Skip to main content

اکتیسویں مجلس بازار شام میں پھر دربار یزید میں اہل بیت اطہار کا پہنچنا



اکتیسویں مجلس
بازار شام میں پھر دربار یزید میں اہل بیت اطہار کا پہنچنا
دربار میں یزید کے جاتے ہیں اہل بیت
بالوں سے ہائے منہ کو چھپاتے ہیں اہل بیت
 کاتبان دفتر مصیبت در اقمان مکتوبات  صعوبت میں ایک حدیث کا ترجمہ اس طرح فرماتے ہیں کہ حضرات پنجتن  علیھم السلام کی عزت اور مرتبہ کے برابر کسی پیغمبر اور نبیؑ کا عز ووقار نہیں۔جو فضل وشرف جناب رسولؑ خدا پیغمبرؑ ہدا کو حاصل ہیں۔ان میں سے ایک ادنیٰ درجہ معراج کا ہے۔دوسرے آپؑ خاتم المرسلین ہیں۔آپ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں،آپ کے واسطے قرآن مجید آیا،جو تمام کتب آسمانی کا ناسخ ہے۔وہ  خود تا قیامت منسوخ نہیں ہوگا۔چنانچہ ایک مرتبہ نبیؑ کریم مسجد میں رونق افروز تھے۔کہ آپ نے درگاہ خدا میں پے در پے پانچ سجدے ادا فرمائے۔اس وقت حاضرین نے دست بستہ سجدوں کا سبب دریافت کیا،تو آپؑ نے فرمایا کہ اس وقت جبرئیل پیک رب جلیل میرے پاس آئے اور فرمایا،کہ خدائے پاک ارشاد فرماتا ہے کہ یا نبیؑ ہم زوج بتولؑ یعنی علیؑ کو بہت  دوست رکھتے ہیں۔ نظم
 اول اسی نوید پہ سر میں نے خم کیا
پھر اٹھتے اٹھتے مژدہ یہ جبرئیلؑ نے دیا
اب آپؑ سے خطاب یہ کرتا ہے کبریا
ہم چاہتے ہیں فاطمہؑ زہرا کو بھی سوا
بعد از علیؑ بتولؑ پہ شفقت ہماری ہے
 داماد بھی عزیز ہے بیٹی بھی پیاری ہے
 سن کر یہ وحی سجدہ ثانی کیا ادا
اٹھتا تھا سر کہ پھر ہوئی پرواز کی صدا
خوش خوش یہ جبرائیل نے دی دوسری ندا
لو آپؑ کے حسنؑ پہ بھی ہے شیفتہ خدا
خصلت حسنؑ کی نیک ہے حق نے کرم کیا
 وجہ حسنؑ سے میں نے سر سجدہ خم کیا
لیکن ادھر تو سجدہ سے فارغ جبیں ہوئی
پھر آسماں سے آمد  روح الامیں ہوئی
نازل حسینؑ کے لیے وحی مبیں ہوئی
مظلوم پر عطائے جہاں آفریں ہوئی
نام حسینؑ لے کے وہ صرف درود تھے
لب سے تبسم آنکھوں سے آنسو نمود تھے
آخر کہا کہ جانیے برتر حسینؑ کو
رکھتا ہے دوست خالق اکبر حسینؑ کو
مظلومیت پہ فوق ہے سب پر حسینؑ کو
 دو گز کفن نہ ہوگا میسر حسینؑ کو
یہ فخر حیدر ؑ ونبیؑ فاطمہؑ ہوا
اس پر خدا کے پیار کا بس خاتمہ ہوا
سجدہ میں چوتھی بار تھا میں اپنا سر جھکائے
 ناگاہ جبرئیل اسی پائوں پھر کے آئے
خوش ہو کے میں نے پوچھا کہ اب کیا نوید لائے
بولے کہا ہے درجے بڑے ان سبھوں نے پائے
 جو ان کو دوست رکھتے ہیں وہ میرے دوست ہیں
جو دوستوں کے دوست ہیں وہ میرے دوست ہیں
 سبحان اللہ مومنین کس قدر فخر ومباہات کا مقام ہے۔ تمہارے لیے کہ تم بھی خدائے کریم کے دوست اور پیارے ہو۔ یہ سب صدقہ ہے دوستی آل عبا کا اور پنجتنؑ پاک کا
 شعر
احباب پنجتنؑ کے جدا خاک سے ہوئے
پیدا یہ نور پنجتن ؑ پاک سے ہوئے
لیکن افسوس صد افسوس کہ اسی پنجتنؑ پاک  میں سے جناب امام حسینؑ کو کربلا میں تین دن تک اعدائے دن نے پانی نہ دیا۔ بیت
حیرت ہے کس طریق پہ تھے آہ وہ لعین
سیدؑ کو پیاسا قتل کیا نہر کے قریں
 اس پر بھی اکتفا نہ کی اور اہل بیت اطہار کو لوٹ کر قید کیا۔اور دختران علیؑ وبتولؑ پر ظالموں کو کچھ رحم نہ آیا۔ بیت
ہنستے تھے آہ رونے پہ بنت بتولؑ کے
کیسے یہ کلمہ گو تھے جناب رسولؑ کے
 الغرض اشقیا نے امت اہل بیتؑ رسالت کو قید کرکے سر برہنہ کربلا سے کوفہ  اور کوفہ سے شام میں تشہیر کرتے ہوئے لائے،نظم
 جب شام کے بازار میں در نجف آئے
یعنی گہر معدن عز وشرف آئے
محبوبؑ خدا کے حرم آئے خلف آئے
اور لوگ تماشے کے لیے ہر طرف آئے
گیسوئے حرم اور سر اطفال کھلے تھے
سر ننگے تھے بازو تھے بندھے بال کھلے تھے
پھرتے تھے منادی یہی کرتے ہوئے تقریر
ہاں شہریو،درباریو، بازاریو، ہے عید
حاکم پہ تمہارے ہوئے تقدیر کی تائید
 بلوئے میں اسیران حسینی ؑ کی کرو دید
سب مر گئے اب مردوں میں سجاد حزیں ہے
رومال تلک چھن گئے کچھ پاس نہیں ہے
 اللہ اللہ اہل بیت رسولؑ کے لٹنے کی عید تھی۔ شام کے بازار سجے ہوئے تھے۔ہر اک دکان نقش ونگار سے مزین تھی۔ ہر چھوٹے بڑے کے بدن پر سرخ لباس تھے۔تمام مرد بازار میں مثل عید کے پھرتے تھے۔اور عورتیں ان کی مکانوں اور دکانوں کی چھت پر اہل بیت کے تماشے کے لیے بیٹھی تھیں۔ نظم
 آراستہ ہے شہر مزین ہے بام ودر
پہنے ہوئے ہیں جامہ خوش رنگ اہل شر
دربار میں جشن کا سماں الحذر
بیٹھے ہیں کرسیوں پہ ستم گر ادھر ادھر
واں اہل بیت میں ہے صدا وا حسینؑ کی
یاں شادیاں ہیں قتل شاہ مشرقین کی
عورات اہل شہر ہیں آراستہ کمال
مسرور ہیں عروس شب عقد کی مثال
مجمع میں ہیں کھلے ہوئے کبریٰ کے سر کے بال
غیرت سے رنگ زرد لہو سے جبیں ہے لال
واں نورتن ہے ہر زن بد خو کے واسطے
حلقہ یہاں رسن کا ہے بازو کے واسطے
بیٹھے ہیں چلمنوں میں تماشے کو ہم دگر
جز محرموں کے اور کسی کا نہیں گزر
سیدانیاں ہیں بیچ میں چو گرد اہل شر
ممکن نہیں ردا بھی کوئی ڈھانپے کو سر
محتاج اہل بیتؑ شاہ نیک ذات ہیں
بے پردگی کی شرم سے چہرے پہ ہاتھ ہیں
الغرض اسی طرح اہل بیت اطہار شتران بے کجاوہ پر سر برہنہ بازار شام میں لائے گئے۔ جناب امام زین العابدینؑ پا برہنہ اونٹوں کی مہار تھامے ہوئے آگے آگے جا رہے تھے۔اور فرماتے تھے، بیت
بے پدر ہوں پسر سید ابرار ہوں میں
اس لئے قافلہ کا قافلہ سالار ہوں میں
اس وقت اہل شام کی عورتوں میں یہ غل برپا تھا،نظم
 تھا شور انقلاب مقدر کو دیکھنا
بے پردہ اہل بیت پیمبرؑ کو دیکھنا
زینبؑ کو اور شام کے لشکر کو دیکھنا
زہراؑ کی بیٹیوں کے کھلے سر کو دیکھنا
محتاجی نقاب سے چہرے پہ بال ہیں
مر جانے سے حسینؑ کے ان کے یہ حال ہے
یہ بیبیاں وہ خلق میں عفت مآب ہیں
نانا رسولؑ جن کے پدر بوترابؑ ہیں
عالم کے پردہ پوش ہیں بروز حساب ہیں
اور اب تو اژدھام میں خود بے نقاب ہیں
قدرت خدا کی جن کی جگہ ہے بہشت میں
یوں در بدر وہ پھرتے ہیں دنیائے زشت میں
 آہ آہ اس وقت حضرت زینبؑ اور جناب کلثوم کا عجب حال تھا۔کس زبان سے عرض کروں۔سیدانیاں اپنے وارثوں کے سروں سے مخاطب ہو کر فریاد کر رہی تھیں۔نظم
 اے بھائی جان وعدہ کرو کچھ تو مجھ سے آہ
کب تک پھرو گے دیکھوں میں کب تک تمہاری راہ
دیکھو تو کیا سکینہؑ کا احوال ہے تباہ
پھٹتی ہے چھاتی دیکھے کے اس کو خدا گواہ
تسکین کچھ تو بہر رسالت مآب دو
بھیا پکارتی ہے سکینہؑ جواب دو
اکبرؑ کے سر سے کہتی تھی مادر بصد بکا
اے مرے لال صاحب غیرت تیرے فدا
خیمہ کے در پہ آتی تھی جب میں برہنہ پا
کیا کیا وفور شرم سے ہوتے تھے تم خفا
بے پردگی کا رنج وتعب پو چھتے نہیں
ماں سر برہنہ پھرتی ہے اب پوچھتے نہیں
اصغرؑ کے سر سے ہے کبھی یہ درد کا بیان
نیزے سے گود میں اتر آئو نثار ماں
بھوکے ہو تم کو دودھ پلائوں میں ناتواں
دائی سے بھی تم بھی ہو گئے بیزار میری جان
نادار ہوں غریب ہوں تقصیر وار ہوں
اصغرؑ تمہارے سر سے بہت شرمسار ہوں
 افسوس صد افسوس اہل بیت اطہار تو سر  ہائے شہداؑ سے یہ فریاد کر رہے تھے۔اور جو عورتیں اہل شام کی کوٹھوں پر بیٹھی تھیں۔وہ حضرت سکینہؑ اور جناب امام محمد باقر  ؑکو خورد سال دیکھ کر اور محتاج سمجھ کر، نظم
 کھانے کی چیزین بچوں پہ اپنے اتار کر
عورات پھینکتی تھیں ترس کھا کر ہم دگر
بھوکے تھے ایسے شاہؑ کے اطفال خوش سیر
پھیلا کے ہاتھ لیتے تھے معصوم سر بسر
محتاج شاہزادے تھے دنیا ودین کے
کلثوم پھینک دیتی تھیں ہاتھوں سے چھین کر
کہتی تھی عورتوں سے وہ زہراؑ کی دلربا
لوگو  یہ غضب کرتے ہو کیا وا مصیبتا
ہم عترت رسولؑ ہیں شاہد ہے کبریا
صدقہ نبیؑ کی آل کو دینا نہیں روا
 خوف خدا نہ پاس رسولؑ انام ہے
اولاد فاطمہؑ پہ تصدق حرام ہے
 جس وقت جناب ام کلثومؑ کا یہ کلام شام کی عورتوں نے سنا،تو پوچھنے لگین کہ اے اسیرو تم کس دیار کے باشندے ہو۔کس قصور میں گرفتار ہوئےتمہارے وارث کیوں شہید کیے گئے۔اس وقت جناب زینبؑ نے فرمایا بیت
بے وجہ مصیبت میں گرفتار ہیں ہم
جانتے تم نہیں کیا عترت اطہار ہیں ہم
نظم
پوچھتا کوئی نام ونسب کوئی تو کہتی رورو
میرا ناناؑ ہے نبیؑ اور میں زینبؑ ہوں لوگو
بھائی دو تھے مرے معلوم نہیں کیا تم کو
ایک کا نام حسنؑ ایک کا شاہ خوشخو
اس کو پہلے ہی بقیعہ میں میں رو آئی ہوں
کربلا میں میں شاہ والا کو کھو آئی ہوں
رحم کھا کر کوئی پاس آن کے دیتا جو ردا
وہ یہ کتی تھی نہ لوں گی میں نہ لوں گی بخدا
بھائی بے گور وکفن رن میں پڑا ہے میرا
آج تک جس کا اٹھایا نہ کسی کا لاشہ
جب تلک دفن نہ بھائی کو کرے گی زینبؑ
بس اسی طرح سے سر کھولے رہے گی زینبؑ
جس کا سر تن سے کٹا چھوٹ گیا جس سے وطن
جس کو بلوا کے ہوا سارا زمانہ دشمن
جس کا ٹکڑے ہوا تلواروں سے میداں میں بدن
قبر جس کو نہ ملی اور نہ ملا جس کو کفن
اس کی ہمشیر ہوں میں فاطمہؑ کی جا ئی ہوں
سر کے ساتھ اس کے میں سر کھولے ہوئے آئی ہوں
لکھ کے خط سینکڑوں پہلے تو طلب ہم کو کیا
آکے مہمان ہوئے جب قطرہ نہ پانی کا دیا
بھوکے پیاسے کا گلا تیغ ستم سے کاٹا
گھر جلا بیبیوں کا زیور وزر لوٹ لیا
نینوا میں مرا مارا گیا بھائی ہائے ہائے
لٹ گئی رن میں مری ماں کی کمائی ہائے ہائے
 اسی اثنا  ؑمیں یزید کا حکم لے کر ایک شخص آیا،اور کہنے لگا کہ اے عمر سعد قیدیوں کو دربار میں یزید نے طلب کیا ہے۔اس وقت عمر  ابن سعد نے شمر ملعون کو حکم دیا کہ سب سے آگے سر سید ؑ الشہدا لے کر چلے،وہ ملعون نہایت شاد وخرم روانہ ہوا،اور دربار میں پہنچ کر یزید کو خوش خبری دی  کہ اہل بیتؑ اطہار دربار کے دروازہ پر موجود ہیں۔نظم
ناگاہ آ نمود ہوا مجمع کثیر
بڑھ کے پکارے لوگ وہ حاضر ہوئے اسیر
بولا یہ ہاتھ باندھ کے شمر لعیں شریر
ہو اس طرف ملاحظہ اے شام کے امیر
تقدیر نے یہ آج تجھے دن دکھایا ہے
کنبہ نبیؑ کا سامنے سر ننگے آیا ہے
پھر بولا وہ شقی کہ ادب کا ہے یہ مقام
حاکم کو قاعدہ سے اسیرو کرو سلام
گردن جھکا کے رہ گئے اہل حرم تمام
روئے فلک کو دیکھ کے سجاد تشنہ کام
بیووں کے حال پہ جو عدو مسکراتے تھے
مانند آفتاب بدن تھرتھراتے تھے
ان ناریوں میں نور کے تن وامصیبتا
بے کس غریب وتشنہ دہن وامصیبتا
سب سے سوا یہ رنج ومحن وامصیبتا
بارہ گلوں میں ایک رسن وامصیبتا
تھی قید یہ اسیروں میں اس اژدہام میں
بالوں سے منہ چھپائو نہ  دربار عام میں
 الغرض اسی طرح سر برہنہ اہل بیتؑ اطہار داخل دربار ہوئے۔نظم
پیش یزید آیا حرم کا جو کارواں
اغلب ہے جان دختر زہراؑ کی ہو رواں
دیکھا یزید نے جو سکینہ کو ناگہاں
پوچھا جو شمر سے تو اس نے کیا بیاں
بیٹی ہے یہ جناب شاہؑ مشرقین کی
بالی سکینہ ہے یہی پیاری حسینؑ کی
بولا یزید دل میں ترے آرزو ہے کیا
بولی سکینہؑ سر مجھے دکھلا دے باپؑ کا
القصہ کھل گیا رسن ظلم سے گلا
طشت طلا دکھا کے یہ حاکم نے دی صدا
آلودہ خاک سے ہے تو خون میںبھرا ہوا
لے اس میں تیرے باپ کا سر ہے دھرا ہوا
پر شرط ہے اٹھا کے تو سر کیجیو نہ بین
خود آئے آپ گود میں تیری سر حسینؑ
سر پوش کو اٹھا کے پکاری وہ نور عین
اے فاطمہؑ کے راحت جاں مرتضےٰ کے چین
چھونے کو سر حکم نہیں غم کی ماری ہوں
آجائو میری گود میں گر تم کو پیاری ہوں
دیکھا سبھوں نے کانپ گیا سر حسینؑ کا
بولا سکینہؑ لاڈلی میں تجھ پہ ہوں فدا
پھیلائو ہاتھ آتا ہوں میں غم کی مبتلا
یہ کہہ کے ا ٹھا طشت سے فرق شاہ ہدیٰ
کانپی زمین یقین ہوا تختہ الٹ گیا
بیٹی سے آن کے سر سرور لپٹ گیا
منہ رکھ کے منہ پہ بولی سکینہؑ کہ یا حسینؑ
بعد آپؑ کے ملا نہ ہمیں ایک لحظہ چین
پہنائے تھے جو آپ نے موتی بزیب وزین
ان کے لیے یہ ظلم ہوا شاہ مشرقین
شمر لعیں نے چھین کے یہ حال کردیے
مارے طمانچے نیلے میرے گال کر دیئے
 جناب سکینہؑ سر مبارک سے اپنی مصیبتیں بیان کر رہی تھیں،اور اہل بیت اطہار چپکے سروں کو جھکائے بالوں سے منہ چھپائے کھڑے تھے۔یزید لعین تخت پر شان وشوکت سے بیٹھا تھا۔اس کی پشت پر تین سوحبشی غلام برہنہ تلواریں لیے کھڑے تھے۔جناب زینبؑ کنیزوں کے جھرمٹ میں استادہ شرم سے کانپ رہی تھیں۔کہ یزید پلید نے شمر  سے کہا کہ زینبؑ کے گرد سے کنیزوں کو  ہٹا دے۔ میں بنت علیؑ سے کچھ کلام کرنا چاہتا ہوں۔ اس ملعون نے تمام کنیزوں کو تو ہٹا دیا، مگر جناب فضہ اپنی شاہزادی کے سامنے سے نہ ہٹیں۔ شمر نے سختی سے کہا کہ زینبؑ کے آگے سے ہٹ جائو،ورنہ تازیانے کے ذریعے ہٹا دوں گا۔مگر جناب فضہ پھر بھی نہ ہٹیں تو شمر کو غصہ آیا،اور تازیانہ بلند کرکے فضہ کے قریب پہنچا۔یہ دیکھ کر اس کنیز فاطمہؑ نے حبشیوں کو مخاطب کیا۔اور فرمایا ارے کیا ہو گئی تمہاری حمیت وغیرت کہ تمہارے قبیلے کی ایک بے کس عورت کو شمر سر دربار تازیانے مارے،اور تم دیکھ رہے ہو۔ یہ سننا تھا کہ وہ تین سو حبشی تلواریں کھینچے ہوئے یزید کے سامنے آگئے۔اور بولے کہ اے یزید روک لے شمر کو اس مظلوم پر تازیانہ نہ پڑنے پائے۔ ورنہ ہم ابھی دربار میں خون کا دریا بہا دیں گے۔یزید یہ دیکھ کر ڈر گیا،اور شمر کو جلدی سے منع کیا۔یہ حال دیکھ کر جناب زینبؑ تڑپ گئیں،اور امام حسینؑ کے سر کو مخاطب کرکے فرمایا اے بھیا آج ایک کنیز کے برابر بھی زینبؑ کی عزت نہیں۔اس کی حمایت کے لیے دربار یزید میں بھی لوگ موجود ہیں۔لیکن آج ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ نظم
 بھیا تمہارے بعد بہن ننگے سر پھری
بلوئے میں بال کھولے ہوئے سر بسر پھری
لوٹی گئی اسیر ہوئی نوحہ گر پھری
تشہیر شہر شہر ہوئی در بدر پھری
سر ننگے آئی کوفیوں کے اژدہام میں
اب کب تلک کھڑی رہوں دربار عام میں
پردے میں مجھ کو بہر پیمبر بٹھایئے
بس آیئے بہن کو نہ در در پھرایئے
اماں سے کہیئے عرش کا پایہ ہلایئے
نانا سے کیجیے عرض کہ تشریف لایئے
حالت ہے اب تو غیر دل ناصبور کی
دربار میں کھڑی ہے نواسی حضورؑ کی
کیجیے پدر سے عرض کہ اے شاہ لافتا
مجھ کو اسیر نانا کی امت نے ہے کیا۔
مشکل کشا ہے نام دو عالم میں آپؑ کا
جلدی چھڑایئے مجھے میں آپ کے فدا
عقدے مہم کی اے شاہ خوش ذات کھولیے
بابا بندھے ہوئے ہیں میرے ہاتھ کھولیے
 ابھی جناب زینبؑ بھائی کے سر سے یہ بین کر رہی تھیں ۔کہ جناب سکینہؑ بھی بے قرار ہو کر فریاد کرنے لگیں۔نظم
لے کر بلائیں بالی سکینہؑ نے دی صدا
کہیے مرے چچا سے خدا کے لیے ذرا
شرمندہ مجھ کو خوب چچی جان سے کیا
پانی سے باز آئی میں آفت کی مبتلا
 ہے ہے کنارہ کش ہوئے مجبور جان کے
دیکھو تو حال اپنی بھتیجی کا آن کے
عمو بندھا ہوا ہے مرا رسن میں گلا
 عمو طمانچے مارے ہیں ظالم نے بے خطا
عمو چھنے یتیم کے در وامصیبتا
عمو یہ حشر ظالموں نے کر دیا بپا
اماں بھی ہیں اسیر پھوپھی بھی اسیر ہیں
 عمو خبر لو آکے چچی بھی اسیر ہیں
میری مدد بھی آپؑ کو لازم ہے یا امام
پہنچے وزیر واں پہ جہاں ہے قمر غلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

انتیسویں مجلس امام حسین کی دعا سے خدا وند کا راہب کو سات فرزند عطا فرمانا

﷽ انتیسویں مجلس امام حسین علیہ السلام کی دعا سے خدا وند قدیر کا راہب کو سات فرزند عطا  فرمانا،پھر بعد شہادت امامؑ کے سر اقدس کا خانہ راہب میں پہنچنا،راہب کا سیدانیوں کے لیے چادریں نذر کرنا،اور اشقیا کا وہ بھی چھین لینا  اعجاز ابن فاطمہؑ سے وہ نوید ہو واللہ ناامید کے دل کو امید ہو  اے عاشقان سید الشہدا فخر ومباہات کا مقام ہے،کہ ہم سب امام مظلومؑ کے ماتم میں شریک ہیں۔ اس جناب کی ماتم داری اور گریہ وزاری کے سبب اس سوگواروں کو خدا نے کیا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔کہ جس قدر ہم فخر ومباہات کریں کم ہے۔ بیت  دربار سخی کا ہے یہ مجلس ہے سخی کی یہ بزم عزا مومنو ہے سبط نبیؑ کی نظم پس حضرت صادق سے یہ مضمون عیاں ہے سامان غم سیدؑ مظلوم جہاں ہے  اس شخص کی آنکھوں سے اگر اشک رواں ہے ہر فرد کے اوپر قلم عفو رواں ہے اس پر بھی ترقی ہوئی یہ رحمت رب کو گر ایک بھی روئے گا تو ہم بخشیں گے سب کو خالق کاتو وہ حکم محمدؑ کی یہ گفتار کیا اپنے نواسے کے فضائل کروں اظہار جو اس سے ہے بےزار خدا اس سے ہے بیزار جو اس کا مددگار خدا اس کا مددگار بیٹھے گا جو یاں بزم عزائے شاہ دیں میں ہمس...

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ شیریں میں پہنچنا

آٹھائیسویں مجلس اہل بیت کا سمت شام سفر اور راہ میں خانہ   شیریں میں پہنچنا  اے مومنو ہاں دیکھو کہ کیا کرتے ہیں شبیرؑ دو وعدوں کو اک سر سے وفا کرتے ہیں شبیرؑ راویان روایت رنج  و ملال تحریر کرتے ہیں، کہ جس وقت بانوئے محترم شاہزادی عجم جناب امام حسینؑ علیہ السلام کی خدمت با برکت میں آئیں،تو آپ کے ہمراہ اکثر کنیز یں بھی تھیں،منجملہ ان کے اس شاہزادی کی شیریں ایک کنیز خاص بھی تھی۔ جناب بانو نے شیریں کے سوا سب کنیزوں کو آزاد کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ شیریں بہت خوش چشم تھیں۔ایک روز جناب امام حسینؑ نے حضرت شہر بانو سے حمد پروردگار کرتے ہوئے شیریں کی آنکھوں کی مدح کی۔آپ نے بھی امام کی تائید میں ثنا فرمائی۔اور عرض کی، بیت  سب خاک ہیں تم فاطمہؑ کے نور نظر ہو ہے عین خوشی میری جو منظور نظر ہو نظم شیریں تو ہے کیا چیز بھلا تم پہ میں واری ہے جان جو شیریں وہ نہیں آپؑ سے پیاری شیریں میری لونڈی ہے میں لونڈی ہوں تمہاری لو نذر یہ میں کرتی ہوں اے عاشق باری مظلب تو ہے خوشنودی شاہ دوجہاں سے بخشا دل وجاں سے اسے بخشا دل وجاں سے  حضرت شہر بانو کا یہ کلام سن کر سلطان کونین امام...

تیسویں مجلس امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔ صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول آسمان سےاس برگزیدہ رب العالمین کے پاس آیا۔اور ام ایمن نے اس کو پیا۔پھر ساری عمر ان کو کسی شے کے کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوئی۔سبحان اللہ کیا مرتبہ کنیزان جناب فاطمہؑ کا تھا۔الغرض ام ایمن مکہ میں جا پہنچیں۔اور جناب سیدہؑ کے بعد اس مکان میں رہنا شاق تھا۔ جس میں رہا کرتی تھیں۔حالانکہ اس میں جناب فضہؑ اور جناب علیا زینبؑ اور آقائے نامدار یعنی علی مرتضےؑ اور حسنین علیھم السلام یہ سب بزرگوار اس گھر میں موجود تھے۔خبر لیجیے حسینؑ کی بیمار بیٹی جناب فاطمہ صغراؑ کی کہ جب جناب امام حسینؑ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا،تو دولت سرا میں جناب ام البنین اور حضرت فاطمہ صغراؑ کے کوئی نہ رہا۔کیونکر دل لگے اس خالی مکان میں بیمار کا،پھر کنیز اور دختر کی محبت میں بڑا فرق ہے۔دوسرے جناب فاطمہ ؑ کی وفات کے بعد گھر بھرا ہوا تھا۔پھر بھی ام ایمن بے قرار رہتی تھیں۔لیکن شاہزادی کے پاس تو کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ماں باپ کی جدائی اور قاسمؑ اور علی اکبرؑ سے بھائیوںاور علی اصغرؑ سے معصوم کی فراق میں نالہ وفریاد کرتی تھیں۔اور اس ویران مکان میں تڑپتی رہتی تھیں۔ نظم دل غمگین پہ جدائی کا الم سہتی تھیں نرگس زار سی در پر نگران رہتی تھی جد کے روضے پہ کبھی دادی کے جاتی ہمراہ استغاثہ میں دعا کرتی تھی با نالہ وآہ کب پھریں گے میرے پردیسی مسافر اللہ نانی کہتی تھیں تجھے تپ ہے نہ کر حال تباہ آخرش دیدہ خونبار نے یہ جوش کیا لوگوں نے گریہ زہراؑ کو فراموش کیا۔ چنانچہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب کنبے کی فرقت میں ایک مدت گزر گئی اور وہ شاہزادی نہایت بے چین وبے قرار ہوئیں۔ایک روز اس مکان ویران پر نگاہ کرکے حسرت ویاس میں اس قدر روئی کہ غش آگیا،پھر جب ہوش آیا تو پدر بزرگوار کے نام بے انتہا اشتیاق میں خط لکھنا شروع کیا۔ نظم لکھا یہ عرضی میں القاب پر زشیون وشین جناب قبلہ کونین وکعبہ دارین علیؑ کی راحت جاں فاطمہ کے نور العین غریب وبے کس وبے آشنا امام حسینؑ جب اپنے باپ کا القاب یہ تمام لکھا تو شرع پاک کے دستور سے سلام لکھا پھر اس کے بعد یوں لکھا کہ اے قبلہ حاجات میں اپنے درد مصیبت کے کیا لکھوں حالات ہے میرے رونے سے ہمسائیوں کی تلخ حیات پہ رفتہ رفتہ نظر آتی ہے مجھے یہ بات قرار می برد از خلق آہ وزاری ما بایں قرار اگر ماند بے قراری ما کیا تھا مجھ سے یہ اقرار تم نے اے بابا اسی مہینے میں تجھ کو بلائوں گا صغرا کئی مہینے کا اس کو تو ہو گیا عرصہ کسی کو لینے کو بھیجا نہ کوئی خط آیا اب التجا ہے یہی مجھ غریب وبے کس کی خبر تو بھیجیے بابا مزاج اقدس کی الغرض اسی طرح حسرت اور شکایت کے کلمات لکھ کر تحریر فرمایا کہ اے بابا نظم اب اپنے حال کی کرتی ہوں آپ کو میں خبر کہ دم بدم مری حالت مرض سے ہے ابتر یہ تپ کا زور ہے اور روزہ رکھتی ہوں دن بھر کوئی بھی چیز امام زمن نہیں گھر میں جو مر بھی جائوں تو دو گز کفن نہیں گھر میں یہ لکھ کے شاہؑ کو رو رو کے بولی وہ مضطر یہ کوئی مادر عباسؑ کو بھی کردے خبر کہ نامہ لکھتی ہے حضرت کو شاہ کی دختر جو تم کو لکھنا ہو عباسؑ کو لکھو آکر خبر یہ سنتے ہی روتی وہ بے حواس آئی جگر پہ ہاتھ دھرے فاطمہؑ کے پاس آئی جب آئی مادر عباسؑ دیکھتی ہے کیا کہ حسینؑ کو لکھتی ہے فاطمہ صغراؑ جو دیکھا دادی کو صغراؑ نے رو کے بس یہ کہا ابھی تلک نہیں عرضی کو میں نے بند کیا چچا کو حال یہاں کا تمام لکھ دو تم اور اپنے ہاتھ سے میرا سلام لکھ دو تم جس وقت کہ حضرت ام البنین مادر جناب عباسؑ نے صغراؑ کے یہ غم انگیز کلام سنے،سر جھکا کر دعا کرنے لگی کہ اے پالنے والے اس مریض کو جلد اس کے مسافروں سے ملا دے۔پھر یہ فکر ہوئی کہ اس خط کو کون لے جائے گا۔ بیت نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے کسے زبکسی مانمی برد خبرے لیکن یہ سوچ کر کہ مریض کی دل شکنی نہ ہو، حضرت صغراؑ کے جواب میں نظم یہ بولی مادر عباسؑ میری آنکھوں کی نور مری نگاہوں میں افراط ضعف سے ہے فتور چچا کو اپنے میری سمت سے کرو مسطور کہ میرے راحت جاں نور چشم دل کے سرور ہزار طرح کے صدمے اٹھائیو بیٹا پہ ماں کی تم نہ وصیت بھلایئو بیٹا اے نور نظر عباسؑ پدر بزرگوار حیدر کرارؑ کی وصیت یاد رکھنا کہ وقت انتقال تمام کنبہ کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔اور تمہیں تمہارے آقا حسینؑ کے سپرد فرمایا تھا۔اور جب بوجہ زخم سر تمہارے والد ماجد کو غش آنے لگے،اور میں نے تم کو صدقہ کرنا چاہا تو فرمایا تھا کہ یہ عباسؑ فدیہ شبیرؑ ہے۔ میرے عوض کربلا میں اپنے بھائی پر قربان ہوگا۔ جس وقت جناب ام البنین نے حضرت صغراؑ سے یہ غم انگیز پیغام تحریر کرنے کو فرمایا تو نظم یہ سن کے دادی سے وہ روئی بے کس وتنہا لپٹ کے سینہ سے رو رو کے اس طرح پوچھا کہ تم نے حضرت عباسؑ سے کہا تھا کیا وہ رو کے بولیں کہ اب کیا کروں بیاں صغراؑ یہ کہہ دیا تھا کہ بھائی کے کام آنا تم جو شہہ پہ آبنے پہلے گلا کٹانا تم یہ سن کے مادر عباسؑ سے وہ یوں بولی مرے پدر سے کہیں پر لڑائی ہوئو ے گی کہا یہ مادر عباسؑ نے کہ اے بیٹی با حتیاط یہ بات ان سے میں نے کہہ دی تھی الہیٰ رونگٹا میلا نہ واں کسی کا ہو خصؤصا" سبط نبیؑ کا نہ بال بیکا ہو جناب ام البنینؑنے فاطمہؑ صغرا کو تسلی ودلاسہ دیا،اور فرمایا کہ اے بیٹی میری ان باتوں کا خیال نہ کرو میں نے جو کچھ کہا اپنی ضٰعیفی کے پیش نظر احتیاطا" کہا ہے۔الغرض نظم اٹھا کے فاطمہؑ نے ہاتھ میں پھر اپنے قلم کیا یہ مادر عباسؑ کی طرف سے رقم پھر اس کے بعد لگی لکھنے حال وہ پرغم تمہاری دوری سے ہوںجاں بلب خدا کی قسم کسی کو کاہے کو بھیجو میرے بلانے کو سکینہؑ پاس ہے ہر دم گلے لگانے کو تمہیں گرچہ سکینہؑ کمال تھی پیاری مگر مری بھی خبر پوچھتے تھے ہر باری مری بھی کرتے تھے ہر آن ناز برداری سبب ہے کیا جو مجھے یوں بھلا دیا واری یہ کب کہا تھا کہ اس سے عزیز سمجھو تم بھتیجی اس کو تو مجھ کو کنیز سمجھو تم چچا کو اپنے یہ جس وقت لکھ چکی صغراؑ تو اس سے مادر عباسؑ نے یہ تب پوچھا ہمیں سنائو تو اکبرؑ کو تم نے کیا لکھا میں صدقے جائوں زیادہ نہ لکھو اس کو گلا نہ کچھ ملال ہو اکبرؑ کو اس کتابت سے تمہارا بھائی ہے نازک مزاج شدت سے کہا یہ فاطمہؑ نے ہے مجھے بھی اس کا خیال کہ میرے بھائی کے دل پر کہیں نہ آئے ملال میں اپنے بھائی کو اتنا ہی لکھتی ہوں فی الحال تمھارے ہجر میں صغراؑ کو زندگی ہے وبال لگائی دیر تو زندہ ہمیں نہ پائو گے جواب نہ آئے تو لینے مجھ کب آئو گے افسوس صد افسو س یہاں تو بیمار آس لگائے بیٹھی تھی اور وہاں امام مظلوم نرغہ کفار میں گھرے ہوئے تھے۔ آہ حضرت صغراؑ کو یہ خبر نہ تھی۔ کہ میرے والد بزرگوار دشت غربت میں شہید ہوں گے۔وہ ان کی تشریف آوری یا اپنی طلب کی امید میں تھیں۔الغرض بیمار نے پھر ہر چھوٹے بڑے کو درجہ بدرجہ اس طرح تحریر کیا نظم یہ لکھ کے بھائی کو ماں کو لکھا کہ اے مادر تمہیں قسم علیؑ اکبرؑ کی لو مری بھی خبر لکھا یہ زینب مضطر کو پھر بدیدہ تر بھیتجی مرتی ہے جلدی سے دیکھ لو آکر کمال فاطمہؑ کبریٰ کو اشیاق لکھا لکھا سکینہؑ کا جب نام الفراق لکھا لکھا یہ قاسمؑ ابن حسنؑ کو بعد سلام تمہارے ہجر میں بیمار کو نہیں آرام بغیر میرے نہ کر لیجیو بیاہ خوش انجام بہن کو آپ سے شکوہ رہے گا بھائی مدام تمہارا بیاہ تو ہونے کو رہ نہ جائوے گا مگر یہ وقت گیا ہاتھ پھر نہ آوئے گا لکھا یہ خاتمہ پر خط کے اے علیؑ اصغرؑ تمہارے دیکھنے کو بس ترس گئی خواہر تمہارے ہجر میں مرجائے گر دکھی خواہر تو بعد میرے تمہارا جو ہو وطن سے گذر تو چل کےگھٹنیوں مرقد پہ میرے آجانا کلی امیدوں کی بھیا میری کھلا جانا غرضکہ جناب فاطمہؑ صغراؑ نے خط تمام کیا۔اور خط کو لفافہ میں بند کرکے کربلا کا نشان وپتا تحریر کیا۔اور با انتظار نامہ بر ہر روز دروازہ پر آتی تھیں۔کہ کوئی مسافر جانب عراق کا ملے،تو حال اپنے مسافروں کا دریافت کروں۔یا کوئی یثرب سے جانب کربلا جاتا ہو اس خط کو روانہ کروں۔ناگہاں ایک روز ایک غبار مشاہدہ کیا۔ خیال کیا کہ شاید یہ کوئی ناقہ سوار ہے۔ نظم آکے دالان سے دروازہ پہ بیٹھی بیمار تکیہ بازو کا لگا صورت نقش دیوار یہ کیا نالہ پر خوں نے اثر آخر کار دفعتہ" آکے نمودار ہوا ناقہ سوار گرم رو ایسا سوئے کوفہ چلا جاتا تھا تتق گرد بھی بس پیچھے رہا جاتا تھا دیکھ کر اس کو یہ رو رو کے پکاری صغراؑ جانے والے تو ذرا میری طرف ہوتا جا آیا جب پاس تو پوچھا ہے کدھر قصد تیرا بولا وہ قصد تو رکھتا ہوں میں اب کوفہ کا تب کہا فاطمہؑ نے خط مرا گر لیتا جا اجر دے گا اسے حق اس کا بحق زہراؑ اس وقت اس شتر سوار نے جناب صغراؑ کا حال پوچھا نظم کون ہے تو گل پژ مردہ باغ دنیا کتنی مدت سے ہوا تجھ سے ترا کنبہ جدا زرد چہرہ ہے عیاں ضعف ہے سر سے تا پا کیوں نہ اب تک مرض ضعف کی کی تونے نہ دوا کیا مصیبت ہے جو حسرت سے یہ حیرانی ہے نرگسی آنکھ پہ اب تک تری یرقانی ہے رو کے فرمایا کہ ظاہر ہے مرا سب احوال باپ اور بھائیوں کے ہجر کا ہر دم ہے ملال گئے ہیں سوئے سفر جب سے وہ جاہ جلال جان ناشاد میری تب دے مشوش ہے کمال باعث اس دفع مرض کی خبر سرورؑ ہے اور دوا شربت عناب لب اکبرؑ ہے ا س طرح اس شاہزادی کونین نے اپنے مرض کی دوا حضرت عباسؑ وحضرت قاسمؑ وحضرت علیؑ اصغرؑ اس شتر بان سے بیان فرمایا تب نظم اس نے کہا لڑکی تیرے بابا کا ہے کیا نام کہہ دے کچھ خط کے سوا اور اگر ہو پیغام جناب صغراؑ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھتا ہے۔میرے نانا رسولؑ خدا ہیں۔اور میرے بابا کا نام حسینؑ ابن علی علیھم ا لصلواۃ السلام ہے۔ نظم شتر سوار کا یہ سن کے قلب تھرایا شتاب پیٹھ سے ناقہ کی وہ اتر آیا کمال پاس سے تب وہ قریب در آیا غرضیکہ فاطمہؑ کا حال یہ نظر آیا یہ تپ سے کانپتی ہے دل نہیں سنبھلتا ہے کہ جیسے قبر سے مردہ کوئی نکلتا ہے یہ حال دیکھ کر وہ شتر سوار رو رو کر عرض کرنے لگا کہ اے جان سبط رسولؑ اس بیماری حزن وملال میں کوئی شے موافق مزاج ہو، تو ارشاد فرمایئے۔حضرت صغراؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی بجز شربت دیدار مسیحائے کونین اور کسی شے پر رغبت نہیں۔اے اعرابی اگر آج تو اس مہجور کی نامہ بری کرے گا،تو بروز قیامت اس کی جزا میرے جد نامدار رسول ؑ مختار عطا فرمائیں گے۔اور محبان آل محمدؑ میں شمار ہو کر محشور ہوگا۔ اے بھائی جس قدر جلد ممکن ہو پہنچنا،کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے، کہ میرے پدر بزرگوار ایک لقو دق صحرا میں ایک لشکر لعیں کے نرغہ میں زخمی کھڑے ہیں۔اور یاس سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے گزارش کی کہ اے دختر امام زماںمیرا دل آپ کی باتوں سے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔بس اب خط عنایت فرمایئے۔الغرض آپ نے اس سوار کو نامہ دے کر فرمایا کہ جس وقت اس دلگیر کا خط تو حضرت شبیرؑ کو دے چکے،تو میری طرف سے میرے بھائی کو پیغام دینا نظم دے کے خط اس نے زبانی یہ کہا پھر پیغام اک جواں یوسف شبیرؑ ہے گل رو گلفام کہیو تو بعد سلام اس سے مفصل یہ کلام کلمہ کی جا ہے دم نزع اسے تیرا نام تیری فرقت نے کیا آہ میرا سینہ ہدف سخت دل خوب کیا جاتا ہی صحرا کی طرف الغرض خط لے کر وہ شتر سوار مدینہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوا۔ اور منزلیں طے کرتا ہوا نینوا کے ہولناک دشت میں پہنچ کر امامؑ کی تلاش میں مصروف ہوا۔ نظم دیکھتا کیا ہے کہ اک فوج ہے جوں ابر سیاہ ایک لاکھ اور ہے چوبیس ہزار اس میں سپاہ خوں بھرے نیزے کہ جس سے متحیر ہو نگاہ ننگی تلواریں لیے ہاتھوں میں ہیں سب گمراہ دہلے جاتے ہیں کبھی خوف سے گہ لرزاں ہیں خون کے چھینٹوں سے سب کی زرہیں افشاں ہیں۔ اور ایک بے کس وتنہا زخموں سے چور چور زمین پر بیٹھا ہے۔اور ایک معصوم بچے کے گلے سے پیکان تیر نکال کر خون اس کے گلوئے مبارک کا آسمان کی طرف پھینکتا ہے۔اور کچھ چہرہ مبارک پر ملتا ہے۔ جب کہ خون اس شیر خوار کا بند ہوا تو ایک چھوٹی سی قبر نوک ذوالفقار سے کھود کر آغوش لحد میں اٹھایا۔اور اس کے جسم نازنین پر چادر خاک ڈال دی۔ وہ ناقہ سوار یہ حال دیکھ کر غمگین ومحزون،گریبان چاک سر پر خاک ڈال کر قریب لشکر ناہنجار آیا۔ اور کہا ایھا الناس تم میں سے حسینؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کون ہے۔ اللہ اللہ اس لشکر کفار کو تمہارے آقا سے کس قدر عداوت تھی۔ کہ آپ کا نام سن کر کسی نے اس اعرابی کو جواب نہ دیا۔ جب اس شتر سوار نے مکرر پوچھا تو ایک شخص نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ جو یک وتنہا قبر شیر خوار پر کھڑا ہے۔ وہی حسینؑ ابن علیؑ ہے۔ یہ سن کر وہ نامہ بر امام بے کس وتنہا کے پاس آیا۔اور اپنی تئیں پشت شتر سے گرا کر دست بستہ عرض کی،السلام علیک یا ابا عبد اللہ،السلام علیک یا ٖغریب الغربا،آپؑ نے جواب دیا وعلیک السلام،اے عرب تو کس قبیلہ اور خاندان سے ہے۔ کہ ایسے وقت میں مجھ تشنہ دہن غریب الوطن کو سلام کرتا ہے۔ جب کہ ملک الموت کے سوا کوئی اور مجھ بے کس ومظلوم سے ملاقات کا خواہاں نہیں،اے بھائی تجھ سے بوئے وطن آتی ہے۔ عجب نہیں کہ تو میری مریضہ بیٹی کا قاصد ہو۔ نظم تیرے ملبوس سے آتی ہے مجھے بوئے وطن بولا وہ قاصد صغراؑ ہوں میں یا شاہ زمن پوچھا اب کس طرح رہتی ہے وہ پژمردہ بدن عرض کی اس نے بہت ہے اسے اب رنج ومحن نامہ بر نے جو خط صغراؑ کیا پیش نظر دونوں ہاتھوں سے لیا تھام شاہ دیں نے جگر کس زباں سے کہوں جب شاہ نے عرضی کو لیا اشک کا آنکھوں سے بہنے لگا شہہ کا دریا کہا صد حیف کہ دیکھا نہ تمہیں اے صغراؑ ہم کو رو لیجیو تم روضہ احمد ؑ پر جا سر کو جب کاٹ کے لے جائے گا قاتل میرا حال تب ہووئے گا لکھنے کے قابل میرا امام مظلومؑ نے بیمار بیٹی کا خط بصد اشیاق لیا اور نظم لگا کے آنکھوں سے خط بولے اس طرح سے امامؑ پیام موت کے ساتھ آیا فاطمہ ؑ کا پیام پڑھا جو خط تو کیا نامہ بر سے شہہؑ نے کلام جواب کیا لکھوں بھائی ہے اپنا کام تمام تب آکے تونے ہمیں خط باضطراب دیا ہماری زیست نے جس دم ہمیں جواب دیا اے بھائی جس جس کو صغراؑ نے سلام تحریر کیا ہے۔ وہ سب دارالسلام میں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جا کیونکہ مجھ پر جو ظلم ہوگا،تجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ بیت وہ ظلم وجور پھر تجھ سے نہ دیکھا جائے گا کہ شمر لعیں اب مرا سر کاٹنے کو آئے گا جس وقت امام مظلومؑ نے اس قاصد سے یہ بیان کیا تو وہ اعرابی داڑھیں مار کر رونے لگا۔اور گزارش کی کہ فاطمہ صغراؑ نے ہمشکل پیغمبر کو کچھ زبانی پیغام دیا ہے۔ مجھ کو بتا دیجیئے کہ وہ کہاں ہیں۔ تاکہ اس بیمار کا پیغام پہنچا کر سبک دوش ہو سکوں۔ یہ سن کر جناب سید الشہداؑ کو تاب ضبط نہ رہی۔اور آپؑ قاصد کو لے کر اس مقام پ تشریف لائے،جہاں پر لاشہ شہداؑ پڑی ہوئی تھیں۔ تو نظم آکے میدان میں اک لاش پہ ٹھہرے سرور خاک کے فرش پہ سوتا تھا جہاں وہ دل بر گیسو بکھرے ہوئے شانوں کی طرف سر تا سر خوں سے حلقوم کے سب تحت الحنک اس کی تر سینہ صاف پہ جو زخم سناں کاری تھا خون اک لخت کلیجے سے ادھر جاری تھا شہہ نے فرمایا یہ اکبرؑ ہیں کہو ان سے پیام رو برو رزم کے میداں میں ابھی آئے کام دم ہوا ان کا فنا فاطمہؑ کا لے لے کے نام ہوئے طرفین کے اب حسرت وارامان تمام ایسا مشتاق تھا نزع میں یہ غم نکلا دیکھ لے نرگسی آنکھوں سے ابھی دم نکلا رو کے قاصد نے کہا کیا کہوں میں وا ویلا حیف صد حیف کہ صغرا ؑ نے نہ ان کو دیکھا ان سے تو اس کو نہ آنے کا فقط تھا شکوہ منتظر آپؑ کے آنے کی وہ رہتی تھی صدا اب جو جائو گے تو بس قبر ہی میں پائو گے اپنی مشتاق کو کس طرح سے سمجھائو گے کیا عجب اس بیان سے لاش جناب علیؑ اکبرؑ کی جنبش میں آئی ہو۔الغرض علیؑ اکبرؑ کا یہ حال دیکھ کر قاصد زار زار رونے لگا۔امام حسینؑ نے بھی لاش علیؑ اکبرؑ سے لپٹ کر فرمایاکہ بیٹا کیسا خواب غفلت طاری ہے۔ آنکھیں کھولو مدینہ سے بہن کا قاصد آیا ہے۔اس سے بیمار کا زبانی پیغام سن لو۔اور کسی سے کہنے کو منع کیا ہے۔کچھ جواب تو اپنی بہن کے نامہ بر کو دے دو۔ پھر قاصد نے عرض کی کہ یا مولا حضرت علیؑ اکبرؑ کا پیغام دینے سے تو یہ غلام ناکام رہا۔ مگر وہ ماہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباسؑ کہاں ہے۔ان کو بیمار کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ سن کر آقا نے ایک آہ سرد کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے کمر تھام لی۔ اور ارشاد کیا کہ عباسؑ تو سکینہؑ کی سقائی کرکے فرات کے کنارے پر شانے کٹائے ہوئے سوتے ہیں۔ پھر شتر سوار نے عرض کی کہ اے فرزند فاطمہؑ مجھ سے چلتے وقت حضرت صغراؑ نے بہ منت وزاری ارشاد کیا تھا کہ جواب خط ضرور لانا۔اگر ممکن ہو تو کچھ تحریر فرما دیجیے۔ تاکہ میرے آنے کی تصدیق ہو۔ ابھی قاصد صغرا اور جناب امام حسینؑ میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت فضہ نے امام مظلوم کو آواز دی۔ کہ اے آقائے نامدار سیدانیاں آپ کی اور اس اعرابی کی باتیں سن کر بے تاب ہیں۔ کہ کس کا خط آیا ہے۔اگر میری شاہزادی صغراؑ کا خط آیا ہے تو اہل حرم کو بھی سنا دیجیے۔ کہ سب اس مریضہ کی خیریت کے مشتاق ہیں۔ نظم یہ بیان سن کے گئے خیمہ عصمت میں امامؑ کھول کر عرضی صغراؑ کو کیا سب سے کلام خط میں لکھتی ہے وہ مجبور وغریب وناکام علی اصغرؑ کو دعا اور علی اکبرؑ کو سلام شغل ہے شام وسحر چشم کو خوں باری کا حال ابتر ہے بہت ہجر سے آزاری کا بادب عونؑ ومحمدؑ کو کیا ہے ترقیم بندگی سارے بزرگوں کو چچا کو تسلیم ماں کو آداب نیاز اور پھوپھی کو تعظیم مجھ کو لکھا ہے کہ حال دل مضطر ہے سقیم لخت دل کھاتی ہوں اور خون جگر پیتی ہوں اب بلائو گے اس امید پہ اب جیتی ہوں علیؑ اکبرؑ کو لکھا ہے کہ برادر آئو ماں کے آرام جگر باپ کے دلبر آئو صدمہ ہجر سے مرتی ہے یہ خواہر آئو صادق الوعدہ ہو آئو علیؑ اکبرؑ آئو جو گزرتی ہے وہ مجبور بہن سہتی ہے آنکھ نرگس کی طرح در سے لگی رہتی ہے پاس بابا کے اگر اب بھی نہ بلائو گے صاف کہتی ہوں کہ زندہ نہ مجھے پائو گے جب سنو گے کہ بہن مر گئی غم کھائو گے دیر آنے میں مناسب نہیں پچھتائو گے ضعف کی وجہ سے طاقت گھٹی جاتی ہے بات بھی اب نہیں بیمار سے کی جاتی ہے خط کے آخر میں یہ قاسم کو کیا ہے تحریر نیگ کی راہ ادھر دیکھ رہی ہے ہمشیر لکھتی ہے سید سجادؑ کو وہ دل گیر دے شفا آپؑ کو جس وقت خداوند قدیر کیا ارادہ ہے کسی اور طرف کا لکھیے خبر خیریت سید والا لکھیے پڑھے چکے عرضی صغراؑ جو شاہ جن وبشر آل احمدؑ میں بپا ہو گیا شور محشر یہ بیان کرنے لگی بانوئے تفتیدہ جگر کب تلک سوئو گے اے نیند کے ماتے اکبر حال غربت یورش لشکر اعدا لکھوں میں فدا اٹھ کے جواب خط صغراؑ لکھو کیا میں عرضی کا جواب اے میرے جانی بھیجوئوں تعزیت نامہ کہ پیام زبانی بھیجوئوں خوں فشاں پیراہن اے یوسف ثانی بھیجوں یاں سے جانے کے عوض تیری سنانی بھیجوئوں اٹھ گئے خلق سے تم جب یہ خبر پائے گی خود لب گور ہے بیمار گزر جائے گی یہ بین سن کر اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ پھر امام مظلومؑ سے مادر جناب علیؑ اکبرؑ نے عرض کی کہ اعرابی طالب جواب ہے۔اس لب گور مریض کا جواب تو تحریر فرمادیجیے۔جو اس کی تشفی کا باعث ہو۔امام حسینؑ یہ سن کر تڑپ گئے اور فرمایا کیا جواب لکھوں، کیا تحریر کروں۔ صغراؑ کے چاہنے والے علی اکبرؑ تو میدان میں برچھی کھائے سوتے ہیں۔ ناز بردار چچا شانے کٹائے ہوئے دریا پہ آرام کر رہے ہیں۔ان کی طرف سے کیا لکھوں،آخر امامؑ روتے ہوئے باہر نامہ بر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے بھائی تونے ہماری مظلومی وبے کسی دیکھ لی ہے۔ اب رخصت ہو کہ میرا وقت شہادت قریب ہے۔ میری پارہ جگر فاطمہؑ صغراؑ سے سب حال کہہ دینا کہ۔ نظم سدا کسی کے بھی جیتے رہے پدر مادر تم اپنے دل کو کڑھانا نہ بہت اے دلبر بغیر میرے تیرا گھر میں جی نہ لگے اگر تو اپنی دادی کے ہمراہ شہر سے باہر کسی درخت کے نیچے اکیلی رو لینا مری جدائی سے ہمسائیوں کو نہ دکھ دینا لعیں کی قید سے زندہ بچے گا گر سجادؑ تو تم سے آکے مفصل کہے گا سب روداد خدا کو یاد کرو اور بھلا دو باپ کی یاد کہ صابروں سے خدا ہوتا ہے نہایت شاد نہ انتظار میں بابا کے بیٹھیو در پر کہ اب پدر سے ملاقات ہو گی کوثر پر یہ فرما کر قاصد کو رخصت فرمایا،ادھر اس امام بے کس پر اشقیا ٹوٹ پڑے،اور تلواروں سے چور چور کرککے گھوڑے سے گرا دیا۔امامؑ زمین پر گرتے ہی سجدہ معبود میں جھک گئے۔آہ واہ ویلا ہنوز سجدہ سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ شمر لعین نے قفا سے سر امام مظلومؑ جدا کر دیا۔اور تمام اہل حرم دروازہ خیمہ پر رونے پیٹنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ صغراؑ کا واسطہ تمہیں یا شاہ دوجہاں اس کے عوض وزیر کو دے دینا تم جناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسویں مجلس  امامؑ کے فراق میں جناب صغراؑ  کی بے قراری اور کربلا میں امام آپ کا خط لے کر قاصد کا پہنچنا جب کہ امام مظلومؑ یک وتنہا مجروح کھڑے تھے۔  صغراؑ کو عجب درد تھا دوری پدر میں در پر اسے نہ چین نہ آرام تھا گھر میں کتاب مناقب میں علی بن معمر سے منقول ہے کہ جناب سیدہ نے اس دنیا ناپیدار سے انتقال فرمایا،تو آپ کی کنیز جناب ام ایمناس مخدومہ دارین کی فرقت میں نہایت بے قرار ہوئیں۔اور قسم کھائی کہ اب میں مدینہ میں ہرگز نہیں رہوں گی۔کیونکہ میرا دل بغیر شاہزادی کے اس خالی مکان میں نہیں لگتا۔اور نہ مجھ سے یہ مکان دیکھا جاتا ہے۔آخر ام ایمن نے سفر مکہ معظمہ اختیار کیا۔اور منزلیں طے کرتی ہوئی چلی جاتی تھیںکہ اتفاقا" ایک روز صحرائے لق ودق میں پہنچیں،اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے چین ہوئیں۔ لیکن کوسوں پانی کا نشان وپتا نہ تھا۔جب بہت بے تاب ہوئیں،اور خوف ہلاکت کا ہوا تو آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا۔اور درگاہ خدا میں عرض کی کہ بار الہا کیا تو مجھے دنیا سے پیاسا ہی اٹھائے گا۔حالانکہ میں تیرے رسولؑ کی دختر کی کنیز ہوں۔ابھی یہ کلام ختم نہ ہوا تھا کہ بہشت کے پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول...