Skip to main content

پندرھویں مجلس حضرت زینبؑ کے فرزندوں کی شہادت



پندرھویں مجلس:حضرت زینبؑ کے فرزندوں کی شہادت

 زینبؑ نے حق الفت سرور ادا کیے
دو لعل ایک مرتبہ شاہ پر فدا کیے
درد والم کی حکایت کرنے والے اور باغ مرتضوی کے نو نہالوں کی شہادت کی روایت کرنے والے یوں تحریر فرماتے ہیں کہ ابھی جناب زینبؑ کے صاحبزادوں کا وجود ذی جود عالم شہود میں نہیں آیا تھا کہ حضرت زینبؑ نے ان صاحب زادوں کو اپنے بھائی پر فدا کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔ روایت ہے کہ ایک روز جناب رسول خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں رونق افروز تھے کہ ناگاہ جناب اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب تشریف لائے۔ حسنینؑ  آپ کے ہمراہ تھے۔ چنانچہ نظم
 نانا کا جو دیدار مبارک نظر آیا
تسلیم کو سر ننھا سا دونوں نے جھکایا
ناناؑ نے انہیں بغلوں کا قرآن بنایا
لپٹا کے گلے زانووں پر اپنے بٹھایا
بوسے کے لیے دونوں کا حلقوم ودہاں تھا
اک زہر کا اک برش خنجر کا نشاں تھا
ناگاہ حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ آپ کو یہ نواسے بہت پیارے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ اے جبرائیل جائے انصاف ہے کہ میں کیوں ان کو اپنا دل وجگر نہ سمجھوں۔کیونکہ ان کا گوشت وخون میرا گوشت وکون ہے۔ان کی خوشی میری خوشی ہے۔ان کا رنج میرا رنج ہے۔جبرائیل امین نے عرض کی کہ خدا وند کریم ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے حبیب جس قدر پیغمبر پیدا ہوئے۔ سب پر بلا نازل ہوئی ہے۔لہذا ہم تم کو بھی اپنی محبت کی کسوٹی پر پرکسنا چاہتے ہیں  بیت
خالص ہے وہ دل جو میری الفت سے بھرا ہے
سونا جو کسوٹی پہ نہ بدلے وہ کھرا ہے
لہذا ہماری مشیت میں اس طرح گزارا ہے کہ آپ کا یہ بڑا نواسا زہر ہلاہل سے اور چھوٹا ضرب نیزہ وشمشیر سے درجہ شہادت پر فائز ہو۔مگر اس وقت کہ جب دنیا میں آپ وزہراؑ وعلی مرتضےٰ کوئی نہ ہوں۔نظم
تیروں سے بچانے کو ناناؑ بھی نہ ہووئے
پانی کے پلا دینے کو بابا بھی نہ ہووئے
بازو بھی نہ پہلو میں ہو بیٹا بھی نہ ہووئے
منہ ڈھانپنے کو لاش پہ زہراؑ بھی نہ ہووئے
کنبے کو سوا رونے کے کچھ اور نہ ہووئے
لاشہ کو حنوط وکفن گور نہ ہووئے
اور تمہاری نواسیاں جو پردہ عصمت میں ہیں۔ بلوے میں با سر عریاں شہر بشہر پھرائی جائیں گی۔دربار میں بے مقنعہ وچادر مثل بندی کے لائی جائیں۔کیونکہ از آدم تا عیسیٰ ہر اک نبیؑ پر ظلم وستم ہوئے ہیں۔لہذا تمہارے نواسوں  میں شعر
شربت ہے حسنؑ کے لئے الماس جفا کا
پر خاتمہ شبیرؑ پہ ہے رنج وبلا کا
 اگر امت کو پیار کرتے ہو تو نواسوں کی شہادت منظور کرو۔حاکم دو جہان کا یہ فرمان سن کر آپ خانہ فاطمہ زہراؑ میں تشریف لائے اور تمام حال بیان کیا۔ حضرت فاطمہؑ یہ حال سنتے ہی زار زار رونے لگیں۔ تو جناب رسول خدا نے تسلی و تشفی دے کر فرمایا اے فاطمہ ؑ ابھی تو تمہارے فرزندوں پر کوئی مصیبت وتکلیف نہیں ہے شعر
 مرنے پہ چھری میرے کلیجہ پہ پھرے گی
'سن ساٹھ میں بجلی تیرے خرمن پہ گرے گی
 یہ سن کر حضرت فاطمہ  ؑ کو اور ملال ہوا۔اور عرض کی کہ اے بابا یہ تو اور ستم ہے کہ میرے حسینؑ کے اہل حرم قید ہوں گے اور چھوٹے چھوٹے بچے پیاس سے تڑپیں گے شعر
ہم میں سے نہ اس معرکے میں ہووئے گا کوئی
اے وائے مقدر نہ انہیں رووئے گا کوئی
جناب رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد  فرمایا اے فاطمہؑ اگر ہم تم اور علیؑ نہ ہوں گے۔تو کیا غم ہے، پروردگار عالم ایک قوم پیدا کرے گا جو تمہارے حسینؑ کی محبت میں  نظم
پیاری نہ میرے پیارے سے اولاد کریں گے
پانی بھی پیئں گے تو اسے یاد کریں گے
سر کھولیں گے منہ پیٹیں گے فریاد کریں گے
وہ لوگ میری روح کو سب شاد کریں گے
قربان میں ان  کے یہ شرف جن کو ملا ہے
فردوس میں جائیں گے یہی ان کا صلا ہے
مومنین مقام ٖ فخر ومباہات ہے کہ ابھی آپ کا وجود بھی نہیں تھا، مگر آپ کی قدر ومنزلت کس قدر قلب سرور انبیاؑؑ ء میں موجود تھی۔اور کیا عجب جناب رسول خدا  صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی سے فرمایا ہو،کہ اے فاطمہؑ  تم اپنے ان فرزندوں کے سوگ کا غم نہ کرو۔یہ تمہاری نور نظر زینبؑ اپنے بھائی کی عزادار ہو گی۔اور اپنے دو جگر کے ٹکڑے حسینؑ پر قربان کرئے گی  نظم
تا حشر کہے گی یہ مثل ساری خدائی
زینبؑ سی بہن ہو گی نہ شبیرؑ سا بھائی
بھائی پہ کرے گی یہ نثار اپنی کمائی
سن لیجیئو تم خلد میں کیا کام  یہ آئی
شہروں میں بیاں اس کی شکیبائی کا ہو گا
 یہ اونٹ پہ اور نیزے پہ سر بھائی کا ہو گا
دیکھی نہ سنی جو وہ بلا دیکھے گی زینبؑ
سب کنبہ کا رسی میں گلا دیکھے گی زینبؑ
معصوموں کو بے آب وغذا دیکھے گی زینبؑ
یہ اس کا مزہ روز جزا دیکھے گی زینبؑ
شعیوں کو جہنم سے اماں بخشے گی زینبؑ
چاہے گی جسے اس کو جناں بخشے گی زینب
الغرض جب وہ زمانہ آیا اور امام ؑ مظلوم دشمنوں کے ظلم وجور سے تنگ آکر مدینہ سے کربلا پہنچے اور نرغہ کفار میں گھر گئے۔ تو نظم
آمادہ نبرد ہوئے ساکناں شام
جس دم شب شہادت سرور ہوئی تمام
دونوں طرف سے فوج کی تیاریاں ہوئیں
اور بے حواس فاطمہؑ کی پیاریاں ہوئیں
آخر صبح عشرہ محرم بعد فراغت نماز ناخدائے جہاز آل نبیؑ یعنی فرزند زہراؑ وعلیؑ مع عزیز وانصار آمادہ پیکار ہوا۔ روایت ہے کہ بعد شہادت اصحاب باوفا جب عزیزان  ماہ لقا کی باری آئی۔اور جناب مسلم کے دونوں فرزند جام شہادت نوش کر چکے۔تو حضرت عون و محمدؑ کو جوش شجاعت نے بے تاب کیا تو جناب امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر اجازت جہاد طلب کی۔مگر آپ نے رخصت میں تامل فرمایا   نظم
یاں ذکر یہ تھا اور وہاں زینبؑ بے پر
تھیں صحن میں خیمہ کے سراسیمہ ومضطر
اشک آنکھوں میں اور دوش پہ ڈھلکی ہوئی چادر
اس سوچ میں مارے گئے مسلم کے بھی دل بر
بن باپ کے بچے تو سفر کر گئے ہائے ہائے
پیارے مرے فرزند نہ کیوں مر گئے ہائے ہائے
ادھر عون محمدؑ جناب امام حسینؑ سے رخصت پر مصر تھے۔آخر دونوں کو لیے ہوئے امام کون ومکان داخل عصمت سرائے ہوئے۔ان کے پیچھے پیچھے جناب علی اکبرؑ بھی تشریف لائے۔امام حسینؑ زوجہ مسلم کے قریب آکر بیٹھ گئے۔ بیت
صدمہ ہوا منہ اشکوں سے دھونے لگے حسینؑ
رومال رکھ کے آنکھوں پہ رونے لگے حسینؑ
اسی اثنا   میں جناب زینبؑ بھی تشریف لائیں نظم
ماں کی طرف جو عون ومحمدؑ نے کی نظر
منہ پھیر کر جھکا لیا زینبؑ نے اپنا سر
بھائی سے بھائی نے یہ کہا تب بچشم تر
اماں خفا ہیں کچھ جو نہیں دیکھتیں ادھر
کیا جانیں وہ کہ دیر کا یاں کیا سبب ہوا
رخصت میں اور پیچ پڑا لو غضب ہوا
یہ کہہ کے ماں کے پاس گئے دونوں مہہ لقا
ڈر ڈر کے کانپ کانپ کے منت سے یہ کہا
ہم مانگتے ہیں دیر سے میدان کی رضا
دیتے نہیں مگر شاہ دین رخصت وغا
بے وجہ خادموں سے مکدر حضور ہیں
اماں خدا گواہ ہے کہ ہم بے قصور ہیں
بولی یہ رو کے خواہر سلطان بحر وبر
اب دھیان آیا مر گئے مسلم کے جب پسر
لاشے پہ لاشے آنے میں گزری ہے دوپہر
کیا کر رہے تھے صبح سے حیران ہوں تھے کدھر
حضرت کے ساتھ اب بھی نہ آتے تو خوب تھا
اکبرؑ کے بعد مرنے کو جاتے تو خوب تھا
مجھ سے بہانہ کرتے ہو آنسو بہا بہا
ہم جولیوں سے رہ گئے پیچھے تمہیں یہ کیا
گویا تو بہت ہو مجھے قائل کرو ذرا
مسلم کے دونوں بیٹوں کو کیوں کر ملی رضا
رخصت نہ پائی عذر نئے یہ نکالے ہیں
رکتے ہیں وہ کہیں جو بھلا مرنے والے ہیں
 یہ سن کر دونوں صاحبزادے رونے لگے تو حضرت زینبؑ بھی مہر مادری سے بے چین ہو  گئیں۔ بچوں کو سینے سے لگایا اور پیار کیا۔ نظم
فرمایا پیار سے کہ نہ کانپو یہ ماں نثار
راضی ہوں میں اب خفا نہیں تم سے میں دل فگار
سچ ہے تمہارا اس میں بھلا کیا ہے اختیار
دیکھو دلائے دیتی ہوں میں اذن کارزار
ہاں واری تم بھی اذن وغا پر اڑے رہو
ماموں کے آگے ہاتھوں کو جوڑے کھڑے رہو
یہ کہہ کے شہ کے قریں گئی زینبؑ ناچار
تھے عون ومحمدؑ بھی عقب مادر غم خوار
بھائی سے یہ کی عرض کہ اے سید ابرار
یہ دونوں غلام اب ہیں اجازت کے طلب گار
لاکھوں سے وغا کرکے یہ شریک شہدا  ء ہوں
ان کو بھی تمنا ہے کہ آقا پہ فدا ہوں
جناب امام حسینؑ نے ایک آہ کھینچ کر آسمان کو دیکھا اور کہا کہ اے زینب ؑ یہ دونوں گلعذار باغ جعفری میری جان ہیں مجھ سے ان کا داغ نہیں اٹھے گا۔ بیت
ہیں یہ گل تر حیدر وجعفر کے چمن کے
کھویا ہے کسی بھائی نے  بیٹوں کو بہن کے
بہن کے اصرار سے آخر مجبور ہو کر امامؑ مظلوم نے بچوں کو سینے سے لگایا اور فرمایا اچھا تماہرے داغ بھی دل پر سہیں گے۔ یہ سن کر جناب زینبؑ خوش ہو گئیں اور دونوں شہزادوں کو ساتھ لے کر خیمہ میں تشریف لائیں۔اور تبرکات کا صندوق کھول کر نظم
 ماں نے پوشاک جو لے جا کے انہیں پہنائی
شان بھائی کی لگا دیکھنے ہنس کر بھائی
فضہ چھوٹے سے جو ہتھیاروں کی کشتی لائی
واہ رے صبر کہ خود ماں نے کمر بندھوائی
گھر لٹے اور نہ لبوں پہ صدا آہ کی ہو
یہ اسی سے ہو جو بیٹی اسد اللہ کی ہو
 القصہ دونوں شاہزادے رخصت ہو کر خیمے سے برآمد ہوئے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر اشقیا کے مقابل آئے۔ نظم
 دیکھا جو جلال ان کا تو کہنے لگا لشکر
لوآئے دو یوسف دوسلیماں دو سکندر
دو حمزہ دو حیدر کرار ودو جعفر
دو غازی و دو شیر دو عباس دو اکبر
گھبرا کے نظر بعضوں نے کی چرخ بریں پر
ہیں شمس وقمر آج فلک پر کہ زمین پر
یہ دیکھ کر ہر نابکار حیران ہو گیا۔ اور صاحبزادوں سے پوچھا کہ تم کس باغ کے ثمر ہو۔ کس نامراد ماں کے لعل ہو،جو اس سن میں تم کو اپنی جانیں بھاری ہو گئی ہیں۔ اپنے حسب ونسب سے آگاہ کرو۔ یہ سنتے ہی نظم،
یاں پھول برسنے لگے پیاسوں کے دہن سے
فرمایا یہ دونوں نے ہر اک تیغ فگن سے
رستم کو غلام اپنا بھگا دیتا ہے رن سے
دعوائے غلامی ہے حسینؑ اور حسنؑ سے
کیا رشتہ بتائیں تمہیں کافی یہ شرف ہے
ہم دونوں غلام پسر شاہ نجف ہیں
لاشوں پہ حسینؑ آئیں گے جب  پیار کے مارے
اس وقت ہمیں پوچھیو آقا سے ہمارے
تم ان کے ہو کون اور یہ ہیں کون تمہارے
اغلب ہے کہ شفقت سے کہیں بھانجے پیارے
بیگانے بھی جو شہ کی رفاقت میں موئے ہیں
اللہ ونبیؑ کے وہ عزیز آج ہوئے ہیں
 القصہ رجز خوانی کے وہ دونوں شاہزادے مصروف کارزار ہوئے،اور سینکڑوں اعدائے بد شعار کو واصل جہنم کیا۔لیکن افسوس ہزار افسوس کہاں یہ کم سن بچے اور کہاں لشکر کفار،پھر یہ تین روز کے بھوکے پیاسے
آخر چاروں طرف سے اشقیا نے گھیر کر حملہ کر دیا۔ نظم،
یکبارگی سب ٹوٹ پڑے ظالم وبد خواہ
پھر کون سا حربہ تھا جو ان پر چلا نہ آہ
رخ کرکے سوئے خیمہ یہ کہنے لگے وہ ماہ
جرات سے تو واقف ہوئیں اے مادر زی جاہ
 دکھلا چکے ہم فوج پہ شمشیر کا جلوہ
اب دیکھئے مظلومی شبیرؑ کا جلوہ
 افسوس صد افسوس حضرات یہ آوازیں سن کر کیا گزری ہو گی جناب زینبؑ پر  نظم
وہ تو سوئے خیمہ یہ ابھی کرتے تھے تقریر
جو جام اجل آیا لیے ساقی تقدیر
اور اکبرؑ واصغرؑ کے جو فدیہ تھے وہ دل گیر
بسمل ہوا اک نیزے سے اور اک کو لگا تیر
گھوڑوں پہ بغل گیر ہوئے پیار سے دونوں
اور ساتھ گرے خاک پہ راہوار سے دونوں
 خاک پر گرتے ہی آواز دی کہ آقاآپ کے غلام اب رخصت ہوتے ہیں۔آرزو یہ ہے کہ ایک بار پھر قدموں پر بوسہ دے لیں۔ اور آپ پر تصدق ہو لیں۔ کہ سعادت دارین حاصل ہو۔ اس آواز کے سنتے ہی   نظم
حضرتؑ سے عرض کی علی اکبرؑ نے دوڑ کر
مارے گئے حضورؑ پھوپھی جان کے پسر
رنگ اڑ گیا حسینؑ کا سنتے ہی یہ خبر
فرمایا ہائے لٹ گیا بے کس بہن کا گھر
ہم رہ گئے بڑھاپے میں آنسو بہانے کو
عباسؑ آئو بچو کے لاشے اٹھانے کو
 راوی کہتا ہے کہ اس وقت فضہ دروازہ خیمہ پر کھڑی تھی۔ یہ سن کر خیمہ میں گئیں اور پکاریں  کہ اے اہل حرم سر کھولو ماتم برپا کرو۔ میری خوزادی کے فرزند شہید ہوئے۔ حضرت زینبؑ نے دونوں صاحبزادوں کی شہادت کی خبر سنی تو فرما نے لگیں۔ نظم
لوگو کہو اس آن مبارک ہو مبارک
زینبؑ کو یہ سامان مبارک ہو مبارک
پورے ہوئے ارمانمبارک ہو مبارک
 بیٹے چڑھے پروان مبارک ہو مبارک
حسرت تھی کہ بیٹے ہوں میرے شاہ پہ صدقے
صدقے ہوئے وہ آج میں اللہ کے صدقے
 اس طرف تو یہ حال تھا۔ ادھر جناب امام حسینؑ علیہ  السلام وحضرت عباسؑ وجناب علی اکبر  ؑ تلواریں کھینچے ہوئے میدان کارزار میں پہنچے۔اس وقت دونوں شاہزادے زخموں سے چور گرم ریت پر بے ہوش پڑے تھے۔ امام حسینؑ بچوں کی لاشوں کے پاس بیٹھ کر فرمایا    نظم۔
شہؑ نے کہا اسوقت جو خواہش ہو بتا دو
دونوں نے کہا اماں کا دیدار کرا دو
تب اکبرؑ وعباسؑ نے گودی میں اٹھایا
حضرت نے علم کھول کے ان پر کیا سایہ
لے کر جو چلے گھر کو تو رونا بہت آیا
ہر اک قدم گرتا تھا زہرؑا  کا وہ جایا
تھے زین ڈھلے گھوڑے تو ان شیروں کی رو میں
اور فاطمہؑ سر ننگے نواسوں کے جلو میں
حضرت امام حسینؑ نے علی اکبرؑ سے فرمایا، کہ اے نور نظر تم خیمہ میں جاکر صف ماتم بچھوائو اور نظم
چپکے سے یہ کہنا میری نادار بہن سے
حیدرؑ کے نواسوں کی برات آتی ہے رن سے
شبیرؑ کا ارشاد بجا لائے جو اکبرؑ
محشر تو تھا خیمہ میں ہوا اور بھی محشر
بانو اٹھی بے شیر کو آغوش میں لے کر
عبداللہ و باقر بھی نکل آئے کھلے سر
سر ننگے جلو کے لیے اہل حرم آئے
لاشے لیے باہر سے امام امم آئے
پھر تو پئے تعظیم اٹھی دختر زہراؑ
پھیلا کے ادھر ہاتھ کیا دونوں نے مجرا
اماں کہا اور کانپ کے دونوں ہوئے گویا
بخشو ہمیں مظلومی شبیرؑ کا صدقہ
تلواریں چلیں نیزے چلے تیر چلے ہیں
پر ہم نہیں دل کھول  کے امت سے لڑے ہیں
پس اس وقت حضرتؑ زینبؑ نے فرمایا   نظم
اماں نہ کہو مجھ کو میں لونڈی ہو ں تمہاری
پیارو تمہیں اس وقت خطا بخشو ہماری
پھر گرد پھری لاشوں کے اٹھ کر کئی باری
اور بولیں کہ مادر ہو اس آواز کے واری
تعظیم کسی بیٹے کی ماں نے نہیں کی ہے
پر آج یہ عزت تمہیں اللہ نے دی ہے
 ابھی حضرت زینبؑ یہ فرما رہی تھیں کہ   نظم
ناگاہ انہیں موت کی ہچکی ہوئی آغاز
اور سینہ سے بھی آنے لگی موت کی آواز
زینبؑ کی طرف نرگسی آنکھوں کو کیا باز
کی عرض اٹھا لیجیے اب آخری اک ناز
دل سخت نہ فرمایئے گا وقت کرم ہے
اماں تمہیں اپنے علی اکبرؑ کی قسم ہے
زینبؑ کو بھی پیار آگیا رو کر یہ پکاری
مادر نہ کہو مجھ کو میں دائی ہوں تمہاری
وہ بولے کہ اب آپ سے رخصت ہے ہماری
کھنچتی ہیں رگیں رکتا ہے دم ضعف  ہے طاری
پیشانیاں رکھ دو قدم شہ امم پر
حسرت ہے کہ دم نکلے تو ماموں کے قدم پر
وہ بولیں خوش آئے مجھے ارمان تمہارے
سر رکھ دیئے ان کے قدم شاہ پہ بارے
دونوں نے ملا  پائوں سے منہ پیار کے مارے
اک بوسہ لیا اور طرف خلد سدھارے
مرنے کی مہم بات میں سر کر گئے دونوں
بس ہونٹ ہلتے رہ گئے اور مر گئے دونوں
شہزادوں کی ثنا کا صلہ شاہ قلعہ گیر
کوثر کا جام حشر میں پا جائے یہ وزیر

-------اختتام مجلس--------

Comments

Popular posts from this blog

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا

﷽ انتیسویں مجلس امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا  اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو واللہ ناامید کے دل کو امید ہو  اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت  دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی نظم پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے  اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں ہمس...

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...