بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم
اٹھارھویں مجلس حضرت علی اکبرؑ ہم شبیہ پیغمبرؑ کی شہادت کے حالات
گر چہ غم سب اقربا کا شاق ہے انسان پر
غم میں پر اولاد کے ہوتا ہے صدمہ جان پر
راویان اخبار غم اندوز وحاکیان حکایت جانسوز اس طرح روایت کرتے ہیں کہ کسی نے کسی صاحب عقل وفراست سے پوچھا، کہ ہر متنفس پر تمام عزیز واقربا کے مقابلہ اولاد کا غم بہت جانکاہ ہوتا ہے۔ اس کا کیا سبب ہے۔ اس نے کہا کہ جسم انسانی میں دل وچشم اعضائے رئیسہ ہیں۔اس طرح عزیز واقارب میں فرزند۔ لخت جگر، اور نور نظر مشہور ہے۔اسی وجہ سے یہ غم سب سے زیادہ ہے۔کہ آدمی اس غم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بیت۔
فی الحقیقت آدمی کو ہے بڑی نعمت پسر
روشنی چشم ہے آرام وجان لخت جگر
واقی غم اولاد ایسا ہی ہے۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ جنگ احد میں جب حضرت امیر حمزہ عم بزرگوار رسو لؑ کبار شہید ہوئے اور قاتل نے جگر آپ کا چاک کیا تو اس وقت کلیجہ میں کئی داغ نظر آئے۔جناب رسول مقبول سے کسی نے ان داغوں کے متعلق پوچھا،تو آپ نے فرمایا کہ یہ داغہائے اولاد ہیں۔جیسے جیسے حمزہؑ کے لڑکے مرتے گئے، کلیجے میں داغ پڑتے گئے۔اور حضرت یعقوبؑ کا حال مشہور ہے۔باجود کہ گیارہ پسر نامدار آپ کے پاس موجود تھے۔ مگر فراق حضرت یوسفؑ میں اس قدر روئے کہ آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔حالانکہ آپ جانتے تھے کہ یوسف زندہ ہیں اور ملیں گے۔ نظم
یعقوبؑ جانتے ہیں جہاں میں پسر کی چاہ
کیا کیا کھویں جھنکاتی ہے نور نظر کی چاہ
ہوتی ہے ہر درخت کو اپنے ثمر کی چاہ
کوئی صدف کے سینے سے پوچھے گہر کی چاہ
غم کا پہاڑ گرتا ہے بے کس حسینؑ پر
اس صبر کا بھی خاتمہ ہے بس حسینؑ پر
ہتھیار سج رہا ہے پسر دیکھتے ہیں آپؑ
دلبند کمر باندھتا ہے دیکھتے ہیں آپؑ
کرتا ہے نور عین سفر دیکھتے ہیں آپؑ
آنکھوں کے آگے لٹتا ہے گھر دیکھتے ہیں آپؑ
سودا جو حق کی راہ کا ٹوکتے نہیں
رکتا ہے دم پسر مگر روکتے نہیں
القصہ جس وقت وہ گل باغ حسینیؑ عازم جہاد ہوا اور بابا سے اجازت طلب کی،تو حضرت فضہ در خیمہ سے دیکھ رہی تھیں۔بے تاب ہو کر حضرت علیؑ اکبرؑ سے کہنے لگیں۔ اے شاہزادہ کون ومکان شاہزادی دوجہاں آپ کے فراق میں مثل ماہی بے آب خاک پر طپاں ہے۔ نظم
آگے نہ بڑھنا تم کو قسم ہے بتولؑ کی
اکبرؑ بلا رہی ہے نواسی رسول کی
ماں جاں بلب ہے خیمہ میں ہو آیئے ذرا
پالا ہے جس نے پھر اسے دیکھ آئیے ذرا
بہنیں تڑپتی ہیں انہیں سمجھایئے ذرا
پھر سب کو شکل چاند سی دکھلایئے ذرا
تصویر مصطفےٰ کی چھپے گی نگاہ میں
کاہے کو پھر کے آئیں گے اب قتل گاہ سے
حضرت فضہ سے یہ سن کر جناب علیؑ اکبرؑ قبلہ انام کے ہمراہ خیمے میں آئے۔جناب ام لیلیٰ فرزند دلبند سے دوڑ کر لپٹ گئیں۔ اور حضرت علیؑ اکبرؑ سے فرمانے لگیں۔کہ اے نور بصر تم نے میدان کارزار کا ارادہ کیوں کیا۔ ماں کی تنہائی اور ضیعفی پر رحم نہ آیا۔اس وقت جناب علیؑ اکبرؑ نہایت پریشان ہو کر سوچنے لگے کہ مادر مہربان میدان کی اجازت ہر گز نہ دیں گی۔ چونکہ آپؑ نہایت ہی شیریں سخن تھے۔ فرمانے لگے ،نظم
اے والدہ یہ غور وتامل کا ہے مقام
بابا کے خاندان سے تو واقف ہیں خاص وعام
گر حرب گاہ میں آج میں نے کیا نہ کام
چرچا رہے گا ہاشمیوں میں یہی مدام
پوتا نہ ہٹتا رن سے جناب امیرؑ کا
کسرائی ماں تھی یہ تھا اثر اس کے شیر کا
علاوہ اس کے جب روز حشر سامنا علیؑ وفاطمہؑ کا ہو گا۔ تو میں گروہ شہیداں سے علیحدہ اور آپ عترت طہار سے جدا کھڑی ہو نگی۔ اور جناب علیؑ مرتضےٰ اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا آپ سے پو چھیں گے کہ زوجہ حسنؑ نے قاسم سا مہہ لقا اور جناب زینبؑ نے فرزندان باوفا حسینؑ پر قربان کیے ، تم نے میرے بیٹے کے اوپر کیا صدقہ کیا۔ بیت۔
اس وقت کس غضب کی خجالت اٹھائیں گے
دادی سے آپ دادا سے ہم منہ چھپائیں گے
جناب علیؑ اکبرؑ سے یہ سنتے ہی نظم
ماں بولی قہر ہے یہ ندامت خدا بچائے
کوکھ اجڑ جائے جان جائے مگر آبرو نہ جائے
کیوں روکا میں نے آپؑ کو اے لال ہائے ہائے
فرزند ہے وہی جو برے وقت کام آئے
لو جلد اب عقاب منگائو سوار ہو
جائو شتاب جائو پدر پر نثار ہو
ہوتے تھے یاں مادر واکبر میں یہ پیام
بے ہوش اس طرف کو تھی خواہر امام
آیا جو ہوش بولی تڑپ کر وہ تشنہ کام
خیمہ میں آیا یا نہیں بانو کا لالہ فام
کہہ دو کہاں ہو آئو دم سرد بھرتے ہیں
فضہ پکاری ماں سے کچھ باتیں کرتے ہیں
یہ سن کر حضرت زینب نے حضرت زینبؑ سے فرمایا کہ اے بھابھی ۔ابیات۔
زندہ رہی کہ ذبح میں تشنہ گلو ہوئی
ماں بیٹو میں بتایئے کیا گفتگو ہوئی
بانو پکاری درد مصیبت کا تھا بیان
سن سن کے روئی نے کسی شاہ دو جہان
آئے کلام رخصت میدان جو درمیان
ہاں نہ نا نہ منہ سے نکلا بجز فغاں
بہر رضا جوان پسر بے قرار ہے
حاضر ہوئے حضور میں اب اختیار ہے
بولی تڑپ کے خواہر سلطان دین پناہ
بھابھی غضب کیا کہ کیا بھرا گھر تباہ
ہے ہے نہ سمجھے نیم رضا ہے خمو شی آہ
بھایا نہ کیا تمہیں میرے پیارے کا عزوجاہ
اس کا گلہ تو ہوگا شاہ خوخصال سے
بے میرے ہم سخن ہوئیں کیوں میرے لعل سے
سر کو جھکائے بانو ناشاد نے کہا
ہاں مہر مادری سے یہ اس دم ہوئی خطا
للہ عفو کیجیے اے بنت مرتضےٰ
وہ بولی اپنے پالے سے مجھ کو تو ہے گلہ
کس سے کہیں انہی سے یہ فریاد کرتے ہیں
زینبؑ کو جان بوجھ کے برباد کرتے ہیں
اے بھابھی جان مجھ کو اکبرؑ کی سلامتی ہمیشہ عزیز رہی ہے۔ ان کی خاطر داری میں میں نے کون کون سی آفت نہیں سہی۔ دو بیٹے ان پر صدقے کیے، مگر ان کو ہمارا خیال نہیں ہے۔ بیت
نظم
پھر اکبرؑ جوان سے یہ بولی وہ خستہ حال
اس سے سوا عروج پہ ہو نیر جلال
کچھ تم کو میرے رنج وقلق کا نہیں خیال
تیغ وسپر تو باندھ لی اے میرے نو نہال
زندہ نہ چھوڑو لاش پہ فریاد کرنے کو
جائو تو قتل کرکے مجھے جائو مرنے کو
جناب زینبؑ سے یہ باتیں درد بھری باتیں سن کر حضرت علی اکبرؑ نے عرض کی کہ اے پھوپھی جان میں نے جادئہ اطاعت سے کبھی قدم باہر نہیں رکھا۔ اور نہ اب آپ کے ارشاد کے خلاف ہو گا اور عرض کی ،بیت
اہل وفا غلام پھوپھی ہم سے کب ہوئے
باہر کبھی نہ حکم سے آگے نہ اب ہوئے
نظم
یہ کہہ رہا تھا ثانی محبوب کردگار
زینبؑ کو آیا جوش محبت جو ایک بار
منہ رکھ کے منہ پہ بولی کہ بس بس ترے نثار
صدقے پھو پھی زبان صداقت بیاں ہو تم
ہر بات میں شبیہ رسولؑ زمان ہو تم
ابھی پھوپھی بھتیجے میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ گروہ اشقیا نے مبارز طلب کیا۔ اس وقت جناب امام حسینؑ نے دروازہ خیمہ پر آکر بآواز بلند فرمایا، بیت
لو الوداع جاتے ہیں اے بنت مرتضےٰ
یہ سن کے تھر تھرا گئے زینبؑ کے دست وپا
اور جناب شہر بانو کے ہاتھ سے عنان صبر چھوٹ گئی۔گھبرا کے حضرت زینبؑ کے چہرہ مبارک پر نظر کی،اس وقت نظم
اکبرؑ نے کی نگاہ سوئے بنت بوتراب
بولی تڑپ کے خاک پہ وہ آسمان جناب
کیا پوچھتے ہو واری زیست نے دیا جواب
روکے کسے رضا کسے دے یہ جگر کباب
جلاد لوٹتے ہیں کمائی بتول کی
کہتی ہیں آپؑ سے کہ دہائی رسول کی
یہ کلام دل خراش سن کر جناب علی اکبر ؑ حضرت ؑ زینب کا کنایہ سمجھ گئے کہ پھوپھی کو اب بجز میری رخصت کے چارہ نہیں،جھک کر تسلیم کی۔ ماں نے بھی ارشاد فرمایا کہ اگر تمہاری مرضی ہے تو پدر بزرگ وار پر جان نثار کرو۔ مسدس
یاں ماں سے ہم شبیہ پیمبرؑ وداع ہوئے
عابد کو غش سے ہوش میں لا کر وداع ہوئے
دامن چھڑا کے بہنوں سے اکبر وداع ہوئے
اک اک سے کنبہ میں وہ برابر ہوئے وداع
پر نکلے جب خیام سے اکبر نہ کل پڑی
ہر بی بی ساتھ کھولے ہوئے سر نکل پڑی
پھوپھیاں بلائیں لے لے کے کرتی تھیں یہ بیان
آفت میں ہم کو چھوڑ کے واری چلے کہاں
لپٹی ہوئی تھیں قدموں سے بہنیں بصد فغاں
سر پیٹ کے یہ کہتی تھی بانوئے خستہ جان
مرنے کو قتل گاہ میں اے نوجوان چلے
گر حکم ہو تو لاش پہ رونے کو ماں چلے
گھبرا گئے یہ دیکھ کے شاہنشاہ انام
سمجھا کے ایک ایک کو بھیجا سوئے خیام
پھر بولے پسر سے امام فلک مقام
لپٹو گلے سے باپ کے اے میرے لالہ فام
اب پھر کے پیارے آپ نہ میدان سے آئیں گے
جیتے رہے تو لاش گلے سے لگائیں گے
پدر بزرگوار کا یہ ارشاد سن کر جناب علی اکبر ؑ آپ سے لپٹ گئےاور شہنشاہ بے دیار بار بار اپنے فرزند نامدار کو کلیجے سے لگاتے تھے۔اس وقت پدر اور پسر کا یہ حال تھا کہ نظم
یعقوبؑ وار شاہ شہیدان تڑپتے تھے۔
یوسف کی طرح اکبرؑ ذیشان تڑپتے تھے۔
آخر پسر پدر کے جگر سے جدا ہوا
مجرے کو خم ہلال صفت مہہ لقا ہوا
مثل فلک دوتا شہ ارض وسما ہوا
شکل عروس آیا نگاور سجا ہوا
زین پر مکین شبیہ رسول زمن ہوا
رہوار کے قدم پہ چشم بوسہ زن ہوا
دامان گرد میں ہوئے ہفت آسماں نہاں
اور سایہ عقاب میں امن واماں نہاں
چیونٹی کی آنکھ میں ہوئے پیل داماں نہاں
اور زیر کاہ ہو گیا آب رواں نہاں
شیر ودرندہ مسکن روبا میں چھپے
رہزن بزیر نقش قدم راہ میں چھپے
ساکن کو اضطراب ہے مضطر کو ہے سکون
دنیا تباہ خلق کا احوال ہے زبوں
ساکن ہے نبض جسم ہے بے جاں جگر ہے خون
لیلےٰ کا ہے نہ حسن نہ مجنوں کا ہے جنوں
خاقان چین مقیم ہیں فرش ہلاک پر
قیصر اتر کے تخت سے بیٹھا ہے خاک پر
القصہ بصد شوکت وحشم لشکر بد کردار کے مقابل آکر ارشاد فرمایا کہ اے قوم ناہنجار اور اے فرقہ اشرار: نظم
پہچانو ہم کو کون ہیں اور کیا ہیں ہم
نور خدا شبیہ رسولؑ خدا ہیں ہم
شیروں کے شیر دشت وغا ہیں ہم
قہر وجلال خالق ارض و سما ہیں ہم
پوتے علیؑ قلعہ کشا صف شکن کے ہیں
بیٹے حسینؑ کے تو بھتیجے حسنؑ کے ہیں
سن کر رجز نبیرہ شیر خدا کا
رنگ اڑ گیا رخ سپاہ روسیاہ کا
تاکا خطا شعار نے گوشہ پناہ کا
دیکھا جو حال شمر لعین نے ابتر سپاہ کا
بڑھ کر کہا شبیہ رسولؑ انام سے
ڈرتے ہیں تم سے ہم نہ تمہاری حسام سے
یہ سن کے لال ہو گیا غازی کا رنگ و رو
کھینچی غضب میں میان سے شمشیر شعلہ خو
چلائی موت نکلی مرے دل کی آرزو
چمکی تو یوں ہوئی ماہ انجم میں گفتگو
بھاگو نزول قہر ہے دشت قتال میں
مریخ برج حوت سے نکلا جلال میں
یوں رخش کو اڑا کے گیا فوج پر دلیر
جس طرح سے شکار کو جائے گرسنہ شیر
لائی اجل جو ظالموں کو منہ پہ گھیر گھیر
تلوار نے لگائے تن و سر کے پھر تو ڈھیر
جد صف پہ برق وار حسام دوسر گئی
سیدھی الٹ کے وہ سوئے قعر سقر گئی
لاکھوں سے لڑ رہا تھا اکیلا وہ نوجوان
صف پہ صف گر رہی تھی تڑپپتے تھے پہلوان
ناگاہ سر پہ تیغ جگر پر لگی سنان
تیورا کے رہ گیا جگر شاہ بے کساں
بہنے سے خون ضعف بڑھا زور گھٹ گیا
گردن سے راہوار کے غازی لپٹ گیا
چاروں طرف سے پڑنے لگے نیزہ وحسام
مجروح ہو گیا بدن نازنیں تمام
طاقت گھٹی تو زین پہ مشکل ہوا مقام
آواز دی کہ لو خبر اے قبلہ ء انام
بولی زمین جو زین سے وہ خستہ جاں گرا
اے چرخ پیر تو نہ گرا نوجواں گرا
اس آواز کے سنتے ہی ضیعف باپ کی طاقت وتوانائی نے جواب دے دیا اور قتل گاہ کو یہ فرماتے ہوئے چلے بیت
پیارے کا غم مرے لئے مرنے سے کم نہیں
ناطاقتی کا زور ہے اٹھتے قدم نہیں
نظم
گرتے ہوئے یہ کہہ کے شاہ بحر وبر چلے
دامن دریدہ خاک بسر نوحہ گر چلے
زینبؑ پکاری ڈیوڑھی سے تنہا کدھر چلے
مڑ کر کہا اٹھانے کو لاشے پسر چلے
غم کا سر حسین ؑ پہ کوہ گراں گرا
برچھی جگر پہ کھا کے میرا نوجوان گرا
بولی نکل کے خیمہ سے زینبؑ برہنہ پا
لیتے چلو بہن کو بھی اے شاہؑ کربلا
شہ نے تڑپ کے اہل حرم کو یہ دی صدا
زینبؑ کو روکو اے حرم شیر کبریا
میدان میں جو بنت علیؑ ننگے سر گئی
یہ جان لو کہ ہم پہ قیامت گزر گئی
یہ کہہ کے دوڑے رن کی طرف شاہ کربلا
گر کر قدم پہ بانو نے زینبؑ سے یہ کہا
واقف نہیں حمیت اکبرؑ سے آپ کیا
رن میں گئیں جو آپ انہیں ہو گا غم بڑا
مرتے ہوئے پسر کو نہ ناشاد کیجیے
خیمہ میں چل کے نالہ وفریاد کیجیے
الغرض سب سیدانیاں ہاتھوں ہاتھ اس اسیر غم کو خیمہ مبارک میں لے گئیں۔ اور جناب سید الشہداؑ میدان کارزار کی جانب روانہ ہوئے۔ ہائے افسوس امام حسینؑ اس وقت علی اکبرؑ کے تن مجروح کے پاس پہنچے۔ جب کہ وہ شاہزادہ زخموں سے چور چور زمین گرم پر تڑپ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر جناب امام حسینؑ علی اکبر سے لپٹ گئے۔ اور فرمانے لگے، بیٹا تم نے اس وقت میں ہمارا ساتھ چھوڑا ہے۔جب کوئی حامی ومددگار نہیں۔اب جو کچھ آرزو ہو بیان کرو اس وقت جناب علی اکبرؑ نے عرض کی کہ اے بابا کوئی آرزو اس جان نثار کے دل میں بجز اس کے نہیں ہے۔۔۔نظم
لے چلیے ہم کو خیمہ میں مادر کو دیکھ لیں
بہنوں کو اور مریض برادر کو دیکھ لیں
عباسؑ کے یتیموں کو اصغر کو دیکھ لیں
وقت اخیر زینبؑ مضطر کو دیکھ لیں
یثرب کے نوجوانوں کو داغ اپنا دے چکے
صغریٰ کے دیکھنے کا ہم ارمان لے چلے
یہ سن کر جناب امام حسینؑ فرزند نوجوان کی لاش اٹھا کر میدان سے خیمہ کی طرف روانہ ہوئے۔جب خیمہ مبارک کے قریب پہنچے نظم
ناگاہ آکے فضہ نے زینبؑ سے یہ کہا
اے بی بی آیا لاشہ ہم شکل مصطفےٰ
یہ سن کے وہ تڑپ کے اٹھی پر غش آگیا
لاشہ لٹا کے شاہ نے پہلو میں دی صدا
اے بنت مرتضےٰ یہ عبث اضطرار ہے
مرضی میں حق کی بندہ کا کیا اختیار ہے
ہمشکل مصطفےٰ کا جہاں سے سفر نہیں
پیغام موت میرے لیے ہے کرو یقین
بے ہوش کیا پڑی ہو اٹھو زینبؑ حزین
لڑ بھڑ کے رن سے آیا ہے بانو کا مہہ جبین
Comments
Post a Comment