Skip to main content

ستا ئیسویں مجلس اہل بیت کا اسیر ہو کر کربلا وکوفہ پہنچنااور حضرت ابن عفیف کی شہادت

ستا ئیسویں مجلس 

اپنے شرف پر زمین کعبہ کا فخر کرنا،زمین کربلا کی عظمت و بزرگی کا تذکرہ،اہل بیت کا اسیر ہو کر کربلا وکوفہ پہنچنااور حضرت ابن عفیف کی شہادت

قید میں یوں حرم شاہ کو لیے جاتے تھے
غیر بھی ان کی غریبی پر ترس کھاتے تھے
 جناب امام حسین علیہ السلام کے فضائل ومناقب کون بیان کر سکتا ہے،جب کہ خدا آپؑ کا مداح اور پیغمبرؑ  ثنا گستر ہوں۔آپؑ کی مدح وثنا  ء تو ایک طرف اس زمین کی تعر یف ممکن نہیں، جس پر کہ آنحضرت شہید ہوئے،اور نہ آج تک خالق کائنات نے کسی تکتہ زمین کو یہ بزرگی اور شرف عطا فرمایا جو کربلا معلےٰ کو بخشا ہے۔ بیت
 جس کی زمیں  ہے عرش یہ وہ آسمان ہے
 اس کے مکیں کے زیر نگیں سب مکان ہے
نظم
سرمہ برائے چشم شفا خاک پاک ہے
ہر درد لادوا کی دوا خاک پاک ہے
اور آب وتاب آب بقا خاک پاک ہے
روشن ہے سب پہ نور خدا خاک پاک ہے
اس خاک پر الہٰ کو سجدہ پسند ہے
 دنیا کی سب زمین سے رتبہ بلند ہے
گلگونہ خاک پاک ہے رضواں کے واسطے
غازہ نما زیان خوش ایماں کے واسطے
اکسیر ہے یہ عیسےٰ وعمراں کے واسطے
حوروں نے رکھ لیا جسے اشاں کے واسطے
ہاں آبرو زائر شاہ زمن ہے یہ
مرنے کے بعد شیعوں کا عطر کفن ہے یہ
مہر سپہر فاطمہؑ اس میں نہاں ہوئے
بن بن کے دانہ سجہ کے طلعت نشاں ہوئے
ذرے ہر ایک بن کے ستارے عیاں ہوئے
روشن اسی کے نور سے نو آسماں ہوئے
ذرے سمٹ کے نور کی چادر میں چھن گئے
ذکر خدا کے واسطے تسبیح بن گئے
بے شک کعبہ خدا کا گھر ہے۔ جس میں سنگ اسود بہشت سے آکر نصب ہوا۔یقیناـ" زمین کعبہ کو تمام روئے زمین پر شرف حاصل ہے۔چنانچہ روایت ہے کہ جب زمین کعبہ  حق تعالیٰ نے پیدا کی۔اس وقت ارض کعبہ نے تمام زمینوں پر فخر ومباہات کیا۔ بیت
یکتا ہوں کائنات میں اور بے عدیل ہوں
ہاں میں زمین کعبہ رب جلیل ہوں
 اس وقت خدا کی جانب سے آواز آئی کہ اے زمین کعبہ ہم تجھ سے کئی ہزار سال پہلے ایک زمین پیدا کر چکے ہیں۔ جو تیری زمین سے زیادہ شرف وبزرگی رکھتی ہے۔ اور تو اس کے مقابلہ پر ہر گز فخر نہ کرنا۔ہم نے تیری نزرگی صرف سنگ اسود سے بڑھائی ہے۔اور اس زمین کو یاقوت جگر گوشہ رسولؑ و بتولؑ کا مدفن قرار دیا ہے۔ بیت
 یکتا ہے وہ قسم مجھے اپنے جلال کی
اس میں بنے گی قبر پیمبرؑ کے لال کی
نظم
تعمیر تجھ پہ خلق میں گھر خدا کا ہے
مالک خدا کے گھر کا مکیں کربلا کا ہے
کعبہ یہاں تو نور وہاں کبریا کا ہے
جلوہ ہمارے نور سے خاک شفا کا ہے
گر خلق کربلائے معلےٰ نہ کرتے ہم
تو کیا ہے اپنے کعبہ کو پیدا نہ کرتے ہم
تو زیر پائے کعبہ اٹھاتی ہے اپنا سر
وہ ہوگی سر پہ عرش کے محشر میں جلوہ گر
اس کے شرف کے سامنے تو ہے بس اس قدر
 دریا کا پانی سوئی کے ناکے میں جس قدر
لاکھوں بھریں جو حلقہ سوزن تو غم نہ ہو
دریا کا ہے وہ ظرف کہ قطرہ بھی کم نہ ہو
جو حسن کربلا میں ہے کعبہ میں وہ کہاں
سنگ حرم ہے واں تو گہر فاطمہؑ یہاں
زمزم کے آب پاک سے آگاہ ہے جہاں
یاں آبرو کے ذائقے سے بند ہے زباں
واں اتقیا گھروں سے اگر حج کو جاتے ہیں
یاں انبیا طواف کو جنت سے آتے ہیں
 چنانچہ روایت میں ہے کہ جناب زین العابدینؑ کے اصحاب میں سے ایک بزرگ ابو سعید مظلوم کربلا کی زیارت کے شوق میں روانہ ہوئے،اور راہ روکنے والوں کے خوف سے رات کے وقت پوشیدہ منزلیں طے کرتے ہوئے نصف شب کو کربلا پہنچے،اور روضہ اقدس میں داخل ہونا چاہا۔ نظم
 نورانی اک جواں ہوا آگے سے آشکار
بولا کہ اے حسینؑ کے مہمان ترے نثار
آگے نہ بڑھیو دیکھ خبردار ہوشیار
 اس دم تیرا گزار نہ ہو گا سر مزار
تو بھی ترا ارادہ بھی پہنچا خدا تلک
 مشکل ہے جانا قبر شاہؑ کربلا تلک
 جس دم اس نورانی شخص کا کلام اس زائر خوش انجام نے سنا، مخزون وملول ہو کر پوچھا کہ آپ کون ہیں۔اسم مبارک سے آگاہ فرمایئے۔اور سبب رونے کا ظاہر کیجیے۔ بندہ کوفہ سے زیارت کے بے انتہا شوق میںیہاں تک پہنچا ہے۔ اور پھر بے نیل ومرام واپس جائے۔اے حضرت، بیت
زائر بہت بتولؑ کے پیارے کو پیارے ہیں
 پھر آپ کون روکنے والے ہمارے ہیں
نظم
 اس نے کہا خفا نہ ہو مرے کلام سے
 موسیٰ ترے حسینؑ کے مہمان ہیں شام سے
لپٹے ہوئے وہ روتے ہیں قبر امام سے
فرصت بکا سے ہے نہ درود وسلام سے
پیغمبرؑ جلیل وہ عالی صفات ہے
حصہ میں ان کے آج زیارت کی رات ہے
قدسی بھی گرد قبر کے ستر ہزار ہیں
سر ننگے سب مقرب پروردگار ہیں
نالے غضب کے آہ وفغاں بے شمار ہیں
 سن سن کے ساکناں فلک بے قرار ہیں
نوحے جو تو سنے نہ تو پھر دل کو کل پڑے
آہوں کے ساتھ منہ سے کلیجہ نکل پڑے
 لہذا اے زائر نیک انجام جب وہ پیغمبرؑ عالی وقار چلے جائیں،تو اس وقت سر مزار تیرا گزر ہو سکتا ہے۔ یہ سن کر زائر دیندار نے ان بزرگ کی خدمت میں عرض کیا،کہ روکنے کا سبب تو معلوم ہوا، اب آپ اپنے اسم مبارک سے مطلع فرمایئے، کہ ہم بیت
 زائر ہیں اور مجاور شاہ امم بھی ہیں
 ستر ہزار خادموں میں ایک ہم بھی ہیں
نظم
ہجرت کے ساٹھ سن تھے کہ محشر عیاں ہوا
 آئے ہم اس زمین پہ طے کرکے آسمان
پر مل چکا تھا خاک میں زہراؑ کا بوستان
 بے سر تڑپ رہا تھا تن شاہ انس وجان
جولاں سمند تھے بدن پاش پاش پر
زینبؑ پچھاڑیں کھاتی تھی بھائی کی لاش پر
دو کام حق نے سونپے ہیں اب ہم کو اے حزیں
آقا کا سوگ خدمت زوار شاہ دین
زائر کے ہے غلام کو عذر اور ہمیں نہیں
ہر کام پہ خدا ہمیں کہتا ہے آفرین
دامن ثواب گریہ کی دولت سے بھرتے ہیں
 اور زائروں کے قافلوں کو نذر کرتے ہیں
 اللہ اللہ جس شاہ عالی تبار کا پیش خدا یہ مرتبہ ہو۔ کہ جس کے قدم کی بدولت ارض کربلا کا یہ شرف ہے۔ افسوس صد افسوس اسی امام کونین شاہسوار دوش رسولؑ کی لاش پر ملعونوں نے گھوڑے دوڑائے۔ پھر بے دفن وکفن لاش جلتی ریت پر چھوڑ دی۔ افسوس صد افسوس بیت
 جس کی لحد کے گرد تمام انبیاؑ پھریں
سر اس کا برچھیوں پہ لیے اشقیا پھریں
 روایت ہے کہ بعد شہادت امام حسینؑ علیہ السلام اشقیا نے اس دشت میں ایک رات قیام کیا۔اور بوقت صبح تمام اہل بیت ؑاطہار کو شتران بے کجاوہ پر سوار کرکے لے چلے۔ آپ کے بیمار امامؑ  طوق وزنجیر میں جکڑے ہوئے تھے۔ بے یار وغمگسار شتر بان اہل بیتؑ کی مہار پکڑے ہوئے چلے جاتے تھے۔ نظم
مرقوم ہے بحار میں یہ غم کی داستان
اسی اور آٹھ سر شہدا کے سر سناں
تھے گرد ناقہ حرم محترم عیاں
زینبؑ کا ہر قدم پہ یہ عابد سے تھا بیاں
قربان جائوں اونٹ تو آگے بڑھاتے ہو
بابا کی اپنی لاش کسے سونپے جاتے ہو
عابدؑ بجز سکون نہ دیتے تھے کچھ جواب
تھے نبض ناتواں کی طرح سے رواں جناب
وہ تپ وہ درد سر وہ حرارت پہ آفتاب
وہ ہر قدم پہ پیاس کی شدت وہ قحط آب
ضعف اتنا تھا کہ دوش پہ سر تک وبال تھا
 گرنا تو سہل تھا مگر اٹھنا محال تھا
 الغرض اسی طرح جناب امام زین العابدینؑ باوجود   ضعف وناتوانی کے اونٹوں کی مہار پکڑے ہوئے کوفہ کی طرف روانہ  ہوئے،نظم
وہ آل رسولؑ عربی مالک تطہیر
 وہ پردہ نشینان سرا پردہ توقیر
 وہ خاص عزیزان شاہؑ بے کس ودلگیر
جن لوگوں کا خود پردہ کیا کرتے تھے شبیرؑ
بے پردہ وہ ناموس شاہ عرش نشیں  ہے
مقنعہ نہیں چادر نہیں رومال نہیں ہے
گر ہاتھ سے منہ اپنا چھپاتے ہیں وہ ہیھات
ہاتھوں میں  چبھاتے ہیں انی نیزوں کی بدذات
 تاکید یہ ہے چہروں پہ رکھے نہ کوئی ہاتھ
 اور بالوں میں بھی شکل نہ پنہاں کریں سادات
کچھ خوف خدا ہے نہ محمدؑ کا ادب ہے
 بے داد ہے آفت ہے قیامت ہے غضب ہے
 الغرض اہل بیت اطہار کا یہ لٹا ہوا قافلہ جس وقت قریب کوفہ پہنچا،اور حضرت زینبؑ وکلثومؑ نے سواد کوفہ ملاحظہ فرمایا۔ بے قرار ہو کر سردار فوج سے کہا کہ نظم
منت ہے ظالموں سے یہ سیدانیوں کی اب
کوفہ میں ہم کو لے کے نہ جائو برائے رب
پہچانتی ہیں عورتیں ہم کو یہاں کی سب
تھا شاہزادیوں کے سوا اور نہ کچھ لقب
کوئی یہاں ہمارے مقابل رہے نہیں
اور اب تو منہ دکھانے کے قابل رہے نہیں
للہ ہم پہ رحم کرو ظالمو ذرا
صدقہ نبیؑ کی روح کا دے دو کوئی ردا
 شرم وحیا سے اب تو لرزتے ہیں دست وپا
کوفہ میں منہ دکھائیں گے کس طرح ہم بھلا
رتبہ ہے گو کہ ہم سے سوا اب فقیر کا
لیکن بڑا ہے نام جناب امیرؑ کا
 افسوس ہے کہ اشقیا نے شہزادیوں کا کچھ پاس و لحاظ نہ کیا۔ نہ ان کی بے قراری پر  کچھ دھیان دیا۔ بلکہ کہا کہ ہم تم کو اسی طرح لے چلیں گے۔اس وقت جناب زینبؑ بہت بےقرار ہوئیں، نظم
عابدؑ سے بولیں حضرت زینبؑ بصد بکا
صدقے پھوپھی نثار پھوپھی شرم کی ہے جا
 بیٹا اسی طرح سے چلوں شہر میں میں کیا
کیا یاں بھی دستیاب نہ ہو گی کوئی ردا
پردہ کی فکر بہر امامؑ مبین کرو
گر یہ نہ ہوتو مجھ کو سپرد زمیں کرو
تم جانتے ہو میں ہوں وہی بنت بوترابؑ
عریان سر نہ دیکھ سکا جس کو آفتاب
دربار میں امیروں کا مجمع ہے بے حساب
مرضی ہے یہ تمہاری کہ جائوں میں بے نقاب
کب تک رہوں خموش لعینوں کے جبر سے
بہر مدد بلائوں میں بابا کو قبر سے
 عابدؑ یہ عرض کرتے تھے شرما کے بار بار
یوں دیکھتا میں آپؑ کو ہوتا جو اختیار
جز صبر کچھ زباں سے نکالو نہ زینہار
ایسا نہ ہو پھوپھی کہ قیامت ہو آشکار
تڑپایئے نہ روح شاہؑ مشرقین کی
کیا آپ نے بھلا دی وصیت حسینؑ کی
 جناب زینبؑ نے یہ سن کر سر جھکا لیا اور فرمایا بیت
لوآج سے کبھی نہیں آنے کی قہر میں
راضی ہوں سر برہنہ چلوں گی میں شہر میں
 ادھر تو جناب زین العابدینؑ اور حضرت زینبؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی،ادھر کوفہ میں داخل ہوتے ہی ہر طرف سے مبارکباد کا شور ہوا۔چنا نچہ کتاب بحار  الانوار میں مسلم معمار سے منقول ہے۔اس نے بیان کیا کہ میں کوفہ میں قلعہ کے دروازے کی مرمت کر رہا تھا۔ کہ آواز شور و غوغائے عظیم سنائی دی۔ میں نے تعجب کیا اور مزدوروں سے سبب دریافت کیا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک شخص نے یزید پر خروج کیا۔ لشکر یزید نے اس کو اور اس کے اصحاب وانصار  اور عزا کو قتل کیا ہے۔ اور اب ان کے سر نیزوں کی نوکوں پر بلند کیے ہوئے شہر میں آتے ہیں۔اور اس کے اہل بیت کو سر برہنہ لاتے ہیں۔اور تمام ساکنان کوفہ ان کے تماشے کو جاتے ہیں۔اور خوشیاں منا رہے ہیں۔کیوں حضرات کہاں اہل بیت کہاں کوفہ کا بازار نظم
 وہ زینبؑ مقبول خدا خاصہ یزداں
وہ صحن میں پڑھتی تھی دم  صبح جو قراں
اور سر سے ردا ہٹ گئی اس دم کسی عنواں
لکھا ہے نہ طالع ہوا خورشید درخشاں
اک دن وہی شاہزادی تھی اور لب پہ فغاں تھی
نرغہ میں ستم گاروں کے سر ننگے رواں تھی
غرض یہ سن کر وہ معمار کہتا ہے کہ میں نے لوگوں سے ان مقتولین کے نام دریافت کیے،تو معلوم ہوا کہ وہ حسینؑ اور ان کے اعزا وانصار کے سرہائے بریدہ ہیں۔ اور رسولؑ کی نواسیاں قید کرکے لائی جارہی ہیں۔اس وقت ،نظم
بولا میں انقلاب مقدر کو دیکھنا
بے پردہ اہل بیت پیمبرؑ کو دیکھنا
زینبؑ کو اور شام کے لشکر کو دیکھنا
زہراؑ کی بیٹیوں کے کھلے سر کو دیکھنا
محتاجی نقاب ہے چہروں پہ بال ہیں
 مر جانے سے حسینؑ کے ان کا یہ حال ہے
 القصہ اسی حال سے اہلبیتؑ اطہار کا قافلہ در کوفہ کے قریب پہنچا۔اور ملعونوں کا ہراول لشکر داخل دروازہ ہوا۔ جب اہلبیتؑ کے اونٹ بھی دروازہ کے قریب پہنچے،تو جناب زینبؑ نے ایک لاش دروازہ میں لٹکی ہوئی دیکھی،نظم
زینبؑ نے کہا چھاتی پھٹی جاتی ہے لوگو
اس لاش سے کچھ اور ہی بو آتی ہے لوگو
رو رو کے یوں اشتر سے وہ عابدؑ کو پکاری
یہ لاش ہے کس بے کس و مظلوم کی واری
اس کے لیے بے تاب ہے کیوں روح ہماری
اس لاش کی تنہائی پہ دل کرتا ہے زاری
کیوں بے کفن اس شہر میں یہ زار وحزیں ہے
کیا قبر بنانے کی یہاں رسم نہیں ہے
رو کر کہا عابدؑ نے کہ یہ رونے کی جا ہے
 یہ لاش ہے اس کی جو غریب الغربا ہے
 یہ اس کا ہراول ہے جو بے گور پڑا ہے
یہ مسلم مظلومؑ ہے یہ میرا چچا ہے
آوارہ وطن بے کس و مظلوم یہی ہے
 مظلوم وکیل شاہ مظلوم یہی ہے
زینبؑ نے کہا لو یہ مجھے اب ہوا معلوم
یہ مسلمؑ مظلوم ہے یہ مسلمؑ مظلوم
قربان وفدا اس پہ ہو یہ زینبؑ مغموم
 اس میرے مسافر کا ذرا دیکھیے مقسوم
جب شاہ موئے روتی تھی میں لاش پہ جا کے
مسلمؑ کے لیے یاں کوئی رویا بھی نہ آکے
پھو غور سے اس لاش ؑ کو زینبؑ نے جو دیکھا
 تھے نیل کئی لاش کے پیروں پہ ہویدا
رو کر کہا عابدؑ سے کہ یہ نیل ہے کیسا
عابدؑ نے کہا مرنے پہ انہیں دی ہے ایذا
باندھا قدم لاش  میں اعدا نے رسن کو
گلیوں میں پھرے کھینچتے آوارہ وطن کو
یہ لاش پھرے کھینچتے کوفے میں ہیں غدار
گہ کوچوں میں لاتے کبھی جانب بازار
یہ سنتے ہی غش ہو گئی زینبؑ جگر فگار
 نزدیک تھا اونٹوں سے گرے عترت اطہار
عابدؑ نے یہ رو رو کے کہا فوج شقی کو
ٹھہرا ئو ذرا اونٹ کہ غش آیا پھوپھی کو
 جب ثانی زہراؑ کو ہوش آیا تب فرمایا کہ اے بھائی مسلم افسوس ہے کہ اب تک تہماری لاش کو غسل وکفن نہیں ملا۔ نہ قبر بنائی گئی۔ بھیا تم نے اپنے مظلوم بھائی حسینؑ کی خو ب رفاقت  ونیابت  فر مائی۔
مجھے معلوم نہ تھا کہ اس لشکر غم والم کے ہراول تم ہی بنو گے۔ بھیا تمہاری بہن زینبؑ بازار کوفہ میں بے مقنع وچادر ہے۔ اے مسلم مجھ کو اٹھ کے ایک ردا  اوڑھادو۔حضرت زینبؑ کے اس بین سے ایک حشر برپا ہو گیا۔ سیدانیوں میں فریاد وفغاں کا شور بلند ہوا۔اور لاش حضرت مسلم سے آواز آئی کہ ہمشیر مجرا میرا قبول ہو۔ مجھ کو، بیت
 کچھ بے کفنی کا تو نہیں رنج و الم ہے
 تم بلوہ میں سر ننگے ہو واللہ یہ غم ہے
 اے بہن زینبؑ میری بے کسی کا غم نہ کرو،میرے لاشہ پر تو جناب فاطمہ زہراؑ سر پیٹتی رھی ہیں۔پیغمبرؑ خدا اور مشکل کشائے عالم ابھی تک موجود ہیں۔ میری لاش تنہا نہیں ہے۔لیکن اے بہن تم کو سر برہنہ دیکھ کر میری روح بے قرار ہے۔ اس کے بعد اور اسیروں کے اونٹ لاش کے قریب پہنچے نظم
 اک اونٹ پہ تھیں زوجہ مسلمؑ بھی جو اسوار
گودی میں رقیہ کو لیے مضطر وناچار
 لاشے کی صدا سن کے پکاری وہ دل فگار
 ہے ہے مرے والی مرے وارث مرے مختار
خواہر کی اسیری کا تو غم کھاتے ہو صاحب
 کچھ لونڈی کے حق میں نہیں فرماتے ہو صاحب
صدقے گئی  دیکھو تو مرے خاک بھرے بال
پردے کو نہ چادر ہے نہ مقنعہ ہے نہ رومال
ہے آپ کے ماتم میں رقیہ کا عجب حال
 یہ بے پدری اور یہ دکھ اور یہ سن وسال
جو تم پہ ستم گزرے وہ سب مجھ پہ عیاں ہیں
یہ تو کہو والی مرے فرزند کہاں ہیں
وہ دونوں مسافر مرے جائے مرے پیارے
آئے تھے مدینہ سے یہاں ساتھ تمہارے
جب قتل ہوئے آپؑ وہ کس سمت سدھارے
اب قید میں ہیں وہ کہ گئے جان سے مارے
کم عمر ہیں نادان ہے غریب الوطنی ہے
کیا جانیئے کیا میرے یتیموں پہ بنی ہے
 جس وقت لاش مسلمؑ سے آپ کی زوجہ نے پوچھا،راوی کہتا ہے کہ لاش مبارک کانپنے لگی اور آواز آئی کہ اے بی بی خدا تجھ کو صبر دے،تیری گود کے پالے وہ دونوں غریب الوطن معصوم لب دریا مارے گئے،بیت
ہم تو ہوئے فرزند پیمبرؑ پہ تصدق
بیٹوں کو کیا اکبرؑ واصغرؑ پہ تصدق
اللہ رے صبر۔یہ سنتے ہی زوجہ حضرت مسلم نے سر نیاز درگاہ بے نیاز میں جھکا کر شکر خدا ادا کیا اور کہا کہ اے میرے لاڈلو شکر ہے کہ میری کمائی  ٹھکانے لگی۔ چاروں بیٹے فدا ئے حسینؑ ہوئے۔کونین میں میری عزت بڑھائی۔ابھی زوجہ مسلم یہ فرما رہی تھیں کہ نظم
مادر سے رقیہ نے بھی رو رو کے یہ پوچھا
 اے والدہ یہ لاش میرے باپ کی ہے کیا
وہ بولی کہ ہاں لاڈلی یہ ہے ترا بابا
یہ سنتے ہی بیٹی نے کیا باپ کو مجرا
پھر بولی کہ بابا کا بھی سر کاٹ لیا ہے
افسوس لعینوں نے یہ کیا حال کیا ہے
پھر ننھے سے ہاتھ اس نے اٹھائے بدل زار
 اور دور سے لاشے کی بلائیں لیں کئی بار
پھر رو کے  یہ چلائی  کہ اے والد غم خوار
تسلیم کو آئی ہے یتیم آپ کی دلدار
سر کٹ گیا اے عاشق غفار تمہارا
کس طرح میں اب دیکھوں گی دیدار تمہارا

روداد سنی جب کہ رقیہ سے یہ ساری
تب لاشہ مسلم پہ ہوا زلزلہ طاری
پھر حلق سے آواز یہ آئی کئی باری
 اب صبر کرو روح ہے بے چین ہماری
سر ہم نے تو صدقے سر مولا پہ کیا ہے
اور تم کو کنیزی میں سکینہؑ کی دیا ہے
اسی عرصہ میں شمر ملعون جناب امام زین العابدینؑ کے قریب آیا،اور بولا کہ آگے بڑھو۔ بس مسلم کو رو چکے،سید سجادؑ مہار کھینچتے ہوئے آگے بڑھے۔ زوجہ مسلم نے سر پیٹ کر جناب زینبؑ سے عرض کی اے دختر زہراؑ میں تو یہاں سے نہ جائوں گی۔ اسی دروازے پر بستر لگائوں گی۔اپنے والی کی لاش کو تنہا نہیں چھوڑو  ں گی، اس وقت نظم
 حیدرؑ کی صدا لاش کے پہلو سے یہ آئی
موجود ہے یاں شاہ نجف اے مری جائی
شوہر ترا تنہا نہیں اے غم کی ستائی
پیارا ہے بہت مجھ کو ہے یہ شبیرؑ کا بھائی
غافل نہیں میں لاشہ مسلمؑ کی طرف سے
اس لاش پہ رونے کو میں آیا ہوا نجف سے
غرض اہل بیتؑ اطہار کا قافلہ بازار کوفہ میں پہنچا۔کوفیوں کی عورتیں اپنے اپنے مکان کی چھتوں پر زیب وزینت کیے ہوئے اہل بیتؑ اطہار کی اسیری کا تماشا دیکھنے اپنے اپنے لڑکوں کو لیے  بیٹھی تھیں۔ہاں مومنین یہ وہی کوفہ ہے کہ جہاں پر جناب امیرؑ کے عہد خلافت وحکومت میں ان شاہزادیوں کی جو کچھ قدر ومنزلت تھی، کون نہیں جانتا،مگر ہائے افسوس اسی کوفہ میں امام زین العابدینؑ ان ہی شاہزادیوں کے شتر بان بنے ہوئے  طوق وزنجیر پہنے ہوئے پا برہنہ جا رہے ہیں۔ان ہی شاہزادیوں کے بازئوں میں رسیاں بندھی ہوئی ہیں۔ بال کھلے ہوئے ہیں۔ شتران بے کجاوہ پر بیٹھی ہوئی بالوں سے منہ چھپائے ہوئے جا رہی ہیں۔اور گودیوں میں ننھے ننھے بچے مارے بھوک اور پیاس کے بے تاب ہیں۔یہ حال دیکھ کر عورات کوفہ میں شور گریہ بلند ہوا۔ تو حضرت زینبؑ نے فرمایا کہ اے زنان کوفہ تم عجب بے حیا ہو،کہ تمہارے مردوں نے ہمارے وارثوں کو قتل کیا۔اور ہم کو اس ذلت وخواری کے ساتھ لے آئے۔اور اب تم خود ہمارے حال زار پہ روتی ہو۔ بہت جلد وہ دن آنے والا ہے، جب کہ عالم الغیوب ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔اس وقت تم لوگوں کو سوائے ندامت کے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ یہ سن کر تمام مرد وزن  دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ اور اہل بیت رسولؑ کشاں کشاں دربار ابن زیاد میں لائے گئے۔
اللہ رے انقلاب آج  ابن زیاد اس مقام پر بیٹھا ہے، جہاں امیر المومنین علیؑ ابن ابی طالب رونق افروز ہو کر مسلمانوں کے امور کے انتظام فرماتے تھے۔اور اس ملعون کے سامنے طشت میں حسینؑ کا سر رکھا ہوا ہے۔اور اہل بیت رسول  ؑ مثل گنہگاروں کے رسی میں جکڑے ہوئے کھڑے ہیں۔ وہ ملعون آل رسولؑ کو دیکھ کر کہنے لگا ،بیت
 دعوےٰ کیا تھا مثل پیمبرؑ عروج کا
 کیا ہی مزہ حسینؑ نے پایا خروج کا
 روایت ہے کہ اس وقت ایک محب اہل بیت جناب عبداللہ بن عفیف دربار میں موجود تھے۔آپ بوڑھے اور نا بینا تھے۔آپ امیر المومنین کے ساتھ لڑائیوں میں شریک ہو چکے تھے۔ایک آنکھ جنگ جمل میں اور ایک آنکھ جنگ صفین میں جاتی رہی تھی۔ لیکن بیت
 آنکھوں کو کھو کے عین سعادت حصول کی
خود پتلیاں یہ بن گئے چشم رسولؑ کی
آنکھوں کا عذر ان کو ہوا عین مدعا
یعنی نہ دیکھا کوفے میں زینبؑ کو بے ردا
بے چشم کے بھی باغ ہے چہرہ کا خوشنما
نرگس نہ ہو چمن میں تو نقص چمن ہے کیا
خیبر شکن کے شیعوں میں یہ صف شکن ہوئے
خود شیر تھے کہ چشم کے آہو ہرن ہوئے
اس وقت ابن زیاد کے گستاخانہ کلام کو سن کر ابن عفیف گوشہ مسجد سے اٹھ کھڑے ہوئے۔اور ارشاد کیا کہ اے بدترین خلائق خاموش ہو۔نظم
 بھیجی ہے حق نے مدح میں جن کے کتب تمام
ہے ان کی شان میں ترا ملعون یہ کلام
برپا ہے زیر عرش خدا ماتم امام
تو شکر کر رہا ہے مٹا کر نبیؑ کا نام
بے مثل نیکیوں میں جنہیں کبریا کہے
مجلس میں تو انہی کو سراسر برا کہے
لے تو ہی کہہ حسینؑ پیمبرؑ کا کون ہے
 ہمسر جہاں میں اس شاہ بے سر کا کون ہے
حیدرؑ ہے اس کا کون وہ حیدر ؑ کا کون ہے
وارث نبیؑ کے خطبہ ومنبر کا کون ہے
سب گھائو بھولے آج شاہؑ مشرقین کو
زخمی کیا ہے تونے زباں سے حسینؑ کو
ارے او شقی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے نظم
منبر پہ واعظ کرتے تھے پیغمبرؑ زمان
جو حضرت حسینؑ ہوئے سامنے عیاں
ٹھکر لگی گرے در مسجد پہ ناگہاں
 حضرت کو واعظ وپند کا پھر ہوش تھا کہاں
نانا ادھر وہ نانا کا پیارا ادھر گرا
خورشید اس طرف کو ستارہ ادھر گرا
پھیلا کے ہاتھ دوڑے شہشاہؑ مرسلین
 دیکھیں پسر کی کہنیاں سرکا کے آستین
زانو کبھی دبائے کبھی چوم لی جبیں
بولے میں صدقے چوٹ تو پیارے لگی نہیں
آنکھیں نہ ڈبڈبائو ہمیں رنج ہوتے ہیں
لو ہنس دو واہ شیر کہیں گر کے روتے ہیں
 اے ابن زیاد اب تو ہی خیال کر کہ پیش رسولؑ خدا کیا قدر ومنزلت حسینؑ کی تھی۔ اسی حسینؑ کو تو برا کہتا ہے۔تیرے سر پر آسمان کیوں نہیں گرتا۔ یہ سن کر وہ شقی غیض میں کانپنے لگا اور بولا کہ اس کو گرفتار کر لو۔یہ کون ہے جو ایسی گستاخی کرتا ہے۔ تب آپ نے فرمایا کہ اے ابن زیاد میں ابن عفیف ہوں، نظم
عبد ذلیل خالق ذوالاحترام ہوں
اور کلمہ گوئے حضرت خیر الانام ہوں
جو حق کا خانہ زاد ہے اس کا غلام ہوں
ادنےٰ محب فاطمہؑ نیک نام ہوں
برسوں کا خادم حسنؑ نامدار ہوں
 اب آج کل حسینؑ کا میں سوگوار ہوں
 یہ سن کر ابن زیاد نے اشارہ کیا کہ اس کو پکڑ کر میرے رو برو لائو۔اس وقت وہاں اکثر محبان اہل بیت حاضر تھے۔انھوں نے ابن عفیف کی مدد کی۔اور ابن زیاد سے چھڑ واکر ان کو گھر پہنچا دیا۔دوسرے روز ابن زیاد لعین نے آپ کی گرفتاری کے لیے کچھ فوج بھیجی۔ بیت
 ابن عفیف شاد تھے اس واردات میں
 ناد علیؑ زباں پہ تھا تسبیح ہاتھ میں
نظم
لکھا ہے ایک دختر کم سن تھی ان کی آہ
جیسے سکینہؑ عاشق شاہؑ فلک پناہ
تیغیں لیے جو ہاتھوں میں آئے وہ رو سیاہ
سہمی پدر سے دوڑ کےلپٹی وہ رشک ماہ
ننھے سے ہاتھ جوڑے ہوئے سب کو تکتی تھی
سکتہ تھا مارے خوف کے کچھ کہہ نہ سکتی تھی
آخر زبان سے نکلی یہ بے ساختہ صدا
 تم کو جناب فاطمہؑ زہرا کا واسطہ
کس سے لڑوں گے جان ہے میرے پدر میں کیا
معذور دونوں آنکھوں سے کمزور،کم غذا
گھر لوٹ لو پر ان کو نکلنے کی راہ دو
صدقہ نبیؑ کا باپ کو میرے پناہ دو
بچپن پہ میرے ان کے بڑھاپے پہ رحم کھائو
والی ملک ہم سے خفا کیوں ہوا بتائو
لو شہر سے نکال دو حاکم سے پوچھ آئو
شیر خدا بسے ہیں جہاں واں ہمیں بسائو
بابا کو میرے نام پیمبرؑ پہ چھوڑ دو
قربان کر کے مرقد حیدرؑ پہ چھوڑ دو
سر کو نہیں تو سر سے میں چادر اتاروں گی
حلال مشکلات کو رو کر پکارونگی
بابا کے کام آئوں گی عقبیٰ سنواروں گی
پہلے چھری میں اپنے کلیجے پہ ماروں گی
جائو  جناب حضرت عباسؑ کے لیے
 للہ ابن فاطمہ کی پیاس کے لیے
 لیکن کسی نے اس بچی کی گریہ وزاری پر رحم نہ کھایا۔گھر میں درانہ داخل ہو گئے۔ابن عفیف اپنی بیٹی کو تسلی وتشفی دیتے تھے۔کہ اے نور نظر پریشان نہ ہو، تجھ کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ہر بشر کا خبر لینے والا وہی خالق ہے۔ یہ کہہ کر شمشیر آب دار منگائی۔اگر چہ آپ نابینا تھے۔ مگر تلوار چلانا شروع کی۔آپ کی بیٹی آگاہ کرتی جاتی تھی۔ نظم
بڑھ بڑھ کے نور چشم بتاتی تھی بار بار
لونڈی نثار قبلہ حاجات ہوشیار
اب داہنی طرف ہیں لعیں اب سوئے یسار
اب آگے آئے،اب ہیں سوئے پشت نیزہ دار
کور ان کو کہنا دور ہے عارف کی شان سے
نور نگاہ تو بول رہا تھا زبان سے
الغرض ابن عفیف نے متعدد اعدائے دین کو واصل جہنم کیا۔لیکن وہ نابینا عارف شان امام کب تک لڑتا۔اشقیا نے چاروں طرف سے گھیر کر تلواریں مارنا شروع کیں۔اس وقت آپ کی دختر فریاد کرتی تھی۔ کہ ارے لوگو جلد میرے ضیعف باپ کی خبر لو۔مگر کوئی اس مظلومہ کی فریاد نہ سنتا تھا۔آخر کار ابن عفیف زخموں سے چور ہو گئے،اور غش کھا کر زمین پر گر پڑے۔اور اشقیا نے اس عاشق سبط رسولؑ الثقلین کو گرفتار کر لیا۔اور ہاتھ پائوں باندھ کر ابن زیاد لعین کے پاس لے چلے۔اس وقت
نظم
بیٹی چلی پکاتی بابا کدھر چلے
لونڈی کو گھر میں چھوڑ کر  تنہا کدھر چلے
اے جان نثار حیدرؑ وزہراؑ کدھر چلے
اے صاحب عصا و مصلےٰ کدھر چلے
سونپا کسے حضور نے مجھ دل ملول کو
مڑ کر کہا پدر نے جناب بتولؑ کو
کافر کے آگے لے گیے مومن کو بد شعار
 مسند پہ اٹھ کھڑا ہوا منکر وہ نابکار
بولا محب شاہؑ سے آنکھوں کو کرکے چار
حق نے تمہیں بھی کر دیا آخر ذلیل وخوار
کیوں ذکر پھر کرو گے حسینؑ شہید کا
 پھر نام لو گے بے ادبی سے یزید کا
باقی ہے اب بھی حوصلہ الفت حسینؑ
مشکل میں کام آیا پیمبرؑ کا نور عین؟
چپ کیوں ہو یا علیؑ کہو اب بھی بشور وشین
جائے گا درد زخموں کا آئے گا دل کو چین
بڑھ بڑھ کے میرے سامنے اب بولتے نہیں
مشکیں تمہاری شاہؑ نجف کھولتے نہیں
 اس وقت ابن عفیف نے فرمایا کہ اے ابن زیاد تیرے دیدہ حق بیں کور ہیں،اور میں دیکھتا ہوں کہ جنت سے رسولؑ خدا وعلیؑ مرتضےٰ میرے لینے کو آئے ہیں۔ اب دنیا میں مشکیں بندھنے اور زخمی ہونے کی کیا پرواہ ہے۔نظم
بے درد اپنے درد کا کس کو خیال ہے
زخمی تن حسینؑ کا مجھ کو ملال ہے
بے سایہ ہائے دھوپ میں حیدرؑ کا لال ہے
زہراؑ کے دل کے گھائو کا بخیہ محال ہے
باندھے گئے ہیں آج تو اس باوفا کے ہاتھ
عاشورہ سے رسن میں ہیں آل عبا کے ہاتھ
حاضر ہے میری بیٹی اسے دربدر پھرا
لیکن نہ اب سکینہؑ کو تو ننگے سر پھرا
موجود ہوں میں تیغ میرے حلق پہ پھرا
سجادؑ کو نہ کانٹوں پہ اوبد گہر پھرا
کیا کیا نہ رنج آل پیمبرؑ اٹھا چکے
کوفہ میں کربلا سے کھلے سر تو آچکے
پیدا نہ تو ہوا تھا کہ میری تھی یہ دعا
ہو بد ترین خلق کے ہاتھوں سے خوں مرا
شکر خدا کہ آج ملا دل کا مدعا
جلاد کو شقی نے ندا دی کہ جلد آ
نازاں ہیں یہ ولائے شاہ نامدار پر
 تنبہیہ خلق کے لیے کھینچ اس کو دار پر
جلاد نے جو آن کے بازو سے پکڑا آہ
کوفہ کے قید خانہ میں مومن نے کی نگاہ
اک آہ سرد بھر کے پکارا وہ خیر خواہ
اے اہل بیت شاہ نجف رہیو تم گواہ
مرقوم مرا نام سعیدوں میں کیجیے
محسوب کربلا کے شہیدوں میں کیجیے
زینبؑ پکاری ہائے ارے لوگو کیا کروں
رسی کھلے جو بازو سے محشر بپا کروں
کس طرح اس محب علیؑ کو رہا کروں
اس درد لا علاج کی میں کیا دوا کروں
سیدانیو مقام ہے یہ شور وشین کا
کھنچتا ہے ہائے دار پہ عاشق حسینؑ کا
وارث اٹھا ہے مومنو کے سر سے آہ آہ
کیونکر نہ مبتلا ئے بلا ہوں یہ بے گناہ
اغلب ہے جب کہ قتل ہو یہ عاشق الہٰ
 گور وکفن اسے بھی نہ دیں گے یہ روسیاہ
بیٹی بھی آکے لاش پہ گریاں نہ ہوئوئے گی
آئی ندا کہ روح بتولؑ  اس کو روئے گی
 الغرض حضرت زینبؑ یہ فرماتی رہ گئیں،اور اس عاشق حسینؑ کو ملاعین نے شہید کر دیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون  ط
ایسی ولا وزیر کو اب ہو شاہ نجف
ابن عفیف کا ہوا جس حب سے یہ شرف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا

﷽ انتیسویں مجلس امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا  اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو واللہ ناامید کے دل کو امید ہو  اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت  دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی نظم پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے  اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں ہمس...

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...