیر کی ہے آپؑ سے امام
ذاکر ہوں زائروں میںبھی شامل ہو میرا نام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment