چھبسیویں مجلس
مدینہ میں جناب امام حسینؑ کی شہادت کی خبر پہنچنا اور خطیب کا آنا
جب مدینہ میں شاہ دیں کی سنانی آئی
ہائے صغراؑ کے لیے غم کی کہانی آئی
کتاب بحار الانوار میں تحریر ہے کہ جب جناب امام جعفر صادقؑ محرم کا چاند دیکھتے تھے،تو بکمال حزن وملال اپنے جد نامدار جناب حسینؑ عالی وقار کے مصائب یاد کرکے کرکے اس قدر روتے تھے کہ ضبط کی طاقت نہ رہتی تھی۔اور آپؑ کے تمام اصحاب اور شیعیان جناب ابوترابؑآپ کی خدمت با برکت میں حاضر ہو کر نوحہ وزاری میں آپ کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔اور جب آپؑ کو گریہ وبکا سے افاقہ ہوتا تھا۔ تو ان لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر فرماتے تھے، کہ اے دوستو بڑا مرتبہ ہے، تم لوگوں کا کہ میرے ساتھ میرے جد نامدار رسولؑ مختار اور حیدر کرار اور جدہ عالی وقار تمہارے لیے دعا فرماتے ہیں۔وہ حضرات تم لوگوں کے ناموں سے واقف ہیں۔اور اسی طرح میرے جد مظلومؑ زائر وذاکر ومداح اور تعزیہ دار اور ماتم دار کے حالات سے واقف ہوتے ہیں۔اور حق سبحانہ تعالیٰ سے بہشت میں ان کی جگہ مقرر فرماتے ہیں۔اور جناب امام حسینؑ علیہ السلام اپنے جد بزرگوار کی خدمت میں عرض کرتے ہیں۔کہ یہ اشخاص جو میری مصیبت میں روتے ہیں۔ان کے واسطے حق سبحانہ تعالیٰ سے طلب مغفرت فرمایئے۔کیونکہ یہ میری مصیبت پر روتے ہیں۔ پھر فرمایا جناب صادقؑنے کہ میرے جد نامدار امام حسینؑ کے تعزیہ دار اور زوار وذاکر اور رونے والے اگر اپنے مدارج سے واقف ہو جائیں۔ تو ان کو اس قدر مسرت ہو کہ وہ ان تکلیفوں کو بھول جائیں،جو رونے اور سفر زیارت میںاور مصائب کے پڑھنے میں اور اہل عزا کی خاطر داری میںبرداشت کرتے ہیں۔چنانچہ امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہجب رونے والے میری مجلس سے اپنے گھر جاتے ہیں،تو ایسے پاک وپاکیزہ ہو جاتے ہیں،گویا اسی وقت شکم مادر سے پاک وطاہر پیدا ہوئے،نظم
اللہ جوہری در اشک عزا کا ہے
جنت بہا اسی گہر بے بہا کا ہے
بازار حشر میں یہی سودا رضا کا ہے
بس سلسلہ یہ بخشش روز جزا کا ہے
با آبرو وہ بندہ ہے خلق آلہٰ میں
جو منسلک ہے سلک غلامان شاہ ؑ میں
محشر کے دن بشر کو یہ رونا ہنسائے گا
یہ ایک قطرہ ہفت جہنم بجھائے گا
پائوں سے جو کو مجلس ماتم میں آئے گا
محشر کے روز خلد سر دست پائے گا
یہ اشک ہیں گناہوں کے دھونے کے واسطے
مردم نے آنکھ پائی ہے رونے کے واطے
کوثر پہ جانے کی یہی آنسو سبیل ہیں
یہ آب اشک خضر رہ سبیل ہیں
اک روز آبرو کی یہ پانی دلیل ہے
یہ ماء وہ ہے مرتبہ جس کا جلیل ہے
مد نظر یہ چشم ہے پروردگار کو
اللہ لے گا ا س گہر آبدار کو
المختصر مولف کا مقصد صرف یہ ہے کہ جو صاحب زحمت اٹھا کر مجلس میں آئے ہیں۔کچھ دولت عقبیٰ لے کر جائیں۔خدائے رحیم وکریم کا شکر کس زبان سے ادا ہو کہ اس نے ہم کو وہ پیشوا اور رہبر عطا کیے ہیں کہ جن کے محامد وفضائل کا احصا انسانی طاقت سے بلند تر ہے۔رسولؑ وہ جو خدا کا محبوب تمام انبیاؑ کا سرتاج
نظم
تری مدح ممکن نہیں لکھ سکوں
تو فخر سلیماںؑ ہے میں مور ہوں
خموشی کا منہ میں نہ کیوں قفل دوں
مری عقل حیران ہے کیا کہوں
ندانم کدا می سخن گوئمیت
کہ بالا تری زائچہ من گوئمیت
اسی طرح شرف وبزرگی وصی رسولؑ مقبول میں بھی انسان سرگردان ہے۔اور انسان کی تو کیا حقیقت ہے۔جبرائیل ومیکائیل سے مقرب فرشتے بھی عاجز ہیں۔چنانچہ روایت مومنین کو یاد ہو گی،کہ جب جناب رسالت مآب آسمان کی سیر کو تشریف لے گئے۔اور بے شمار اونٹوں کی قطار ملا حظہ فرمائی۔تو ایک اونٹ کو بٹھا کر اس پر کا صندوق کھولا۔تو دیکھا کہ اس میں کتابیں ہیں،جو سب علیؑ مرتضےٰ کے فضائل سے معمور ہیں۔پھر میں ان کے فضائل و محامد کب لکھ سکتا ہوں۔اور بجز اس کے اور کیا کہوں،شعر
علیؑ ونبیؑ ہر دو نسبت بہم
دو تائو یکے چوں زبان قلم
ایضا"
جب کیا خالق نے اپنے نور واحد کو دونیم
اک امام ان میں ہوا اور اک پیمبر ہو گیا
تو جب یہ اجسام طیب وطاہر ایزد پاک کے نور سے پیدا ہوئے تو فضائل کا خاتمہ ہے۔کہ قرآن جو کلام خدا ہے۔ایک قصیدہ نعت مصطفےٰ ہے۔اور کعبہ جو خانہ رب ہدیٰ ہے۔ وہ زچہ خانہ علیؑ مرتضےٰ ہے۔پس کس قدر مقام فخرو مباہات ہے کہ ایسے نبیؑ کی امت میں پیدا ہو کر ایسے امام برحق کے پیرو ہوئے۔اور اسی طرح سے شرف وبزر گی بنت رسولؑ خدا فاطمہؑ زہرا اور بعد ان کے جناب ام البنین زوجہ مشکل کشا کو ملی ہے۔ نظم
شرف ازل سے جو ازواج مرتضےٰؑ کو ملا
کہاں یہ مرتبہ ناموس اوصیا کو ملا
جو کچھ شرف تھا وہ سب اشرف النسا ؑ کو ملا
نہ ہاجرہؑ کو ملا اور نہ آسیا کو ملا
مگر یہ درجہ بھی حصے میں کس کے آیا ہے
جو بعد فاطمہؑ ام البنین نے پایا ہے
نہ کیوں بتول کی ہو ہم نشیں وہ عرش وقار
وہ ماں حسینؑ کی یہ مادر علمبردار
کیا حسینؑ کو امت پہ فاطمہ نے نثار
حسینؑ پہ کیے قربان اس نے بیٹے چار
امام فاطمہؑ کے نور عین کو سمجھی
حسنؑ کو پیشوا آقا حسینؑ کو سمجھی
دم اخیر علیؑ نے یہ اس کو دی تھی خبر
کہ ہوں گے فدیہ شبیرؑ تیرے چار پسر
یہ اپنے بیٹوں کی تعظیم کرتی تھی اکثر
پسر جو پوچھتے کہتی تھی ہوں فدا تم پر
نہ کیوں میں فخر کروں فخر والدین تم ہو
غلام فاطمہ ؑ ہو فدیہ حسینؑ ہو تم
چنانچہ روایت ہے کہ جب تک سید الشہدا امامؑ دوسرا مدینہ منورہ میں رونق افروز رہے۔حضرت ام البنینؑمثل فاطمہ زہراؑ امام مظلوم کی شیدا تھیں۔اور جس وقت سے آپؑ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے،حضرت ام البنینؑ نے بیمار صغراؑ کی خدمت اور تیمار داری اپنے اوپر فرض کر لی تھی۔اور ہمیشہ اس شاہزادی کی خدمت گزاری میں مشغول رہتی تھیں۔ بیت
بنا کے ہاتھ سے اپنے اسے دعا دیتیں
دوا پلا کے شفا کی اسے دعا دیتیں
لیکن فراق فرزند رسولؑ الثقلین پارہ جگر فاتح بدر وحنین میں ہمیشہ غمگین اور محزون رہتی تھیں۔کیونکہ آپ کو امام حسینؑ سے اپنے فرزندوں سے زیادہ محبت تھیں۔اور نظم
فراغ خدمت صغراؑ سے پا کے وہ ذی جا
ردا کو اوڑھ کے گھر سے نکلتیں شام وپگاہ
عصا کو تھام کے استادہ رہتی تھیں سر راہ
مسافروں سے یہ کہتی تھیں بافغان وآہ
پسر سے چھٹ کے کسی ماں کو چین آتا ہے
مسافرو کہو میرا حسینؑ آتا ہے
جو کوئی پوچھتا تم مادر حسینؑ ہو کیا
تو رو کے کہتیں کہ الفت تو ماں سے بھی ہے سوا
جو پوچھو رتبہ تو ادنیٰ مقام ہے میرا
وہ بادشاہ میں اس کی کنیز ہوں دکھیا
حسینؑ میرا ہے مختار دل ربا بھی ہے
امامؑ بھی ہے پسر بھی ہے پیشوا بھی ہے
ہر چند کہ حضرت ام ا لبنینہر ایک مسافر سے اس شاہزادہؑ کونین کا حال پوچھتیں، مگر اس سبب سے کہ یزید پلید نے ناکہ بندی کر دی تھی،کہ کوئی مسافر یا قاصد کربلا سےجانب مدینہ نہ جانے پائے۔اس لئے اس معظمہ کو امامؑ کی کچھ خبر نہ ملتی تھی۔ مگر امام حسینؑ کی محبت میںآپ کا معمول بدستور رہا۔ہر روز جناب فاطمہ ؑ صغرا کو دوا پلا کر دروازہ پر آنا،اور ہر شام کو مایوس ہو کر گھر میں جانا۔غرض اس طرف جناب ام البنین کو فراق امام حسین ؑ کا غم تھا،ادھر کربلا میں اس مظلوم کے اہل بیت اطہار تشنہ وگرسنہ خیموں میں بے تاب تھے۔ہر ایک بچہ دل کباب تھا۔ تمام یار و انصار شہید ہو چکے تھے۔اور امامؑ یک وتنہا فوج اشقیا میں کھڑے تھے۔ بیت
بھرے عزیزوں کے داغوں سے سینہ ودل تھے
حسینؑ ایک تھے اور چار لاکھ قاتل تھے
آخر اشقیا نے اس غریب الوطن کو نیزہ وتلواروں وے چور چور کرکے شہید کیا۔ پھر لاش مبارک سم اسپاں سے پامال کی۔اور بعد پائمالی لاش خیموں میں آگ لگا دی۔اور اہل حرم کو لوٹنا شروع کیا۔اس وقت جو ظلم اشقیا نے ا ہلبیتؑ اطہار پر کیا،کس کی زبان میں طاقت ہے،کہ بیان کرے۔نظم
کسی کو نیزے کسی کو طمانچے مارتے تھے
حرم حسینؑ کے سب یا علیؑ پکارتے تھے
غرض کہ عصر سے تا وقت شام واویلا
لعین لوٹ رہے تھے خیام آل عباؑ
حرم کو لا کے نظر بند ظالموں نے کیا
خوشی کی نوبتیں بجتی تھیں فوج میں ہر جا
مگر یہ آتی تھی آواز شادیانے سے
ہزار حیف اٹھے پنجتنؑ زمانے سے
شہید ہو گئے جب رن میں سید والا
تو لٹ کے قافلہ بیوائوں کا بلوہ میں آیا
بلا کے منشیوں کو ابن سعد نے یہ کہا
کہ فتح نامے ہوں ہر طرف ہر جا
حقیقت اپنی جدال وقتال کی لکھو
شکست فاتح خیبر کے لال کی لکھو
مدینہ ویمن وچین ومصر وروم وحلب
ہوں ملک ملک میں ارسال فتح نامے اب
ہر ایک نامے میں ہو مندرج یہی مطلب
حسینؑ قتل ہوئے بے ردا ہوئی زینبؑ
نگوں امامت سرور کا تخت وتاج ہوا
جو پوچھو تخت کا مالک یزید آج ہوا
مری طرف سے لکھو عرضداشت بہر یزید
کہ لے ہوئے ترے اقبال سے حسینؑ شہید
میں نذر فتح کی دوں گا سر امام سعیدؑ
ہیں چند عورتیں اور لڑکیاں بقید شدید
نہ ہم نے ہے علیؑ اصغرؑ کو بھی اماں بخشی
پہ تیرے ہاتھ سے سیدانیوں کی جاں بخشی
جدا عریضہ لکھو اک برائے ابن زیاد
کہ نام پنجتن پاک کر دیا بر باد
جو مجھ سے وعدے کیے انہیں بھی رکھیو یاد
کیا ہے خوش تجھے میں نے تو کر میرا دل شاد
نہ لایا دھیان میں خیر النسا ء کے رونے کو
نہال فاطمہؑ کاٹے نہال ہونے کو
پسر سعد نے یزید پلید کے خط میں لکھا۔ قبل ازیں جنگ مجھ کو خوف تھا کہ یہ بنی ہاشم بہادر اور جرار ازلی ہیں۔اولاد علیؑ ہیں، جنہوں نے اژدر کو چیرا اور خیبر کو اکھاڑا،مرحب کو پچھاڑا،حنین وخندق میں فتح پائی۔جنوں کو ان کے مقابلے کی تاب نہ آئی۔لہذا ایسے جراروں سے لڑنے میں معرکہ حرب وضرب کئی مہینے رہے گا۔ نظم
مگر ہوئی جو لڑائی بروز عاشور
سحر تھی جمعہ کی دن عشرہ محرم کا
نہ دو مہینے لگے اور نہ ایک دن گزرا
اخیر لشکر شبیرؑ دو پہر میں ہوا
تمام ظہر تلک شہ کے نور عین ہوئے
شہید چار گھڑی دن رہے حسینؑ ہوئے
نماز عصر پڑھی کاٹ کر سر شبیرؑ
حرم کو لوٹ کے مغرب کی پھر کہی تکبیر
ہماری فوج میں سیدانیاں ہیں ساری اسیر
خدا کے شیر کا پوتا ہے بستہ زنجیر
مدد کو اہل حرم کی نبیؑ نہیں آتے
پکارتے ہیں علیؑ کو علیؑ نہیں آتے
پھر کاتب کو حکم دیا کہ حاکم مدینہ کے خط میں یہ بھی لکھ دینا کہ اب بے خوف وخطر خطبہ یزید منبر نبیؑ پر پڑھنا۔خاندان رسول مختار میں اب کوئی بجز عابد بیمار کے باقی نہیں ہے۔ اور وہ بھی طوق وزنجیر میں اسیر ہیں۔نظم
غرض کہ نامے کیے منشیوں نے سب ترقیم
لفافہ رکھا گیا پیش ابن سعد لئیم
بوقت صبح کیے قاصدوں کو وہ تقسیم
ہوئے روانہ ہر اک سمت کر کے سب تسلیم
خط مدینہ لیے اک شتر سوار چلا
مگر حسینؑ کے ماتم میں اشک بار چلا
الغرض قاصد مدینہ رخصت ہو کر چلا۔جب مدینہ کے قریب پہنچا،بیت
کلس رواق نبیؑ کا نمودار ہونے لگا
اتر کر ناقے سے ناقہ سوار رونے لگا
گیا مدینہ کی مسجد میں قاصد ناچار
وطن میں آمد قاصد کا غل ہوا اک بار
گھروں سے جانب مسجد چلے صغار وکبار
زباں سے کہتا تھا ہے ہے حسینؑ قاصد زار
نبیؑ کے روضہ کا گنبد تمام ہلتا تھا
ستون مسجد خیرالانام ہلتا تھا
یہ ایک لڑکی نے صغراؑ کو خبر دی آکر
مبارک آپ کے پردیسیوں کی آئی خبر
ابھی ابھی چلا آتا ہے اک نامہ بر
رسولؑ پاک کی مسجد میں کھولتا ہے کمر
خدا نے چاہا تو اکبرؑ بھی یونہی آتے ہیں
خبر حسینؑ کی سب پوچھنے کو جاتے ہیں
یہ خبر سن کر حضرت صغراؑ بستر بیماری سے اٹھ بیٹھیں۔اور حضرت ام البنین سے کہنے لگیں کہ اے دادی جان سنتی ہوں کہ کوئی قاصد آیا ہے۔ جو مسجد نبویؑ میں جو پیغام لایا ہے۔ سنائے گا۔ آپ چلیے تو اس سے بابا کا،مادر کا، اکبرؑ واصغرؑ کا اور اپنی بہن سکینہ ؑ کا حال پوچھ آئوں۔اللہ اللہ کیا اشتیاق تھا۔ حضرت فاطمہؑ صغراؑ کو یہ سن کر جناب ام البنین نے فرمایا بیت
وہ بولی واری بھلا تم میں اتنی طاقت ہے
میں پوچھے آتی ہوں بابا تیرا سلامت ہے
نظم
یہ کہہ کے اوڑھ لی چادر اٹھایا اپنا عصا
رواں ہوئیں طرف مسجد رسولؑ خدا
زن ہاشمیہ ساتھ تھی پیادہ پا
قریب پہنچیں جو مسجد کے دیکھتی ہیں کیا
وہ کون شخص ہے کہ جس کا حال غیر نہیں
پکاری خیر ہو کہ پردیسیوں کی خیر نہیں
ابھی وہ خط لیے منبر پہ نامہ بر تھا گیا
پڑھا تھا ایک ہی فقرہ کہ حشر تھا برپا
کہ ناگہاں در مسجد سے غلغلہ یہ ہوا
عزیزو راہ دو آتی ہے ثانی زہراؑ
زنان ہاشمیہ نے جو اہتمام کیا
تو نامہ بر نے بھی تعظیم سے سلام کیا
عصا پہ ماتھے کو رکھ کے کھڑی ہوئیں وہ آہ
کہا کہ بھائی یہ خط پیچھے پڑھیو خاطر خواہ
زباں سے پہلے یہ کہہ دے کہ خیر سے تو ہیں شاہ
وہ رو کے کہنے لگا لاالہٰ الا اللہ
بہت حسینؑ کی عاشق ہو اور شیدا ہو
مگر جہان میں اب تم بجائے زہراؑ ہو
پکاری وہ کہ بھلا میں کہاں بتولؑ کہاں
میں خادمہ ہوں وہ مخدومئہ زمین وزمان
وہ بولا اسم شریف آپؑ کا وہ بولی ہاں
علیؑ کی زوجہ ہوں عباسؑ نامدار کی ماں
ابھی نہ ماں ہوں میں اسکی نہ وہ پسر میرا
جو کچھ حسینؑ کے کام آیا تو جگر میرا
ہے بات کرنا بھی نامحرموں سے مجھ کو عار
علیؑ کی لونڈیوں کا یہ چلن نہیں زنہار
مگر حسینؑ کی الفت نے کر دیا ناچار
نکل پڑی میں ردا اوڑھ کر سر بازار
خبر حسینؑ کی کہہ آرزو میں ہوں جس کی
کنیز ہوں تو میں اس کی جو ماں ہوں تو اس کی
میں ہول کھاتی ہوں بھائی تو گریبان ہے چاک
بشکل ماتمیان سر پہ اپنے ڈالے خاک
وہ بولا کم ہے جو کچھ غم کروں میں اے غمناک
ہوئی حسینؑ پہ بےداد لشکر سفاک
جگر ہو سنگ کا فولاد کی زباں ہوئے
تو ایک پیاس کا اس پیاسے کی بیاں ہوئے
الغرض اس قاصد نے حال شہدائے کربلا اس طرح بیان کرنا شروع کیا۔ کہ اے ام ا لبنین
حسینؑ کی کون سی مصیبت تم کو سنائوں۔اس طرف کئی لاکھ خنجر خونخوار ادھر ایک حسینؑ بے دیار،چاروں طرف سے فوج جفا کار نیزہ وتلوار کے وار کر رہے تھے،اور ایک قطرہ پانی کا نہ دیتے تھے۔حتیٰ کہ سوار ہونے کے وقت کوئی رکاب تھامنے والا نہ تھا۔کہ حضرت زینبؑ نے خیمہ سے نکل کر رکاب تھامی اور بھائی کو سوار کرایا۔ بیت۔
عدو کی فوج میں اس وقت رو دیا سب نے
جب اپنے بھائی کی رکاب تھامی زینبؑ نے
یہ سن کر حضرت ام البنین غصے سے کانپنے لگیں،اور فرمایا کہ عباس کو کیا ہوا تھا؟ رکاب تھامنے کو عار سمجھا۔وہ تو ہمیشہ نعلین حسینؑ اٹھایا کرتا تھا۔ نظم
غرور کی تو مرے لال کو نہ عادت تھی
رکاب تھامنا تو فخر تھا سعادت تھی
پکاری سوئے نجف مڑ کے یا علیؑ فریاد
لو خوب آ پ کے عباس نے کیا دل شاد
اسی کو اہل وفا آپ کرتے تھے ارشاد
حقوق پالنے والے کے کر دیئے برباد
کچھ آپ سنتے ہیں یہ نامہ بر جو کہتا ہے
غلام خدمت آقا میں یونہی رہتا ہے
جب یہ شکایت حضرت ام البنین کی نامہ بر نے سنی تو اس وقت کہنے لگا کہ اے مادر عباسؑ خدا گواہ ہے۔عباسؑ سا با وفا نہ دیکھا نہ سنا۔ یہ جو میں نے عرض کیا،حال دوپہر کا تھا۔اور بوقت صبح جب جناب امام حسینؑ سوار ہونے لگے،بھانجے، بھتیجے یار وانصار مع عباسؑ علمدار جلو میں موجود تھے۔ اور عباسؑ جرار نے رکاب تھام کر حضرت کو سوار کیا تھا۔قاسمؑ سر مبارک امام پر رومال ہلاتے تھے۔اکبرؑ جرار عنان کو تھامے تھے۔ مگر یہ حال تو دوپہر کا تھا۔جو میں نے عرض کیا۔ اس وقت ان جراروں میں سے کوئی بھی باقی نہ تھا۔ اس وقت،نظم
وداع ہو کے نبیؑ زادیوں سے وہ بولا
کھڑے تھے خیمے کی ڈیوڑھی پہ سید والا
رکاب تھامنے کو کوئی نہ تھا واویلا
حسینؑ دیکھتے تھے سوئے مقتل ودریا
بلاتے تھے علیؑ اکبرؑ کو اور روتے تھے
پکارتے تھے برادر کو اور روتے تھے
نہ کر تو شکوہ عباسؑ اے حمیدہ صفات
رکاب تھامے وہ کیوں کر کٹے ہوں جس کے ہاتھ
پڑا تھا بے کفن وگور وہ کنار فرات
صدا یہ لاش سے آتی تھی اے شاہ خوش ذات
اگر رضا ہو یہ مظلوم کربلائی کی
رکاب تھاموں کٹے ہاتھ سے میں بھائی کی
اے معظمہ حضرت عباس کی وفاداری کا حال تو بیان نہیں ہو سکتا۔کیونکہ جب ساتویں تاریخ محرم سے حرم پر پانی بند ہوا۔تو آپ کے بیٹے نے چار کنویں کھودے،اور دسویں تاریخ کو سکینہ ؑ کا سقا بنا۔مگر اس پیاسے کی قسمت میں پانی نہ تھا۔کہ شانے کٹا کر دریا پر شہید ہو گیا۔ہر چند شمر نے عباسؑ کو اپنی فوج کی سپہ سالاری کا پیغام دیا۔مگر اس وفادار نے حسینؑ کی کفش برداری کو ترک نہیں کیا۔ یہ سن کر جناب ام البنین نظم
سجدہ شکر بجا لائی پھر تو وہ بے آس
کہا میں خوش ہوئی عباسؑ آفریں عباسؑ
لحد میں چین سے اب سوئو ہو کے بے وسواس
غذا ہو میوہ طوبےٰ تو حلے ہوویں لباس
بہشت میں غم محشر سے بے ہراس رہو
غلام سبط نبیؑ ہو انہی کے پاس رہو
میں سرخ رو ہوئی شبیرؑ کے تو کام آیا
جو کچھ کہ تجھ پہ میرا حق تھا میں نے بھر پایا
ہزار شکر یہ مژدہ خدا نے سنوایا
علیؑ کی پوتی کا سقا بنا مرا جایا
خدا گواہ کہ تونے مجھے نہال کیا
لے اپنا دودھ بھی میں نے تجھے حلال کیا
پھر قا صد سے جناب امام حسینؑ کو دریافت کیا، تو اس نے کہاکہ ابھی اپنے اور تین بیٹوں کا حال بھی سن لیجیے،کہ عبداللہ اور عون وجعفر نے بھی اپنی جانیں حسینؑ پر نثار کیں۔یہ سن کر آپ نے قاصد سے عتاب آمیز لہجہ میں فرمایا نظم
میں پوچھتی ہوں تو کہتا ہے اور ہی کچھ حال
تو ہوش میں ہے کہ بے ہوش کس طرف ہے خیال
میں پہلے کہہ چکی تجھ سے نہیں میرا کوئی لال
حسینؑ ایک پسر ہے جیے صدو سی سال
سوا حسینؑ کے فرزند نور عین نہیں
پسر تو کیا کوئی میرا بجز حسینؑ نہیں
اے قاصد میں تجھ سے شہنشاہؑ کونین کا حال پوچھتی ہوں،اور تو غلاموں کا حال بیان کرتا ہے۔ مجھے حسینؑ کے حال سے آگاہ کر۔یہ سن کر ،نظم
جگر پہ مار کے ہاتھ اپنا نامہ بر نے کہا
جو حال سننا ہے بی بی حسینؑ بے کس کا
لو اب کھڑی نہ رہو بیٹھ جائو رکھ دو عصا
زنان ہاشمیہ کو بٹھا لو گرد ذرا
کلیجہ تھام لو تم اپنا دونوں ہاتھوں سے
کہ غش نہ آئے کہیں تم کو میری باتوں سے
پھر نامہ بر نے سر پیٹ کر با گریہ وزاری بیان کرنا شروع کیا۔نظم
اڑا کے خاک کہا اے ضعیفہ ہو آگاہ
ہزار و نو صد وپنجاہ زخم اک تن شاہ پر
اور ایک حلق پر ہفتاد ضرب خنجر آہ
چڑھا حسینؑ کے سینہ پہ قاتل بد خواہ
سر حسینؑ تو اس بد گمان نے کاٹا
غضب ہے ہاتھوں کو پھر سار بان نے کاٹا
یہ سن کے غش ہوئی ام البنین عالی جاہ
اٹھا یہ شور کہ فریاد یا رسول اللہ
ہوا جو غش سے افاقہ علیؑ کی زوجہ کو آہ
تو پوچھا حال سے زینبؑ کے بھی تو کر آگاہ
وہ ساتھ مر گئی بھائی کے یا اسیر ہوئی
لحد پہ سیدؑ والا کے یا فقیر ہوئی
سر اپنا پیٹ کے پھر نامہ بر چلایا
حسینؑ نے تو کفن بھی ابھی نہیں پایا
رسولؑ زادیوں پر سخت حادثہ آیا
برہنہ سر ہیں اٹھا جب سے شاہ کا سایہ
گلے میں طوق ہے عابدؑ کے شدت تپ میں
ہیں زخم نیزوں کی نوکوں کے پشت زینبؑ پر
یہ حال سن کر حضرت ام البنین نے چادر سر سے پھینک دی۔اور سینہ وسر پیٹ کر ہمراہی عورتوں سے فرمایا، نظم
بنائو شکل میری سوگواروں کی لوگو
میں بال کھولتی ہوں خاک چہرے پر مل دو
پکارو کہہ کے پسر مردہ آج سے مجھ کو
مٹا نشان نبیؑ نام حیدرؑ خوش خو
مری نگاہوں میں دنیا یہ اب سیاہ ہوئی
مرے حسینؑ کا پرسہ دو میں تباہ ہوئی
اس طرف تو یہ حال تھا۔وہاں انتظار میں حضرت صغراؑ کے ہونٹوں پہ جان تھی۔جناب ام البنین سے ساتھ کی عورتوں نے جناب صغراؑ کی بے قراری بیان کی، نظم
پڑی ہے ڈیوڑھی پہ بے ہوش فاطمہؑ صغراؑ
یہ سن کے گھر کو چلی خاک اڑاتی وہ دکھیا
سر اپنا پیٹتا قاصد بھی ساتھ ساتھ چلا
یہاں مریض کی آنکھیں تھیں سوئے مسجد وا
سفید چہرہ تھا دہشت سے تھرتھراتی تھی
کبھی کھڑی کبھی در پر وہ بیٹھ جاتی تھی
یہ دیکھا دور سے صغراؑ نے اتنے میں ناگاہ
کہ روتی آتی ہیں ام البنینؑ عالی جاہ
جبیں پہ خاک ملے ایک شخص ہے ہمراہ
ہوا یہ غل کہ یہی قاصد حسینؑ ہے آہ
خبر حسینؑ کے مرنے کی لے کے آیا ہے
سنانی سبطؑ پیمبرؑ کی لے کے آیا ہے
وہ قاصد آتا تھا منہ پہ لگائے خاک عزا
کہ نوجوانوں کا مجمع نظر پڑا اک جا
وہاں ٹھہر کے یہ دی قاصد حزیں نے صدا
سنو جوانو پیام اخیر اکبرؑ کا
وطن میں طور ہو جس نوجواں کی شادی کا
قلق کرے علیؑ اکبرؑ کی نامرادی کا
پکاری فاطمہؑ صغراؑ بتائو دادی جان
ہیں خیر سے میرے پردیسی باپ وبھائی جاں
وہ بولی خیر کہاں گھر کا گھر ہوا ویراں
سفر میں مٹ گیا بالکل علیؑ کا نام ونشاں
تو چھوٹی باپ سے اور میں پسر سے چھوٹ گئی
ہماری اور تری آس آج ٹوٹ گئی
قریب آن کے قاصد نے بھی کیا مجرا
اٹھا کے لایا تھا جو خاک مقتل شہدا
لہو کے مثل تھی وہ خاک سرخ واویلا
وہ دے کے فاطمہ صغراؑ کو نامہ بر بولا
لگائو آنکھوں سے یہ مٹی پاک ہے بی بی
ابوترابؑ کے بیٹے کی خاک ہے بی بی
یہ ہے عزیزوں کا تحفہ شہیدوں کی سوغات
تمام کنبہ تیرا قتل ہو گیا ہیہات
ترے لیے سر اکبرؑ تڑپتا ہے دن رات
بندھے ہیں عابدؑبیمار کے رسن سے ہاتھ
یہ خاک مقتل شاہؑ شہید لایا ہوں
میں قید میں ترے کنبہ کو چھوڑ آیا ہوں
میں کربل سے چلا جب ادھر کو اے صغراؑ
تو قیدیوں میں سے ایک لڑکی نے رو کر یہ کہا
بہن سے کہیو کہ زخمی ہوا ہے کان مرا
جو تم سے ہو سکے کچھ بھیج دو دوا بھینا
مریضہ بولی وہ میری بہن سکینہؑ ہے
اسی کی باتوں کا واللہ یہی قرینہ ہے
وہ خاک سونگھی جو صغراؑ نے آئی بوئے حسینؑ
سر اپنا خاک پہ دے ٹپکا ہو کے تب بے چین
منہ اپنا ڈھانپ کے کرتے سے کرتی تھی یہ بین
اور آس پاس تھیں ہم جولیاں بشیون وشین
زنان ہاشمیہ رو رہی تھیں چلا کر
بپا قیامت کبریٰ تھی گھر میں صغراؑ کے
یہ نوحہ کرتی تھی رو رو کے فاطمہؑ صغراؑ
میں کس کے آنے کے دن گنوں گی اے بابا
میں کس کی پوچھوں گی اب خیر وعافیت آقا
مجھے بھی پاس بلا لو سکینہؑ کا صدقہ
مریضہ بیٹی سے کس طرح منہ موڑ کو گئے
گئے تو چھوڑ کے اور آس آہ توڑ گئے
یہ کیا ستم ہے کہ اب تک تمہیں کفن نہیں ملا
تمہارا مردہ اور اس قابل آہ واویلا
بدن تمہارا ہے رن میں سناں پہ سر ہے چڑھا
تمہاری لاش کے صدقے تمہارے سر کے فدا
تمہارے حلق پہ شمشیر بے دریغ چلی
میں اس گلے کے تصدق کہ جس پہ تیغ چلی
بہن سکینہؑ ترے قید پہ قربان
جب ہنسلی سالگرہ کی پہناتی تھیں اماں
تو بار بار گلا چومتے تھے بابا جان
رسن کے بندھنے کی مشکل کرے خدا آسان
گلا رسن میں بندھا زندگی وبال ہوئی
یہ تیری سال گرہ آہ چوتھے سال ہوئی
جوانا مرگ برادر مرے علیؑ اکبرؑ
تمہاری مرگ جوانی کےصدقے یہ خواہر
صغیر بھائی مرے بے زباں علیؑ اصغرؑ
بہن نثار ہو ننھے سے ترے لاشے پر
کہاں سے ڈھونڈ کے ماں جائے تم کو لائوں میں
کہ دے کے لویاں گہوارے میں سلائوں میں
یہ بین کرتے ہی وحشت جو اس کو ہوئی سوا
سر اپنا پیٹتی باہر کو دوڑی ننگے پا ء
لپٹ کے دادی پکاری کدھر کدھر صغراؑ
وہ بولی جاتی ہوں میں آج سوئے کرب وبلا
نہ روکو صاحبو جنگل کی خاک اڑانے دو
پدر کی لاش پہ جائوں گی مجھ کو جانے دو
میں جا کے دیکھوں گی لاش امام نیک خصال
سنا ہے خاک میں اصغرؑ پڑے ہیں خوں میں نڈھال
اسیر کنبہ کا پوچھوں گی قید میں احوال
میں چھوٹے بھائی کے سلجھائوں گی جھنڈولے بال
نہ جب تلک شاہ مظلومؑ دفن ہویں گے
ہم اپنے باپ کے لاشہ پہ یونہی رویں گے
الغرض جناب ام البنین اور تمام عورات بنی ہاشم نے جناب صغراؑ کو تشفی اور دلاسہ دیا،مگر رونے والو جب کسی کا کوئی عزیز مر جاتا ہے،تو لاکھ تسلی وتشفی دی جاتی ہے،لیکن صبر نہیں آتا، زبان اگر نالہ وفریاد سے رک جاتی ہے،تو آنسو نہیں تھمتے۔آنکھوں سے اشکوں کی بارش ہوتی ہے۔ہائے صغراؑ کا تو سارا کنبہ عالم غربت میں تباہ ہو گیا۔سارا گھر اجڑ گیا۔بیمار کو کیوں کر چین آئے۔وہ بیمار ہر وقت اپنے باپ اور بھائیوں کو یاد کر کے رویا کرتی تھی۔
خبر وزیر کی اے شاہ کربلا لیجیے
غلام آپؑ کا ہوں روضے پہ بلا لیجیے
خبر وزیر کی اے شاہ کربلا لیجیے
غلام آپؑ کا ہوں غم سے اب چھڑا دیجیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment