Skip to main content

چھبسیویں مجلس مدینہ میں جناب امام حسینؑ کی شہادت کی خبر پہنچنا اور خطیب کا آنا

چھبسیویں مجلس


مدینہ میں جناب امام حسینؑ کی شہادت کی خبر پہنچنا اور خطیب کا آنا

جب مدینہ میں شاہ دیں کی سنانی آئی
ہائے صغراؑ کے لیے غم کی کہانی آئی
کتاب بحار الانوار میں تحریر ہے کہ جب جناب امام  جعفر صادقؑ  محرم کا چاند دیکھتے تھے،تو بکمال حزن وملال اپنے جد نامدار جناب حسینؑ عالی وقار کے مصائب یاد کرکے کرکے اس قدر روتے تھے کہ ضبط کی طاقت نہ رہتی تھی۔اور آپؑ کے تمام اصحاب اور شیعیان جناب ابوترابؑآپ کی  خدمت با برکت میں حاضر ہو کر نوحہ وزاری میں آپ کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔اور جب آپؑ کو گریہ وبکا سے افاقہ ہوتا تھا۔ تو ان لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر فرماتے تھے، کہ اے دوستو بڑا مرتبہ ہے،   تم لوگوں کا کہ میرے ساتھ میرے جد نامدار رسولؑ مختار اور حیدر کرار اور جدہ عالی وقار تمہارے لیے دعا فرماتے ہیں۔وہ حضرات تم لوگوں کے ناموں سے واقف ہیں۔اور اسی طرح میرے جد مظلومؑ زائر وذاکر ومداح اور تعزیہ دار اور ماتم دار کے حالات سے واقف ہوتے ہیں۔اور حق سبحانہ تعالیٰ سے بہشت میں ان کی جگہ مقرر فرماتے ہیں۔اور جناب امام حسینؑ علیہ السلام اپنے جد بزرگوار کی خدمت میں عرض کرتے ہیں۔کہ یہ اشخاص جو میری مصیبت میں روتے ہیں۔ان کے واسطے حق سبحانہ تعالیٰ سے طلب مغفرت فرمایئے۔کیونکہ یہ میری مصیبت پر روتے ہیں۔  پھر فرمایا جناب صادقؑنے  کہ میرے جد نامدار امام حسینؑ کے تعزیہ دار اور زوار وذاکر اور رونے والے اگر اپنے مدارج سے واقف ہو جائیں۔ تو ان کو اس قدر مسرت ہو کہ وہ ان تکلیفوں کو بھول جائیں،جو رونے اور  سفر زیارت میںاور مصائب کے پڑھنے میں اور اہل عزا کی خاطر داری میںبرداشت کرتے ہیں۔چنانچہ امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہجب رونے  والے میری مجلس سے اپنے گھر جاتے ہیں،تو ایسے پاک وپاکیزہ ہو جاتے ہیں،گویا اسی وقت شکم مادر سے پاک وطاہر پیدا ہوئے،نظم
اللہ جوہری در اشک عزا کا ہے
جنت بہا اسی گہر بے بہا کا ہے
بازار حشر میں یہی سودا رضا کا ہے
بس سلسلہ یہ بخشش روز جزا کا ہے
با آبرو وہ بندہ ہے خلق آلہٰ میں
جو منسلک ہے سلک غلامان شاہ ؑ میں
محشر کے دن بشر کو یہ رونا ہنسائے گا
یہ ایک قطرہ ہفت جہنم بجھائے گا
پائوں سے جو کو مجلس ماتم میں آئے گا
محشر کے روز خلد سر دست پائے گا
یہ اشک ہیں گناہوں کے دھونے کے واسطے
مردم نے آنکھ پائی ہے رونے کے واطے
کوثر پہ جانے کی یہی آنسو سبیل ہیں
 یہ آب اشک خضر رہ سبیل ہیں
اک روز آبرو کی یہ پانی دلیل ہے
یہ ماء وہ ہے مرتبہ جس کا جلیل ہے
مد نظر یہ چشم ہے پروردگار کو
اللہ لے گا ا س گہر آبدار کو
المختصر مولف کا مقصد صرف یہ ہے کہ جو صاحب زحمت اٹھا کر مجلس میں آئے ہیں۔کچھ دولت عقبیٰ لے کر جائیں۔خدائے رحیم وکریم کا شکر کس زبان سے ادا ہو کہ اس نے ہم کو وہ پیشوا اور رہبر عطا کیے ہیں کہ جن کے محامد وفضائل کا احصا انسانی طاقت سے بلند تر ہے۔رسولؑ وہ جو خدا کا محبوب تمام انبیاؑ کا سرتاج
نظم
تری مدح ممکن نہیں لکھ سکوں
تو فخر سلیماںؑ ہے میں مور ہوں
خموشی کا منہ میں نہ کیوں قفل دوں
مری عقل حیران ہے کیا کہوں
ندانم کدا می سخن گوئمیت
کہ بالا تری زائچہ من گوئمیت
اسی طرح شرف وبزرگی وصی رسولؑ مقبول میں بھی انسان سرگردان ہے۔اور انسان کی تو کیا حقیقت ہے۔جبرائیل ومیکائیل سے مقرب فرشتے بھی عاجز ہیں۔چنانچہ روایت مومنین کو یاد ہو گی،کہ جب جناب رسالت مآب آسمان کی سیر کو تشریف لے گئے۔اور بے شمار اونٹوں کی قطار ملا حظہ فرمائی۔تو ایک اونٹ کو بٹھا کر اس پر کا صندوق کھولا۔تو دیکھا کہ اس میں کتابیں ہیں،جو سب علیؑ مرتضےٰ کے فضائل سے معمور ہیں۔پھر میں ان کے فضائل و محامد کب لکھ سکتا ہوں۔اور بجز اس کے اور کیا کہوں،شعر
علیؑ ونبیؑ ہر دو نسبت بہم
دو تائو یکے چوں زبان قلم
ایضا"
جب کیا خالق نے اپنے نور واحد کو دونیم
اک امام ان میں ہوا اور اک پیمبر ہو گیا
تو جب یہ اجسام طیب وطاہر ایزد پاک کے نور سے پیدا ہوئے تو فضائل کا خاتمہ ہے۔کہ قرآن جو کلام خدا ہے۔ایک قصیدہ نعت مصطفےٰ ہے۔اور کعبہ جو خانہ رب ہدیٰ ہے۔ وہ زچہ خانہ علیؑ مرتضےٰ ہے۔پس کس قدر مقام فخرو مباہات ہے کہ ایسے نبیؑ کی امت میں پیدا ہو کر ایسے امام برحق کے پیرو ہوئے۔اور اسی طرح سے شرف وبزر گی  بنت رسولؑ خدا فاطمہؑ زہرا اور بعد ان کے جناب ام البنین زوجہ مشکل کشا کو ملی ہے۔ نظم
شرف ازل سے جو ازواج مرتضےٰؑ کو ملا
کہاں یہ مرتبہ ناموس اوصیا کو ملا
جو کچھ شرف تھا وہ سب اشرف النسا ؑ کو ملا
نہ ہاجرہؑ کو ملا اور نہ آسیا کو ملا
مگر یہ درجہ بھی حصے میں کس کے آیا ہے
جو بعد فاطمہؑ ام البنین نے پایا ہے
نہ کیوں بتول کی ہو ہم نشیں وہ عرش وقار
وہ ماں حسینؑ کی یہ مادر علمبردار
کیا حسینؑ کو امت پہ فاطمہ نے نثار
حسینؑ پہ کیے قربان اس نے بیٹے چار
امام فاطمہؑ کے نور عین کو سمجھی
حسنؑ کو پیشوا آقا حسینؑ کو سمجھی
دم اخیر علیؑ نے یہ اس کو دی تھی خبر
کہ ہوں گے فدیہ شبیرؑ تیرے چار پسر
یہ اپنے بیٹوں کی تعظیم کرتی تھی اکثر
پسر جو پوچھتے کہتی تھی ہوں فدا تم پر
نہ کیوں میں فخر کروں فخر والدین تم ہو
غلام فاطمہ ؑ ہو فدیہ حسینؑ ہو تم
چنانچہ روایت ہے کہ جب تک سید الشہدا  امامؑ دوسرا مدینہ منورہ میں رونق افروز رہے۔حضرت ام البنینؑمثل فاطمہ زہراؑ امام مظلوم کی شیدا تھیں۔اور جس وقت سے آپؑ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے،حضرت ام  البنینؑ نے بیمار صغراؑ کی خدمت اور تیمار داری اپنے اوپر فرض کر لی تھی۔اور ہمیشہ اس شاہزادی کی خدمت  گزاری میں مشغول رہتی   تھیں۔ بیت
 بنا کے ہاتھ سے اپنے اسے دعا دیتیں
دوا پلا کے شفا کی اسے دعا دیتیں
لیکن فراق فرزند رسولؑ الثقلین پارہ جگر فاتح بدر وحنین میں ہمیشہ غمگین اور محزون رہتی تھیں۔کیونکہ آپ کو امام حسینؑ سے اپنے فرزندوں سے زیادہ محبت تھیں۔اور نظم
فراغ خدمت صغراؑ سے پا کے وہ ذی جا
ردا کو اوڑھ کے گھر سے نکلتیں شام وپگاہ
عصا کو تھام کے استادہ رہتی تھیں سر راہ
مسافروں سے یہ کہتی تھیں بافغان وآہ
پسر سے چھٹ کے کسی ماں کو چین آتا ہے
مسافرو کہو میرا حسینؑ آتا ہے
جو کوئی پوچھتا تم مادر حسینؑ  ہو کیا
تو رو کے کہتیں کہ الفت تو ماں سے بھی ہے سوا
جو پوچھو رتبہ تو ادنیٰ مقام ہے میرا
وہ بادشاہ میں اس کی کنیز ہوں دکھیا
حسینؑ میرا ہے مختار دل ربا بھی ہے
امامؑ بھی ہے پسر بھی ہے پیشوا بھی ہے
ہر چند کہ حضرت ام  ا  لبنینہر ایک مسافر سے اس شاہزادہؑ کونین کا حال پوچھتیں، مگر اس سبب سے کہ یزید پلید نے ناکہ بندی کر دی تھی،کہ کوئی مسافر یا قاصد کربلا سےجانب مدینہ نہ جانے پائے۔اس لئے اس معظمہ کو امامؑ کی کچھ خبر نہ ملتی تھی۔ مگر امام حسینؑ کی محبت میںآپ کا معمول بدستور رہا۔ہر روز جناب فاطمہ  ؑ صغرا کو دوا پلا کر دروازہ پر آنا،اور ہر شام کو مایوس ہو کر گھر میں جانا۔غرض اس طرف جناب ام البنین کو فراق امام حسین  ؑ کا غم تھا،ادھر کربلا میں اس مظلوم کے اہل بیت اطہار تشنہ وگرسنہ خیموں میں بے تاب تھے۔ہر ایک بچہ دل کباب تھا۔ تمام یار و انصار شہید ہو چکے تھے۔اور امامؑ یک وتنہا فوج اشقیا میں کھڑے تھے۔ بیت
بھرے عزیزوں کے داغوں سے سینہ ودل تھے
حسینؑ ایک تھے اور چار لاکھ قاتل تھے
آخر اشقیا نے اس غریب الوطن کو نیزہ وتلواروں وے چور چور کرکے شہید کیا۔ پھر لاش مبارک سم اسپاں سے پامال کی۔اور بعد پائمالی لاش خیموں میں آگ لگا دی۔اور اہل حرم کو لوٹنا شروع کیا۔اس وقت جو ظلم اشقیا نے ا  ہلبیتؑ اطہار پر کیا،کس کی زبان میں طاقت ہے،کہ بیان کرے۔نظم
کسی کو نیزے کسی کو طمانچے مارتے تھے
حرم حسینؑ کے سب یا علیؑ پکارتے تھے
غرض کہ عصر سے تا وقت شام واویلا
لعین لوٹ رہے تھے خیام آل عباؑ
حرم کو لا کے نظر بند ظالموں نے کیا
خوشی کی نوبتیں بجتی تھیں فوج میں ہر جا
مگر یہ آتی تھی آواز شادیانے سے
ہزار حیف اٹھے پنجتنؑ زمانے سے
شہید ہو گئے جب رن میں سید والا
تو لٹ کے قافلہ بیوائوں کا بلوہ میں آیا
بلا کے منشیوں کو ابن سعد نے یہ کہا
کہ فتح نامے ہوں ہر طرف ہر جا
حقیقت اپنی جدال وقتال کی لکھو
شکست فاتح خیبر کے لال کی لکھو
مدینہ ویمن وچین ومصر وروم وحلب
ہوں ملک ملک میں ارسال  فتح نامے اب
ہر ایک نامے میں ہو مندرج یہی مطلب
 حسینؑ قتل ہوئے بے ردا ہوئی زینبؑ
نگوں امامت سرور کا تخت وتاج ہوا
جو پوچھو تخت کا مالک یزید آج ہوا
مری طرف سے لکھو عرضداشت بہر یزید
کہ لے ہوئے ترے اقبال سے حسینؑ شہید
میں نذر فتح کی دوں گا سر امام سعیدؑ
ہیں چند عورتیں اور لڑکیاں بقید شدید
نہ ہم نے ہے علیؑ اصغرؑ کو بھی اماں بخشی
پہ تیرے ہاتھ سے سیدانیوں کی جاں بخشی
جدا عریضہ لکھو اک برائے ابن زیاد
کہ نام پنجتن پاک کر دیا بر باد
جو مجھ سے وعدے کیے انہیں بھی رکھیو یاد
کیا ہے خوش تجھے میں نے تو کر میرا دل شاد
نہ لایا دھیان میں خیر النسا ء کے رونے کو
نہال فاطمہؑ کاٹے نہال ہونے کو
پسر سعد نے یزید پلید کے خط میں لکھا۔ قبل ازیں جنگ مجھ کو خوف تھا کہ یہ بنی ہاشم بہادر اور جرار ازلی ہیں۔اولاد علیؑ ہیں، جنہوں نے اژدر کو چیرا  اور خیبر کو اکھاڑا،مرحب کو پچھاڑا،حنین وخندق میں فتح پائی۔جنوں کو ان کے مقابلے کی تاب نہ آئی۔لہذا ایسے جراروں سے لڑنے میں معرکہ حرب وضرب کئی مہینے رہے گا۔ نظم
 مگر ہوئی جو لڑائی بروز عاشور
سحر تھی جمعہ کی دن عشرہ محرم کا
 نہ دو مہینے لگے اور نہ ایک دن گزرا
اخیر لشکر شبیرؑ دو پہر میں ہوا
تمام ظہر تلک شہ کے نور عین ہوئے
شہید چار گھڑی دن رہے حسینؑ ہوئے
نماز عصر پڑھی کاٹ کر سر شبیرؑ
حرم کو لوٹ کے مغرب کی پھر کہی تکبیر
ہماری فوج میں سیدانیاں ہیں ساری اسیر
خدا کے شیر کا پوتا ہے بستہ زنجیر
مدد کو اہل حرم کی نبیؑ نہیں آتے
پکارتے ہیں علیؑ کو علیؑ نہیں آتے
پھر کاتب کو حکم دیا کہ حاکم مدینہ کے خط میں یہ بھی لکھ دینا کہ اب بے خوف وخطر خطبہ یزید منبر نبیؑ پر پڑھنا۔خاندان رسول مختار میں اب کوئی بجز عابد بیمار کے باقی نہیں ہے۔ اور وہ بھی طوق وزنجیر میں اسیر ہیں۔نظم
غرض کہ نامے کیے منشیوں نے سب ترقیم
لفافہ رکھا گیا پیش ابن سعد لئیم
بوقت صبح کیے قاصدوں کو وہ تقسیم
ہوئے روانہ ہر اک سمت  کر کے سب تسلیم
خط مدینہ لیے اک شتر سوار چلا
 مگر حسینؑ کے ماتم میں اشک بار چلا
 الغرض قاصد مدینہ رخصت ہو کر چلا۔جب مدینہ کے قریب پہنچا،بیت
کلس رواق نبیؑ کا نمودار ہونے لگا
اتر کر ناقے سے ناقہ سوار رونے لگا
گیا مدینہ کی مسجد میں قاصد ناچار
وطن میں آمد قاصد کا غل ہوا اک بار
گھروں سے جانب مسجد چلے صغار وکبار
 زباں سے کہتا تھا ہے ہے حسینؑ قاصد زار
نبیؑ کے روضہ کا گنبد تمام ہلتا تھا
ستون مسجد خیرالانام ہلتا تھا
یہ ایک لڑکی نے صغراؑ کو خبر دی آکر
مبارک آپ کے پردیسیوں کی آئی خبر
ابھی ابھی چلا آتا ہے اک نامہ بر
رسولؑ پاک کی مسجد میں کھولتا ہے کمر
خدا نے چاہا تو اکبرؑ بھی یونہی آتے ہیں
خبر حسینؑ کی سب پوچھنے کو جاتے ہیں
 یہ خبر سن کر حضرت صغراؑ بستر بیماری سے اٹھ بیٹھیں۔اور حضرت ام البنین سے کہنے لگیں کہ اے دادی جان سنتی ہوں کہ کوئی قاصد آیا ہے۔ جو مسجد نبویؑ میں جو پیغام لایا ہے۔ سنائے گا۔ آپ چلیے تو اس سے بابا کا،مادر کا، اکبرؑ واصغرؑ  کا اور اپنی بہن سکینہ  ؑ کا حال پوچھ آئوں۔اللہ اللہ کیا اشتیاق تھا۔ حضرت فاطمہؑ صغراؑ کو یہ سن کر جناب ام البنین نے فرمایا بیت
وہ بولی واری بھلا تم میں اتنی طاقت ہے
میں پوچھے آتی ہوں بابا تیرا سلامت ہے
نظم
 یہ کہہ کے اوڑھ لی چادر اٹھایا اپنا عصا
رواں ہوئیں طرف مسجد رسولؑ خدا
زن ہاشمیہ ساتھ تھی پیادہ پا
 قریب  پہنچیں جو مسجد کے دیکھتی ہیں کیا
وہ کون شخص ہے کہ جس کا حال غیر نہیں
پکاری خیر ہو کہ پردیسیوں کی خیر نہیں
ابھی وہ خط لیے منبر پہ نامہ بر تھا گیا
پڑھا تھا ایک ہی فقرہ کہ حشر تھا برپا
کہ ناگہاں در مسجد سے غلغلہ یہ ہوا
عزیزو راہ دو آتی ہے ثانی زہراؑ
زنان ہاشمیہ نے جو اہتمام کیا
تو نامہ بر نے بھی تعظیم سے سلام کیا
عصا پہ ماتھے کو رکھ کے کھڑی  ہوئیں وہ آہ
کہا کہ بھائی یہ خط پیچھے پڑھیو خاطر خواہ
زباں سے پہلے یہ کہہ دے کہ خیر سے  تو ہیں شاہ
وہ رو کے کہنے لگا لاالہٰ الا اللہ
بہت حسینؑ کی عاشق ہو اور شیدا ہو
مگر جہان میں اب تم بجائے زہراؑ ہو
پکاری وہ کہ بھلا میں کہاں بتولؑ کہاں
میں خادمہ ہوں وہ مخدومئہ زمین وزمان
وہ بولا اسم شریف آپؑ کا وہ بولی ہاں
علیؑ کی زوجہ ہوں عباسؑ نامدار کی ماں
ابھی نہ ماں ہوں میں اسکی نہ وہ پسر میرا
جو کچھ حسینؑ کے کام آیا تو جگر میرا
ہے بات کرنا بھی نامحرموں سے مجھ کو عار
 علیؑ کی لونڈیوں کا یہ چلن نہیں زنہار
مگر حسینؑ کی الفت نے کر دیا ناچار
نکل پڑی میں ردا اوڑھ کر سر بازار
 خبر حسینؑ کی کہہ آرزو میں ہوں جس کی
کنیز ہوں تو میں اس کی جو ماں ہوں تو اس کی
میں ہول کھاتی ہوں بھائی تو گریبان ہے چاک
 بشکل  ماتمیان سر پہ اپنے ڈالے خاک
وہ بولا کم ہے جو کچھ غم کروں میں اے غمناک
ہوئی حسینؑ پہ بےداد لشکر سفاک
 جگر ہو سنگ کا فولاد کی زباں ہوئے
تو ایک پیاس کا اس پیاسے کی بیاں ہوئے
الغرض اس قاصد نے  حال شہدائے کربلا اس طرح بیان کرنا شروع کیا۔ کہ اے ام  ا  لبنین
حسینؑ کی کون سی مصیبت تم کو سنائوں۔اس طرف کئی لاکھ خنجر خونخوار ادھر ایک حسینؑ بے دیار،چاروں طرف سے فوج جفا کار نیزہ وتلوار کے وار کر رہے تھے،اور ایک قطرہ پانی کا نہ دیتے تھے۔حتیٰ کہ سوار ہونے کے وقت کوئی رکاب تھامنے والا نہ تھا۔کہ حضرت زینبؑ نے خیمہ سے نکل کر رکاب تھامی اور بھائی کو سوار کرایا۔ بیت۔
عدو کی فوج میں اس وقت رو دیا سب نے
جب اپنے بھائی کی رکاب تھامی زینبؑ نے
یہ سن کر حضرت ام البنین غصے سے کانپنے لگیں،اور فرمایا کہ عباس کو کیا ہوا تھا؟ رکاب تھامنے کو عار سمجھا۔وہ تو ہمیشہ نعلین حسینؑ اٹھایا کرتا تھا۔ نظم
غرور کی تو مرے لال کو نہ عادت تھی
رکاب تھامنا تو فخر تھا سعادت تھی
پکاری سوئے نجف مڑ کے یا علیؑ فریاد
لو خوب آ پ کے عباس نے کیا دل شاد
اسی کو اہل وفا آپ کرتے تھے ارشاد
حقوق پالنے والے کے کر دیئے برباد
کچھ آپ سنتے ہیں یہ نامہ بر جو کہتا ہے
غلام خدمت آقا میں یونہی رہتا ہے
جب یہ شکایت حضرت ام البنین کی نامہ بر نے سنی تو اس وقت کہنے لگا کہ اے مادر عباسؑ خدا گواہ ہے۔عباسؑ سا با وفا نہ  دیکھا نہ سنا۔ یہ جو میں نے عرض کیا،حال دوپہر کا تھا۔اور بوقت صبح جب جناب امام حسینؑ سوار ہونے لگے،بھانجے، بھتیجے یار وانصار مع عباسؑ علمدار جلو میں موجود تھے۔ اور عباسؑ جرار نے رکاب تھام کر حضرت کو  سوار کیا تھا۔قاسمؑ  سر مبارک امام پر رومال ہلاتے تھے۔اکبرؑ جرار عنان کو تھامے تھے۔ مگر یہ حال  تو دوپہر کا تھا۔جو میں نے عرض کیا۔ اس وقت ان جراروں میں سے کوئی بھی باقی نہ تھا۔ اس وقت،نظم
وداع ہو کے نبیؑ زادیوں سے وہ بولا
کھڑے تھے خیمے کی ڈیوڑھی پہ سید والا
رکاب تھامنے کو کوئی نہ تھا واویلا
حسینؑ دیکھتے تھے سوئے مقتل ودریا
بلاتے تھے علیؑ اکبرؑ کو اور روتے تھے
پکارتے تھے برادر کو اور روتے تھے
نہ کر تو شکوہ عباسؑ اے حمیدہ صفات
رکاب تھامے وہ کیوں کر کٹے ہوں جس کے ہاتھ
پڑا تھا بے کفن وگور وہ کنار فرات
صدا یہ لاش سے آتی تھی اے شاہ خوش ذات
اگر رضا ہو یہ مظلوم کربلائی کی
رکاب تھاموں کٹے ہاتھ سے میں بھائی کی
 اے معظمہ حضرت عباس کی وفاداری کا حال تو بیان نہیں ہو سکتا۔کیونکہ جب ساتویں تاریخ  محرم سے حرم پر پانی بند ہوا۔تو آپ کے بیٹے نے چار کنویں کھودے،اور دسویں تاریخ کو سکینہ  ؑ کا سقا بنا۔مگر اس پیاسے کی قسمت میں پانی نہ تھا۔کہ شانے کٹا کر دریا پر شہید ہو گیا۔ہر چند شمر نے عباسؑ کو اپنی فوج کی سپہ سالاری کا پیغام دیا۔مگر اس وفادار نے حسینؑ کی کفش برداری کو ترک نہیں کیا۔ یہ سن کر جناب ام البنین نظم
 سجدہ شکر بجا لائی پھر تو وہ بے آس
کہا میں خوش ہوئی عباسؑ آفریں عباسؑ
لحد میں چین سے اب سوئو ہو کے بے وسواس
غذا ہو میوہ طوبےٰ تو حلے ہوویں لباس
بہشت میں غم محشر سے بے ہراس رہو
غلام سبط نبیؑ ہو انہی کے پاس رہو
میں سرخ رو ہوئی شبیرؑ کے تو کام آیا
جو کچھ کہ تجھ پہ میرا  حق تھا میں نے بھر پایا
ہزار شکر یہ مژدہ خدا نے سنوایا
علیؑ کی پوتی کا سقا بنا مرا جایا
خدا گواہ کہ تونے مجھے نہال کیا
لے اپنا دودھ بھی میں نے تجھے حلال کیا
پھر قا صد  سے جناب امام حسینؑ کو دریافت کیا،  تو اس نے  کہاکہ ابھی اپنے اور تین بیٹوں کا حال بھی سن لیجیے،کہ عبداللہ اور عون وجعفر نے بھی اپنی جانیں حسینؑ پر نثار کیں۔یہ سن کر آپ نے قاصد سے عتاب آمیز لہجہ میں فرمایا نظم
 میں پوچھتی ہوں تو کہتا ہے اور ہی کچھ حال
تو ہوش میں ہے کہ بے ہوش کس طرف ہے خیال
میں پہلے کہہ چکی تجھ سے نہیں میرا کوئی لال
 حسینؑ ایک پسر ہے جیے صدو سی سال
سوا حسینؑ کے فرزند نور عین نہیں
پسر تو کیا کوئی میرا بجز حسینؑ نہیں
 اے قاصد میں تجھ سے شہنشاہؑ کونین کا حال پوچھتی ہوں،اور تو غلاموں کا حال بیان کرتا ہے۔ مجھے حسینؑ کے حال سے آگاہ کر۔یہ سن کر ،نظم
جگر پہ مار کے ہاتھ اپنا نامہ بر نے کہا
جو حال سننا ہے بی بی حسینؑ بے کس کا
لو اب کھڑی نہ رہو بیٹھ جائو رکھ دو عصا
زنان ہاشمیہ کو بٹھا لو گرد ذرا
کلیجہ تھام لو تم اپنا دونوں ہاتھوں سے
 کہ غش نہ آئے کہیں تم کو میری باتوں سے
پھر نامہ بر نے سر پیٹ کر با گریہ وزاری بیان کرنا شروع کیا۔نظم
 اڑا کے خاک کہا اے ضعیفہ ہو آگاہ
ہزار و نو صد وپنجاہ زخم اک تن شاہ پر
اور ایک حلق پر ہفتاد ضرب خنجر آہ
چڑھا حسینؑ کے سینہ پہ قاتل بد خواہ
سر حسینؑ تو اس بد گمان نے کاٹا
غضب ہے ہاتھوں کو پھر سار بان نے کاٹا
یہ سن کے غش ہوئی ام البنین عالی جاہ
اٹھا یہ شور کہ فریاد یا رسول اللہ
ہوا جو غش سے افاقہ علیؑ کی زوجہ کو آہ
تو پوچھا حال سے زینبؑ کے بھی تو کر آگاہ
وہ ساتھ مر گئی بھائی کے یا اسیر ہوئی
لحد پہ سیدؑ والا کے یا فقیر ہوئی
سر اپنا پیٹ کے پھر نامہ بر چلایا
حسینؑ نے تو کفن بھی ابھی نہیں پایا
رسولؑ زادیوں پر سخت حادثہ آیا
برہنہ سر ہیں اٹھا جب سے شاہ کا سایہ
گلے میں طوق ہے عابدؑ کے شدت تپ میں
ہیں زخم نیزوں کی نوکوں کے پشت زینبؑ پر
 یہ حال سن کر حضرت ام البنین نے چادر سر سے پھینک دی۔اور سینہ وسر پیٹ کر ہمراہی عورتوں سے فرمایا، نظم
 بنائو شکل میری سوگواروں کی لوگو
میں بال کھولتی ہوں خاک چہرے پر مل دو
پکارو کہہ کے پسر مردہ آج سے مجھ کو
مٹا نشان نبیؑ نام حیدرؑ خوش خو
مری نگاہوں میں دنیا یہ اب سیاہ ہوئی
مرے حسینؑ کا پرسہ دو میں تباہ ہوئی
 اس طرف تو یہ حال تھا۔وہاں انتظار میں حضرت صغراؑ کے ہونٹوں پہ جان تھی۔جناب ام البنین سے ساتھ کی عورتوں نے جناب صغراؑ کی بے قراری بیان کی، نظم
پڑی ہے ڈیوڑھی پہ بے ہوش فاطمہؑ صغراؑ
 یہ سن کے گھر کو چلی خاک اڑاتی وہ دکھیا
سر اپنا پیٹتا قاصد بھی ساتھ ساتھ چلا
یہاں مریض کی آنکھیں تھیں سوئے مسجد وا
سفید چہرہ تھا دہشت سے تھرتھراتی تھی
کبھی کھڑی کبھی در پر وہ بیٹھ جاتی تھی
یہ دیکھا دور سے صغراؑ نے اتنے میں ناگاہ
کہ روتی آتی ہیں ام البنینؑ عالی جاہ
جبیں پہ خاک ملے ایک شخص ہے ہمراہ
ہوا یہ غل کہ یہی قاصد حسینؑ ہے آہ
خبر حسینؑ کے مرنے کی لے کے آیا ہے
سنانی سبطؑ پیمبرؑ کی لے کے آیا ہے
وہ قاصد آتا تھا منہ پہ لگائے خاک عزا
کہ نوجوانوں کا مجمع نظر پڑا اک جا
وہاں ٹھہر کے یہ دی قاصد حزیں نے صدا
سنو جوانو پیام اخیر اکبرؑ کا
وطن میں طور ہو جس نوجواں کی شادی کا
قلق کرے علیؑ اکبرؑ کی نامرادی کا
پکاری فاطمہؑ صغراؑ بتائو دادی جان
ہیں خیر سے میرے پردیسی باپ وبھائی جاں
وہ بولی خیر کہاں گھر کا گھر ہوا ویراں
سفر میں مٹ گیا بالکل علیؑ کا نام ونشاں
تو چھوٹی باپ سے اور میں پسر سے چھوٹ گئی
ہماری اور تری آس آج ٹوٹ گئی
قریب آن کے قاصد نے بھی کیا مجرا
اٹھا کے لایا تھا جو  خاک مقتل شہدا
لہو کے مثل تھی وہ خاک سرخ واویلا
وہ دے کے فاطمہ صغراؑ کو نامہ بر بولا
لگائو آنکھوں سے یہ مٹی پاک ہے بی بی
 ابوترابؑ کے بیٹے کی خاک ہے  بی بی
یہ ہے عزیزوں کا تحفہ شہیدوں کی سوغات
تمام کنبہ تیرا قتل ہو گیا ہیہات
ترے لیے سر اکبرؑ تڑپتا ہے دن رات
بندھے ہیں عابدؑبیمار کے رسن سے ہاتھ
یہ خاک مقتل شاہؑ شہید لایا ہوں
میں قید میں ترے کنبہ کو چھوڑ آیا ہوں
میں کربل سے چلا جب ادھر کو اے صغراؑ
تو قیدیوں میں سے ایک لڑکی نے رو کر یہ کہا
بہن سے کہیو کہ زخمی ہوا ہے کان مرا
جو تم سے ہو سکے کچھ بھیج دو دوا بھینا
مریضہ بولی وہ میری بہن سکینہؑ ہے
اسی کی باتوں کا واللہ یہی قرینہ ہے
وہ خاک سونگھی جو صغراؑ نے آئی بوئے حسینؑ
سر اپنا خاک پہ دے ٹپکا ہو کے تب بے چین
منہ اپنا ڈھانپ کے کرتے سے کرتی تھی یہ بین
اور آس پاس تھیں ہم جولیاں بشیون وشین
زنان ہاشمیہ رو رہی تھیں چلا کر
بپا قیامت کبریٰ تھی گھر میں صغراؑ کے
یہ نوحہ کرتی تھی رو رو کے فاطمہؑ صغراؑ
میں کس کے آنے کے دن گنوں گی اے بابا
میں کس کی پوچھوں گی اب خیر وعافیت آقا
مجھے بھی پاس بلا لو سکینہؑ کا صدقہ
مریضہ بیٹی سے کس طرح منہ موڑ کو گئے
گئے تو چھوڑ کے اور آس آہ توڑ گئے
یہ کیا ستم ہے کہ اب تک تمہیں کفن نہیں ملا
تمہارا مردہ اور اس قابل آہ واویلا
بدن تمہارا ہے رن میں سناں پہ سر ہے چڑھا
تمہاری لاش کے صدقے تمہارے سر کے فدا
 تمہارے حلق پہ  شمشیر بے دریغ چلی
میں اس گلے کے تصدق کہ جس پہ تیغ چلی
بہن سکینہؑ ترے قید پہ قربان
جب ہنسلی سالگرہ کی پہناتی تھیں اماں
تو بار بار گلا چومتے تھے بابا جان
رسن کے بندھنے کی مشکل کرے خدا آسان
گلا رسن میں بندھا زندگی وبال ہوئی
 یہ تیری سال گرہ آہ چوتھے سال ہوئی
جوانا مرگ  برادر مرے علیؑ اکبرؑ
تمہاری مرگ جوانی کےصدقے یہ خواہر
صغیر بھائی مرے بے زباں علیؑ اصغرؑ
بہن نثار ہو ننھے سے ترے لاشے پر
کہاں سے ڈھونڈ کے ماں جائے تم کو لائوں میں
کہ دے کے لویاں گہوارے میں سلائوں میں
یہ بین کرتے ہی وحشت جو اس کو ہوئی سوا
سر اپنا پیٹتی باہر کو دوڑی ننگے پا ء
لپٹ کے دادی پکاری کدھر کدھر صغراؑ
وہ بولی جاتی ہوں میں آج سوئے کرب وبلا
نہ روکو صاحبو جنگل کی خاک اڑانے دو
پدر کی لاش پہ جائوں گی مجھ کو جانے دو
میں جا کے دیکھوں گی لاش امام نیک خصال
 سنا ہے خاک میں اصغرؑ پڑے ہیں خوں میں نڈھال
اسیر کنبہ کا پوچھوں گی قید میں  احوال
میں چھوٹے بھائی کے سلجھائوں گی جھنڈولے بال
نہ جب تلک شاہ مظلومؑ دفن ہویں گے
ہم اپنے باپ کے لاشہ پہ یونہی رویں گے
الغرض جناب ام البنین اور تمام عورات بنی ہاشم نے جناب صغراؑ کو تشفی اور دلاسہ دیا،مگر رونے والو جب کسی کا کوئی عزیز مر جاتا ہے،تو لاکھ تسلی وتشفی  دی جاتی ہے،لیکن صبر نہیں آتا، زبان اگر نالہ وفریاد سے رک جاتی ہے،تو آنسو نہیں تھمتے۔آنکھوں سے اشکوں کی بارش ہوتی ہے۔ہائے صغراؑ کا تو سارا کنبہ عالم غربت میں تباہ ہو گیا۔سارا گھر اجڑ گیا۔بیمار کو کیوں کر چین آئے۔وہ بیمار ہر وقت اپنے باپ اور بھائیوں کو یاد کر کے رویا کرتی تھی۔
خبر وزیر کی اے شاہ کربلا لیجیے
غلام آپؑ کا ہوں روضے پہ بلا لیجیے
خبر وزیر کی اے شاہ کربلا لیجیے
غلام آپؑ کا ہوں غم سے اب چھڑا دیجیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا

﷽ انتیسویں مجلس امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا  اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو واللہ ناامید کے دل کو امید ہو  اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت  دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی نظم پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے  اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں ہمس...

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...