پندرھویں مجلس:حضرت زینبؑ کے فرزندوں کی شہادت
زینبؑ نے حق الفت سرور ادا کیے
دو لعل ایک مرتبہ شاہ پر فدا کیے
درد والم کی حکایت کرنے والے اور باغ مرتضوی کے نو نہالوں کی شہادت کی روایت کرنے والے یوں تحریر فرماتے ہیں کہ ابھی جناب زینبؑ کے صاحبزادوں کا وجود ذی جود عالم شہود میں نہیں آیا تھا کہ حضرت زینبؑ نے ان صاحب زادوں کو اپنے بھائی پر فدا کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔ روایت ہے کہ ایک روز جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں رونق افروز تھے کہ ناگاہ جناب اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب تشریف لائے۔ حسنینؑ آپ کے ہمراہ تھے۔ چنانچہ نظم
نانا کا جو دیدار مبارک نظر آیا
تسلیم کو سر ننھا سا دونوں نے جھکایا
ناناؑ نے انہیں بغلوں کا قرآن بنایا
لپٹا کے گلے زانووں پر اپنے بٹھایا
بوسے کے لیے دونوں کا حلقوم ودہاں تھا
اک زہر کا اک برش خنجر کا نشاں تھا
ناگاہ حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ آپ کو یہ نواسے بہت پیارے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ اے جبرائیل جائے انصاف ہے کہ میں کیوں ان کو اپنا دل وجگر نہ سمجھوں۔کیونکہ ان کا گوشت وخون میرا گوشت وکون ہے۔ان کی خوشی میری خوشی ہے۔ان کا رنج میرا رنج ہے۔جبرائیل امین نے عرض کی کہ خدا وند کریم ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے حبیب جس قدر پیغمبر پیدا ہوئے۔ سب پر بلا نازل ہوئی ہے۔لہذا ہم تم کو بھی اپنی محبت کی کسوٹی پر پرکسنا چاہتے ہیں بیت
خالص ہے وہ دل جو میری الفت سے بھرا ہے
سونا جو کسوٹی پہ نہ بدلے وہ کھرا ہے
لہذا ہماری مشیت میں اس طرح گزارا ہے کہ آپ کا یہ بڑا نواسا زہر ہلاہل سے اور چھوٹا ضرب نیزہ وشمشیر سے درجہ شہادت پر فائز ہو۔مگر اس وقت کہ جب دنیا میں آپ وزہراؑ وعلی مرتضےٰ کوئی نہ ہوں۔نظم
تیروں سے بچانے کو ناناؑ بھی نہ ہووئے
پانی کے پلا دینے کو بابا بھی نہ ہووئے
بازو بھی نہ پہلو میں ہو بیٹا بھی نہ ہووئے
منہ ڈھانپنے کو لاش پہ زہراؑ بھی نہ ہووئے
کنبے کو سوا رونے کے کچھ اور نہ ہووئے
لاشہ کو حنوط وکفن گور نہ ہووئے
اور تمہاری نواسیاں جو پردہ عصمت میں ہیں۔ بلوے میں با سر عریاں شہر بشہر پھرائی جائیں گی۔دربار میں بے مقنعہ وچادر مثل بندی کے لائی جائیں۔کیونکہ از آدم تا عیسیٰ ہر اک نبیؑ پر ظلم وستم ہوئے ہیں۔لہذا تمہارے نواسوں میں شعر
شربت ہے حسنؑ کے لئے الماس جفا کا
پر خاتمہ شبیرؑ پہ ہے رنج وبلا کا
اگر امت کو پیار کرتے ہو تو نواسوں کی شہادت منظور کرو۔حاکم دو جہان کا یہ فرمان سن کر آپ خانہ فاطمہ زہراؑ میں تشریف لائے اور تمام حال بیان کیا۔ حضرت فاطمہؑ یہ حال سنتے ہی زار زار رونے لگیں۔ تو جناب رسول خدا نے تسلی و تشفی دے کر فرمایا اے فاطمہ ؑ ابھی تو تمہارے فرزندوں پر کوئی مصیبت وتکلیف نہیں ہے شعر
مرنے پہ چھری میرے کلیجہ پہ پھرے گی
'سن ساٹھ میں بجلی تیرے خرمن پہ گرے گی
یہ سن کر حضرت فاطمہ ؑ کو اور ملال ہوا۔اور عرض کی کہ اے بابا یہ تو اور ستم ہے کہ میرے حسینؑ کے اہل حرم قید ہوں گے اور چھوٹے چھوٹے بچے پیاس سے تڑپیں گے شعر
ہم میں سے نہ اس معرکے میں ہووئے گا کوئی
اے وائے مقدر نہ انہیں رووئے گا کوئی
جناب رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے فاطمہؑ اگر ہم تم اور علیؑ نہ ہوں گے۔تو کیا غم ہے، پروردگار عالم ایک قوم پیدا کرے گا جو تمہارے حسینؑ کی محبت میں نظم
پیاری نہ میرے پیارے سے اولاد کریں گے
پانی بھی پیئں گے تو اسے یاد کریں گے
سر کھولیں گے منہ پیٹیں گے فریاد کریں گے
وہ لوگ میری روح کو سب شاد کریں گے
قربان میں ان کے یہ شرف جن کو ملا ہے
فردوس میں جائیں گے یہی ان کا صلا ہے
مومنین مقام ٖ فخر ومباہات ہے کہ ابھی آپ کا وجود بھی نہیں تھا، مگر آپ کی قدر ومنزلت کس قدر قلب سرور انبیاؑؑ ء میں موجود تھی۔اور کیا عجب جناب رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی سے فرمایا ہو،کہ اے فاطمہؑ تم اپنے ان فرزندوں کے سوگ کا غم نہ کرو۔یہ تمہاری نور نظر زینبؑ اپنے بھائی کی عزادار ہو گی۔اور اپنے دو جگر کے ٹکڑے حسینؑ پر قربان کرئے گی نظم
تا حشر کہے گی یہ مثل ساری خدائی
زینبؑ سی بہن ہو گی نہ شبیرؑ سا بھائی
بھائی پہ کرے گی یہ نثار اپنی کمائی
سن لیجیئو تم خلد میں کیا کام یہ آئی
شہروں میں بیاں اس کی شکیبائی کا ہو گا
یہ اونٹ پہ اور نیزے پہ سر بھائی کا ہو گا
دیکھی نہ سنی جو وہ بلا دیکھے گی زینبؑ
سب کنبہ کا رسی میں گلا دیکھے گی زینبؑ
معصوموں کو بے آب وغذا دیکھے گی زینبؑ
یہ اس کا مزہ روز جزا دیکھے گی زینبؑ
شعیوں کو جہنم سے اماں بخشے گی زینبؑ
چاہے گی جسے اس کو جناں بخشے گی زینب
الغرض جب وہ زمانہ آیا اور امام ؑ مظلوم دشمنوں کے ظلم وجور سے تنگ آکر مدینہ سے کربلا پہنچے اور نرغہ کفار میں گھر گئے۔ تو نظم
آمادہ نبرد ہوئے ساکناں شام
جس دم شب شہادت سرور ہوئی تمام
دونوں طرف سے فوج کی تیاریاں ہوئیں
اور بے حواس فاطمہؑ کی پیاریاں ہوئیں
آخر صبح عشرہ محرم بعد فراغت نماز ناخدائے جہاز آل نبیؑ یعنی فرزند زہراؑ وعلیؑ مع عزیز وانصار آمادہ پیکار ہوا۔ روایت ہے کہ بعد شہادت اصحاب باوفا جب عزیزان ماہ لقا کی باری آئی۔اور جناب مسلم کے دونوں فرزند جام شہادت نوش کر چکے۔تو حضرت عون و محمدؑ کو جوش شجاعت نے بے تاب کیا تو جناب امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر اجازت جہاد طلب کی۔مگر آپ نے رخصت میں تامل فرمایا نظم
یاں ذکر یہ تھا اور وہاں زینبؑ بے پر
تھیں صحن میں خیمہ کے سراسیمہ ومضطر
اشک آنکھوں میں اور دوش پہ ڈھلکی ہوئی چادر
اس سوچ میں مارے گئے مسلم کے بھی دل بر
بن باپ کے بچے تو سفر کر گئے ہائے ہائے
پیارے مرے فرزند نہ کیوں مر گئے ہائے ہائے
ادھر عون محمدؑ جناب امام حسینؑ سے رخصت پر مصر تھے۔آخر دونوں کو لیے ہوئے امام کون ومکان داخل عصمت سرائے ہوئے۔ان کے پیچھے پیچھے جناب علی اکبرؑ بھی تشریف لائے۔امام حسینؑ زوجہ مسلم کے قریب آکر بیٹھ گئے۔ بیت
صدمہ ہوا منہ اشکوں سے دھونے لگے حسینؑ
رومال رکھ کے آنکھوں پہ رونے لگے حسینؑ
اسی اثنا میں جناب زینبؑ بھی تشریف لائیں نظم
ماں کی طرف جو عون ومحمدؑ نے کی نظر
منہ پھیر کر جھکا لیا زینبؑ نے اپنا سر
بھائی سے بھائی نے یہ کہا تب بچشم تر
اماں خفا ہیں کچھ جو نہیں دیکھتیں ادھر
کیا جانیں وہ کہ دیر کا یاں کیا سبب ہوا
رخصت میں اور پیچ پڑا لو غضب ہوا
یہ کہہ کے ماں کے پاس گئے دونوں مہہ لقا
ڈر ڈر کے کانپ کانپ کے منت سے یہ کہا
ہم مانگتے ہیں دیر سے میدان کی رضا
دیتے نہیں مگر شاہ دین رخصت وغا
بے وجہ خادموں سے مکدر حضور ہیں
اماں خدا گواہ ہے کہ ہم بے قصور ہیں
بولی یہ رو کے خواہر سلطان بحر وبر
اب دھیان آیا مر گئے مسلم کے جب پسر
لاشے پہ لاشے آنے میں گزری ہے دوپہر
کیا کر رہے تھے صبح سے حیران ہوں تھے کدھر
حضرت کے ساتھ اب بھی نہ آتے تو خوب تھا
اکبرؑ کے بعد مرنے کو جاتے تو خوب تھا
مجھ سے بہانہ کرتے ہو آنسو بہا بہا
ہم جولیوں سے رہ گئے پیچھے تمہیں یہ کیا
گویا تو بہت ہو مجھے قائل کرو ذرا
مسلم کے دونوں بیٹوں کو کیوں کر ملی رضا
رخصت نہ پائی عذر نئے یہ نکالے ہیں
رکتے ہیں وہ کہیں جو بھلا مرنے والے ہیں
یہ سن کر دونوں صاحبزادے رونے لگے تو حضرت زینبؑ بھی مہر مادری سے بے چین ہو گئیں۔ بچوں کو سینے سے لگایا اور پیار کیا۔ نظم
فرمایا پیار سے کہ نہ کانپو یہ ماں نثار
راضی ہوں میں اب خفا نہیں تم سے میں دل فگار
سچ ہے تمہارا اس میں بھلا کیا ہے اختیار
دیکھو دلائے دیتی ہوں میں اذن کارزار
ہاں واری تم بھی اذن وغا پر اڑے رہو
ماموں کے آگے ہاتھوں کو جوڑے کھڑے رہو
یہ کہہ کے شہ کے قریں گئی زینبؑ ناچار
تھے عون ومحمدؑ بھی عقب مادر غم خوار
بھائی سے یہ کی عرض کہ اے سید ابرار
یہ دونوں غلام اب ہیں اجازت کے طلب گار
لاکھوں سے وغا کرکے یہ شریک شہدا ء ہوں
ان کو بھی تمنا ہے کہ آقا پہ فدا ہوں
جناب امام حسینؑ نے ایک آہ کھینچ کر آسمان کو دیکھا اور کہا کہ اے زینب ؑ یہ دونوں گلعذار باغ جعفری میری جان ہیں مجھ سے ان کا داغ نہیں اٹھے گا۔ بیت
ہیں یہ گل تر حیدر وجعفر کے چمن کے
کھویا ہے کسی بھائی نے بیٹوں کو بہن کے
بہن کے اصرار سے آخر مجبور ہو کر امامؑ مظلوم نے بچوں کو سینے سے لگایا اور فرمایا اچھا تماہرے داغ بھی دل پر سہیں گے۔ یہ سن کر جناب زینبؑ خوش ہو گئیں اور دونوں شہزادوں کو ساتھ لے کر خیمہ میں تشریف لائیں۔اور تبرکات کا صندوق کھول کر نظم
ماں نے پوشاک جو لے جا کے انہیں پہنائی
شان بھائی کی لگا دیکھنے ہنس کر بھائی
فضہ چھوٹے سے جو ہتھیاروں کی کشتی لائی
واہ رے صبر کہ خود ماں نے کمر بندھوائی
گھر لٹے اور نہ لبوں پہ صدا آہ کی ہو
یہ اسی سے ہو جو بیٹی اسد اللہ کی ہو
القصہ دونوں شاہزادے رخصت ہو کر خیمے سے برآمد ہوئے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر اشقیا کے مقابل آئے۔ نظم
دیکھا جو جلال ان کا تو کہنے لگا لشکر
لوآئے دو یوسف دوسلیماں دو سکندر
دو حمزہ دو حیدر کرار ودو جعفر
دو غازی و دو شیر دو عباس دو اکبر
گھبرا کے نظر بعضوں نے کی چرخ بریں پر
ہیں شمس وقمر آج فلک پر کہ زمین پر
یہ دیکھ کر ہر نابکار حیران ہو گیا۔ اور صاحبزادوں سے پوچھا کہ تم کس باغ کے ثمر ہو۔ کس نامراد ماں کے لعل ہو،جو اس سن میں تم کو اپنی جانیں بھاری ہو گئی ہیں۔ اپنے حسب ونسب سے آگاہ کرو۔ یہ سنتے ہی نظم،
یاں پھول برسنے لگے پیاسوں کے دہن سے
فرمایا یہ دونوں نے ہر اک تیغ فگن سے
رستم کو غلام اپنا بھگا دیتا ہے رن سے
دعوائے غلامی ہے حسینؑ اور حسنؑ سے
کیا رشتہ بتائیں تمہیں کافی یہ شرف ہے
ہم دونوں غلام پسر شاہ نجف ہیں
لاشوں پہ حسینؑ آئیں گے جب پیار کے مارے
اس وقت ہمیں پوچھیو آقا سے ہمارے
تم ان کے ہو کون اور یہ ہیں کون تمہارے
اغلب ہے کہ شفقت سے کہیں بھانجے پیارے
بیگانے بھی جو شہ کی رفاقت میں موئے ہیں
اللہ ونبیؑ کے وہ عزیز آج ہوئے ہیں
القصہ رجز خوانی کے وہ دونوں شاہزادے مصروف کارزار ہوئے،اور سینکڑوں اعدائے بد شعار کو واصل جہنم کیا۔لیکن افسوس ہزار افسوس کہاں یہ کم سن بچے اور کہاں لشکر کفار،پھر یہ تین روز کے بھوکے پیاسے
آخر چاروں طرف سے اشقیا نے گھیر کر حملہ کر دیا۔ نظم،
یکبارگی سب ٹوٹ پڑے ظالم وبد خواہ
پھر کون سا حربہ تھا جو ان پر چلا نہ آہ
رخ کرکے سوئے خیمہ یہ کہنے لگے وہ ماہ
جرات سے تو واقف ہوئیں اے مادر زی جاہ
دکھلا چکے ہم فوج پہ شمشیر کا جلوہ
اب دیکھئے مظلومی شبیرؑ کا جلوہ
افسوس صد افسوس حضرات یہ آوازیں سن کر کیا گزری ہو گی جناب زینبؑ پر نظم
وہ تو سوئے خیمہ یہ ابھی کرتے تھے تقریر
جو جام اجل آیا لیے ساقی تقدیر
اور اکبرؑ واصغرؑ کے جو فدیہ تھے وہ دل گیر
بسمل ہوا اک نیزے سے اور اک کو لگا تیر
گھوڑوں پہ بغل گیر ہوئے پیار سے دونوں
اور ساتھ گرے خاک پہ راہوار سے دونوں
خاک پر گرتے ہی آواز دی کہ آقاآپ کے غلام اب رخصت ہوتے ہیں۔آرزو یہ ہے کہ ایک بار پھر قدموں پر بوسہ دے لیں۔ اور آپ پر تصدق ہو لیں۔ کہ سعادت دارین حاصل ہو۔ اس آواز کے سنتے ہی نظم
حضرتؑ سے عرض کی علی اکبرؑ نے دوڑ کر
مارے گئے حضورؑ پھوپھی جان کے پسر
رنگ اڑ گیا حسینؑ کا سنتے ہی یہ خبر
فرمایا ہائے لٹ گیا بے کس بہن کا گھر
ہم رہ گئے بڑھاپے میں آنسو بہانے کو
عباسؑ آئو بچو کے لاشے اٹھانے کو
راوی کہتا ہے کہ اس وقت فضہ دروازہ خیمہ پر کھڑی تھی۔ یہ سن کر خیمہ میں گئیں اور پکاریں کہ اے اہل حرم سر کھولو ماتم برپا کرو۔ میری خوزادی کے فرزند شہید ہوئے۔ حضرت زینبؑ نے دونوں صاحبزادوں کی شہادت کی خبر سنی تو فرما نے لگیں۔ نظم
لوگو کہو اس آن مبارک ہو مبارک
زینبؑ کو یہ سامان مبارک ہو مبارک
پورے ہوئے ارمانمبارک ہو مبارک
بیٹے چڑھے پروان مبارک ہو مبارک
حسرت تھی کہ بیٹے ہوں میرے شاہ پہ صدقے
صدقے ہوئے وہ آج میں اللہ کے صدقے
اس طرف تو یہ حال تھا۔ ادھر جناب امام حسینؑ علیہ السلام وحضرت عباسؑ وجناب علی اکبر ؑ تلواریں کھینچے ہوئے میدان کارزار میں پہنچے۔اس وقت دونوں شاہزادے زخموں سے چور گرم ریت پر بے ہوش پڑے تھے۔ امام حسینؑ بچوں کی لاشوں کے پاس بیٹھ کر فرمایا نظم۔
شہؑ نے کہا اسوقت جو خواہش ہو بتا دو
دونوں نے کہا اماں کا دیدار کرا دو
تب اکبرؑ وعباسؑ نے گودی میں اٹھایا
حضرت نے علم کھول کے ان پر کیا سایہ
لے کر جو چلے گھر کو تو رونا بہت آیا
ہر اک قدم گرتا تھا زہرؑا کا وہ جایا
تھے زین ڈھلے گھوڑے تو ان شیروں کی رو میں
اور فاطمہؑ سر ننگے نواسوں کے جلو میں
حضرت امام حسینؑ نے علی اکبرؑ سے فرمایا، کہ اے نور نظر تم خیمہ میں جاکر صف ماتم بچھوائو اور نظم
چپکے سے یہ کہنا میری نادار بہن سے
حیدرؑ کے نواسوں کی برات آتی ہے رن سے
شبیرؑ کا ارشاد بجا لائے جو اکبرؑ
محشر تو تھا خیمہ میں ہوا اور بھی محشر
بانو اٹھی بے شیر کو آغوش میں لے کر
عبداللہ و باقر بھی نکل آئے کھلے سر
سر ننگے جلو کے لیے اہل حرم آئے
لاشے لیے باہر سے امام امم آئے
پھر تو پئے تعظیم اٹھی دختر زہراؑ
پھیلا کے ادھر ہاتھ کیا دونوں نے مجرا
اماں کہا اور کانپ کے دونوں ہوئے گویا
بخشو ہمیں مظلومی شبیرؑ کا صدقہ
تلواریں چلیں نیزے چلے تیر چلے ہیں
پر ہم نہیں دل کھول کے امت سے لڑے ہیں
پس اس وقت حضرتؑ زینبؑ نے فرمایا نظم
اماں نہ کہو مجھ کو میں لونڈی ہو ں تمہاری
پیارو تمہیں اس وقت خطا بخشو ہماری
پھر گرد پھری لاشوں کے اٹھ کر کئی باری
اور بولیں کہ مادر ہو اس آواز کے واری
تعظیم کسی بیٹے کی ماں نے نہیں کی ہے
پر آج یہ عزت تمہیں اللہ نے دی ہے
ابھی حضرت زینبؑ یہ فرما رہی تھیں کہ نظم
ناگاہ انہیں موت کی ہچکی ہوئی آغاز
اور سینہ سے بھی آنے لگی موت کی آواز
زینبؑ کی طرف نرگسی آنکھوں کو کیا باز
کی عرض اٹھا لیجیے اب آخری اک ناز
دل سخت نہ فرمایئے گا وقت کرم ہے
اماں تمہیں اپنے علی اکبرؑ کی قسم ہے
زینبؑ کو بھی پیار آگیا رو کر یہ پکاری
مادر نہ کہو مجھ کو میں دائی ہوں تمہاری
وہ بولے کہ اب آپ سے رخصت ہے ہماری
کھنچتی ہیں رگیں رکتا ہے دم ضعف ہے طاری
پیشانیاں رکھ دو قدم شہ امم پر
حسرت ہے کہ دم نکلے تو ماموں کے قدم پر
وہ بولیں خوش آئے مجھے ارمان تمہارے
سر رکھ دیئے ان کے قدم شاہ پہ بارے
دونوں نے ملا پائوں سے منہ پیار کے مارے
اک بوسہ لیا اور طرف خلد سدھارے
مرنے کی مہم بات میں سر کر گئے دونوں
بس ہونٹ ہلتے رہ گئے اور مر گئے دونوں
شہزادوں کی ثنا کا صلہ شاہ قلعہ گیر
کوثر کا جام حشر میں پا جائے یہ وزیر
-------اختتام مجلس--------
Comments
Post a Comment