انتالیسویں مجلس حضرت امام علی رضاؑ کی خواہر جناب معصومہ قم ؑ کی وفات کے حالات
جس طرح امام حسینؑ علیہ سلام اور امام رضا علیہ سلام کے حالات میں باہم بہت کچھ مناسبت ہے۔اسی طرح ان دونوں بزرگواروں کی بہنوں کے بھی اکثر حالات موافق ہیں۔اور جیسی محبت جناب زینبؑ کو مظلوم ؑکربلا سے تھی۔اسی طرح جناب فاطمہؑ معصومہ قم کو اپنے بھائی جناب امام رضاؑ سے محبت تھی۔چنانچہ روایت میں وارد ہے کہ جب امام رضاؑ نے ارادہ سفر فرمایا،تو جناب فاطمہؑ کی بے تابی وبے قراری کسی طرح کم نہ ہوتی تھی۔وہ مخدومہؑ بار بار اپنے بھائی سے لپٹ جاتیں۔اور اسی طرح کئی فرسخ تک آپ کے ہمراہ آئیں۔بالآخر اپنے بھائی سے رخصت ہوئیں،اور ایک مدت تک درد فراق میں رویا کیں۔جب ایک مدت گزر گئی اور امامؑ واپس تشریف نہ لائے،اور نہ آپؑ کی خیریت کی کچھ خبر معلوم ہوئی۔تو نہایت مضطر وپریشان ہوئیں۔اور کسی ردبیر سے ملاقات کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو آپؑ نے خود طوس جانے کا ارادہ کیا۔اور وطن سے روانہ ہوئیں۔ نظم
بھائی کی یہ مشتاق تھی موسےٰ کی وہ دخترؑ
سایہ بھی جو ملتا تو ٹھہرتی نہ وہ دم بھر
ہر دم تھی مناجات کہ اے خالق اکبرؑ
اب جلد ملے مجھ کو حضوری برادر
جو حکم تیرا ہو گا بجا لائے گی لونڈی
اب دیر اگر ہو گی تو مر جائے گی لونڈی
اب مجھ کو زمین طوس کی دکھلادے مرے مولا
مشتاق ہوں بھائی کی نہ تڑپا میرے مولا
راحت ہے گزرتی ہے جو ایذا مرے مولا
بر لا دل عاجز کی تمنا مرے مولا
امید عنایت ہے غریب الغربا کو
تو رد نہیں کرتا مسافر کی دعا کو
اسی طرح بھائی کے اشتیاق میں چلتی ہوئی منزل ساوہ میں پہنچ کر علیل ہو گئیں۔اور لوگوں سے فرمایا کہ یہاں سے شہر قم کتنی دور ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں سے دس فرسخ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے بہت جلد شہر قم میں پہنچا دو۔اس تمنا کی دو وجہیں معلوم ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ آپ کو معلوم تھا کہ شہر قم میں شیعان علیؑ ابن ابی طالب رہتے ہیں۔ان سے جناب امام رضاؑ کا مفصل حال معلوم ہوگا۔دوسرے یہ کہ جناب معصومہؑ امام ؑکی بہن تھیں۔امام موسیٰ کاظم ؑ کی بیٹی تھیں۔شاید آپ کو بہ الہام معلوم ہوا ہو کہ آپ کا زمانہ رحلت قریب ہے۔اور آپ کا مدفن شہر قم ہے۔اس وجہ سے آپ نے وہاں پہنچنے میں عجلت فرمائی۔المختصر منزل مذکور سے روانہ ہوئیں۔جب قریب شہر قم پہنچیں اور قم میں آپ کے آنے کی خبر مشہور ہوئی تو روسائے شہر نے آپ کے استقبال کا ارادہ کیا۔اور ہر قسم کا سامان جلوس ہمراہ لے کر سر راہ صف بستہ با ادب آپ کے انتظار میں کھڑے ہوئے۔ناگاہ جناب معظمہ کی سواری پہنچی۔سب نے مثل غلاموں کے آگے بڑھ بڑھ کر کمال ادب سے سلام کیا۔اور اس شہر کے رئیس موسیٰ ابن خزرج نے بڑھ کر مہار ناقہ فخریہ تھام لی۔اور سب پیدل ہو گئے۔اس وقت کا حال اور اس معصومہ کی سواری کی شان وشوکت کیا عرض کروں۔ بیت
گھٹتی تھی راہ اور شرفف بڑھتے جاتے تھے
اہل جلو درود بہم پڑھتے جاتے تھے
نظم
جعفر عقیل وحجرہ کیے تیغوں کو علم
حاضر پس سواری خاتون محترم
چائوش عفت جگر شافع امم
کہتا تھا دور باش فلک کو ہر اک قدم
اتنا جھکا تھا چرخ ادب سے کہ ڈر لگے
نزدیک تھا کہ چلنے میں انساں کا سر لگے
یارو سنا سواری معصومہ کا بیان
پر شہر شہر آمد زینبؑ کی تھی کیا شان
چہرے پہ دونوں ہاتھ تھے شانوں میں ریسمان
نیزے پہ سر حسینؑ کا سجادؑ ساربان
جو پوچھتا تھا کون یہ بی بی اسیر ہے
کہتا تھا شمر بنت جناب امیرؑ ہے القصہ جناب معصومہ داخل شہر ہوئیں،تو دیکھا کہ تمام شہر سیاہ پوش ہے۔ہر گھر سے نوحہ وماتم کی صدا بلند ہے۔یہ دیکھ کر آپ نے بعض لوگوں سے دریافت فرمایا کہ یہ کس رئیس کا ماتم ہے۔لوگوں نےاس کا کچھ جواب نہ دیا اور رونے لگے۔اس وقت جناب معصومہؑ نہایت پریشان ہوئیں۔اور اپنے حق کی قسم دے کر پو چھنے لگیں۔کہ جلد بیان کرو کہ یہ کس سردار کا ماتم ہے۔اس وقت لوگوں نے گزارش کی کہ اے مخدومہ عالم ہم بے امام ہو گئے ہیں۔آپ کے بھائی کو مامون نے زہر دے کر شہید کیا ۔جس وقت سے ہم لوگوں نے یہ خبر وحشت اثر سنی۔ہر ایک نے اپنے گھر میں صف ماتم بچھا کر گریہ وزاری شروع کی ہے۔ اور اپنے امام غریب الدیار کے غم میں سیاہ پوش ہیں۔ یہ حال سن کر جناب معصومہ قم اتنا روئیں،کہ روتے روتے غش آگیا۔عورات قم نے حضرت معصومہؑ کا اس قدر حال پریشان دیکھا،تو بہت تسلی ودلاسا دیا۔اور عرض کیا ،نظم
صابر رہو کہ مرتبہ صابر کا ہے جلیل
حامی کوئی نہیں ہے تو اللہ ہے کفیل
راہ خدا میں بھائی تمہارے ہوئے قتیل
بخشش کی عاصیوں کی نکالی ہے یہ سبیل
امت وہ ہے کہ جس کی نبیؑ کرتے تھے ثنا
امت وہ ہے جس پہ ہمیشہ رہے فدا
فرماتے تھے زبان مبارک سے بار ہا
امت مجھے عزیز ہے اولاد سے سوا
دنیا میں ایک دم بھی نہ غفلت دعا سے کی
معراج کو گئے تو شفاعت خدا سے کی
باتیں یہ سن کر رونے لگیں اور زار زار
ششدر کھڑے تھے واں پہ محبان نامدار
سر اپنا پیٹ کر پکاریں وہ سوگوار
ہے ہے یہی ہے امت محبوب کردگار
کرتے ہیں خون امام فلک احتشام کا
بدلہ یہی ہے امت خیر الانام کا
لیکن جناب معصومہ کو کسی صورت سکون نہ ہوتا تھا۔اور کیو نکر ہوتا،جب ایسی عاشق بہن نے اپنے بھائی کے شوق دیدار میں وطن چھوڑا۔ سفر کے مصائب برداشت کیے۔جب تھوڑا فاصلہ رہ گیا تو اس وقت امید ملاقات منقطع ہو گئی۔افسوس کس طرح چین آتا۔وارد ہے کہ اسی عالم بے قراری میں آپ نے سولہ روز بسر کیے۔اور سترھویں روز اس دار فانی سے کوچ کیا۔اور قبر مبارک اسی شہر میں تعمیر ہوئی۔اسی وجہ سے اب آپ کو معصومہ قم کہتے ہیں۔ہا ں رونے والو،جناب رسول خدا سے،حضرت امام موسیٰ رضا اور معصومہ قم میں آٹھ پشت کا فا صلہ ہے۔لیکن مسلمانان قم نے امام مظلوم کی ماتم داری اور آپ کی ہمشیرہ حضرت معصومہ قم کی خاطر داری کی۔ لیکن ہائے افسوس جناب رسول ؑخدا اور جناب امام حسین علیہ سلام اور ثانی زہراؑ کے درمیان تو صرف دو پشت گزری تھی۔لیکن ان اشقیا نے نواسہ رسولؑ کو مہمان بلا کر تین دن کا بھوکا پیاسا قتل کر ڈالا۔لاش کو دفن کرنا تو درکنار،مجروح جسم پر گھوڑے دوڑائے۔ زینبؑ کو بھائی کا پرسا دینا کیسا آپ کے سر سے چادر چھین لی۔بازوئوں میں رسیاں باندھیں،اور بے مقنعہ وچادر برہنہ پشت اونٹوں پر سوار کیا۔آگے آگے نیزے کی نوکوں پر شہیدوں کے سر تھے۔ایک منادی ندا دیتا جاتا تھا۔اے اہل کوفہ وشام رسولؑ کی نواسیاں، علیؑ کی بیٹیاں قید ہو کر آرہی ہیں۔آئو ان اسیروں کا تماشا دیکھو۔حسینؑ کا سر نوک نیزہ پر آنسو بہاتا تھا۔اہل بیت رسول مسلمانوں کے مظالم پر گریہ وزاری کرتے ہوئے جا رہے تھے۔اور کوئی تسلی ودلاسا دینے والا نہیں تھا۔
اب عرض کر امامؑ کی ہمشیر ؑ سے وزیر
پہنچے تمہارے بھائی کے روضے پہ یہ حقیر
Comments
Post a Comment