Skip to main content

باب نمبر 14 چودھویں مجلس

باب نمبر 14 چودھویں مجلس
بہتر رفقائے امامؑ اور اٹھارہ بنی  فاطمہؑ کی شہادت کا تذکرہ ا ور ان کےاسمائے گرامی
کل فوج میں مولا کے یہی مہ لقا تھے
اٹھارہ عزیز اور بہتر رفقا تھے
راویان وفاداران وجان نثاران سید ابرار تحریر کرتے ہیں۔ کہ جناب قدس الہیٰ فرماتا ہے کہ اے گروہ مومنین یاری اور نصرت کرو تم خدا اور دین برحق کی جیسا کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے  فرمایا کہ کون ہے تم میں سے کہ یاری اور نصرت کرے دین خدا کی،اور انہوں نے جواب نہ دیا۔تب ایمان لایا ایک گروہ بنی اسرائیل سے اور ایک گروہ منحرف ہوا۔اور بقدرت خدا گروہ دین دار فرقہ گمراہ پر غالب ہوا۔لہذا ہر گروہ پر لازم ہے کہ دین خدا پر ثابت قدم رہے۔جو ہم کو ہمارے رسول برحق نے دکھایا ہے۔اور شیطان کے مکر وفریب سے پرہیز کرے،تاکہ وہ ہمارے نفسوں پر مسلط نہ ہو۔چنانچہ خیال کیجے کہ مجاہدین نے کس کس طرح جناب رسول خدا اور علی مرتضےٰ کی کس کس طرح نصرت وجانثاری کی ہے۔ اور کیسی کیسی لڑائی جنگ احد وصفین وحنین میں لڑے ہیں۔جن کے ذکر سے کتابیں مالا مال ہیں۔مگر جیسے یاور وانصار امام حسینؑ کے تھے۔ ایسے اصحاب باوفا کسی نبی ؑ ،پیغمبر اور امام کو نہیں ملے۔ چنانچہ تحریر ہے کہ آپ کے اصحاب سب عالم اور عابد اور زاہد وعارف تھے۔اور ان میں سے بعض اصحاب جناب امیر المومنین کے تھے۔ جن کے دل مشکل کشاؑ اور سید الشہدؑا کی محبت سے لبریز تھے،نظم
 کیا فوج حسینیؑ میں جوانان حسین تھے
کیا زاہد وابرار تھے کیا صاحب دین تھے
آگاہ دل واہل وفا اہل یقین تھے
سب غنچہ دہن مہر لقا مہ جبین تھے
ایک ایک کے مرقد پہ فدا ہوتی ہے زہراؑ
ایسے ہیں جنہیں آج تلک روتی ہے زہراؑ
دنیا کی نہ خواہش تھی نہ کچھ فکر زرو مال
تھی دولت فقر ان کے لئے حشمت واقبال
نہ یاد وطن تھی نہ انہیں الفت اطفال
شبیرؑ کے عاشق تھے زہے بخت خوشا حال
منظور یہ تھا جی سے گزر جائیے پہلے
اس بات پہ مرتے تھے کہ مر جایئے پہلے
مست مئے عرفان تھے وہ سب عاقل وذی وش
تھی غیر خدا سب کی انہیں یاد فراموش
دنیا سے بری بار علائق سے سبک دوش
دل یاد الہیٰ میں جو یوں دیکھو تو خاموش
ہر دم سر تسلیم تھا خم راہ خدا میں
بڑھتے چلے جاتے تھے قدم راہ خدا میں
جب جناب امام حسینؑ علیہ سلام مع اہل بیت اطہار ویار وانصار داخل کربلائے معلی ہوئے۔آپ نے ان وفاداروں کی قبر کی حلت کے لئے زمین خرید کرنا چاہی۔ چنانچہ روایت ہے کہ بوقت داخلہ کربلا امام کون مکان نے بعلم امامت اپنا مرقد پہچان لیا۔اور وہیں پر ذوالجناح سے اتر پڑےاور اپنے آقا وپیشوا کی انصار نے بھی پیروی کی۔ نظم
باندھی لگام غازیوں نے نیزے گاڑھ کے
اور فرش زین پوش کیا گرد جھاڑ کے
جنگل بسایا چرخ نے بستی اجاڑ کے
بولے علی ؑ کفن کا گریبان پھاڑ کے
جنگل میں اہل بیت رسالت کا گھر ہوا
آخر میرے حسینؑ کا لوگوں سفر ہوا
القصہ اتری ناقہ سے بنت شہ عرب
اور ہاتھوں ہاتھ لے گئے آل رسول سب
اس قاعدہ کو بھول گیا چرخ ہے غضب
غرہ تلک یہ پردہ تھا زینب ؑ کا اور ادب
دسویں کو بال کھولے ہوئے ننگے سر پھری
رن میں گھری رسن میں بندھی در بدر پھری
مسند پہ یاں بٹھا کے بہن کو شاہ ہدی
کرسی بچھا کے بیٹھے قریب حرم سرا
تھے دست بستہ گرد جوانان باوفا
لےلے کے نذریں آئے زمیندار کربلا
استادہ فرط شوق سے شبیرؑ ہو گئے
نذروں پہ ہاتھ رکھ کے بغل گیر ہو گئے
المختصر سید کونین  بادشاہ مشرقین نے زمینداران کربلا کو باعزاز واکرام اپنے پاس بٹھایا اور خریداری زمین کی خواہش کی انہوں نے عرض کی۔
ابن ابو ترابؑ سے پیاری زمین نہیں
پر یہ زمین لائق سلطان دین نہیں
ائے پیشوائے دوجہان غریب خانے حاضر ہیں، وہاں چل کر قیام کیجیے۔ہم خدمت کے لئے بدل وجان حاضر ہیں۔ یہ مقام خوفناک ہے۔جو نبی یا پیغمبر یہاں،ہر ایک کو رنج والم پہنچا چنانچہ نظم
پائوں پہ صدمہ سنگ کا آدم اٹھا گئے
پتھر پہ گر کے یہاں سے خلیلؑ خدا گئے
کشتی پہ نوح ؑکی یہاں طوفان آگئے
پر سنتے ہیں کہ آپ کے بابا بچا گئے
شہ بولے سر نوشت میں کب فرق ہوئے گا
اب یاں جہاز آل نبیؑ غرق ہوئے گا
القصہ آپ نے ان دینداروں سے زمین خرید فرمائی اور قیمت ادا کرنے کے بعد بیعنامہ لکھا جانے لگا
اسی عرصہ میں نظم
مرقوم ہو رہا تھا قبالہ کہ ناگہاں
خیمہ سے ایک زن عربیہ ہوئی عیاں
سر تا قدم نقاب میں سارا بدن نہاں
پر اس پہ بھی حیا سے لرزتے تھے استخواں
بےتاب ہو کے الفت اکبر میں آئی تھی
راوی نے لکھا ہے کہ وہ زہراؑ کی جائی تھی
لے کر بلائیں بھائی کی کچھ کان میں کہا
اور جلد یوں گئیں کہ نہ سایہ نظر پڑا
کرسی سے یاں تڑپ کے گرے شہ کربلا
عباسؑ گرد پھر کے پکارے یہ کیا ہوا
کیا تم سے کہہ گئی ہے نواسی رسول ؑ کی
مولا بتائو تم کو قسم ھے بتول کی
شاہ بولے بھائی کی ہے یہ زینب نے التجا
بھیا قبالہ ہو مرے اکبر ؑکے نام کا
عباسؑ جائو کہہ دو کہ اے بنت مرتضےؑ
لے کر یہ سب زمین علی اکبر کریں گے کیا
آٹھارہ سال کے یہ زمانے سے جائیں گے
اک قبر کی زمین علی اکبرؑ بھی پائیں گے
لیکن اے بہن بیت
قبضہ کریں غلام ترے اس مقام پر
کی وقف یہ زمین تیرے شیعوں کے نام پر
الغرض جناب عباسؑ نے امام انامؑ کا پیغام حضرت زینب کو سنایا تو حضرت زینب نے کہا بھیا عباس میری غرض یہ نہیں ہے کہ یہ زمین وقف نہ کی جائے بلکہ صرف مدعا یہ تھا بیت
دولہا بنائوں گی میں دلہن بیاہ کے لائوں گی
اکبرؑ کے نام کی یہاں بستی بسائوں گی
نظم
عباسؑ روئے حسرت زینبؑ پہ بار بار
 وہ صابرہ بھی رونے لگی ہو کے بے قرار
اور لیں بلائیں بھائی کی گھبرا کے بار بار
پوچھا میں صدقے جلد کہو کیا ہے روبکار
میں جانتی تھی خوشخبری لے کے آئے ہو
کیوں دل پہ ہاتھ رکھے ہو گردن جھکائے ہو
شاید میرا سخن ہوا بھائی کو ناگوار
جیتے رہیں حسین کے جتنے ہیں ورثہ دار
عابدؑ کے بھی میں صدقے اصغرؑ کے بھی نثار
اکبرؑ کا پالنے سے زیادہ ہے چاہ وپیار
اکبر کے نام پر یہ سند کس کو شاق ہے
فضل خدا سے بھائیوں میں اتفاق ہے
عباسؑ بولے اس کا تو واں ذکر بھی نہیں
ہر مدعا ہے آپ کا مقبول شہ دین
شہ نے ہبہ کی آپ کے شیعوں کو یہ زمین
پھر کیجیو سفارش اکبر نہ تم کہیں
 بھائی میرے کریم ہیں شرما کے روئیں گے
اکبرؑ اسی زمین کے پیوند ہوئیں گے
الغرض جناب زینبؑ علیا نے اپنی رضا مندی ظاہر فرمائی۔اور جناب امام حسینؑ نے قبالہ لے کر زمینداران کربلا کو رخصت فرمایا۔اور تیسری محرم سے ساتویں محرم تک تمام یاور وانصار نے عبادت معبود
اور اطاعت جناب سید الشہداؑ میں بسر کی اور اپنے آقا کی سلامتی کی دعائیں کرتے رہے۔ نظم
وہ صورت حسنؑ اور وہ اثر دار دعائیں
وہ چاند سے رخ اور وہ نورانی عبائیں
وہ ان کی عبائوں کے تلے تنگ قبائیں
وہ دوش پہ شملے  وہ عمامے وہ ردائیں
نے حور میں یہ حسن نہ انساں نہ پری میں
گویا ملک اترے تھے لباس بشری میں
کلمہ کوئی پڑھتا تھا کوئی کہتا تھا تکبیر
قاری کوئی قراں کا کوئی ماہر تفسیر
تھی پیش نظر گلشن فردوس کی تعمیر
تھا شوق کہ اب ہوئیں گے حوروں سے بغل گیر
نے پیاس کا صدمہ تھا نہ جانوں کی پڑی تھی
ایک ایک کی کوثر کی طرف آنکھ لڑی تھی
مقبول خدائے دو جہاں تھے وہ جواں مرد
مر جانے پہ سرگرم تھے اور زیست سے دل سرد
ایک ایک جری دفتر کونین میں تھا فرد
تابندہ تھے خورشید کی صورت رخ پر گرد
ایسے کسی تسبیح کو کب دانے ملے ہیں
کس شمع کو اس طرح کے پروانے ملے ہیں
ہمت سے توانا پہ ریاضت سے بدن زار
مرنے پہ کمر باندھے شہادت کے طلب گار
حسن الم فاقہ کشی زردی رخسار
سوکھے ہوئے ہونٹوں سے عیاں پیاس کے آثار
تسبیح خدائے دو جہاں ورد زبان تھی
بیداری شب نرگسی آنکھوں سے عیاں تھی
آخر ساتویں تاریخ کو لشکر یزید پلید جوق جوق آکر جمع ہوا۔اور کوئی بات صلح کی طے نہ ہوئی۔اسی روز سے فوج اشقیا نے جناب امام حسینؑ کے ہمراہیوں پر پانی بند کر دیا۔ پھر بعد حجت وتکرار  ا ن ملاعین بے دین  نے جناب امام حسینؑ کو شب عاشور کی مہلت دی۔وہ رات شہید کربلا نے عبادت میں بسر کی۔آخر سپیدہ سحر نمودار ہوا تو امام مظلوم ؑنے فرمایا  بیت
ہاں غازیوں یہ دن ہے جدال وقتال کا
یاں آج  خون بہے گا محمدؑ کی آل کا
چہرہ خوشی سے سرخ ہے زہراؑ کے لالؑ کا
گزری شب فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اسی دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو پھر خلد ہے مقام
کوثر پہ آبرو سے پہنچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں میں سب کے نام
سن ہیں وحید عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخ رو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
ہر اک نے زیب جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامے آئے امام زماں کے پاس
رنگین عبائیں دوش پہ کمریں کسے ہوئے
مشک وگلاب وعطر میں کپڑے بسے ہوئے
الغرض امام حسینؑ نے بعد تجدید تیمم جمیع اقربا و انصار کو نماز  صبح  پڑھا  ئی   نظم
بیٹھے تھے جائے نماز پہ شاہ فلک سریر
ناگہ قریب آکے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکر شریر
عباسؑ اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکبرؑ سے پھر یہ کہنے لگے سرورؑ زماں
باندھے ہے سر کشی پہ کمر لشکر گراں
تم جا کے کہہ دو خیمہ میں اے پدر کی جاں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفلت میں تیر  سے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردن اصغر ہدف نہ ہو۔
کہتے تھے یہ پسر سے شاہ آسمان سریر
فضہ پکاری در سے کہ اے خلق کے امیر
ہے ہے علیؑ کی بیٹیاں کس جاہ ہوں گوشہ گیر
اصغرؑ کے گہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرم میں ساری رات کو گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
فضہ کی یہ آواز سن کر امام عالی قار جائے نماز سے اٹھےاور خیمہ اطہر میں تشریف لے گئے۔ اہل بیت اطہار کو تسلی ودلاسہ دے کر پوشاک آخری زیب بدن فرمائی اور اسلحہ جنگ جسم اطہر پر لگائے۔ نظم
 ناگہاں فوج بڑھی سامنے بے پیر آئے
بے ادب تولے ہوئے خنجر وشمشیر آئے
لے کے پیغام قضا واں سے کئی تیر آئے
ہل گئی رن کی زمین  غیض میں شبیرؑ آئے
کوئی فرما کے رضا بقضا بڑھنے لگا
آیہ ذائقۃالموت کوئی پڑھنے لگا
آج اس مجلس میں اٹھارہ بنی فاطمہؑ اور بہتر رفقائے امام مظلومؑ کے اسمائے گرامی بیان کرنا چاہتا ہوں۔
تاکہ ناواقف مومنین بھی آگاہ ہوں۔سبحان اللہ سید مظلومؑ کے کیسے جان نثار اور وفادار انصار تھے۔جنہوں نے اپنی جانیں امام حسینؑ کے قدموں پہ نثار کیں۔مومنین پر ان کا یہ حق ہے کہ ان پر گریہ وبکا کیا جائے۔ جو آقائے نامدار کی خوشنودی ورضا مندی کا سبب ہو گا۔ نظم
حقا کہ عجب فوج تھی فوج شہ ابرار
جن لوگوں کا عباسؑ دلاور سا علمدار
ہمشکل پیمبر سا جری فوج کا سالار
مختار وہ مختار کہ جو کل کا ہے مختار
ایسا کسی سردار نے لشکر نہیں پایا
لشکر نے بھی ایسا کبھی سرور نہیں پایا
 اللہ اللہ کیا ولولہ جنگ تھا،جو ہر ایک غازی کے دل میں سمایا ہوا تھا۔ نہ جان کی پرواہ تھی، نہ اہل وعیال کی فکر۔راہ رضا میں ثابت قدم تھے۔ڈھالیں لیے امامؑ کی حفاظت میں مشغول تھے۔ نظم
کہتا تھا کوئی آج کا مرنا ہے سعادت
سر تا بقدم خون میں بھرنا  ہے سعادت
خنجر تلے حلق کو دھرنا ہے سعادت
سر سے راہ خلق میں گزرنا ہے سعادت
پانی میں نہ وہ لذت نہ وہ کھانے میں مزہ ہے
جو آج کے دن حلق کٹانے میں مزہ ہے۔
تھے بیچ میں اس غول کے شاہنشہؑ عالم
گردوں پہ ستاروں میں ہو جو ہوں معظم
ناگاہ بجا فوج عدو میں دہل جنگ
کھلنے لگے ہر صف میں علمہائے سیاہ رنگ
لشکر میں زرہ پوشوں نے گھوڑوں کے لیے تنگ
جا خالی نہ تھی فوج ستم سے کئی فرسنگ
بے دینوں کے رخ قبلہ ایمان سے پھرے تھے
ہفتاد دو تن لاکھ سواروں میں گھرے تھے
جس وقت عمر سعد بد نہاد آمادہ پیکار ہوا۔ تو اس طرف سے بھی عزیز ورفقا شہنشاہ کونین آمادہ جہاد ہوئے۔
اب مقبول بارگاہ پرور دگار بہتر جان نثاروں کے اسما  ء مع احوال زہادت سماعت فرمایئے۔
عجب شہزادہ تھا شبیرؑ سبط مصطفےٰ یارو
عجب انسار تھے اس کے عجب تھے اقربا یارو
ہوئے آقا کی خدمت میں نہ اک دم وہ جدا یارو
لڑے میدان میں کیا کیا جوان مہ لقا یارو
مصیبت میں بلا میں کربلا میں کیا اطاعت کی
رفاقت کی وفا کی جان نثاری کی شجاعت کی
نہ چھوڑا ساتھ سید کا وفاداروں نے تا مردن
پس از مردن جہاں تھا شہ کا تن ان کے بھی واں تھے تن
سناں پہ  شہ کے سر کے ساتھ تھے سر چاند سے روشن
جہاں شاہ کی بنی تربت وہیں ان کا بنا مدفن
گئیں روحیں بھی روح پاک کے ہمراہ جنت میں
انہیں مردہ نہ سمجھو زندہ جاوید یہ سب ہیں
خدا قرآن میں یوں وصف کرتا ہے شہیدوں کا
جو مرتے ہیں راہ حق میں نہیں مردوں میں وہ اصلا
انہیں روزی پہنچتی ہے حلال وطیب واذکا
وہ سب شاداں وخنداں ہیں غم دنیا سے بے پرواہ
شراب وشیر و شہد انہار سے جنت کے پیتے ہیں
رطب عناب و رماں خلد کے کھاتے ہیں جیتے ہیں
یہ رتبے ہیں شہیدوں کے یہ درجے جان نثاروں کے
خصوصا بھوکے پیاسے سید بے کس کے یاروں کے
چھدے تیروں سے کیسے حلق کیسے شیر خواروں کے
لگے سینے پہ کیا کیا زخم شیر حق کے پیاروں کے
بہادر شہ کے آگے برچھیاں کھا کھا کے گرتے تھے
سراج احمدیؑ کے گرد پروانے سے پھرتے تھے
لکھا ہے روز عاشورا گھرے جب شہ مقتل میں
صف آرا بہر گمراہی ہوئے گمراہ مقتل میں
لڑا پہلے لعینوں سے حر زی جاہ مقتل میں
فدا کی جان حضرت پر بشوق جاہ مقتل میں
خلف نے اس کے اور بھائی نے دی جاں شہ کی الفت میں
غلام باوفا بھی حر کا کام آیا مصیبت میں
مبارز کے ادھر سے پھر جو حضرت کو پیام آئے
دلیرانہ مقابل شہ کے آزادی غلام آئے
سلیمان،قارب،ومنجح تھے نام ان کے جو کام آئے
وطن سے شہ کے ہمراہ تھے یہ نیک نام آئے
مکاں ان کے خدا کے فضل سے فردوس  اعلے ہیں
وہ ہیں شبیرؑ کے خادم مگر ہم سب کے آقا ہیں
مگر اے دوستو عمر ابن فرطہ کا یہ عالم تھا
بوقت رزم آگے شاہ کے رن میں وہ ضیغم تھا
غم اپنی جان کا کب تھا اسے شبیرؑ کا غم تھا
سپر کی شکل آگے سبط پیغمبر کے ہر دم تھا
جو تیر آتا تھا حضرت پر جگر پہ روک لیتا تھا
جو تیغ آتی تھی سرور پر وہ سر پہ روک لیتا تھا
یہاں تک تیر روکے اپنے سینے پر کہ غش آیا
گرا گھوڑے سے اور آنکھوں  میں اپنی اشک بھر لایا
شہ مظلوم نے تب اپنے یاور سے یہ فرمایا
نہ غم کھا شاد ہو رتبہ شہادت کا بڑا پایا
پکارا غم نہیں یا شاہ اپنے مارے جانے کا
یہ غم ہے اب نہیں یارا ہے حضرت کے بچانے کا
گرا میں آپ تک اب تیر بے پیروں کے آئیں گے
ستم گر نیزے اب سینہ پہ حضرت کے لگائیں گے
یہ غم ہے آپ زخمی ہوں گے اب تلوار کھائیں گے
یہی ہے فکر کافر خون اب شاہ کا بہائیں گے
سنا جب یہ سخن اس کا تو رو کر شاہ نے فرمایا
نہ غم کھا حق رفاقت کا جو تھا سو تو بجا لایا
مرا یاور ہوا زخمی گرا میدان میں غش آیا
میں تجھ سے عہد کرتا ہوں جونہی سر میں نے کٹوایا
چلوں میں خلد کو جب آگے آگے مرے تو ہوگا
میرے سب یار پیچھے ہوں گے اور تو پیش رو ہو گا
ترا مجرا نبیؑ کو پہلے ہو گا پھر مرا مجرا
تجھے دیکھیں گے پہلے سب سے پھر مجھ کو میرے بابا
اسی صورت سے دیکھیں گی مری ماں فاطمہ زہراؑ
حسنؑ بھی تجھ کو فرمائیں گے اول مرحبا اہلا
ترا چومیں گے سینہ جبرائیل امین آکر
بلائیں لیں گی صدقے ہوں گی  تیرے حورعین آکر
بزرگوں سے کہوں گا اس گھڑی میں سخن رورو کر
کہ یہ غازی جب تک جیا بچایا تیر سے مجھ
مرے آگے رہا  جیتے جی ہیجا میں یہ غازٰی
 رہے گا پیش رو اب جنت الماوی میں یہ غازی
چلے شوق شہادت میں ادھر سے تب بصد مروی
بہادر شیر میدان مسلم بن عوسجہ اسدی
رخوں پہ چھا گئی اہل شقاوت کے ادھر زردی
گئے بھول اپنے زعم نحس کی ظالم جوانمردی
ہوئے تیغ دودم کی ضرب سے اہل خطا آخر
پھر اپنی جان کی سرور کے قدموں پہ فدا آخر
ہوا پھر حملہ آور  سعد عبداللہ کا جانی
مقابل ہو سکا جس کے نہ کوئی ظلم کا بانی
پیا جام شہادت پا کے جب صدمات روحانی
بشیر ابن عمیر الحضرمی نے تب وغا ٹھانی
شہادت جب ملی ان کو تو شہ نے آہ وزاری کی
بریر بن خضیر نے بعد ان کے جانثاری کی
عمر بن کعب یارو جنگ کے میدان میں آیا
قیامت ظالموں کے سر پر وہ یکتا جری لایا
مگر افسوس بےدردوں نے خون میں اس کو نہلایا
نعیم ابن عیوں نے تب فرس اپنے کو چمکایا
فدا جب جان اس نے اپنی کی  شوق شہادت میں
زھیر بن قین اس وقت کام آیا مصیبت میں
چلا بعد اس کے حضرت کی طرف سے جو جری بڑھ کر
زھیر ابن قیس تھا اک نوجواں وہ عاشق داور
ولے پا کر شہادت جب گیا وہ بھی سوئے کوثر
تو آیا عروہ بن قرطہ سوئے فوج بد اختر
شہادت اس نے پائی جو وہیں داد وغا دے کر
حبیب ابن مظاہر نے فدا کی جان تب شہ پر
الغرض جب اٹھارہ انصار مع حبیب نامدار اپنی جانیں شاہؑ پر فدا کر چکے،اس وقت امام حسینؑ کو نہایت رنج وملال ہوا۔اور فرمایا،بیت
دکھلائو مجھے زخم کہاں کھائے ہیں بھائی
چھاتی سے لپٹ جائو کہ ہم آئے ہیں بھائی
یہ سنتے ہی وہ گلشن ہستی  سے سدھارے
نکلی تھی زبان ہونٹوں پہ بس پیاس کے مارے
بازو کو ہلا کر شہ مظلوم پکارے
چھوڑا ہمیں اے یار وفادار ہمارے
ہم رہ گئے تم ہم سے یہ کیا کر گئے بھائی
صدقے ابھی ہوتے تھے ابھی مر گئے بھائی
الغرض بعد شہادت حبیب بن مظاہر نظم
عبد اللہ بن عمیر چلے سوئے رزم گاہ
وہ حرب کی کہ مانگتے تھے بے حیا پناہ
آخر ہوا شہید وہ جرار آہ آہ
نافع بن ہلال نے لی رزم گاہ کی راہ
لڑ بھڑ کے وہ بھی جان فدا شہ پہ کر گئے
ذکر حسینؑ لب پہ رہا اور مر گئے
پھر تو کیا انس بن کامل نے عزم جنگ
دہشت سے جن کی زرد تھے اہل خطا کے رنگ
افسوس پر نہ موت نے آنے میں کی درنگ
قیس بن مسہر آگے بڑھا جوڑ کر خدنگ
ایسا لڑا کہ کشتوں کا اک ڈھیر کر دیا
پر کیا کرے کہ زیست نے دل سیر کر دیا
اس وقت تک بائیس انصار باوفا نے جان نثاری کی اور ہر ایک کی لاش پر امام مظلومؑ نے جا جا کر گریہ وبکا  فرمائی،نظم
ہوا تب عازم جنگ عبد اللہ بن عروہ
لڑا ایسا کہ تا یوم قیامت نام ہے اس کا
مگر افسوس جب اہل شقاوت نے اسے مارا
لیا پھر عبد الرحمان نے بھی لڑ کر خلد کا رستا
وغا کو جون پھر عبد اباذر نیک نام آیا
مصیبت میں شہ مظلوم کے سر دے کے کام آیا
نہ پائی غازیوں نے یک لحظہ رنج سے فرصت
شبیب دل حزین نے شہ سے لی میدان کی رخصت
گیا وہ بھی سوئے کوثر تو روئے لاش پہ حضرت
تو پھر حجاج بن  زید سعدی نے کیا عجلت
فدا وہ بھی ہوا شہ پر اجل کا جب پیام آیا
شہادت کرش نے پائی تو قاسط رن میں کام آیا
کنانہ بن عقیق نوجواں کو پھر تو جوش آیا
بہت سے کافروں کو دوزخ میں پہنچایا
شہادت جب ملی ان کو تو ضرغامہ نے غم کھایا
لعینوں سے عوض لے کر ہوئے مجروح غش آیا۔
پھر اس کے بعد جون بن مالک نے ایسی جان نثاری کی
کہ تنگ آئی تھی فوج نحس ابن سعد ناری کی
عمرو ابن ضعیفہ نے تب عزم میدان کیا
کیا داد شجاعت دے کے جب رخ باغ رضواں کا
تو زید بن شبیب آیا معاون شاہ ذیشان کا
سوئے جنت سدھارے جب کہ وہ الفت میں سرور کی
عبید اللہ نے تب کی مدد سبطؑ پیمبرؑ کی
فدا کی جان پھر عامر نے اپنی شہ والا پر
شہادت گرش نے پائی تو قاسط رن میں کام آیا
کنانہ بن عقیق نوجواں کو پھر تو جوش آیا
بہت سے کافروں کو قعر میں دوزخ کے پہنچایا
شہادت جب ملی ان کو تو ضرغامہ نے غم کھایا
لعینوں سے عوض لے کے ہوئے مجروح غش آیا
پھر ان کے بعد جون بن مالک نے ایسی جانثاری کی
کہ تنگ آئی تھی فوج نحس ابن سعد ناری کی
عمرو ابن ضیعفہ نے کیا تب عزم میداں کا
لڑے تنہا ہزاروں سے نہ خوف آیا انہیں جاں کا
کیا داد شجاعت دے کے جب رخ باغ رضواں کا
تو زید بن شبیب آیا معاون شہ ذیشان کا
سوئے جنت سدھارے جب وہ الفت میں سرور کی
عبید اللہ نے تب پھر مدد کی سبط پیمبر کی
فدا کی جان پھر اپنی عامر نے اپنی شہ والا پر
لڑا بعد اس کے فوج روسیہ سےقعنب صفدر
ہوئے مجروح جب وہ بھی تو سالم نے کٹایا سر
غلام آزاد کردہ تھا یہ عامر کا جری بے ڈر
وغا کی سیف  بن مالک نے تب فوج شقاوت سے
فدا حجاج بن سروق نے کی جان تب شہ پر
تو کی مسعود بن حجاج نے رن میں وغا آکر
شہادت جب ملی ان کو تو عمار حزیں لڑ کر
ہوئے داخل جناں میں واہ کیا دادشجاعت دی
حیان بن حارث کو بھی تب حضرت نے رخصت دی
شہادت جب ملی ان کو تو جندب نے وغا ٹھانی
کئی دن سے مصیبت تھی نہ اک قطرہ ملا پانی
یہ فدیہ تھے شہ دین کے ہوئی ان کی بھی قربانی
عمر بن خالد دیندار نے یہ مصلحت جانی
کہ جاں اپنی فدائے سرور دیں آج کرنا ہے
ابد تک زیست ہے سمجھو نہ مرنا یہ وہ مرنا ہے
یزید ابن زیاد ابن مظاہر تب لڑا آکر
ملی دولت شہادت کی ہزاروں کو کیا بے سر
تو ظاہر نے دکھایا رن میں آکر اپنا جوہر بھی
غلام آزاد عمر بن خزاعی تھا یہ اک صفدر
فدا جب یہ ہوا شہ پر جبلیہ نے صفائی کی
کیا سیدھا لعینوں کو سزا  دی کج ادائی کی
فدائے شہ ہوا بعد اس کے سالم بھی بصد مروی
تصدق ہو گیا شبیر پر پھر اسلم ازدی
زھیر بن سلیم آعرج نے دکھلائی جواں مردی
فدا کی جان پھرقاسم ابن ازدی نے وہاں اپنی
لعینوں کو سزا دے کر سدھارا باغ رضوان کو
عمر اخدوث کا بیٹا چلا تب یاں سے میداں کو
ان تریپن جان بازوں نے داد شجاعت دے کر امام غریب الوطن پر اپنی اپنی جانیں قربان کیں۔اللہ اللہ کیسے جری اور شجاع تھے یاوران حسینؑ ابن علیؑکہ مطلق ہراس نہ تھا،چنانچہ جب عمر احدوث  الخضرمی شہید ہو چکے تو نظم
پھر لی ابو ثمامہ نے خلد برین کی راہ
اور خنظلہ شہید ہوئے رن میں بے گناہ
عمار نے بھی جان دی مابین رزم گاہ
عابس ابن شبیب ہوئے قتل آہ آہ
شوذب غلام شاکر دیندار مر گیا
پھر تو شعیب لڑ کے بڑا نام کر گیا
مالک نے بھی پیا جو شہادت کا لڑ کے جام
روشن کیا سوار نے تب لڑ کے اپنا نام
پھر وھب بھی شہید ہوئے آہ تشنہ کام
خالد بن عمر بھی مصیبت میں آئے کام
قدموں پہ شاہ کے سعد نے بھی سر فدا کیا
حق وفا زیاد نے بھی تب ادا کیا
یحییٰ بن سلیم جو شہ پہ فدا ہوئے
فردوس کو ہلال بھی دنیا سے تب گئے
اور قرۃ سعید بھی بے جان ہو گئے
راہی جنادہ بھی سوئے خلد بریں ہوئے
حسان بن اسد بھی بڑا نام کر گیا
سعد وقاص  شاہ کے قدموں پہ مر گیا
اے حضرات بیت
کیا نام کیے نظم شاہ کے رفقا کے
صدقے ہو وزیر ان پہ وہ تھے دوست خدا کے
نظم
مقبول خدا صاحب دیں زاہد وابرار
ایسے نہ پیمبر کو ملے یاور وانصار
برسوں جو رہے چرخ میں یہ گنبد وقار
پیدا نہ ہوں اس طرح کے اصحاب وفادار
حق ہم سے غلامی کے ادا ہو نہیں سکتے
کٹوائے سر ان لوگوں نے ہم رو نہیں سکتے
اگر چہ روایت میں مشہور بہتر رفقا مذکور ہیں۔اور بعض کتب مثل جلاء العیون اور روضۃ الشہداء میں اس سے بھی زیادہ تحریر ہیں۔اور وہ زیادتی بعض جگہ ولدیت وکنیت میں فرق کی وجہ سے معلوم ہوتی ہے۔بعض ان کے علاوہ بھی ہیں۔ جن کا ذکر مومنین کی آگاہی کے لئے کیا جاتا ہے۔جیسا کہ مصنف تحقیق نے ارقام فرمایا ہے۔اور وہ نام علاوہ بہتر  رفقا کے انتیس حسب ذیل ہیں۔
زھیر ابن بشیر الخشمعی۔مجمع۔ شمامہ، عمرو بن عبداللہ الصائدی، عبد الرحمن ابن عبداللہ کدن ارجعی،سبیب بن الحارب بن سریع،مالک بن عبد اللہ بن سریع الکاہلی، عمرو بن عبد اللہ الجندعی،عمرو بن جنادہ، عبد اللہ،عمرو بن مطاع الجعفی، زیاد ابن اشعث ، عمرو سفتار، ز ھیر بن حسان بنی اسد،حماد ابن اسد، سریع بن عبیدہ،پسر مسلم بن عوسجہ، ھلال بن نافع، مالک ابن انس، قیس بن منبہ،انیس بن موقل اصبحی، محمد، مقداد، ان کے علاوہ پانچ غلامان سید الشہدا کا بھی شہید ہونا تحریر ہے۔جن کے نام یہ ہیں۔ ابو دجانہ، سعد، قبۃ بن ربیع،علتمہ حماد۔الغرض نظم
انصار نے جو حق رفاقت ادا کیا
آمادہ جہاد ہوئے شہ ؑ کے اقربا
پہلے جو رن میں آئے تھے مسلم کے دل ربا
وہ مر چکے تو عون محمد نے کی وغا
بیٹے تھے خواہر شاہ گردوں پناہ کے
دونوں نے جان اپنی دی قدموں پہ شہ کے
بھائی سے رو کے حضرت عباسؑ نے کہا
قربان میں نے بھائیوں کو آپ پر کیا
خاطر سے اس غلام کی دیجیے انہیں رضا
رخصت تو دی پہ بہت سا روئے شاہ ہدا
سر کو فدا محمد وعثمان نے کیا
دل اپنا نذر جعفر ذیشان نے کیا
جس دم رضا نبرد کی قاسم نے شاہ سے لی
ابن حسنؑ کی جنگ سے پسپا ہوئے شقی
صدف حیف ایک شب کے بنے نے بھی جان دی
سقائی پھر تو حضرت عباس نے بھی کی
بے کس ہوئے حسین وہ خوشخو فدا ہوا
کہتے تھے ہائے قوت بازو جدا ہوا
عبداللہ ابن شیر الہیٰ نے لی رضا
لڑ بھڑ کے اپنا سر سر شہ پہ فدا کیا
بوبکر بن حسن بھی چچا سے ہوئے جدا
جعفر بن عقیل بھی بس کر گئے قضا
عمرو بشیر ابن علی بھی ہوئے جدا
اور زید بھی حسینؑ پدر پر ہوئے فدا
جعفر بن محمد عالی گوہر بھی تب
چمکا کے رہوار پکارے بصد غضب
ہاں جس کو حوصلہ ہو لڑے مجھ سے آکے اب
پوتا ہوں میں عقیل کا  اے قوم بےادب
ہر طرح سے لعینوں کو معذور کردیا
پر کیا کریں کہ موت نے مجبور کر دیا
جب خاتمہ حسینؑ کے لشکر کا ہو چکا
برباد گھر عزیز پیمبر کا ہو چکا
اور بار شاہزادہ بوذر کا ہو چکا
زخمی جگر حسینؑ کے دل بر کا ہو چکا
اکبر رہے نہ اصغر بے شیر رہ گئے
تنہا سپاہ شام میں شبیر رہ گئے
دیکھی جو بے کسی امام فلک  جناب
عبد اللہ حسنؑ بھی نکل آئے رہی نہ تاب
پر ہائے اس صغیر کو بھی آکے بس شتاب
ماری شقی نے تیغ نہ آیا اسے حجاب
اب کہاں کہوں جو حشر وہاں دوسرا ہوا
عباسؑ کا پسر بھی محمد فدا ہوا
اٹھارہ ہو گئے یہ بنی فاطمہؑ تمام
اب روئیں عاشقان امام فلک  مقام
لیکن ان شہداء کے علاوہ کتب مبسوطہ میں ان حضرات کے نام بھی شہیدوں کی فہرست میں پائے جاتے ہیں۔عبد الرحمنٰ بن عقیل، محمد ابی سعید بن عقیل،ابراہیم بن علی،ابو عبد اللہ بن مسلم،جعفر بن محمد بن عقیل،محمدبن عقیل، عبد اللہ بن عقل،عون بن عقیل،علی بن عقیل،بشیر بن حسن، ابراہیم، محمد، حمزہ،ابوبکر ،جعفر،عمر،یزید بن الحسین،کیوں حضرات جس کے بہتر رفقا اور بقولے ایک سوایک اور اٹھارہ عزیز اور بقولے اڑتیس دل کے ٹکڑےدوپہر میں آنکھوں کے آگے شہید ہو جائیں،اس امام مظوم کے دل سے پوچھئے کہ کیا حال ہوگا۔صبح کیا شوکت وجلالت تھی،اور دوپہر کے وقت رفقا اور اعزا کی شہادت کے بعد عجب عالم غربت وتنہائی تھا۔ نظم
مجھ پر یہ ظلم وجور تعدی نہیں روا
پیرو میرے رہو کہ تمہارا ہوں پیشوا
میں حجت الہٰ ہون سمجھے ہوں دل میں کیا
آجائو اب بھی راہ پہ مانو میرا کہا
بے جرم قتل کرتے ہو کیوں دل ملول کو
محشر میں منہ دکھائو گے کیوں کر رسولؑ کو
فرمارہے تھے یہ ابھی شاہ فلک سریر
ناگاہ عوض جواب کے آئے ادھر سے تیر
آیا جلال میں پسر شاہ قلعہ گیر
فرمایا دیکھ کر طرف لشکر شریر
سب وعظ وپند ختم ہے حجت تمام ہے
لو اب علیؑ کی تیغ ہے اور قتل عام ہے
الغرض سیدؑ مظلوم نے ذوالفقار حیدریؑ کھینچ کر ہزار ہا اشقیا کو فی النار کیامگر اس حالت  غم والم اور تشنگی میں کہاں تک لڑتے۔ نظم
جب لڑتے لڑتے تھم گئے سلطان با کرم
رخصت ہوئے جلال وحشم چوم کر قدم
دیکھا جو اس ولی نے کہ دن بھی بہت ہے کم
خون پونچھ کر میان میں کی تیغ برق دم
بادل کی طرح فوج سمٹ کر پھر آگئی
بجلی جو تھم گئی تو سیاہی سی چھا گئی
حضرت فرس پہ بیٹھے تھے ہائے ہائے بحال زار
جو ہر طرف سے ٹوٹ پڑی فوج نابکار
پلٹے ہر سمت سے بھاگے ہوئے سوار
خورشید چھپ گیا  یہ اٹھا دشت میں غبار
تلواریں تول تول کے چو گرد آگئے
زہراؑ کے چاند پر وہ سیہ کار چھا گئے
اب کس زبان سے عرض کروں  اشقیا نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا۔اور زخم تیر وتبر وشمشیر مولا پر پڑنے لگے ۔ نظم
گھوڑے پہ ڈگمگاتے تھے سلطان ارجمند
خوں بہہ رہا تھا چور تھا زخموں سے بند بند
صدمہ تھا دل پہ تن پہ تعب روح پرگزند
شدت سے غش کی دید ہ حق بین کیے تھے بند
تیور بہت بجھے ہوئے تھے اس جناب کے
قدموں سے نکلے جاتے تھے حلقے رکاب کے
 القصہ جب گھوڑے پر سنبھلنے کی تاب نہ رہی،تو آپ فرش خاک پر تشریف لائے۔ اس وقت بیت
چلائی فاطمہؑ کہ میرا نازنین گرا
قدسی پکارے خاک پہ عرش  بریں گرا
 اس وقت امام حسینؑ کا بوجہ کثرت جراحت کے عجب حال تھا۔   نظم
 گر کر کبھی اٹھے کبھی رکھا زمین پہ سر
اگلا کبھی لہو تو سنبھالا ابھی جگر
حسرت سے کی خیام کی جانب کبھی نظر
کروٹ کبھی  تڑپ کے  ادھر لی کبھی ادھر
اٹھ بیٹھے جب تو زخموں سے برچھی کے پھل گرے
تیر اور تن میں گڑ گئے جب منہ کے بھل گرے
زخموں سے چور چور شاہ نامدار تھے
لکھا ہے زخم جسم پہ سب  دس ہزار تھے
 الغرض اس شہید راہ خدا نے اسی حالت میں نماز عصر ادا کی اور ہم گنہگاروں کی بخشش کے لیے اس طرح دعا فرمانے لگے۔   بیت۔
یا رب تیرے رسول کا دلدار ہے حسینؑ
امت کی مغفرت کا طلب گار ہے حسینؑ
 کیوں حضرات ایسے وقت میں بھی ہم مولا کو نہیں بھولے، افسوس ہے کہ اگر ہم ایسے امام کے غم میں آنسو عزیز کریں۔الغرض نظم
مصروف تھا دعا میں وہ عالم کا بادشاہ
خنجر کو تیز کرکے بڑھا شمر روسیاہ
آیا قریب شاہ جو وہ دشمن الہٰ
زانو سے دابا مصحف ایماں کو آہ آہ
رونق مٹی جو خانہ دنیا ودین کی
تھامیں ملائکہ نے طنابیں زمین کی
صدمہ ہوا جو سینہ اقدس پہ  ایک بار
گھبرا کے غش سے چونک پڑے شاہ نامدار
فرمایا تب شمر سے با چشم اشک بار
منہ خشک ہے عطش ہے مرا دل ہے بے قرار
پھکتا ہے قلب پیاس بجھا لے تو ذبح کر
پانی ذرا سا مجھ کو پلا لے تو ذبح کر
یہ سن کے پھیرنے لگا خنجر وہ بد گہر
نکلیں رسولؑ زادیاں خیمے سے ننگے سر
عالم میں تھا یہ غل کہ لرزتے تھے دشت ودر
اک شور تھا کہ لٹتا ہے خیر النسا ء کا گھر
رانڈوں کے تھے یہ بین کہ اب در بدر ہوئے
بچے پکارتے تھے کہ ہم بے پدر ہوئے
آہ   وا  ویلا مومنین دو عالم، حبیبؑ رب دوسرا کا نواسہ جبرائیل کا شاہزادہ ذبح کر دیا گیا۔ زینبؑ بن بھائی کے ،اور سکینہ یتیم ہو گئی۔ اہل بیت اطہار میں شور گریہ و زاری بلند ہوا۔ کہ اسی عرصہ میں  نظم
ناگاہ آسمان سے اک محمل سیاہ
اتری قریب لاش شہ عرش بارگاہ
تھی آگے آگے فوج ملائک بااشک وآہ
حوران خلد گرد تھیں با حالت تباہ
غل تھا کہ آج دفتر عالم الٹ گیا
سردار کائنات کا سر تن سے کٹ گیا
اس غل میں طر قوا کی مکرر جو تھی صدا
تھی دور دور فوج ملائک پیادہ پا
کہتے تھے سب مقرب درگاہ کبریا
آنکھوں کو بند کر لو کہ یہ ہے ادب کی جاہ
افلاک ہل رہے ہیں زمین تھرتھراتی ہے
بیٹی خدا کے دوست کی مقتل میں آتی ہے
نزدیک لاش آئیں جو وہ آسمان جناب
غربت پسر کی دیکھ کے دل کو رہی نہ تاب
چلائی سر کو پیٹ کے بادیدہ پر آب
ہے ہے پڑا ہے خاک پہ فرزند بو تراب
نکلی ہوں اس الم میں گریبان کو پھاڑ کے
کیا مل گیا لعینوں مرا گھر اجاڑ کے
ماں صدقے اے مسافر ملک عدم حسینؑ
بے کس حسینؑ حامل ظلم وستم حسینؑ
ہے ہے ہوا بدن سے  تیرا سر قلم حسینؑ
جائیں گے کس طرف تیرے اہل حرم حسینؑ
جاکر وطن میں ہائے نہ آباد گھر ہوا
صدقے گئی سفر میں جہاں سے سفر ہوا
مادر کو دو جواب مرے کم سخن حسینؑ
تیغوں سے چور ہو گیا سارا بدن حسینؑ
لائی تھی یاں اجل تجھے اے بے وطن حسینؑ
ہے ہے ہوا نہ تجھ کو میسر کفن حسینؑ
بیٹا تری تلاش کو کس بن میں جائوں میں
بچے مرے کہاں سے تجھے ڈھونڈ لائوں میں
یہ گل سا جسم اور یہ جلتی زمین حسینؑ
کیوں کر اٹھائوں تجھ کو مرے نازنین حسینؑ
واحسرتا کہ جسم کہیں سر کہیں حسینؑ
کس نے مٹا دیا تجھے میرے حسیں حسینؑ
پیاسا گلا کٹا کے جہاں سے گزر گئے
دنیا میں نام رہ گیا اور آپ مر گئے
اے شہسوار وادی الفت کدھر ہو تم
اے تاجدار ملک شفاعت کدھر ہو تم
زھراؑ کی عمر بھر کی بضاعت کدھر ہو تم
اے سرو بوستان شہادت کدھر ہو تم
جنگل میں لا کے زیست د غا دے گی تمہیں
اے میرے لعل موت کہاں لے گئی تمہیں
اے کاشف علوم خدا میں ترے نثار
مذبوح تیغ ظلم وجفا میں ترے نثار
اے سالک طریق رضا میں ترے نثار
دی جان عاصیوں کی شفاعت کے واسطے
زہراؑ کا گھر لٹا گئے امت کے واسطے
 امیدوار ہوں کہ سب مومنین مولف کے حق میں اس دعا پر آمین فرمائیں:
کر عرض  ثریا اب تو یہی شاہ ہدا سے
مل جائوں قیامت میں بہتر رفقا سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا

﷽ انتیسویں مجلس امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا  اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو واللہ ناامید کے دل کو امید ہو  اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت  دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی نظم پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے  اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں ہمس...

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...