﷽
اکتیسویں مجلس
بازار شام میں پھر دربار یزید میں اہل بیت اطہار کا پہنچنا
دربار میں یزید کے جاتے ہیں اہل بیت
بالوں سے ہائے منہ کو چھپاتے ہیں اہل بیت
کاتبان دفتر مصیبت در اقمان مکتوبات صعوبت میں ایک حدیث کا ترجمہ اس طرح فرماتے ہیں کہ حضرات پنجتن علیھم السلام کی عزت اور مرتبہ کے برابر کسی پیغمبر اور نبیؑ کا عز ووقار نہیں۔جو فضل وشرف جناب رسولؑ خدا پیغمبرؑ ہدا کو حاصل ہیں۔ان میں سے ایک ادنیٰ درجہ معراج کا ہے۔دوسرے آپؑ خاتم المرسلین ہیں۔آپ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں،آپ کے واسطے قرآن مجید آیا،جو تمام کتب آسمانی کا ناسخ ہے۔وہ خود تا قیامت منسوخ نہیں ہوگا۔چنانچہ ایک مرتبہ نبیؑ کریم مسجد میں رونق افروز تھے۔کہ آپ نے درگاہ خدا میں پے در پے پانچ سجدے ادا فرمائے۔اس وقت حاضرین نے دست بستہ سجدوں کا سبب دریافت کیا،تو آپؑ نے فرمایا کہ اس وقت جبرئیل پیک رب جلیل میرے پاس آئے اور فرمایا،کہ خدائے پاک ارشاد فرماتا ہے کہ یا نبیؑ ہم زوج بتولؑ یعنی علیؑ کو بہت دوست رکھتے ہیں۔ نظم
اول اسی نوید پہ سر میں نے خم کیا
پھر اٹھتے اٹھتے مژدہ یہ جبرئیلؑ نے دیا
اب آپؑ سے خطاب یہ کرتا ہے کبریا
ہم چاہتے ہیں فاطمہؑ زہرا کو بھی سوا
بعد از علیؑ بتولؑ پہ شفقت ہماری ہے
داماد بھی عزیز ہے بیٹی بھی پیاری ہے
سن کر یہ وحی سجدہ ثانی کیا ادا
اٹھتا تھا سر کہ پھر ہوئی پرواز کی صدا
خوش خوش یہ جبرائیل نے دی دوسری ندا
لو آپؑ کے حسنؑ پہ بھی ہے شیفتہ خدا
خصلت حسنؑ کی نیک ہے حق نے کرم کیا
وجہ حسنؑ سے میں نے سر سجدہ خم کیا
لیکن ادھر تو سجدہ سے فارغ جبیں ہوئی
پھر آسماں سے آمد روح الامیں ہوئی
نازل حسینؑ کے لیے وحی مبیں ہوئی
مظلوم پر عطائے جہاں آفریں ہوئی
نام حسینؑ لے کے وہ صرف درود تھے
لب سے تبسم آنکھوں سے آنسو نمود تھے
آخر کہا کہ جانیے برتر حسینؑ کو
رکھتا ہے دوست خالق اکبر حسینؑ کو
مظلومیت پہ فوق ہے سب پر حسینؑ کو
دو گز کفن نہ ہوگا میسر حسینؑ کو
یہ فخر حیدر ؑ ونبیؑ فاطمہؑ ہوا
اس پر خدا کے پیار کا بس خاتمہ ہوا
سجدہ میں چوتھی بار تھا میں اپنا سر جھکائے
ناگاہ جبرئیل اسی پائوں پھر کے آئے
خوش ہو کے میں نے پوچھا کہ اب کیا نوید لائے
بولے کہا ہے درجے بڑے ان سبھوں نے پائے
جو ان کو دوست رکھتے ہیں وہ میرے دوست ہیں
جو دوستوں کے دوست ہیں وہ میرے دوست ہیں
سبحان اللہ مومنین کس قدر فخر ومباہات کا مقام ہے۔ تمہارے لیے کہ تم بھی خدائے کریم کے دوست اور پیارے ہو۔ یہ سب صدقہ ہے دوستی آل عبا کا اور پنجتنؑ پاک کا
شعر
احباب پنجتنؑ کے جدا خاک سے ہوئے
پیدا یہ نور پنجتن ؑ پاک سے ہوئے
لیکن افسوس صد افسوس کہ اسی پنجتنؑ پاک میں سے جناب امام حسینؑ کو کربلا میں تین دن تک اعدائے دن نے پانی نہ دیا۔ بیت
حیرت ہے کس طریق پہ تھے آہ وہ لعین
سیدؑ کو پیاسا قتل کیا نہر کے قریں
اس پر بھی اکتفا نہ کی اور اہل بیت اطہار کو لوٹ کر قید کیا۔اور دختران علیؑ وبتولؑ پر ظالموں کو کچھ رحم نہ آیا۔ بیت
ہنستے تھے آہ رونے پہ بنت بتولؑ کے
کیسے یہ کلمہ گو تھے جناب رسولؑ کے
الغرض اشقیا نے امت اہل بیتؑ رسالت کو قید کرکے سر برہنہ کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام میں تشہیر کرتے ہوئے لائے،نظم
جب شام کے بازار میں در نجف آئے
یعنی گہر معدن عز وشرف آئے
محبوبؑ خدا کے حرم آئے خلف آئے
اور لوگ تماشے کے لیے ہر طرف آئے
گیسوئے حرم اور سر اطفال کھلے تھے
سر ننگے تھے بازو تھے بندھے بال کھلے تھے
پھرتے تھے منادی یہی کرتے ہوئے تقریر
ہاں شہریو،درباریو، بازاریو، ہے عید
حاکم پہ تمہارے ہوئے تقدیر کی تائید
بلوئے میں اسیران حسینی ؑ کی کرو دید
سب مر گئے اب مردوں میں سجاد حزیں ہے
رومال تلک چھن گئے کچھ پاس نہیں ہے
اللہ اللہ اہل بیت رسولؑ کے لٹنے کی عید تھی۔ شام کے بازار سجے ہوئے تھے۔ہر اک دکان نقش ونگار سے مزین تھی۔ ہر چھوٹے بڑے کے بدن پر سرخ لباس تھے۔تمام مرد بازار میں مثل عید کے پھرتے تھے۔اور عورتیں ان کی مکانوں اور دکانوں کی چھت پر اہل بیت کے تماشے کے لیے بیٹھی تھیں۔ نظم
آراستہ ہے شہر مزین ہے بام ودر
پہنے ہوئے ہیں جامہ خوش رنگ اہل شر
دربار میں جشن کا سماں الحذر
بیٹھے ہیں کرسیوں پہ ستم گر ادھر ادھر
واں اہل بیت میں ہے صدا وا حسینؑ کی
یاں شادیاں ہیں قتل شاہ مشرقین کی
عورات اہل شہر ہیں آراستہ کمال
مسرور ہیں عروس شب عقد کی مثال
مجمع میں ہیں کھلے ہوئے کبریٰ کے سر کے بال
غیرت سے رنگ زرد لہو سے جبیں ہے لال
واں نورتن ہے ہر زن بد خو کے واسطے
حلقہ یہاں رسن کا ہے بازو کے واسطے
بیٹھے ہیں چلمنوں میں تماشے کو ہم دگر
جز محرموں کے اور کسی کا نہیں گزر
سیدانیاں ہیں بیچ میں چو گرد اہل شر
ممکن نہیں ردا بھی کوئی ڈھانپے کو سر
محتاج اہل بیتؑ شاہ نیک ذات ہیں
بے پردگی کی شرم سے چہرے پہ ہاتھ ہیں
الغرض اسی طرح اہل بیت اطہار شتران بے کجاوہ پر سر برہنہ بازار شام میں لائے گئے۔ جناب امام زین العابدینؑ پا برہنہ اونٹوں کی مہار تھامے ہوئے آگے آگے جا رہے تھے۔اور فرماتے تھے، بیت
بے پدر ہوں پسر سید ابرار ہوں میں
اس لئے قافلہ کا قافلہ سالار ہوں میں
اس وقت اہل شام کی عورتوں میں یہ غل برپا تھا،نظم
تھا شور انقلاب مقدر کو دیکھنا
بے پردہ اہل بیت پیمبرؑ کو دیکھنا
زینبؑ کو اور شام کے لشکر کو دیکھنا
زہراؑ کی بیٹیوں کے کھلے سر کو دیکھنا
محتاجی نقاب سے چہرے پہ بال ہیں
مر جانے سے حسینؑ کے ان کے یہ حال ہے
یہ بیبیاں وہ خلق میں عفت مآب ہیں
نانا رسولؑ جن کے پدر بوترابؑ ہیں
عالم کے پردہ پوش ہیں بروز حساب ہیں
اور اب تو اژدھام میں خود بے نقاب ہیں
قدرت خدا کی جن کی جگہ ہے بہشت میں
یوں در بدر وہ پھرتے ہیں دنیائے زشت میں
آہ آہ اس وقت حضرت زینبؑ اور جناب کلثوم کا عجب حال تھا۔کس زبان سے عرض کروں۔سیدانیاں اپنے وارثوں کے سروں سے مخاطب ہو کر فریاد کر رہی تھیں۔نظم
اے بھائی جان وعدہ کرو کچھ تو مجھ سے آہ
کب تک پھرو گے دیکھوں میں کب تک تمہاری راہ
دیکھو تو کیا سکینہؑ کا احوال ہے تباہ
پھٹتی ہے چھاتی دیکھے کے اس کو خدا گواہ
تسکین کچھ تو بہر رسالت مآب دو
بھیا پکارتی ہے سکینہؑ جواب دو
اکبرؑ کے سر سے کہتی تھی مادر بصد بکا
اے مرے لال صاحب غیرت تیرے فدا
خیمہ کے در پہ آتی تھی جب میں برہنہ پا
کیا کیا وفور شرم سے ہوتے تھے تم خفا
بے پردگی کا رنج وتعب پو چھتے نہیں
ماں سر برہنہ پھرتی ہے اب پوچھتے نہیں
اصغرؑ کے سر سے ہے کبھی یہ درد کا بیان
نیزے سے گود میں اتر آئو نثار ماں
بھوکے ہو تم کو دودھ پلائوں میں ناتواں
دائی سے بھی تم بھی ہو گئے بیزار میری جان
نادار ہوں غریب ہوں تقصیر وار ہوں
اصغرؑ تمہارے سر سے بہت شرمسار ہوں
افسوس صد افسوس اہل بیت اطہار تو سر ہائے شہداؑ سے یہ فریاد کر رہے تھے۔اور جو عورتیں اہل شام کی کوٹھوں پر بیٹھی تھیں۔وہ حضرت سکینہؑ اور جناب امام محمد باقر ؑکو خورد سال دیکھ کر اور محتاج سمجھ کر، نظم
کھانے کی چیزین بچوں پہ اپنے اتار کر
عورات پھینکتی تھیں ترس کھا کر ہم دگر
بھوکے تھے ایسے شاہؑ کے اطفال خوش سیر
پھیلا کے ہاتھ لیتے تھے معصوم سر بسر
محتاج شاہزادے تھے دنیا ودین کے
کلثوم پھینک دیتی تھیں ہاتھوں سے چھین کر
کہتی تھی عورتوں سے وہ زہراؑ کی دلربا
لوگو یہ غضب کرتے ہو کیا وا مصیبتا
ہم عترت رسولؑ ہیں شاہد ہے کبریا
صدقہ نبیؑ کی آل کو دینا نہیں روا
خوف خدا نہ پاس رسولؑ انام ہے
اولاد فاطمہؑ پہ تصدق حرام ہے
جس وقت جناب ام کلثومؑ کا یہ کلام شام کی عورتوں نے سنا،تو پوچھنے لگین کہ اے اسیرو تم کس دیار کے باشندے ہو۔کس قصور میں گرفتار ہوئےتمہارے وارث کیوں شہید کیے گئے۔اس وقت جناب زینبؑ نے فرمایا بیت
بے وجہ مصیبت میں گرفتار ہیں ہم
جانتے تم نہیں کیا عترت اطہار ہیں ہم
نظم
پوچھتا کوئی نام ونسب کوئی تو کہتی رورو
میرا ناناؑ ہے نبیؑ اور میں زینبؑ ہوں لوگو
بھائی دو تھے مرے معلوم نہیں کیا تم کو
ایک کا نام حسنؑ ایک کا شاہ خوشخو
اس کو پہلے ہی بقیعہ میں میں رو آئی ہوں
کربلا میں میں شاہ والا کو کھو آئی ہوں
رحم کھا کر کوئی پاس آن کے دیتا جو ردا
وہ یہ کتی تھی نہ لوں گی میں نہ لوں گی بخدا
بھائی بے گور وکفن رن میں پڑا ہے میرا
آج تک جس کا اٹھایا نہ کسی کا لاشہ
جب تلک دفن نہ بھائی کو کرے گی زینبؑ
بس اسی طرح سے سر کھولے رہے گی زینبؑ
جس کا سر تن سے کٹا چھوٹ گیا جس سے وطن
جس کو بلوا کے ہوا سارا زمانہ دشمن
جس کا ٹکڑے ہوا تلواروں سے میداں میں بدن
قبر جس کو نہ ملی اور نہ ملا جس کو کفن
اس کی ہمشیر ہوں میں فاطمہؑ کی جا ئی ہوں
سر کے ساتھ اس کے میں سر کھولے ہوئے آئی ہوں
لکھ کے خط سینکڑوں پہلے تو طلب ہم کو کیا
آکے مہمان ہوئے جب قطرہ نہ پانی کا دیا
بھوکے پیاسے کا گلا تیغ ستم سے کاٹا
گھر جلا بیبیوں کا زیور وزر لوٹ لیا
نینوا میں مرا مارا گیا بھائی ہائے ہائے
لٹ گئی رن میں مری ماں کی کمائی ہائے ہائے
اسی اثنا ؑمیں یزید کا حکم لے کر ایک شخص آیا،اور کہنے لگا کہ اے عمر سعد قیدیوں کو دربار میں یزید نے طلب کیا ہے۔اس وقت عمر ابن سعد نے شمر ملعون کو حکم دیا کہ سب سے آگے سر سید ؑ الشہدا لے کر چلے،وہ ملعون نہایت شاد وخرم روانہ ہوا،اور دربار میں پہنچ کر یزید کو خوش خبری دی کہ اہل بیتؑ اطہار دربار کے دروازہ پر موجود ہیں۔نظم
ناگاہ آ نمود ہوا مجمع کثیر
بڑھ کے پکارے لوگ وہ حاضر ہوئے اسیر
بولا یہ ہاتھ باندھ کے شمر لعیں شریر
ہو اس طرف ملاحظہ اے شام کے امیر
تقدیر نے یہ آج تجھے دن دکھایا ہے
کنبہ نبیؑ کا سامنے سر ننگے آیا ہے
پھر بولا وہ شقی کہ ادب کا ہے یہ مقام
حاکم کو قاعدہ سے اسیرو کرو سلام
گردن جھکا کے رہ گئے اہل حرم تمام
روئے فلک کو دیکھ کے سجاد تشنہ کام
بیووں کے حال پہ جو عدو مسکراتے تھے
مانند آفتاب بدن تھرتھراتے تھے
ان ناریوں میں نور کے تن وامصیبتا
بے کس غریب وتشنہ دہن وامصیبتا
سب سے سوا یہ رنج ومحن وامصیبتا
بارہ گلوں میں ایک رسن وامصیبتا
تھی قید یہ اسیروں میں اس اژدہام میں
بالوں سے منہ چھپائو نہ دربار عام میں
الغرض اسی طرح سر برہنہ اہل بیتؑ اطہار داخل دربار ہوئے۔نظم
پیش یزید آیا حرم کا جو کارواں
اغلب ہے جان دختر زہراؑ کی ہو رواں
دیکھا یزید نے جو سکینہ کو ناگہاں
پوچھا جو شمر سے تو اس نے کیا بیاں
بیٹی ہے یہ جناب شاہؑ مشرقین کی
بالی سکینہ ہے یہی پیاری حسینؑ کی
بولا یزید دل میں ترے آرزو ہے کیا
بولی سکینہؑ سر مجھے دکھلا دے باپؑ کا
القصہ کھل گیا رسن ظلم سے گلا
طشت طلا دکھا کے یہ حاکم نے دی صدا
آلودہ خاک سے ہے تو خون میںبھرا ہوا
لے اس میں تیرے باپ کا سر ہے دھرا ہوا
پر شرط ہے اٹھا کے تو سر کیجیو نہ بین
خود آئے آپ گود میں تیری سر حسینؑ
سر پوش کو اٹھا کے پکاری وہ نور عین
اے فاطمہؑ کے راحت جاں مرتضےٰ کے چین
چھونے کو سر حکم نہیں غم کی ماری ہوں
آجائو میری گود میں گر تم کو پیاری ہوں
دیکھا سبھوں نے کانپ گیا سر حسینؑ کا
بولا سکینہؑ لاڈلی میں تجھ پہ ہوں فدا
پھیلائو ہاتھ آتا ہوں میں غم کی مبتلا
یہ کہہ کے ا ٹھا طشت سے فرق شاہ ہدیٰ
کانپی زمین یقین ہوا تختہ الٹ گیا
بیٹی سے آن کے سر سرور لپٹ گیا
منہ رکھ کے منہ پہ بولی سکینہؑ کہ یا حسینؑ
بعد آپؑ کے ملا نہ ہمیں ایک لحظہ چین
پہنائے تھے جو آپ نے موتی بزیب وزین
ان کے لیے یہ ظلم ہوا شاہ مشرقین
شمر لعیں نے چھین کے یہ حال کردیے
مارے طمانچے نیلے میرے گال کر دیئے
جناب سکینہؑ سر مبارک سے اپنی مصیبتیں بیان کر رہی تھیں،اور اہل بیت اطہار چپکے سروں کو جھکائے بالوں سے منہ چھپائے کھڑے تھے۔یزید لعین تخت پر شان وشوکت سے بیٹھا تھا۔اس کی پشت پر تین سوحبشی غلام برہنہ تلواریں لیے کھڑے تھے۔جناب زینبؑ کنیزوں کے جھرمٹ میں استادہ شرم سے کانپ رہی تھیں۔کہ یزید پلید نے شمر سے کہا کہ زینبؑ کے گرد سے کنیزوں کو ہٹا دے۔ میں بنت علیؑ سے کچھ کلام کرنا چاہتا ہوں۔ اس ملعون نے تمام کنیزوں کو تو ہٹا دیا، مگر جناب فضہ اپنی شاہزادی کے سامنے سے نہ ہٹیں۔ شمر نے سختی سے کہا کہ زینبؑ کے آگے سے ہٹ جائو،ورنہ تازیانے کے ذریعے ہٹا دوں گا۔مگر جناب فضہ پھر بھی نہ ہٹیں تو شمر کو غصہ آیا،اور تازیانہ بلند کرکے فضہ کے قریب پہنچا۔یہ دیکھ کر اس کنیز فاطمہؑ نے حبشیوں کو مخاطب کیا۔اور فرمایا ارے کیا ہو گئی تمہاری حمیت وغیرت کہ تمہارے قبیلے کی ایک بے کس عورت کو شمر سر دربار تازیانے مارے،اور تم دیکھ رہے ہو۔ یہ سننا تھا کہ وہ تین سو حبشی تلواریں کھینچے ہوئے یزید کے سامنے آگئے۔اور بولے کہ اے یزید روک لے شمر کو اس مظلوم پر تازیانہ نہ پڑنے پائے۔ ورنہ ہم ابھی دربار میں خون کا دریا بہا دیں گے۔یزید یہ دیکھ کر ڈر گیا،اور شمر کو جلدی سے منع کیا۔یہ حال دیکھ کر جناب زینبؑ تڑپ گئیں،اور امام حسینؑ کے سر کو مخاطب کرکے فرمایا اے بھیا آج ایک کنیز کے برابر بھی زینبؑ کی عزت نہیں۔اس کی حمایت کے لیے دربار یزید میں بھی لوگ موجود ہیں۔لیکن آج ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ نظم
بھیا تمہارے بعد بہن ننگے سر پھری
بلوئے میں بال کھولے ہوئے سر بسر پھری
لوٹی گئی اسیر ہوئی نوحہ گر پھری
تشہیر شہر شہر ہوئی در بدر پھری
سر ننگے آئی کوفیوں کے اژدہام میں
اب کب تلک کھڑی رہوں دربار عام میں
پردے میں مجھ کو بہر پیمبر بٹھایئے
بس آیئے بہن کو نہ در در پھرایئے
اماں سے کہیئے عرش کا پایہ ہلایئے
نانا سے کیجیے عرض کہ تشریف لایئے
حالت ہے اب تو غیر دل ناصبور کی
دربار میں کھڑی ہے نواسی حضورؑ کی
کیجیے پدر سے عرض کہ اے شاہ لافتا
مجھ کو اسیر نانا کی امت نے ہے کیا۔
مشکل کشا ہے نام دو عالم میں آپؑ کا
جلدی چھڑایئے مجھے میں آپ کے فدا
عقدے مہم کی اے شاہ خوش ذات کھولیے
بابا بندھے ہوئے ہیں میرے ہاتھ کھولیے
ابھی جناب زینبؑ بھائی کے سر سے یہ بین کر رہی تھیں ۔کہ جناب سکینہؑ بھی بے قرار ہو کر فریاد کرنے لگیں۔نظم
لے کر بلائیں بالی سکینہؑ نے دی صدا
کہیے مرے چچا سے خدا کے لیے ذرا
شرمندہ مجھ کو خوب چچی جان سے کیا
پانی سے باز آئی میں آفت کی مبتلا
ہے ہے کنارہ کش ہوئے مجبور جان کے
دیکھو تو حال اپنی بھتیجی کا آن کے
عمو بندھا ہوا ہے مرا رسن میں گلا
عمو طمانچے مارے ہیں ظالم نے بے خطا
عمو چھنے یتیم کے در وامصیبتا
عمو یہ حشر ظالموں نے کر دیا بپا
اماں بھی ہیں اسیر پھوپھی بھی اسیر ہیں
عمو خبر لو آکے چچی بھی اسیر ہیں
میری مدد بھی آپؑ کو لازم ہے یا امام
پہنچے وزیر واں پہ جہاں ہے قمر غلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment