Skip to main content

اٹھارھویں مجلس حضرت علی اکبرؑ ہم شبیہ پیغمبرؑ کی شہادت کے حالات


بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم
اٹھارھویں مجلس حضرت علی اکبرؑ ہم شبیہ پیغمبرؑ کی شہادت کے حالات

 گر چہ  غم سب اقربا کا شاق ہے انسان پر
غم میں پر اولاد کے ہوتا ہے صدمہ جان پر
راویان اخبار غم اندوز وحاکیان حکایت جانسوز اس طرح روایت کرتے ہیں کہ کسی نے کسی صاحب عقل وفراست سے  پوچھا، کہ ہر متنفس پر تمام عزیز واقربا کے  مقابلہ اولاد کا غم بہت جانکاہ ہوتا ہے۔ اس کا کیا سبب ہے۔ اس نے کہا کہ جسم انسانی میں دل وچشم اعضائے رئیسہ ہیں۔اس طرح عزیز واقارب میں فرزند۔ لخت جگر، اور نور نظر مشہور ہے۔اسی وجہ سے یہ غم سب سے زیادہ ہے۔کہ آدمی اس غم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بیت۔
فی الحقیقت آدمی کو ہے بڑی نعمت پسر
روشنی چشم ہے آرام وجان لخت جگر
واقی غم اولاد ایسا ہی ہے۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ جنگ احد میں جب حضرت امیر حمزہ  عم بزرگوار رسو     لؑ  کبار شہید ہوئے اور قاتل نے جگر آپ کا چاک کیا تو اس وقت کلیجہ میں کئی داغ نظر آئے۔جناب رسول مقبول سے کسی نے ان داغوں کے متعلق پوچھا،تو آپ نے فرمایا کہ یہ داغہائے اولاد ہیں۔جیسے جیسے حمزہؑ کے لڑکے مرتے گئے، کلیجے میں داغ پڑتے گئے۔اور حضرت یعقوبؑ کا حال مشہور ہے۔باجود  کہ گیارہ پسر نامدار آپ کے پاس موجود تھے۔ مگر فراق حضرت یوسفؑ میں اس قدر روئے کہ آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔حالانکہ آپ جانتے تھے کہ یوسف زندہ ہیں اور ملیں گے۔ نظم
یعقوبؑ جانتے ہیں جہاں میں پسر کی چاہ
کیا کیا کھویں جھنکاتی ہے نور نظر کی چاہ
 ہوتی ہے ہر درخت کو اپنے ثمر کی چاہ
کوئی صدف کے سینے سے پوچھے گہر کی چاہ
غم کا پہاڑ گرتا ہے بے کس حسینؑ پر
اس صبر کا بھی خاتمہ ہے بس حسینؑ پر
ہتھیار سج رہا ہے پسر دیکھتے ہیں آپؑ
 دلبند کمر باندھتا ہے دیکھتے ہیں آپؑ
کرتا ہے نور عین سفر دیکھتے ہیں آپؑ
آنکھوں کے آگے لٹتا ہے گھر دیکھتے ہیں آپؑ
سودا جو حق کی راہ کا ٹوکتے نہیں
 رکتا ہے دم پسر مگر روکتے نہیں
 القصہ جس وقت وہ گل باغ حسینیؑ عازم جہاد ہوا اور بابا سے اجازت طلب کی،تو حضرت فضہ در خیمہ سے دیکھ رہی  تھیں۔بے تاب ہو کر حضرت علیؑ اکبرؑ سے کہنے لگیں۔ اے شاہزادہ کون ومکان شاہزادی دوجہاں آپ کے فراق میں مثل ماہی بے آب خاک پر طپاں ہے۔ نظم
آگے نہ بڑھنا تم کو قسم ہے بتولؑ کی
اکبرؑ بلا رہی ہے نواسی رسول کی
ماں جاں بلب ہے خیمہ میں ہو آیئے ذرا
پالا ہے جس نے پھر اسے دیکھ آئیے ذرا
بہنیں تڑپتی ہیں انہیں سمجھایئے ذرا
پھر سب کو شکل چاند سی دکھلایئے ذرا
تصویر مصطفےٰ کی چھپے گی نگاہ میں
 کاہے کو پھر کے آئیں گے اب قتل گاہ سے
 حضرت فضہ سے یہ سن کر جناب علیؑ اکبرؑ قبلہ انام کے ہمراہ خیمے میں آئے۔جناب ام لیلیٰ فرزند دلبند سے دوڑ کر لپٹ گئیں۔ اور حضرت علیؑ اکبرؑ سے فرمانے لگیں۔کہ اے نور بصر تم نے میدان کارزار کا ارادہ کیوں کیا۔ ماں کی تنہائی اور ضیعفی پر رحم نہ آیا۔اس وقت جناب علیؑ اکبرؑ نہایت پریشان ہو کر سوچنے لگے کہ مادر مہربان میدان کی اجازت ہر گز نہ دیں گی۔ چونکہ آپؑ نہایت ہی شیریں سخن تھے۔ فرمانے لگے ،نظم
 اے والدہ یہ غور وتامل کا ہے مقام
بابا کے خاندان سے تو واقف ہیں خاص وعام
گر حرب گاہ میں آج میں نے کیا نہ کام
چرچا رہے گا ہاشمیوں میں یہی مدام
پوتا نہ ہٹتا رن سے جناب امیرؑ کا
 کسرائی ماں تھی یہ تھا اثر اس کے شیر کا
 علاوہ اس کے جب روز حشر سامنا علیؑ وفاطمہؑ کا ہو گا۔ تو میں گروہ شہیداں سے علیحدہ اور آپ عترت طہار سے جدا کھڑی ہو نگی۔ اور جناب علیؑ مرتضےٰ اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا آپ سے پو چھیں گے کہ زوجہ حسنؑ نے قاسم سا مہہ لقا اور جناب زینبؑ نے فرزندان باوفا حسینؑ پر قربان کیے ، تم نے میرے بیٹے کے اوپر کیا صدقہ کیا۔ بیت۔
اس وقت کس غضب کی خجالت اٹھائیں گے
دادی سے آپ دادا سے ہم منہ چھپائیں گے
 جناب علیؑ اکبرؑ سے یہ سنتے ہی نظم
 ماں بولی قہر ہے یہ ندامت خدا بچائے
 کوکھ اجڑ جائے جان جائے مگر آبرو نہ جائے
کیوں روکا میں نے آپؑ کو اے لال ہائے ہائے
فرزند ہے وہی جو برے وقت کام آئے
لو جلد اب عقاب منگائو سوار ہو
 جائو شتاب جائو پدر پر نثار ہو
 ہوتے تھے یاں مادر واکبر میں یہ پیام
 بے ہوش اس طرف کو تھی خواہر امام
آیا جو ہوش بولی تڑپ کر وہ تشنہ کام
خیمہ میں آیا یا نہیں بانو کا لالہ فام
کہہ دو کہاں ہو آئو دم سرد بھرتے ہیں
فضہ پکاری ماں سے کچھ باتیں کرتے ہیں
 یہ سن کر حضرت زینب نے حضرت زینبؑ سے فرمایا کہ اے بھابھی  ۔ابیات۔
زندہ رہی کہ ذبح میں تشنہ گلو ہوئی
ماں بیٹو میں بتایئے کیا گفتگو ہوئی
 بانو پکاری درد مصیبت کا تھا بیان
 سن سن کے روئی نے کسی شاہ دو جہان
آئے کلام رخصت میدان جو درمیان
ہاں نہ نا نہ منہ سے نکلا بجز فغاں
بہر رضا جوان پسر بے قرار ہے
حاضر ہوئے حضور میں اب اختیار ہے
بولی تڑپ کے خواہر سلطان دین پناہ
بھابھی غضب کیا کہ کیا بھرا گھر تباہ
ہے ہے نہ سمجھے نیم رضا ہے خمو شی آہ
بھایا نہ کیا تمہیں  میرے پیارے کا عزوجاہ
 اس کا گلہ تو ہوگا شاہ خوخصال سے
 بے میرے ہم سخن ہوئیں کیوں میرے لعل سے
سر کو جھکائے بانو ناشاد نے کہا
ہاں مہر مادری سے یہ اس دم ہوئی خطا
للہ عفو کیجیے اے بنت مرتضےٰ
وہ بولی اپنے پالے سے مجھ کو تو ہے گلہ
کس سے کہیں انہی سے یہ فریاد کرتے ہیں
زینبؑ کو جان بوجھ کے برباد کرتے ہیں
 اے بھابھی جان مجھ کو اکبرؑ کی سلامتی ہمیشہ عزیز رہی ہے۔ ان کی خاطر داری میں میں نے کون کون سی آفت نہیں سہی۔ دو بیٹے ان پر صدقے کیے، مگر ان کو ہمارا خیال نہیں ہے۔ بیت
نظم
پھر اکبرؑ جوان سے یہ بولی وہ خستہ حال
اس سے سوا عروج پہ ہو نیر جلال
کچھ تم کو میرے رنج وقلق کا نہیں خیال
تیغ وسپر تو باندھ لی اے میرے نو نہال
زندہ نہ چھوڑو لاش پہ فریاد کرنے کو
 جائو تو قتل کرکے مجھے جائو مرنے کو
جناب زینبؑ سے یہ باتیں درد بھری باتیں سن کر حضرت علی اکبرؑ نے عرض کی کہ اے پھوپھی جان میں نے جادئہ اطاعت سے کبھی قدم باہر نہیں رکھا۔ اور نہ اب آپ کے ارشاد کے خلاف ہو گا اور عرض کی ،بیت
اہل وفا غلام پھوپھی ہم سے کب ہوئے
 باہر کبھی نہ حکم سے آگے نہ اب ہوئے
نظم
یہ کہہ رہا تھا ثانی محبوب کردگار
زینبؑ کو آیا جوش محبت جو ایک بار
 منہ رکھ کے منہ پہ بولی کہ بس بس ترے نثار
صدقے پھو پھی زبان صداقت بیاں ہو تم
 ہر بات میں شبیہ رسولؑ زمان ہو تم
 ابھی پھوپھی بھتیجے میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ گروہ اشقیا نے مبارز طلب کیا۔ اس وقت جناب امام حسینؑ نے دروازہ خیمہ پر آکر بآواز بلند فرمایا، بیت
لو الوداع جاتے ہیں اے بنت مرتضےٰ
یہ سن کے تھر تھرا گئے زینبؑ کے دست وپا
اور جناب شہر بانو کے ہاتھ سے عنان صبر چھوٹ گئی۔گھبرا کے حضرت زینبؑ کے چہرہ مبارک پر نظر کی،اس وقت نظم
اکبرؑ نے کی نگاہ سوئے بنت بوتراب
بولی تڑپ کے خاک پہ وہ آسمان جناب
کیا پوچھتے ہو واری زیست نے دیا جواب
روکے کسے رضا کسے دے یہ جگر کباب
جلاد لوٹتے ہیں کمائی بتول کی
کہتی ہیں آپؑ سے کہ دہائی رسول کی
 یہ کلام دل خراش سن کر جناب علی اکبر ؑ   حضرت ؑ  زینب  کا کنایہ  سمجھ گئے کہ پھوپھی کو اب بجز میری رخصت کے چارہ نہیں،جھک کر تسلیم کی۔ ماں نے بھی ارشاد فرمایا کہ اگر تمہاری مرضی ہے تو پدر بزرگ وار پر جان نثار کرو۔ مسدس
یاں ماں  سے ہم شبیہ پیمبرؑ وداع ہوئے
 عابد کو غش سے ہوش میں لا کر وداع ہوئے
دامن چھڑا کے بہنوں سے اکبر وداع ہوئے
اک اک سے کنبہ میں وہ برابر ہوئے وداع
پر نکلے جب خیام سے اکبر نہ کل پڑی
ہر بی بی ساتھ کھولے ہوئے سر نکل پڑی
پھوپھیاں بلائیں لے لے کے کرتی تھیں یہ بیان
آفت میں ہم کو چھوڑ کے واری چلے کہاں
لپٹی ہوئی تھیں قدموں سے بہنیں بصد فغاں
سر پیٹ کے یہ کہتی تھی بانوئے خستہ جان
مرنے کو قتل گاہ میں اے نوجوان چلے
گر حکم ہو تو لاش پہ رونے کو ماں چلے
گھبرا گئے یہ دیکھ کے شاہنشاہ انام
سمجھا کے ایک ایک کو بھیجا سوئے خیام
پھر بولے پسر سے امام فلک مقام
لپٹو گلے سے باپ کے اے میرے لالہ فام
اب پھر کے پیارے آپ نہ میدان سے آئیں گے
جیتے رہے تو لاش گلے سے لگائیں گے
پدر بزرگوار کا  یہ ارشاد سن کر جناب علی اکبر  ؑ آپ سے لپٹ گئےاور شہنشاہ بے دیار بار بار اپنے فرزند نامدار کو کلیجے سے لگاتے تھے۔اس وقت پدر اور پسر کا یہ حال تھا کہ نظم
یعقوبؑ وار شاہ شہیدان تڑپتے تھے۔
یوسف کی طرح اکبرؑ ذیشان تڑپتے تھے۔
آخر پسر پدر کے جگر سے جدا ہوا
مجرے کو خم ہلال صفت مہہ لقا ہوا
مثل فلک دوتا شہ ارض وسما ہوا
شکل عروس آیا نگاور سجا ہوا
زین پر مکین شبیہ رسول زمن ہوا
 رہوار کے قدم پہ چشم بوسہ زن ہوا
دامان گرد میں ہوئے ہفت آسماں نہاں
اور سایہ عقاب میں امن واماں نہاں
چیونٹی کی آنکھ میں ہوئے پیل داماں نہاں
اور زیر کاہ ہو گیا آب رواں نہاں
شیر ودرندہ مسکن روبا میں چھپے
رہزن بزیر نقش قدم راہ میں چھپے
ساکن کو اضطراب ہے مضطر کو ہے سکون
 دنیا تباہ خلق کا احوال ہے زبوں
 ساکن ہے نبض جسم ہے بے جاں جگر ہے خون
لیلےٰ کا ہے نہ حسن نہ مجنوں کا ہے جنوں
خاقان چین مقیم ہیں فرش ہلاک پر
قیصر اتر کے تخت سے بیٹھا ہے خاک پر
 القصہ بصد شوکت وحشم  لشکر بد کردار کے مقابل آکر ارشاد فرمایا کہ اے قوم ناہنجار اور اے فرقہ اشرار: نظم
پہچانو ہم کو کون ہیں اور کیا ہیں ہم
نور خدا شبیہ رسولؑ خدا ہیں ہم
شیروں کے شیر دشت وغا ہیں ہم
قہر وجلال خالق ارض و سما ہیں ہم
پوتے علیؑ قلعہ کشا صف شکن کے ہیں
بیٹے حسینؑ کے تو بھتیجے حسنؑ کے ہیں
سن کر رجز نبیرہ شیر خدا کا
 رنگ اڑ گیا رخ سپاہ روسیاہ کا
تاکا خطا شعار نے گوشہ پناہ کا
دیکھا جو حال شمر لعین نے ابتر سپاہ کا
بڑھ کر کہا شبیہ رسولؑ انام سے
ڈرتے ہیں تم سے ہم نہ تمہاری حسام سے
یہ سن کے لال ہو گیا غازی کا رنگ و رو
کھینچی غضب میں میان سے شمشیر شعلہ خو
چلائی موت نکلی مرے دل کی آرزو
چمکی تو یوں ہوئی ماہ انجم میں گفتگو
بھاگو نزول قہر ہے دشت قتال میں
مریخ برج حوت سے نکلا جلال میں
یوں رخش کو اڑا کے گیا فوج پر دلیر
جس طرح سے شکار کو جائے گرسنہ شیر
لائی اجل جو ظالموں کو منہ پہ گھیر گھیر
تلوار نے لگائے تن و سر کے پھر تو ڈھیر
جد صف پہ برق وار حسام دوسر گئی
سیدھی الٹ کے وہ سوئے قعر سقر گئی
لاکھوں سے لڑ رہا تھا اکیلا وہ نوجوان
صف پہ صف گر رہی تھی تڑپپتے تھے پہلوان
ناگاہ سر پہ تیغ جگر پر لگی سنان
تیورا کے رہ گیا جگر شاہ بے کساں
بہنے سے خون ضعف بڑھا زور گھٹ گیا
گردن سے راہوار کے غازی لپٹ گیا
چاروں طرف سے پڑنے لگے نیزہ وحسام
مجروح ہو گیا بدن نازنیں تمام
طاقت گھٹی تو زین پہ مشکل ہوا مقام
آواز دی کہ لو خبر اے قبلہ ء انام
بولی زمین جو زین سے وہ خستہ جاں گرا
اے چرخ پیر تو نہ گرا نوجواں گرا
 اس آواز کے سنتے ہی ضیعف باپ کی طاقت وتوانائی نے جواب دے دیا اور قتل گاہ کو یہ فرماتے ہوئے چلے   بیت
پیارے کا  غم مرے لئے مرنے سے کم نہیں
ناطاقتی کا زور ہے اٹھتے قدم نہیں
نظم
گرتے ہوئے یہ کہہ کے شاہ بحر وبر چلے
دامن دریدہ خاک بسر نوحہ گر چلے
 زینبؑ پکاری ڈیوڑھی سے تنہا کدھر چلے
مڑ کر کہا اٹھانے کو لاشے پسر چلے
غم کا سر حسین ؑ پہ کوہ گراں گرا
برچھی جگر پہ کھا کے میرا نوجوان گرا
بولی نکل کے خیمہ سے زینبؑ برہنہ پا
لیتے چلو بہن کو بھی اے شاہؑ کربلا
شہ نے تڑپ کے اہل حرم کو یہ دی صدا
زینبؑ کو روکو اے حرم شیر کبریا
میدان میں جو بنت علیؑ ننگے سر گئی
یہ جان لو کہ ہم پہ قیامت گزر گئی
یہ کہہ کے دوڑے رن کی طرف شاہ کربلا
گر کر قدم پہ بانو نے زینبؑ سے یہ کہا
واقف نہیں حمیت اکبرؑ سے آپ کیا
رن میں گئیں جو آپ انہیں ہو گا غم بڑا
مرتے ہوئے پسر کو نہ ناشاد کیجیے
خیمہ میں چل کے نالہ وفریاد کیجیے
 الغرض سب سیدانیاں ہاتھوں ہاتھ اس اسیر غم کو خیمہ مبارک میں لے گئیں۔ اور جناب سید الشہداؑ میدان کارزار کی جانب روانہ ہوئے۔ ہائے افسوس امام حسینؑ اس وقت علی اکبرؑ کے تن مجروح کے پاس پہنچے۔ جب کہ وہ شاہزادہ زخموں سے چور چور زمین گرم پر تڑپ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر جناب امام حسینؑ علی اکبر سے لپٹ گئے۔ اور فرمانے لگے، بیٹا تم نے اس وقت میں ہمارا ساتھ چھوڑا ہے۔جب کوئی حامی ومددگار نہیں۔اب جو کچھ آرزو ہو بیان کرو اس وقت جناب علی اکبرؑ نے عرض کی کہ اے بابا کوئی آرزو اس جان نثار کے دل میں بجز اس کے نہیں ہے۔۔۔نظم
لے چلیے ہم کو خیمہ میں مادر کو دیکھ لیں
بہنوں کو اور مریض برادر کو دیکھ لیں
عباسؑ کے یتیموں کو اصغر کو دیکھ لیں
 وقت اخیر زینبؑ مضطر کو دیکھ لیں
یثرب کے نوجوانوں کو داغ اپنا دے چکے
صغریٰ کے دیکھنے کا ہم ارمان لے چلے
یہ سن کر جناب امام حسینؑ فرزند نوجوان کی لاش اٹھا کر میدان سے خیمہ کی طرف روانہ ہوئے۔جب خیمہ مبارک کے قریب پہنچے نظم
ناگاہ آکے فضہ نے زینبؑ سے یہ کہا
 اے بی بی آیا لاشہ ہم شکل مصطفےٰ
یہ سن کے وہ تڑپ کے اٹھی پر غش آگیا
لاشہ لٹا کے شاہ نے پہلو میں دی صدا
اے بنت مرتضےٰ یہ عبث اضطرار ہے
مرضی میں حق کی بندہ کا کیا اختیار ہے
ہمشکل مصطفےٰ کا جہاں سے سفر نہیں
پیغام موت میرے لیے ہے کرو یقین
بے ہوش کیا پڑی ہو اٹھو زینبؑ حزین
لڑ بھڑ کے رن سے آیا ہے بانو کا مہہ جبین

Comments

Popular posts from this blog

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا

﷽ انتیسویں مجلس امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا  اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو واللہ ناامید کے دل کو امید ہو  اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت  دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی نظم پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے  اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں ہمس...

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...